ویسے تو الیکڑونک چینلز پر
ٹاک شو ،پریس کانفرنسوں ، سمیناروں میں تمام سیاسی ، مذہبی ، سماجی
جماعتوں و تنظیموں کے علاوہ حکومتی اراکین کی جانب سے کچھ نہ کچھ آتا
ہی رہتا ہے ۔ لیکن ایسا بہت کم ہورہاہے کہ نتخابات کا التوا کے حوالے
سے اسٹیبلشمنٹ پر کھل کر اظہارکیا جائے ۔بے شک جہاں افواج ِ پاکستان کی
قربانیوں کا تذکرہ ہو تو دوسری جانب حکومت کی بے بسی کا ذکر بھی ہوگاکہ
اسٹیبلشمنٹ کی مرضی کے بغیر پارلیمنٹ اپنی مرضی سے تو ایک بل بھی پاس
نہیں کرسکتی تو انتخابات کے حوالے سے آزاد پالیسی کا تصور ممکن کیونکر
ہوگا۔ کہا جاتا ہے کہ اسٹیبلشمنٹ میں دس فیصد ایسے لوگ موجود ہیں جو
تمام خرابی کی جڑ ہیں ۔ لیکن مقام ِ حیرت یہ ہے کہ اگر دس فیصد، افراد
نوے فیصد پر بھاری ہیں تو معاشرے میں سدھار کس طرح آسکتا ہے اور جن جن
امور کی نشاندہی کی جا رہی ہے، کیا یہ ممکن ہے کہ دس فیصد لوگ، نوے
فیصد کو ملک کی بقا ءکےخلاف کام کرنے دیں ۔ یہ بات یہاں تک تو درست ہے
کہ اسٹیبلشمنٹ میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے کردار و شدت پسندوں کے
ساتھ ہمدردی کی بنا ءجی ایچ کیو ، نیول بیس ، کامرہ ائیر بیس ، پشاور
ایئر پورٹ جیسے واقعات رونما ہوئے جس نے اسٹیبلشمنٹ کے اندر کالی
بھیڑوں کے وجود کو ثابت کردیا کیونکہ کسی عام فرد کے لئے غیر ممنوعہ
علاقوں میں دہشت گردوںکا بلا خوف و خطر جانا ، کئی گھنٹوں تک مقابلے
اور اکثر دہشت گردوں کا سلامتی کے ساتھ واپس آجانا لمحہ فکریہ ہے، جس
سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ اس بات سے بھی اختلاف نہیں کیا جاسکتا کہ
ماضی میں اسٹیبلشمنٹ نے سرحدوں کی حفاظت کے بجائے اقتدار کے حصول کےلئے
حکومتی ایوانوں کی دیواریں پھلانگیں، جس کا اظہار چیف جسٹس آف پاکستان
نے بھی کیا کہ اب دوبار ہ آئی جی آئی نہیں بنے گی ۔ کرورڑوں روپے
صدارتی ایوان سے دئےے جانے والے کیس میں بلاشبہ تمام سیکورٹی اداروں کو
ذمے دار نہیں ٹھہرایا جاسکتا لیکن ہر ادارے کا سربراہ اپنے عہدے کے
لحاظ سے مکمل ذمے دار ہوتا ہے۔اگر صدر پاکستان ، یا خفیہ ادارے کا
سربراہ کوئی فعل کرتا ہے جو غیر قانونی اور ملکی سلا متی کے لئے خطرناک
ہو تو کسی سیکورٹی ادارے کے سپاہی یا اہلکار کو ذمے دار قرار دےکر
پالیساں مرتب کرنے والوں کی گلو خلاصی نہیںکرائی جاسکتی۔ حکومت کی جانب
سے اس کیس پر مکمل خاموشی خودسوالیہ نشان ہے ۔بلوچستان ، کراچی ،
پشاوراور ملک کے دیگر حصوں میں دہشت گردوں کی کاروائیاں اور سیکورٹی
اداروں کی ناکامیاں اب کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے۔لیکن اس کا یہ مطلب
نہیں کہ ہم مستقبل سے مایوس ہو جائیں بہرحال ہمیں ایسا نظام تو وضع
کرنا ہی ہوگا جس سے سیاسی جماعتوں اور فوج کے درمیان قیام پاکستان سے
لیکر آج تک ہونے والی اقتدار کی رسی کشی کو منطقی انجام تک پہنچانا
ہوگا ۔انتخابات کے التوا کے حوالے سے مبہم نوعیت کے اپوزیشن اور حکومت
کے بیانات میںجزوقتی خاموشی کے بعد یکدم تیزی دیکھنے میں آئی ہے قابل
ذکر بات یہ ہے کہ ماضی کے برعکس اس بار انتخابات کے التوا کے حوالے سے
تحفظات پرخاص ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے ۔ التوا کے جواز میں شمالی
وزیرستان میں فوجی آپریشن، کراچی ، بلوچستان اور امن و امان کی مخدوش
صورتحال پر سیاسی و مذہبی جماعتوں میں اختلاف پایا جاتا ہے ۔لیکن متعدد
بار آپریشن کے مطالبے پر فوج نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے شمالی وزیر
ستان ، کراچی ، بلوچستان میں آپریشن کرنے سے فی الوقت اجتناب کیا ہوا
ہے لیکن دہشت گردی کے بڑھتے واقعات کے بعد عوامی سطح اور بین الاقوامی
برادری کی جانب سے پاکستانی حکومت شدید دباﺅ کا شکار ہے اور دہشت گردی
کے خلاف کاروائی کے مطالبے کی بنا ءپر ا تحادی حکمران جماعتیں بد امنی
کو جواز بنا کر انتخابات کے التوا کےلئے نگران حکومت کے لئے ایسے افراد
کو منتخب کرکے استعمال کرسکتی ہیں جو بعد میں کسی کو جوابدہ نہ ہوں اور
ماضی کی طرح اپنی غلطیوں پر پردہ پوشی اختیار کرتے ہوئے متضاد آرا ءو
مطالبات پر نگران حکومت کی کورٹ میں گیند پھینک دی جائے۔ اپوزیشن اور
کچھ حکومتی حلقوںکی جانب سے شدید تحفظات اور احتجاج کے بعد، بلوچستان ،
کراچی ، شمالی وزیرستان ، پشاور ، سوات کے ساتھ پورے ملک میں بد امنی
زبردست سیاسی ایشو بن چکا ہے۔جس کی وجہ سے ممکن بھی نہیں بنایا جارہا
کہ انتخابات وقت پر ہوسکیں اور فوج بھی اس بدترین صورتحال پر مملکت کی
بھاگ دوڑ براہ راست حاصل کرنے سے گریزاں نظر آتی ہے لیکن نگران حکومت
میں من پسند افراد کے لئے اسٹیبلشمنٹ کے توسط سے جس طرح پریشر گروپس
متحرک ہوچکے ہیںاس سے ظاہر یہی ہے کہ انتخابات کا التوا ہوا ،تونگران
حکومت کے سیٹ اپ میں ہی ہوگا ۔ بدامنی کے اس ماحول میں اگر انتخابات
مقررہ وقت پر ممکن بنانے کی کوشش میں ایسے عناصر کے خلاف کوئی کاروائی
عمل میں بھی لاتی ہے تو یقینی طور پر ایسے پریشر گروپس عوام کو ہی
استعمال کریں گے جس سے صرف اور صرف پاکستان کی عوام کو نقصان پہنچے
گا۔ا نتخابات کا التوا کی بنیادی وجوہات میں سب سے بڑی وجہ امریکہ کی
با حفاظت واپسی کا عمل بھی ہے ۔ جب تک افغانستان میں لولی لنگڑی جیسی
بھی حکومت نہیں آتی اس وقت تک نہ افغانستان میں امن قائم ہوسکتا ہے اور
نہ پاکستان میں۔۔موجودہ تمام تر بد امنی کی بنیادی وجہ امریکہ ہے ،جب
تک یہ ملک اپنی پالسیوں کو تبدیل نہیں کرتا اس وقت تک وہ اپنی جنگ کو
غیروں پر مسلط کرتا رہے گا ۔شمالی وزیرستان ہو یا پاکستان کا کوئی بھی
حصہ، بیرونی سازش کی مکمل لپیٹ میں آچکا ہے اس کی جڑیں گہری ہوچکی ہیں
۔سیکورٹی اداروں ، حساس محکموں میں ان کے لوگ اہم جگہوں پر تعینات ہیں۔
دہشت گردوں کو صرف پاکستان کی کچھ با اثر حلقوں کی ہی حمایت حاصل نہیں
بلکہ انھیں مسلم ممالک کی نہایت با اثر مملکتوں کا بھی مکمل آشیر باد
حاصل ہے۔جس میںفرقہ وارانہ عنصر مسلم حیثیت رکھتا ہے۔جب ملکی سلامتی
اور ان کے ذمے دار اداروں پر سوالیہ نشان لگائے جائیں تو ہمیں اس پر
بھی غور کرناچاہیے ۔ تمام سیاسی حلقوں کو انتخابات کا التواکے ثمرات و
مضمرات پر ازخودسوچنا چاہیے کیونکہ جب تک مضبوط ، مخلص افراد پر مشتمل
ایوان نہیں ہوگا اس وقت تک نظام کی تبدیلی کی باتیں صرف باتیں ہی رہیں
گی۔باشعور قومیں ہی ترقی کی راہ پر گامزن ہوسکتی ہے۔سوچ فکر سے کام
لینا تو حکم الہی ہے ۔انتخابات کے التوا کے لئے جس قسم کے صورتحال
مملکت میںپیدا کی جا رہی ہے اور پریشر گروپس امپورٹ کئے جارہے ہیں اس
پر سنجیدگی سے غور نہیں کیا گیا اور اگر یہ سلسلہ ماضی کی طرح جاری رہا
تو انتخابات کا التوا واقعی پورے ملک کو کھا جائے گا۔ |