کینیڈا کے قادری

گئے وقتوں کی بات ہے ایک شیخ الا سلام اپنے مریدین کو وعظ و نصیحت فرما رہے تھے اور تقریر کا لب لباب جنت کا حصول اور اس میں داخلہ تھا کہ کون لوگ جنت میں جا سکیں گے اور کن کا مقدر جہنم ہو گی،شیخ کا سارا زور لوگوں کو ڈرانے دھمکانے پر تھا واعظ جاری تھا کہ اتنے میں ایک دیہاتی درمیان سے اٹھ کر صفوں کو چیرتا ہوائمجمعے سے باہر جانے لگا،معاً شیخ الاسلام کی نظر اس دیہاتی پر پڑی جناب نے واعظ روک کر اسے ڈانٹ کر بیٹھ جانے کو کہا جسے دیہاتی نے سنا ان سنا کر دیا،جب شیخ نے دیکھا کہ دیہاتی پر ان کی ڈانٹ ڈپٹ کا کوئی اثر نہیں ہو رہا تو انہوں نے نرم لہجے میں اس سے پو چھا کہ کوئی مجبوری ہے یا کوئی اور مسئلہ کیوں تقریر مکمل سنے بغیر جا رہے ہو ،تو اس شخص نے ہاتھ باندھ کر عرض کیا جناب ! جنت میں جانے کی جتنی سخت شرائط آپ نے رکھی ہیں اس سے ایک بات تو بڑی واضح ہو گئی کہ میں خواہ کچھ بھی کر لوں میں نے اب تک جو کچھ کیا ہوا ہے اس کے بعد مجھے تو کبھی داخلہ نہیں ملنا سو میںاپنا ٹائم یہاں بیٹھ کر کیوں ضائع کروں،تہمید کا مقصد خود ساختہ شیخ الا سلام کی عین الیکشن سے قبل ©: یہ شادی نہیں ہو سکتی: والی دھماکے دار انٹری ہے،حالانکہ مصطفےٰ قریشی نے جب جب بھی کسی پنجابی فلم میں یہ دھمکی دی تو بات صرف دھمکی تک ہی رہی اور جس شادی کو رکوانے پر ولن نے جتنا زور لگایا وہ اتنے ہی دھوم دھار انداز میںہوئی،اب آیئے شیخ الاسلام کی طرف ،خود ساختہ کیوں کہا وہ اس لئے کہ جس طرح جنرل ایوب خان کو کسی ادارے کسی یونیورسٹی نے فیلڈ مارشل کے بیج ان کے کندھے پر نہیں سجائے تھے اسی طرح شیخ الاسلام بھی علامہ سے ترقی کر کے خود بخود شیخ کے درجے پر فائز ہو گئے،اگر ان کے کسی چاہنے والے کے پاس ایسی کوئی انفارمیشن ہو کہ جناب طاہر القادری صاحب کو شیخ الاسلام کی سند یا ڈگری یا اعزاز کسی یونیورسٹی یا موتمر نے دیا ہے تو مجھے ضرور آگاہ کریں میں اپنے الفاظ واپس لے لوں گا،موصوف پہلے پروفیسر تھے ،پھر ڈاکٹر اور علامہ سے ہوتے ہوئے شیخ الاسلام کے بلند مرتبے پر فائز ہوگئے اور جس طرح فیلڈ مارشل جنرل ایوب خان کسی کو جواب دہ نہیں تھے اسی طرح یہ صاحب بھی کسی کو جواب دہ نہیں،یہ یک دم کدھر سے آدھمکے ان کا ایجنڈا کیا ہے اور جو انتخابی اصلاحات یعنی غربت کا خاتمہ،ناخواندگی کا خاتمہ اور سماجی عدم تحفظ کا خاتمہ جناب چاہتے ہیں کہ جب تک یہ اصلاحات نہ ہو جائیں تب تک الیکشن نہ منعقد کیے جائیں یہ اصلاحات ایک ہزار سال میں بھی پورا ہونا ممکن نہیں،کیوں نہیں صاف فرما دیتے کہ قیامت کے اگلے دن الیکشن کی تاریخ رکھ لیں،اور جناب اسی سسٹم کے تحت خود الیکشن لڑ کر اسمبلی میں پہنچے اس وقت نہ کوئی انتخابی اصلاح یاد تھی نہ اس قوم کی ہمدردی،جناب شیخ الاسلام کی تقریباً ساری زندگی بشارتوں سے عبارت رہی اور اب کی بار بھی شاید کسی بشارت پہ ہی تشریف لائے ہیں،اب بشارت کدھر سے تھی یہ نہیں معلوم،جناب جب مشرف بہ اسمبلی ہوئے تھے تب مشرف نے شاید وزارت عظمیٰ کی بشارت دی تھی اسوقت مشرف واحد مسیحا اور نجات دہندہ تھا اور جناب اس کے ریفرنڈم میں پیش پیش تھے بعد ازاں جب مشرف نے حسب عادت دھوکا دیا تو جناب کی نظر اچھی انگلش کے زعم کی وجہ سے وزارت خارجہ پہ جم گئی اور جب یہاں سے بھی نہ ان کی قدر کی گئی نہ ان کی انگریزی کی تو ملت اسلامیہ کی وحدت کے لیے اپنے آپ کو خود ہی وزارت مذہبی امور کے لیے موزوں ترین امیدوار تصور کر لیا،یہاں بھی قسمت نے یاوری نہ کی اور مذہبی امور کی وزارات جنرل نے ایک جنرل کے بیٹے کو دے دی تو شیخ نے مشرفی حکومت و سیاست سے قطع تعلق کر لیا اور کینیڈا سدھار گئے، وہاں جا کر نہ صرف پکے ڈیرے ڈال لیے بلکہ کینیڈا کے لیے اپنے ملک کے خلاف لڑنے کا حلف نامہ پر کر کے وہاں کی شہریت حاصل کر لی، نہ جانے اس کی کیا مجبوری آن پڑی تھی،حالانکہ نہ ہی محترمہ بے نظیر بھٹو نے یوکے اور میاں برادران نے یو ،کے یا سعودیہ کی شہریت لی اگر چاہتے تو دیر نہ لگتی مگر نہ لی کیوں کہ کسی بھی ملک کی شہریت حاصل کرتے وقت اس ملک سے وفاداری کا حلف نامہ پر کرنا پڑتاہے کہ میں نہ اس صرف اس ملک کا وفادار رہوں گا بلکہ کبھی ایسا وقت آیاکہ اس ملک کی طرف سے تلوار اٹھانا پڑی تو بھی دریغ نہیں کروں گا اور مدمقابل چاہے میرا سابقہ یا آبائی ملک ہی کیوں نہ ہو، یہ حلف نامہ کسی بھی خالصتاً عوامی و قومی راہنما کے لیے کسی بھی صورت قابل قبول نہیں ہوتا مگر یہ حلف نامہ پر کر کے ہمارے قادری کینیڈا کے قادری ہو گئے،وہاں خود ساختہ جلاوطنی کے دوران شیخ الاسلام نے کم و بیش آٹھ سال گزارے اور ایک اخبار کو انٹرویو دیتے ہوئے جناب نے فرمایا کہ آٹھ سال کے دوران انہوں نے کینیڈا میں 600 صفھات کا ایک فتویٰ اور ایک ہزار کتابیں تحریر کی ہیں اب اگر کیلکولیٹر سے آ ٹھ سالوں کا حساب لگایا جائے تو 2920 دن بنتے ہیں،اب شیخ کی بات پر غور کیجئے اور موصوف کی فصاحت و بلاغت کو داد دیجیئے کہ جناب نے فقط تین دن میں ایک پوری کتاب نہ صرف لکھ ڈالی بلکہ اسے پبلش بھی کروا لیا اور ساتھ ہی چھ سو صفحات کا فتویٰ بھی تحریر کر دیا اور اب جناب اگر یہ کہہ رہے ہیں کہ پندرہ یوم کے اندر اندر حکومت اصلاحات کا ڈول ڈال دے ورنہ نتائج بھگتنے کے لئے تیار ہو جائے تو حکومت کو بھی ہو ش کے ناخن لینے چاہییںکہ ایسی نابغہ روزگار شخصیت کچھ بھی کر سکتی ہے ،جناب نے سیاست کا ا ٓغاز اپنے چاہنے والوں کو یہ نوید سنا کر کیا تھا کہ ان کا سیاست سے کیا لینا دینا اللہ کے آخری رسول ﷺ نے ان کے ذمے ڈیوٹی لگائی سیاست میںآ نے کی تب مجبوراً سیاست میں آرہا ہوں اور آنے کے بعد جب چھوڑ کے جا رہے تھے تب نہیں بتایا کہ انہیں کس نے اتنی جلد ی بھاگ جانے پر مجبور کیا، اس کے علاوہ موصوف کی وہ بشارت بھی 23 دسمبر کو بڑی شدت سے یاد آئی ، کہ خواب میں حضور ﷺ نے مجھے 63سال عمر کی بشارت دی یہ بشارت اس وقت جب جناب شیخ بیس پچیس گاڑیوں کے جلو میں جن میں تین چار کالے شیشوں والی بلٹ پروف کاریں بھی شامل تھیں کو دیکھ کر بڑی یاد آئی کہ آقا ﷺ کی بات پہ جناب کو کتنا یقین اور بھروسہ ہے کہ میڈیا سمیت کسی کو بھی علم نہیں تھا کہ کنیڈا سے پاکستان بچانے آنیوالا کنیڈین شہری ایلیٹ فورس سے گھری گاڑیوں میں سے کس گاڑی میں سوار ہے اور جب اسٹیج لگ گیا تو پاکستانی عوام کے ہمدرد و غم گسار اور خلافت راشدہ کا نظام لانے والے نے اپنے آپ کو بلٹ پروف شیشے کے کیبن میں محصور کرلیا،کیا خلفائے راشدین ایسے عوام میںآتے جاتے تھے ایسے اپنی رعایا سے مخاطب ہوتے تھے ، اور تو اور جب اذان عصر ہوئی تو فرمایا کہ میں نماز ادا کر آیا ہوں اور خاموش ہونے کی بجائے تقریر جاری رکھی،شکر ہے یہ نہیں فرما دیا کہ میں ادا کر آیا ہوں اور آپ لوگوں کو آج معاف ہے، شیخ الاسلام نے دونوں بڑی پارٹیوں کے خوب لتے لیے اور آئین آئین کرتے غیر آئینی طریقے سے معمولات آگے بڑھانے پر زور دیتے رہے آئین میں کہان درج ہے کہ نگران سیٹ اپ میں فوج اور عدلیہ کو بھی شامل کیا جائے اور آرٹیکل63 کا راگ تو ہر کوئی الاپتا ہے مگر اس پہ کبھی عملدرآمد بھی ہو ا اور تو اور جس اسمبلی میں جنا ب طاہر القادری صاحب دو سال براجمان رہے اس میں 90 ارکان اسمبلی کی ڈگریاں جعلی تھیں نہ تب نہ اب کبھی ان کے احتساب کی بات جناب کے منہ سے نکلی،موروثی سیاست کو غرق کرنے کا دعویٰ کرنے سے پہلے کتنا بہتر ہو تا کہ جناب شیخ اپنی منجی تھلے بھی ڈانگ پھیرلیتے جہاں جناب کے بڑے صاحبزادے منہاج القران کی سپریم کونسل کے سربراہ،بہو شعبہ خواتین کی انچارج اور چھوٹے صاحبزادے وفاقی کونسل کے سربراہ اور خود جناب منھاج القرآن کے تا حیات سرپرست و چئیرمین وہ بھی بلا شرکت غیرے تبھی تو ایک ادارے کا لگ بھگ ایک ارب روپیہ جو کارکنان کی طرف سے ادارہ جاتی معاملات چلانے کے لیے دیا جاتا ہے کو ایک جلسے میں جھونک دیا،نہ کوئی پوچھ نہ پرتیت نہ رپٹ نہ تفتیش، رجسٹرڈ سیاسی جماعت عوامی تحریک کے نام سے اور پلیٹ فارم منھاج القرآن کا۔ ایک ارب روپے کے اخراجات کیا اسراف کے زمرے میں نہیں آتے ،کیوں کہ جناب نے شروع میں بار بار حلف اٹھا کے کہا کہ نہ وہ کسی کے بلانے پر آئے ہیں نہ کسی ایجنسی نے ان کے لیے فنڈنگ کی ہے، ویسے آپ جیسے شخص کو یوں حلف نہیں اٹھانے چاہییں تھے کردار ایسا ہونا چاہیے کہ صرف کہنا ہی کافی ہو اور ہمیں تو آپ کے کردار پہ کوئی شک نہ تھا پھر یہ سب حلف نامے کس کے لیے۔ پاکستان کے حالات کی خرابی توا ن کو نظر آئی مگر کراچی شاید پاکستان میں نہیں یا وہاں سے پچاس لو گوں کا ایک خاص جتھا آیا ہی شاید اسی نیک مقصد کے لیے تھا کہ شیخ الاسلام کہیں جذبات کی رو میں بہک کے ان کو بھی نہ اگے لگا لیں لیکن آفرین ہے دوستی اور محبت پہ کہ ایک لفظ بھی ان کے خلاف ،لاپتہ افراد کےخلاف ، ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی مظلومیت اور ریمنڈ ڈیوس کی بربریت کے خلاف تو آپ کیا بولتے،مجال ہے جو چند الفاظ ڈرون حملوں کے خلاف یا دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کے بارے میں نکلے ہوں مگر یہ آپ کے بس کی بات ہی نہیں یا شاید آپ سے بہتر کون جانتا ہے کہ وہ نہ صرف شہریت منسوخ کر دیتے ہیں بلکہ غلام احمد بلور کی طرح اپنے ملک میں داخلے پر پابندی بھی لگا دیتے ہیں اور اپنے شیخ الاسلام اتنے سادہ اور بھولے ہر گز نہیں،پاکستان سے باہر اسلام کے دفاع کے دعو یداروں کو پاکستان میں آکر توہین رسالتﷺ کے قانون ،اس کے استعمال ، توہین کرنے والے فلمیں اور خاکے بنانے والوں کے بارے میں ایک لفظ تک کہنے کی جراءت نہ ہوئی ، اور جس ایم کیو ایم کو جپھے ڈالے جا رہے ہیں وہ اس نظام حکومت کا حصہ اور اسی ایک بڑی جماعت کی اتحادی ہے جس کے خلاف جناب شیخ نے علم بغاوت بلند کر رکھا ہے لیکن ان کو ساتوں خون معاف؟؟؟؟جناب نہ کھیڈاں گے نہ کھیڈن دیا ں گی کی پالیسی کہیں اسی وجہ سے ہی تو نہیں کہ آئین کا ایک آرٹیکل غیر ملکی شہریوں کو اسمبلی کے ایوانوں میں بیٹھنے کی اجازت نہیں دیتا،انتخابات ملتوی کرانے کا یہ راستہ کیا اس قوم کو تصادم کی طرف نہیں لے جا ئے گا کیوں کہ تمام بڑی جماعتیں نہ صرف شدت سے الیکشن کی منتظر ہیں بلکہ ان کے انعقاد کے لیے یکسو بھی،آپ نے کنیڈا کے برف زاروں میں بیٹھ کر پاکستان کے حالات کا شاید غلط اندازہ لگایا کیوں کہ اب یہاں ایک آزاد عدلیہ ،آزاد الیکشن کمشن، توانا میڈیا،زندہ وکلا اور جاگتی بیدار قوم کے نزدیک کسی غارت گر کی کوئی گنجائش نہیں ہے اور آپ سے بھی التماس ہے کہ دنیا بدل چکی ہے اس قوم کو فری اینڈ فئیر الیکشن کی طرف جانے دیجیئے یہی ایک راستہ ہے بقا کا ورنہ رنگ برنگی ٹوپیوں نیلے پیلے چغے، جبے و دستاروں اور خود ساختہ،قائد جمہوریتوں،قائد انقلابوں،قائداعظم ثانیوں،فیلڈ مارشلوں اور شیخ الاسلاموں نے جس نہج تک ملک کو پہنچا دیا ہے اب مزید کسی نئے ڈرامے اور کلائمکس کا نتیجہ وہ نقصان کر سکتا ہے جس کی تلافی نسلیں بھی نہ کر سکیں،