”سیاست میں شرافت “ دیکھنے کا
منظر ایک ہی لمحہ میں اوجھل ہوگیا۔ جو دیکھ چکے وہ کبھی بھول نہیں سکیں گے
، جنہوں نے نہیں دیکھا اب کبھی بھی نہیں دیکھ سکیں گے۔
مسکراتے ہوئے لوگوں سے ملاقات کرنا ،شائستہ لہجے میں گفتگو کرنا، اپنے آپ
کو ہمیشہ دوسروں سے چھوٹااور کمزور سمجھنااور ہر ایک کی عزت کرناپروفیسر
عبدالغفور صاحب کا ” بڑا انسان“ ہونے کی دلیل تھا۔
ایمان کی اس قدر پختگی کہ اللہ کے سوا کسی سے ڈرنے کا سوال ہی پیدا نہ ہو ،ایسا
لگتا تھا کہ خوف کا شائبہ تک انہیں نہ ہو۔
فیڈرل بی ایریا میں واقع ان کے ایک ہزار گز رقبے کے پرانے گھر کا گیٹ شائد
ہی کسی نے درست طریقے سے بند دیکھا ہو؟۔کراچی کے حالات کا پورے ملک کو پتا
ہے اور سب ہی جانتے ہیں یہاں کب سے ،کیسے حالات ہیں۔لیکن غفورصاحب کا گھر
کا دروازہ سب کے لیئے ہمیشہ ہی کھلا رہا۔
انور بھائی ان کا گیٹ ہمیشہ کھلا کیوں رہتا ہے؟ کیمرہ مین علی محسن نے
غفورصاحب کے بنگلے کے سامنے گاڑی پارک کرتے ہوئے مجھ سے سوال کیا۔ یہ ایک
درویش بزرگ ہیں میں نے جواب دیا۔ علی نے کہا لیکن سر یہ ملک کے بہت بڑے
سیاست دان ہیں پھر اس طرح کیسے رہتے ہیں کوئی گارڈ وغیرہ بھی نہیں ہے ان کے
گیٹ پر ،کیوں؟ میں نے کہا کہ گارڈ وہ رکھے جسے کسی قسم کا ڈر یاخوف ہو اور
ڈرتا وہ ہے جس نے خود کسی کو ڈرایا یا دھمکایا ہویا پھر جس کا ایمان کمزور
ہو، میں نے علی محسن کو سمجھایا۔ویسے میں نے اپنے شہر میں ایسا کوئی دوسرا
لیڈر نہیں دیکھا جو اس قدر بااعتماد ہو ، ہر لحاظ سے۔
الیکٹرونک میڈیا سے وابستگی کے دوران مجھے کئی بار غفور صاحب سے انٹرویو
کرنے کا موقع ملا۔عمواََ علی محسن میرے ساتھ ہوا کرتے تھے انہیں حیرت ہوتی
تھی کہ میں غفور صاحب سے بغیر رابطہ کیئے بھی ان کے پاس چلا جاﺅں تو وہ
ماتھے پر بل نہیں لاتے تھے بس خوش دلی سے یوں کہتے تھے ” ہاں بھئی انور ،اچانک
کیسے ،میرے جواب دینے سے پہلے ہی کہہ دیا کرتے تھے آﺅ کرسی کھینچ لو“۔
پروفیسر غفور صاحب مجھے بہت یاد آئیں گے ۔۔۔ہمیشہ ۔۔۔ ان سے کسی کو انسیت
ہوجانا کوئی بڑی بات نہیں تھی ، کیونکہ” دوسروںسے پیار کرنے والے لوگ خود
بہت پیارے ہوتے ہیںاس لیئے سب ہی کو ان سے محبت ہوجاتی ہے“۔
مجھے تو وہ ہمیشہ ایک بچے کی طرح دیکھتے تھے ،انتہائی ، محبت اور شفقت کے
ساتھ۔دو سال قبل مجھے فالج کے بعد جب ان سے عیدگاہ میں ملاقات ہوئی تو مجھے
دیکھتے ہی گلے لگالیا اور شفقت سے کہا ” تم ابھی تک ٹھیک نہیں ہوئے،اب جلدی
صحت مند ہوجاﺅ“ان الفاظ کے ساتھ انہوں نے مجھے دعائیں دیں۔
2006میں وہ فیڈرل بی ایریا سے گلشن اقبال بلاک 6میں منتقل ہوگئے تو مجھے بے
انتہا خوشی ہوئی کہ غفورصاحب میرے محلے میں ہی آگئے ۔ پھر ہماری تقریباََ
روزانہ ہی فجر کی نمازمیں ملاقات ہونے لگی ۔علاقے کی جامع مسجد شاہ فیصل
شہید کی وہ پہلی صف کے نمازی تھے ،انہوں نے مجھ سے ایک دن کہا انور تم کو
پتہ ہے یہاں آکر مجھے سب سے زیادہ کیا فائدہ ہوا؟ میں نے کہا نہیں سر، کہنے
لگے مسجد میرے گھر کے قریب ہے اب مجھے زیادہ چلنا نہیں پڑتا۔میں فجر کی
نماز کے بعد ان کا ہاتھ پکڑے ان کے گھر تک جاتا ۔اس دوران میں ان سے اکثر
سیاسی حالات پر بات کیا کرتا تھا۔غفور صاحب اکثر تنہا مسجد آجایا کرتے تھے
۔ ان کے ساتھ پوری زندگی میں شائد ہی کبھی کوئی گارڈ یا ذاتی محافظ رہا
ہو۔شناسا ہونے کے باوجود انہیں تنہا ، سادگی سے مسجد میںداخل ہوتے وقت
نمازی انہیں حیرت سے دیکھا کرتے تھے بہت لوگوں کو یہ یقین نہیں آتا تھا کہ
یہ وہی پروفیسر غفور ہیں جوجماعت اسلامی اور ملک کے بڑے سیاست دان ہیں ۔
پروفیسر غفور کراچی کی شناخت تھے ۔شہر کا بھرم تھے ، کراچی کی شان اور عزت
ان سے تھی ۔ محافل میںلوگ شہر کو بدنامی سے بچانے کے لیئے غفورصاحب کاحوالہ
فخر سے دیا کرتے تھے کہ ” یہاں صرف کامران مادھوری،پانڈا وغیرہ ہی نہیں
غفورصاحب جیسی قابل عزت شخصیت بھی رہتی ہیں۔
مگر اب غفورصاحب اللہ کو پیارے ہوگئے ۔وہ کسی ناگہانی حادثہ جس سے محمد ﷺ
بھی بچنے کی دعائیں مانگا کرتے تھے سے جاں بحق نہیں ہوئے بلکہ بیماری کی
حالت میں اللہ سے جاملے ۔بیماری کی حالت میں آنے والی موت بھی شہادت کا
درجہ رکھتی ہے ۔اللہ انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا کرے آمین۔
گلشن اقبال میںمیرے کئی دوستوں نے جنہیں بہت عرصے سے ان سے ملاقات کرنے کی
خواہش تھی اپنی خواہش پوری کی۔ میرا ایک دوست جو کہ پولیس افسر ہے نے
غفورصاحب سے دریافت کیا کہ آپ کے پاس کوئی چوکیدار ، نوکر وغیرہ نہیں ہیں؟
غفورصاحب نے پوچھا کیوں؟ اس نے کہا کہ مجھے حیرت ہوئی کہ آپ خود دروازے پر
آئے اور بغیر کسی ہچکچاہٹ کے آپ نے خود دروازہ کھولا؟ غفور صاحب نے کہا تو
اس میں کونسی بڑی بات ہے، میرا گھر ہے میں نہیں تو اور کون دروازہ کھولے گا۔
اسے غفورصاحب سے مل کر اسی طرح خوشی ہورہی تھی جیسے کسی کو نایاب شے ملنے
سے ہوتی ہے۔غفور صاحب اس قدر محبت سے مہمان نوازی کیا کرتے تھے جیسے کوئی
دیرینہ دوستو یا رشتے داروں سے کی جاتی ہو۔” چائے تو پیﺅگے نا؟“ اور یہ
کہکر خود ڈرائینگ روم سے اندر جاتے اور چائے بنانے کا کہکر آتے۔چائے کے
ساتھ اکثر بسکٹ وغیرہ بھی ٹیبل پر ہوا کرتے تھے ۔ جب تک مہمان چائے کا کپ
منہ تک نہ لے جائے خود بھی چائے نہیں اٹھاتے تھے۔
میرے دوست نے ان سے پوچھا آپ کو ڈر نہیں لگتا ، شہر کے حالات تو اب پرانے
حالات کی طرح نہیں رہے ۔ مارنے والے جس کو چاہے ماردیتے ہیں؟ غفور صاحب نے
کہا اللہ پر بھروسہ رکھا کرو اور سب انسانوں سے محبت کیا کرو۔ ڈر نہیں لگے
گا۔
آپ یقین کریں کہ میں نے مسجد میں اکثر غفورصاحب کو دیکھا کہ جب کوئی جنازہ
آجائے تو وہ لازماََ نمازجنازہ میں شرکت کرتے ۔ لوگوں سے مرنے والے کے بارے
میں دریافت کرتے اور لواحقین سے ملاقات کرکے تعزیت کرتے۔
میں کل رات سے ان کی باتوں کو یاد کررہا ہوں اور مسلسل ایک ہی سوال میرے
ذہن میں مچل رہا ہے کہ کیا کوئی دوسرا ایسا لیڈر ، دوسری سیاسی شخصیت ہمارے
شہر میں ہے جیسے غفورصاحب تھے۔آج غفورصاحب کی تدفین سخی حسن قبرستان میں
کردی جائے گی ۔شائد انہیں اپنی اہلیہ کے پہلو ہی جگہ مل جائے جہاں وہ
تقریباََ چار سال قبل پہنچ چکی تھیں۔ہاں میں نے غفورصاحب کو کسی معصوم بچے
کی طرح روتے ہوئے دیکھا تو صرف اس وقت جب ان کی شریک حیات ان کا ساتھ چھوڑ
گئیں تھیں۔سچ تو شائد یہ ہی ہے کہ غفور صاحب اپنی اہلیہ کی وفات کے بعد
اپناخیال نہیں رکھ سکے ۔اور مسلسل بیمار ی نے انہیں جہانِ فانی میں
پہنچادیا۔ ذرا سوچئے دن رات لوگوں میں رہنے والا بھی خود کو کس طرح اکیلا ،
تنہا محسوس کرتا ہے ؟ اور پھر اس کا جینے کو کسطرح دل چاہے گا جب اس کی
زندگی کا ساتھی اسے چھوڑ جائے۔غفورصاحب باہمت بھی تھے انہیں اپنے خاندان کے
علاوہ اپنی قوم کے لیئے بھی جینا تھا سو انہوں نے ہمت کی ،لیکن ۵۸ سال کی
عمر میں 26دسمبر کی شام دنیا سے چلے گئے۔
اپنی زندگی کو انہوں نے بہت کامیابی اور ہمت سے گذارا ۔
میں اپنے آپ کو اس قابل نہیں سمجھتا کہ علم کی کتاب پر تبصرہ کروں ۔ہاں
غفور صاحب علم کی کتاب تھے۔علم جو انسان کو خدا سے ملادیتا ہے ، علم وہ جو
انسان کو سچا اور پکا مسلمان بنادیتا ہے۔۔۔۔۔وہ غفور صاحب تھے۔۔۔۔۔۔اخلاقیات
کا ایسا نمونہ غفور صاحب تھے جس کی مثال عام طور پر نظر نہیں آتی۔ جس جو
وعدہ کیا وہ پورا کیا۔ کوئی اور پروگرام بناتا تو پہلے سے طے ملاقات کے
لیئے خود فون کرکے معذرت کرلیتے ۔ فون پر یاد آیا کہ غفورصاحب نے موبائیل
فون کبھی نہیں رکھا۔اگر گھر پر ہوتے تو خود ہی فون ریسیو کیا کرتے تھے۔
وہ 1973کے سب کو قابل قبول آئین کے بانیو ں میں شامل تھے۔
غفورصاحب 26 جون 1927کو بھارت کے صوبے یوپی کے شہر بریلی میں پیدا ہوئے ۔
26 دسمبر 2012 کو اللہ کو پیارے ہوئے۔ انہوں نے آگرہ یونیورسٹی سے بی کام
اور لکھنو یونیورسٹی سے 1946مین ایم اے کیا تھا۔1958میں کے ایم سی کے
ممبر،1970اور پھر 1977قومی اسمبلی کے رکن اور 2002 سینیٹر بھی رہے۔ |