افغانستان میں حکومت مخالفین سے
مذاکرات کےلئے قائم امن کونسل کے سربراہ صلاح الدین ربانی وفد کےساتھ
آئے۔کابل میں پاکستانی سفیر محمد صادق کیجانب سے افغانستان کے تمام گروپس
سے امن مذاکرات کے حوالے سے بیان بھی انتہائی اہمیت کا حامل بنا ۔ دو سال
قبل شمالی اتحاد کیجانب سے مفاہمتی عمل کےلئے سنجیدگی کا نہ ہونا تمام
افغان طالبان گروپس سے مثبت مذاکرات کرنے میں حائل تھا۔ پیرس کانفرنس میں
تمام گروپس بیٹھے جو مذاکرات کےلئے انتہائی اہمیت کی کوشش بنی۔ پاکستان
طالبان سمیت تمام افغان طالبان کومذاکرت کی میز پر لانے کی پاکستانی کوششوں
اور امریکہ، برطانیہ کی طالبان کے ایسے رہنماﺅں کی رہائی کےلئے رضامندی
ظاہر کرنے سے ایک فرق بہت نمایاں ہوگیا ہے کہ شدت پسند ، عسکرےت پسند یا جو
بھی نام دے دیں ، اب یہ بین الاقوامی طاقتیں تسلیم کرچکی ہیں کہ جنگ مسئلے
کا حل نہیں ہے اور برسا برس کی جنگ کے بعد بھی مذاکرات کے لئے مل بیٹھنا
ایک اہم اقدام ہے ۔ پاکستان کی شمولیت کے بغیر افغانستان میں بھی امن کا
قیام ناممکن عمل ہوگا ۔امریکہ کیجانب سے سرحدوں کو سیل کرنے کی تمام
اطلاعات صرف اخباری بیانات تک محدود ہے کیونکہ پاک افغان سرحدوں کو سیل
کرنے کے لئے اربوں ڈالرز کا سرمایہ لگانے کے علاوہ تیس ہزار فوجی کی
تعیناتی بھی ضروری ہوگی اور یہ عمل پاک، افغان اور امریکہ کیجانب سے اس
صورتحال میں نہیں کیا جاسکتا کیونکہ ایک جانب امریکہ2014ءمیں افغانستان
چھوڑنے کی باتیں بھی کر رہا ہے وہ فوج کو مزید روکنے کا رسک نہیں لے سکتا ۔
پاکستان کیجانب سے بھی شمالی افغانستان میں آپریشن کے حوالے یہی تحفظات ہیں
کہ آپریشن کامیاب نہیں ہوسکتا کیونکہ طویل ترین سرحدوں کی نگرانی کےلئے
افغان فوج کا کردار مناسب نہیں ہے اور در اندازوں کو پاکستان کی سرحد کے
ذریعے داخل ہونے میں ناکامی سے پاکستانی فوج کو ایک بڑے معرکے میں فوج کے
بڑے حصے کو ملوث کردینا ، مملکت کی دوسری جانب سرحدوں کو کمزور بنا دینے کے
مترادف ہوگا جبکہ پاکستان کے طول و عرض میں دہشت گردی کی کاروائیوں کی بنا
ءپر ملکی سلامتی پہلے ہی خطرات میں ہے ۔ معاشی طور پر پاکستان کو اربوں
ڈالرز کے نقصان کا سامنا ہے ، سازش کے تحت اقتصادی شہروں میں سرمایہ کاری
بند ہوچکی ہے ، لیکن بارہ سال تو کیا سو سال جنگ کے بعد سب کو مذاکرات کی
میز پر بیٹھنا ہوگا ۔ پاکستان کا وجود جب تک ہے پوری دنیا کو اس کے کردار
کو تسلیم کرنا ہوگا اور ماضی میں پاکستان کا جو بھی کردار رہا ہو اس سے قطع
نظر آج کا پاکستان ماضی کے مقابلے میں خون میں لت پت اور دہشت گردی کے
ریگستان میں دھنسا ہوا ہے۔ کراچی ، بلوچستان ۔ خیبر پختونخوا سنگین مسائل،
پاکستان کی بقا کےلئے سنجیدگی کے متقاضی ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ
بین لاقوامی قوتیں پاکستان کی سلامتی کے خلاف ایسے شر پسند عناصر کی حوصلہ
افزائی کر رہی ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم کرنا چاہتی ہیں۔ہمیں اپنے
رویوں میں تبدیلی لانا ہوگی ۔یہ خطے میں امن سے زیادہ خود ہماری سر زمین کی
حفاظت کےلئے ضروری ہے۔ان حالات میں تحریک طالبان پاکستان کے حکیم اللہ
محسود اور طالبان پنجاب کے امیر عصمت اللہ کیجانب سے بھی مذاکرات کے حوالے
سے پیشکش کی گئیں ۔لیکن پاکستان میں اتنے گروپس ہیں کہ ان کے سربراہ کا علم
ہی نہیں ہے۔ تاہم حکیم اللہ محسود کیجانب سے مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب
خیبر پختونخوا حکومت کی جانب سے دیا گیا ۔دیکھنا یہ ہے کہ مذاکرات کی نوعیت
کیا ہوگی۔پختون رویات کے مطابق تو کسی کو بھی غیر مسلح نہیں کیا جاسکتا
لہذا تشدد کے خاتمے کے حوالے سے حکومت کن شرائظ کو تسلیم کرتے ہیں اور حکیم
اللہ محسود کا دیگر طالبان گروپس پرکتنا اثر رسوخ ہے یہ پہلو اہمیت کا حامل
ہے۔ طالبان گروپ طرز حکمرانی پر زیادہ زور دےتے ہیں لیکن ہمارے سامنے ایسا
کوئی رول ماڈل موجود نہیں ہے کہ ایسےمثال بنا ئی جاسکے ۔اس وقت دنیا کے
44ممالک بادشاہت کے ماتحت ہیں بادشاہت ایک روایتی بادشاہانہ خودمختار
حکومتی نظام ہے۔برونائی ، عمان، سعودی عرب ،قطر ، ویٹیکن سٹی ، سوازی لینڈ
وغیرہ ممالک میں خود مختار بادشاہت قائم ہے۔اسلام میں اسلامی مرکزےت
کوبرقرار رکھنے کےلئے خلفا ءمقرر کئے جاتے رہے ہیں۔خلافت راشدہ ، خلافت
امیہ،خلافت عباسیہ،خلافت عثمانیہ، خلافت فاطمیہ، خلافت موحدین،اسلامی طرز
حکومت کہلائی جاتی رہی ہیں لیکن ان کا طرز حکمرانی سب خلافتوں سےمتفرق رہا
ہے اور خلافت صرف ایک مملکت پر محدود نہیں تھی بلکہ مختلف مملکتوں کے
مجموعے پر حکمران کو خلیفہ کہا جاتا تھا جو دوسرے ملک کے حکمران کوخلعت
حکمرانی کا حق تقویض کرتا تھا۔کچھ اسلامی ممالک میں طرز حکمرانی میں قانون
ساز ادادرے کو پارلیمان مجلس شوری کہا جاتا ہے ۔ جیسے آذربائیجان میں ملی
مجلس ، ایران میں مجلس شورائی اسلامی ، ترکی میں ترکیہ ببوک ملت مجلسی ، ،
عمان میں مجلس عمان ، سعودی عرب میں مجلس سعودی عرب ، ترکمانستان میں خلق
مصالحتی یا مجلس ، ازبکستان میں اولی مجلس ، انڈونیشا میں عوامی مشاورتی
مجلس ، قازقستان میں مجلس اور پاکستانی پارلیمان کو مجلس شوری کہا جاتا
ہے۔جمہوریت ، آمریت کی ضد ہے۔ جمہوریت کو دو بڑی قسمیں ہیں ،بلا واسطہ
جمہوریت اور بالواسطہ جمہوریت ۔ بلا واسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا
اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے ۔چنانچہ ہرشخص کے مجلس قانون ساز
میں حاضر ہونے کے بجائے رائے دہندگی کے ذریعے نمائندے منتخب کر لئے جاتے
ہیں۔ اچھے برُے کا فیصلہ عوام کی رائے پر مبنی ہوتا ہے ۔جمہوریہ طرز حکومت
میں عوام کا منتخب نمائندہ حکومت چلانے کا اہل ہوتا ہے۔جس کا سربراہ بادشاہ
نہیں بلکہ منتخب شدہ عوامی نمائندہ ہوتا ہے۔جمہوری طرز حکومت میں دو جماعتی
نظام بھی ہے ۔ یعنی ایسا ملک جس کی پارلیمان میں صرف دو سیاسی جماعتوں کو
اثر نفوذ حاصل ہو ، ان میں سے ہی ایک اپنی اکثرےت کی بنا ءپر حکومت تشکیل
کرتی ہے اوسری حزب مخالف کا کردار ادا کرتی ہے ۔برطانیہ میں عملی طور پر دو
ہی جماعتیں ہیں ،لیبر پارٹی اور قدامت پسند ،امریکہ میں بھی دو ہی پارٹیاں
ہیں ،ڈیمو کرےٹ اور ریپلیکن ۔پارلیمانی نظام یا پارلیمانی جمہوریت ،جمہوریت
حکومت کا ایک نظام ہے جس میں مجلس عاملہ کے وزرا ء،پارلیمنٹ اور مقننہ کو
جوابدہ ہوتے ہیں۔پارلیمانی نظام ایک ایسا نظام حکومت ہے جس میں ایک کابینہ
بلواسطہ یا بلاواسطہ ایک پارلیمنٹ کے تحت کام کرتی ہے۔اس نظام میں اختیارات
عموما وزیراعظم کے پاس ہوتے ہیں۔پارلیمانی نظام میں یک ایونی پارلیمنٹ ہوتی
ہے ۔جیسے البانیہ،بنگلہ دیش، بلغاریہ، ڈنمارک ،سری لنکا سمیت 44کے قریب
ممالک میں یک ایوانی پارلیمنٹ ہے ہیں ۔جبکہ پارلیمانی نظام کے تحت دو
ایوانی پارلیمنٹ بھی ہے۔جیسے ہم قومی اسمبلی اور سینٹ کے نام سے بھارت میں
راجیہ سبھا اور لوک سبھا ، بر طانیہ میں ہاوس آف لارڈز اور ہاوس آف کامنس
جانتے ہیں ہے ۔ 33ممالک میں دو ایونی نظام قائم ہے۔ کسی مملکت کے اداروں ،منصوبوں
اور خیالات کو ظاہر کرنے اور اس کا نظام چلانے کےلئے حکومت کی تشکیل عمل
میں لائی جاتی ہے اچھی حکومت مملکت کی فلاح و بہبود اور بری حکومت ملک کی
تباہی و بربادی کا موجب ہوتی ہے۔مملکت کی طاقت اور کمزوری کا اندازہ بھی اس
کی حکومت سے لگایا جا سکتا ہے ۔ دنیا میں کئی قسم کی حکومتیں قائم ہیں جو
علیحدہ علیحدہ طریق سے چلتی ہیں ،مثلا شخصی ،اعیانی یا اشرافی ،جمہوری ،واحدانی
اور وفاقی حکومت ہے عوام کو دیکھنا ہے کہ کیا ان کی حکومت اپنے اغراض و
مقاصد پورے کر رہی ہے۔ جیسے شہریوں کی جان و مال کی حفاظت کرنا، ملک کو
بیرونی دشمنوں کے حملے سے بچانا اور اندرونی جھگڑے طے کرنا ، ملک میں عدل و
انساف اخلاقی اور اجتماعی ترقی کے لئے قوانین بنانا اور رائج کرنا ، رعایا
کی تعلیم و ترقی اور معاشرتی حالت کی اصلاح کے لئے کوشاں رہنا وغیرہ
وغیرہ۔۔پاکستان میں کسی بھی گروپ کے حوالے سے مذاکرات میں اس پہلوکو پیش
نظر رکھنا ضروری ہے کہ کیا اس نے تشدد کی پالیسی ترک کرنے کے لئے سنجیدگی
اختیار کی ہے۔ اب یہ تو ممکن نہیں کہ منتشر گروپس کو مملکت کے مختلف حصے
حوالے کردئےے جائیں جہاں اُن کی حکمرانی ہو۔جو بھی حکومت ہے اس کا پہلا فرض
اپنے عوام کا تحفظ ہے۔ جب تک امن قائم نہیں ہوگا ، معاشی ترقی اور عوامی
فلاح و بہبود کا کوئی کام کسی بھی قسم طرز حکومت نہیں کرسکتی۔افغانستان اور
پاکستان میں اگر متحارب گروپ امن کی جانب راغب ہیں تو حکومت عوام کو اعتماد
میں ضرور لے۔کیونکہ فیصلہ عوام نے ہی کرنا ہے کہ انھیں کس قسم کی طرز حکومت
چاہیے۔عارضی علاج کے بجائے پائدار و مستقل حل کیطرف توجہ مرکوز کرنا
ہوگی۔مملکت کے خلاف جو بھی سرگرم ہیں انھیں مذاکرات کی میز پر لا ئیں یا
پھانسی گھاٹ ، اس کا فیصلہ ملک کے وسیع تر مفاد اور باہمی مشاورت سے
کیاجائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔امن مذاکرات مثبت عمل ہے لیکن ،نیک نیتی فرض
اول ہے۔ |