اصغر خان کیس میں سپریم کورٹ کے
فیصلے کے مطابق صدرِپاکستان کو سیاست میں حصہ لینے اورکسی بھی قسم کاسیاسی
کردار ادا نہ کرنے کا پابند قرار دیا گیا ہے ۔ سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے
مطابق اب صدرِپاکستان جناب آصف علی زرداری اس حکم نامے کے تحت کسی بھی طرح
کا سیاسی کردار ادا نہیں کرسکتے ۔لہذاموجودہ صورتحال میں جبکہ ملک میں عام
انتخابات ہونے کو ہیں ایسے میں صدرِ محترم کے لیے ایک کڑااور کٹھن مرحلہ
ہے۔ویسے تو زرداری صاحب جب سے صدرِپاکستان بنے ہیں تب سے انھوںنے اپنے آپ
کو ہر چیز سے مستشناہ قرار دیا ہوا ہے کیونکہ انھیں صدرِپاکستان ہونے کے
ناطے استشناہ جو حاصل ہے ۔سیاست کے بازیگر ہونے کے ناطے زداری صاحب اپنے آپ
کو اس بہران سے کس طرح نکالتے ہیں یہ دیکھنے کی بات ہے ویسے تو یہ انکے لیے
کوئی اتنا کٹھن کام نہیں ہے کیونکہ غیرسیاسی ہوکر سیاست کرنے کا فن انہیں
خوب آتا ہے جس میں انہیں وہ ماہرت حاصل ہے کہ بڑے چھوٹے سب سیاست دان انکی
کی تقلید کرتے نظر آتے ہیں ۔شاید یہی وجہ ہے کہ صدرِمحترم بحیثیت اپنی
پارٹی کے کو چیئرمین ہونے کے ناطے پارٹی ورکرز اجلاسوں میں اپنا سیاسی
کردار بخوبی نبھاتے نظر آئے جس کی جھلک پچھلے دنوں پنجاب اور بختون خوان
میں دیکھنے کو ملی اور کراچی میں تو انکے ڈیرے اکثروبیشتر لگے رہتے ہیں ۔خیر
معاملہ کارنر میٹنگ تک تو ٹھیک ہے لیکن بات آنے والے نئے الیکشنوں کی ہے
جہاں عوامی رابطہ مہم کے لیے سیاسی قیادت کا ہونا ضروری ہوتاہے جو کہ
زرداری صاحب یہ کام کھلے عام انجام نہیں دے سکتے۔ایسے وقت میں جہاں پورے
ملک میں پیپلز پارٹی کا امیج کسی بھی طور درست نہیں خاص کرسندھ میںتوقوم
پرستوںنے میاںصاحب کی پارت سے جو صورتحال پیدا کی ہوئی ہے پیپلز پارٹی کافی
مشکلات سے دوچار ہے ایسے میں بلاول بھٹوں کو پارٹی قیادت سوپنا اور انہیں
سیاسی عمل میں لانا زرداری صاحب کاایک بہترین سیاسی فیصلہ ہے ۔لہذا انھوںنے
موقع کی مناسبت دیکھتے ہوئے بی بی شہید کی پانچویں برسی کے موقع پربلاول
بھٹو زرداری کو باقائدہ طور پر سیاست کے لیے تیار کر کے عملی طور پر سیا ست
کے میدان میں لانے کا فیصلہ کیا۔اب چونکہ بلاول بھٹو عملی طور پر سیاست کے
میدان میں اتر چکے ہیں انہیں بھی اپنے والد کی طرح سیاسی بالغ نظری کا
مظاہرہ کرنا ہوگا محترمہ شہید کی برسی کے موقع پر انکی تقریر سے یہ اندازہ
تو بخوبی لگایا جاسکتا ہے کہ وہ کس طرح کی سیاسی سوچ اور عزائم رکھتے ہیں ۔
انھوں نے اپنی تقریر میں جس طرح اداروں کے خلاف بیان بازی کی اس سے یہ
اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ وہ سیاست کے میدان میں سیاست برائے سیاست کرنے
آئے ہیں سیاست برائے خدمت نہیں۔بلاول ایک پڑھے لکھے اعلیٰ تعلیم یافتہ
نوجوان کے طور پر پہنچانے جاتے ہیںاور نئی سوچ نئے لوگ خاص کر نوجوان طبقہ
ان سے ایک نئے پاکستان کی امید لگائے بیٹھاہے۔ لیکن انھوں نے اپنی تقریر کے
دوران جس طرح کی سیاسی سوچ کو سپورٹ کیا اور جس نظریے کی حمایت کی ان کی اس
بات سے تو یہ نہیں لگتا کہ بلاول بھٹو پاکستان میں کسی قسم کی تبدیلی کے
خواں ہیں ۔بلکہ وہ وہی پرانی گھسی پیٹی جاگیرداری وڈیراشاہی سوچ کے حامی
ہیں جو 65 سالوں سے اس ملک کو پنپنے نہیں دے رہی۔ایسے وقت میں جبکہ لوگ
تبدیلی کی باتیں کر رہے ہیں نئی سوچ نئے وژن کے حامی ہیں اور سیاست کو ایک
نئی طرز سے ایک نئے ڈھنگ کے ساتھ پیش کرنے کی کوشش کی جارہی ہے ایسے میں
سیاست کے میدان میں پرانے گھوڑوں کی طرح دوڑنا سیاسی بالغ نظری کے منافی
بات ہے۔لہذا بلاول بھٹو کو سیاسی سوج بھوج سے کام لیتے ہوئے بجائے پارٹی کو
پرانی ڈگر پر چلنے دیں بہتر ہے کہ ایک نئی سوچ کے ساتھ نوجوانوں میں
مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کریں اور ایک نئے دور کا آغاز کریں۔ |