کسی شہر کنارے ایک بہت بڑا جنگل
تھا ‘ اس جنگل میں سب جانور مل جل کر رہتے اور اختلافی مسائل کی صورت میں
جرگہ کرکے آپس کے مسائل کو حل کر لیتے تھے ۔ ایک مرتبہ کیا ہوا کہ شہر سے
ایک بن مانس جو دیکھنے میں انسان لگتا تھا مگر حرکات جانوروں کی طرح کی
تھیں کسی سر کس سے‘ بھاگ کر جنگل کی جانب آنکلا ‘ جنگل میں سب نے اسے اپنا
مان کر پناہ دی ۔ کچھ ہی عرصے بعد اس نے انسانوں سے جو باتیں سیکھی تھیں ان
کے زیر اثر بڑی بڑی باتیں کرکے اپنے آپ کو سب سے زیادہ عقل مند ثابت کردیا
اور جلد ہی جنگل کے بادشاہ شیر کا سپہ سالا ر قرار پایا۔سپہ سالار بنتے ہی
اس نے حکم صادر کیا کہ جنگل کو بیرونی دشمنوں سے بے حد خطرہ ہے اور اس کی
حفاظت کرنے کی ضرورت ہے ‘ الو نے بہت سمجھایا کہ آج تک کوئی خطرہ نہیں تھا
تو اب کیوں ہوگا‘ مگر سب نے اس بن مانس کا ساتھ دیا۔ بن مانس نے جنگل کے
جانوروں کے دو گروہ بنائے ایک بندروں کا اور دوسرا چیتوں اور ہاتھیوں کا ‘
اور دونوں گروہوں کو علاقے بانٹ کر اس کی سرحدوں کی حفاظت کی ذمہ داری سونپ
دی۔ اب بندر جس علاقے کی حفاظت کرتے تھے وہاں پر چند ایک بیرونی جانوروں نے
شرارت کی کوشش کی مگر بندروں نے وہیں سے پتھر اور ہتھیار کے ذریعے انہیں
مار بھگایا اور اس کے بعد اس سرحد پر مکمل امن رہا‘ جس حصہ کی حفاظت چیتوں
کے ذمہ تھی وہاں پر باہر سے کسی نے قدم نہ رکھا ‘ تو چیتوں اور ہاتھیوں نے
مشورہ کیا کہ کوئی ہماری سرحد پر حملہ نہیں کر رہا ہے مگر ضرور اپنے علاقے
میں بیٹھ کر ہمارے خلاف سازشیں کر رہا ہوں گا چلو دوسروں کے علاقوں پر حملے
کرکے ان کی سازشوں کو ناکام بنا دیں اور کچھ ایسا ہی ہوا‘ چند سالوں بعد
کسی تاریخ دان کا اس جنگل کی طرف سے گزر ہوا تو اس نے جنگل کی تاریخ کچھ
یوں بیان کی کہ جنگل دو حصوں میں تقسیم ہو چکا ہے جہاں پر بندروں کی راج ہے
وہاں پر سرحدوں پر امن ہے اور اندرونی طور پر ہریالی ہی ہریالی ہے ‘ بندر
وں کو سرحد پر زیادہ کام نہیں کرنا پڑتا ہے اس لیے وہ جنگل کی ترقی کے لیے
بھی اپنا کام کرتے رہتے ہیں ‘ جبکہ جنگل کے جس حصہ میں چیتوں اور ہاتھیوں
کا کنٹرول ہے وہاں پر آبادی بہت کم ہے زیادہ تر جانور بندروں کی حفاظت والے
علاقوں میں ہجرت کر چکے ہیں‘ چیتے اور ہاتھی زیادہ تر دوسرے جنگلوں میں
مصروف عمل ہے اس لیے ان کا علاقہ ویران اور بیابان ہو تا چلا جا رہا ہے نیز
انہوں نے یہ ساری منصوبہ بندی کرنے والے معزز بن مانس کو بھی مار دیا ہے ۔
میرا نہیں خیال اس کہانی کے بعد کچھ کہنے کی ضرورت ہے ‘ کہا جاتا ہے کہ
ٹیکنالوجی کے اس دور میں دنیا ایک گلوبل ولیج بن چکی ہے مگر شاید جنگی
ٹیکنالوجی اور طاقت کی ہوس کے اس دور میں دنیا گلوبل ولیج نہیں بلکہ گلوبل
فاریسٹ (جنگل) بن چکی ہے ۔ جس طاقتور کا زور چلتا ہے دوسرے ملک پرچڑھ
بیٹھتا ہے ۔ اور یہ امریکہ ہی ہے جو اس وقت دنیا بھر میں اپنی سرحدوں کی
حفاظت کے نا م پر دوسرے ملکوں میں تباہی پھیلانے کا باعث ہے ۔ 1812میں
امریکی نے پہلی باقاعدہ جنگ لڑی اور اس وقت سے آج تک یہ برسر پیکار ہے ۔
دنیا کا کوئی علاقہ‘ کوئی ملک اسے سے محفوظ نہیں رہا ہے‘ جن کی فہرست طویل
ہے ‘ میں تاریخ اور فہرستوں میں باتیں کرکے علمی رعب جھاڑنے سے بہتر سمجھتا
ہوں کہ اصل با ت کی جائے ۔ تو اصل بات یہی ہے کہ امریکہ کو نہ جانے کیا پڑی
ہے کہ وہ اپنی سرحدوں کی حفاظت کرنے کے بجائے بیرونی سرحدوں پر حملہ آور ہو
تا رہتا ہے ۔ اگر دنیا کے دو ممالک میں جنگ چھڑتی ہے تو شاید وہ چند ہفتوں
یا مہینوں میں ختم ہو جائے لیکن امریکہ کے عمل دخل کے باعث یہ سالہا سال
چلتی رہتی ہے۔ دہشت گردی کے نام پر امریکہ نے جو جنگ چھیڑی ہے اس سے کون
واقف نہیں ہے کہ اس سے امریکہ کو فقط نقصان ہی ہوا ہے کسی قسم کا فائدہ نظر
نہیں آتا ہے ‘ امریکہ کو دنیا بھر میں فقط نفرتوں کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے
۔
دراصل امریکہ کی عراق‘ افغانستان اور دیگر علاقوں میں پھیلی ہوئی فوجوں کو
دیکھ کر یہی کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب کچھ بیکار ہے ۔ اگر امریکہ بیرونی
ملکوں پر حملہ آور ہونے اور دہشت گردی کے ختم کرنے کے نام پر خون بہانے کے
بجائے صرف اور صرف اپنی سرحدوں کی حفاظت کرے تو ایک جانب اس کے دشمنوں سے
بھی اس کو نجات مل سکے گی تو دوسری جانب اس کی معیشت بھی تباہی سے دوچار نہ
ہوگی ۔ امریکہ کو اب بھی ہو ش کے ناخن لے لینا چاہیں کہ اگر وہ اپنے
اندرونی محاذ پر زیادہ توجہ دیتا تو شاید نائن الیون جیسے واقعات نہ ہوتے ۔
اگر امریکہ اپنے ملک کے اندر چھپے ہوئے دہشت گردوں کو تلاش کرے تو اسے
دوسرے ملکوں میں عمل دخل نہ دینا پڑے۔ دہشت گردی اور شدت پسندی کے خلاف ہم
بھی ہیں اور اس کا ثبوت پاکستان آرمی کی موجودہ شہادتیں ہیں ‘ ہماری شدت
پسندوں اور دہشت گردوں سے نفرت ہونا ہی ہمارے امن پسند ہونے کا ثبوت ہے مگر
ہماری توجہ سرحدوں کو محفوظ بنانے پر اسی لیے شاید بھارت ہماری جانب بڑھنے
سے قبل سو بار سوچتا ہے۔ امریکہ کی عوام سے گزارش ہے کہ اگر اپنی معیشت
کامیاب بنانی ہے تو اب اپنی فوجوں کو کسی اور ملک کے اندر کے معاملا ت کو
فوجی طریقہ کار سے حل کرنے سے روکنا ہوگا اور توجہ اپنی معیشت اور سرحدوں
کی حفاظت پر مرکوز رکھنا ہوگی تبھی دنیا میں امن بھی قائم ہو سکے گا اور یہ
دنیا واقعی گلوبل ولیج ہوگی۔ |