نیا سال ، پرانے عہد

راقم کی طرف سے پوری دنیا کے انسانوں خاص طور اہل پاکستان کو نیا سال مبارک ہو۔ بہت سی نیک خواہشات اور دعائوں کے ساتھ آپ کی خدمت پیش ہیں معلومات سے خالی لیکن اُمید بھرے خیالات۔ سال 2012اپنی آخری سانسیں لے کر دم توڑ چکا ہے۔ جہاں سال 2012ہمارے لیے بہت سی تلخ یادیں چھوڑ گیا جن میں بے انتہا مہنگائی، دہشتگردی ، بدامنی، بڑھتی ہوئی بے روز گاری وغیرہ وغیرہ ہیں وہیں 2013کے شروع ہوتے ہی تاریخ کی پہلی جمہوری حکومت اپنی آئینی مدت پوری کر کے آنے والے زمانوں کے لیے مثال بن جائے گی ۔بیشک اس جمہوری حکومت نے بہت سی مشکلات کا سامنا کیا اور بہت سے نشیبو فراز دیکھے ، بے شک جمہوریت کے ان پانچ سالوں میں عوام کے ہاتھ میں کچھ نہیں آیا۔

پیپلز پارٹی کے پانچ سالہ دور حکومت میں بہت زیادہ کرپشن اور عوام بد حال سے بد حال ہوئی لیکن ایک بہت بڑا فائدہ بھی ہوا وہ یہ کہ اب عوام اب یہ حق رکھتی ہے کہ وہ جسے چاہے منتخب کریں ،موجودہ جمہوری حکومت نے پانچ سالہ آئینی مدت پوری کر کے اس بات کی بنیاد رکھ دی ہے کہ اب عوام کے منتخب نمائیدوں کو کام کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ اب گیم عوام کے ہاتھوں میں ہے کہ وہ اپنے لیے کس قدر بہتر حکمران منتخب کرتی ہے۔لیکن اگر اس بار پھر عوام نے بغیر سوچے سمجھے غلط لوگوں کو و وٹ دے دیا تو پھر شائد یہ وقت دوبارہ نہ آئے ۔ ہم پہلے غلط لوگوں کو ووٹ دے کر خود منتخب کرتے ہیں اور پھر یہ سوچنے لگتے ہیں کہ ظالم حکمران کہاں سے آتے ہیں۔ ظالم حکمران کہاں سے آتے ہیں ، اس سوال کا جواب تلاش کرنے کی ضرورت کسی بھی مسلمان کو نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی بتا دیا کہ جیسی قوم ہوگی ویسے ہی حکمران مسلط ہوں گے۔

کیا ہم صرف نام کے مسلمان ہیں ،آج ہمارے بہت سے اعمال ایسے ہیںجو ہمیں مسلمان ثابت کرتے ہیں لیکن ہم ان کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے اعمال بھی کرتے ہیں جن کے کرنے سے ہمارے وہ اعمال ضائع ہو جاتے ہیں جو ہمیں وبائوں یعنی بیماریوں ، قحط و مصیبت ،ظالم حکمرانوں،غیر مسلم دشمنوں اور آپسی لڑائی جھگڑے اور قتل و غار ت سے محفوظ رکھتے ہیں۔ ایسے حالات میں بیٹھ کر حکمرانوں کو بُرا بھلا کہنے یا یہ سوچنے سے کہ ظالم حکمران کہاں سے آتے مصیبتوں سے جان نہیں چھوٹتی ۔

کیونکہ ظالم حکمران نہ تو آسمان سے گرتے ہیں ، نہ زمین کھود کر نکالے جاتے ہیں ، نہ سمندروں کی گہرایوں سے دریافت ہوتے ہیں،نہ پہاڑوں کی چوٹیوں پر اُگتے ہیں اور نہ ہی کوئی خلائی مخلوق ہیں۔ یہ ظالم حکمران بھی ہمارے طرح مائوں کی کوکھ سے جنم لیتے ہیں اور یہ پیدائشی ظالم بھی نہیں ہوتے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آخر یہ ظالم کس طرح بن جاتے ہیں؟ کیا کوئی سکول ،کالج یا یونیورسٹی ہے جو ظلم و جبر کی تربیت دیتی ہے ان کو ؟اگر انسان اپنی ناقص عقل سے ان سوالات کے جوابات مانگیں گے تو ان سوالات کے جوابات ملنے کی بجائے بہت سے اور سوالات جنم لیں گے جو ہمیں گمراہی کی طرف بھی مائل کرسکتے ہیں۔ اس لیے بہتر یہی ہے مسلمان اپنے دین اسلام سے ان سوالات کے جوابات مانگ لیں اور اگر غیر مسلم بھی اسلام سے کوئی فائدہ اُٹھانا چاہتا ہے تواسے بھی کھلی چھٹی ہے۔

وہ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے آخری اور محبوب نبی حضرت محمدۖ کودوجہانوں کے لیے رحمت بنا کربھیجا ہے اور اسلام نہ صرف انسانوں بلکہ کائنات میں موجود تمام مخلوقات کے حقوق کا نگہبان ہے۔ لیکن اگر ہم اپنے آپ کو مسلمان بھی کہیں اور وہ تمام اعمال بھی باقائدگی کے ساتھ دہراتے رہیں جن سے میرے اور آپ کے پیارے نبی حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے پناہ مانگی تو پھر ہم صرف نام کے مسلمان رہ جاتے ہیں۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنھہ سے رویت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم نے فرمایا میں پناہ مانگتا ہوں پانچ چیزوں سے کہ تم ان کو پاؤ۔ جب کسی قوم میں فحاشی ( یعنی شراب نوشی بدکاری ناچ گانا وغیرہ) اعلانیہ ہوں گے تو وہ طاعون یعنی وباؤں اور ایسی بیماریوں میں مبتلا ہوگی جوان سے پہلے لوگوں میں کبھی نہ ہوئی تھیں۔ جب کوئی قوم ناپ تول میںکمی(یعنی تجارتی بدعنوانیاں ، چوربازای وغیرہ)کرے گی توان میں قحط مصیبت اور ظلم ہوگا۔جو کوئی قوم زکواة نہیں دیتی تو اللہ تعالیٰ ان پر بارانِ رحمت روک دیتا ہے، اگر جانور نہ ہوں تو کبھی ان پر بارش نہ ہوتی۔

جب کوئی قوم اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عہد شکنی کرتی ہے تو اللہ تعالیٰ غیر قوم سے ان کے دشمن کو ان پر مسلط کر دیتا ہے جوان کے مال (یعنی دولت ، تجارت اور زرعت وغیرہ ) کو زبردستی چھین لیتا ہے۔ جب مسلمان حاکم اللہ کی کتاب(یعنی قرآن کریم) پر عمل نہیں کرتے اور جو اللہ نے نازل کیا ہے اس کواختیار نہیں کرتے(شریعت نافذ نہیں کرتے )تو اللہ تعالیٰ ان میں لڑائی کرا دیتا ہے (یہاں تک کہ خانہ جنگی ہوجائے) قارئین محترم اگر ہم غور کریں تو یہ تمام برائیاں آج ہمارے معاشرے موجود ہیں اور وہ تمام مشکلات بھی موجود ہیں جن کے بارے میں اللہ اور اُس کے رسول ۖنے پہلے ہی خبر دے دی تھی۔ اگر ہم ان مشکلات (یعنی عذاب الٰہی ) سے بچنا چاہتے ہیں تو پھر نئے سال کو غیر اسلامی طریقوں کی بجائے اللہ تعالیٰ کے حضور سربسجود ہو کر خوش آمدید کہنا چاہے ۔

کم از کم مسلمانوں کو ہیپی نیو ائیرنائٹ زنا،ناچ گانا،شراب نوشی ،ہوائی فائرنگ اور نشے کی حالت میں اپنے ہی قومی اثاثوں کی توڑ پھوڑ کر کے نہیں منانی چاہے اور یہ عہد کرنا چاہیے کہ ہم اللہ اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ واٰلہ وسلم سے عہد شکنی نہیں کریں گے۔ سال نیا ہے ہمارے عہد پرانے ہیں جو ہمیں روز قیامت تک نبھانے ہیں لین دین میں ایمان داری سے کام لیں گے ،ناپ تول پورا کریں گے ، زکواة دیں گے،شراب نوشی،زنا کاری اور ناچ گانے سے دور رہیں گے ،اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں سیدھے راستے پر چلنے کی توفیق و طاقت اور حقیقی مسلمان قیادت عطا ہو(آمین)
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 514516 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.