عبدالرحمن بن ربیعہ نے آزر
بائیجان فتح کیا تو شکست خوردہ شہزادے سے دوستی ہوگئی۔ عبدالرحمن اسکے ساتھ
شائستگی اور نرم خو روئیے سے پیش آتا۔ اسلام ہر مذہب سے رواداری عقیدت اور
انصاف پروری کا حکم دیتا ہے۔ بن ربیعہ نے بتایاکہ اسلام نے روئے ارض کے ایک
کونے سے دوسرے کونے تک تاریخ ساز فتوحات کے جھنڈے گاڑھے تو اسکی واحد وجہ
انصاف مساوات صداقت کی کارفرمائی میں مضمرہے۔ تلوار کے زور پر جسم تو فتح
ہوسکتا ہے مگر دل روح اور انسانی نظریات پر کوئی شے قدغن نہیں لگاسکتی۔ بن
ربیعہ نے شہزادے کی انگلی میں ہیروں سے جڑی ہوئی انگوٹھی کی بابت پوچھا تو
جواب ملا یہ کسی ریاست کے حکمران نے بھیجی تھی۔ شہزادے نے انگوٹھی بن ربیعہ
کو دینے کی آفر کی تو اس نے انکار کردیا اور گویا ہوا کہ مسلمان جب کسی
ریاست پر حملہ کرتے ہیں تو اسلامی لشکر کامقصد وہاں کے لعل و جواہر اور
دولت پر قبضے کی وہاں بسنے والے انسانیت کے مظلوم محکوم پسماندہ طبقات کو
ظلم و جبر استحصال اور زیادتیوں سے نجات دلانے سے منسلک ہے۔ راقم کے عقل و
خرد میں عبدالرحمن بن ربیعہ کا محولہ بالہ مکالمہ اس وقت ارتعاش پیدا کرنے
کا سبب بنا جب پنجاب کے نئے گورنر مخدوم احمد محمود نے صوبے کے32 ویں گورنر
کا حلف اٹھایا۔ گورنر کا تعلق ڈسٹرکٹ رحیم یار خان سرائیکی بیلٹ سے ہے۔وہ
یوسف رضا گیلانی کے بھانجھے اور پیرا پگارہ کے کزن ہیں۔نیو گورنر کا تعلق
مسلم لیگ اور فنگشنل لیگ سے رہا ہے۔ احمد محمود3 مرتبہ ممبر قومی اسمبلی
صوبائی وزیر اور ضلع ناظم کے عہدوں پر فائز رہ چکے۔ مخدوم کو گورنر بننے کا
عارضہ لاحق تھا یوں یوسف رضا گیلانی کی سفارش پر صدر مملکت زرداری نے انکی
خواہش کو چار چاند لگادئیے۔گورنر نے یوسف رضا گیلانی کے ساتھ پریس کانفرنس
میں اپنے اس عزم کو دہرایا کہ وہ بہاولپور صوبے کی بحالی کی تحریک چلائیں
گے اور اس سلسلے میں ہونے والی تمام میٹنگز گورنر ہاوس میں منعقد
ہونگی۔مخدوم احمد محدود کی تعیناتی سرائیکی بیلٹ کے لئے نیک شگون اور خوش
آئند ہے۔ گیلانی سرائیکی صوبے کے قیام کا ہوم ورک مکمل کرچکے تھے مگر توہین
عدالت کیس نے 9 کروڑ سرائیکوں کی امنگوں آدرشوں پر پانی پھیر دیا۔گیلانی
وزیراعظم ہاؤس سے نکلے تو نقطہ عروج پر پہنچی ہوئی تحریک سرائیکی صوبہ دم
توڑ گئی ۔گیلانی نے سرائیکیوں کی ٹمٹماتی لو کو بجھنے نہ دیا۔نیو گورنر کی
تعیناتی سے سرائیکی صوبے کی حسرت و یاس دوبارہ سیاسی منظر پر طلوع ہوگئی۔
احمد محمود کے گورنر بننے سے ایک طرف ریاست بہاولپور کی بحالی یا سرائیکی
صوبے کے قیام کے امکانات پیدا ہوگئے ہیں تو دوسری طرف گورنر آمدہ الیکشن
میں سرائیکی خطے میں PPPکے مضبوط امیدواروں کی سلیکشن اور انکی اخلاقی و
آئینی دستگیری میں لیڈنگ رول ادا کریں گے۔ تقسیم ہند کے وقت بہاولپور واحد
ریاست تھی جس نے نہ صرف انگریزوں اور ہندووں کی پرکشش اور للچائی ہوئی آفرز
کو انڈیا کے ساتھ الحاق کی پیشکش کو کلی طور پر مسترد کردیا۔قائد اعظم
نے1947 میں بہاولپور کا دورہ کیا تو والی ریاست کو یقین دہانی کروائی کہ
ریاست مکمل خود مختیار ہوگی۔فنانس ڈیفینس کے علاوہ دیگر تمام سرکاری ادارے
ریاست کی عملداری میں ہونگے۔1952 میں52 رکنی صوبائی اسمبلی کی تشکیل کی
خاطر الیکشن منعقد ہوئے۔ گورنر احمد محمود کے والد مخدوم حسن محمود جمہوری
طریقے سے قائد اعوان بن گئے مگر جب سکندر مرزا ایوب خان اور دیگر فتنہ گروں
نے ون یونٹ بنایا تو بہاولپور کو اس میں ضم کردیا۔ریاستی عوام نے تحریک
چلائی کہ بہاولپور کی صوبائی حثیت بحال کرو تو لیپاپوتی کی خاطر پہلے چیف
جسٹس فیڈرل کورٹ اور وزیراعظم سہروردی نے وعدہ کیا کہ ون یونٹ کے خاتمے پر
بہاولپور کی خود مختیاری بحال کردی جائیگی مگر آئے بسا آرزو کہ خاک شد
بہاول پور کی ازادی کو غلامی کی زنجیروں میں جکڑ دیا گیا۔ ملتان بھی رنجیت
سنگھ کے دور میں صوبہ تھا جسکی سرحدات دہلی وادی مہران اور سندھ تک پھیلی
ہوئی تھیں مگر ملتان پرونس چکنا چور ہوگیا۔ یوں سات کروڑ سرائیکی بے خانماں
و بے سائباں بن گئے۔جنوبی پنجاب میں سرائیکی ابادی9 کروڑ سے زائد ہے۔احمد
محمود12ستمبر1961 میں کراچی میں پیدا ہوئے۔وہ جاگیردار اور صنعتکار ہیں۔وہ
سابق وزیر مہاجرین اور بحالیات مخدوم الملک میراں شاہ کے پوتے ہیں۔ احمد
محمود کے والد مخدوم حسن محمود تجربہ کار پارلیمنٹریرن تھے۔ انکے خاندانی
پس منظر پر نگاہ ڈالنا دلچسپی سے کم نہ ہوگا۔ضلع رحیم یار خان کے معروف
روحانی پیشوا مخدوم الملک سید میراں شاہ نے تحریک پاکستان اور ریاست
بہاولپور کی پاکستان میں شمولیت کے لئے اہم کردار ادا کیا۔میراں شاہ کے
فرزند اور گورنر کے والدحسن محمود 27نومبر1922میں اپنے آبائی گاؤں جمال دین
والی میں پیدا ہوئے ۔مخدوم حسن محمود پنجاب صوبائی وزیر صحت اور وزیرتعلیم
رہے ہیں۔وہ 1951 میںبہاولپور ریاست کے چیف منسٹر تھے مگر بعد میں دیگر
جاگیرداروں کی طرح حسن محمود نے اڑان بھری اور ایوبی آشیانے میں بسیرا کیا۔
کیا اسے احسان فراموشی کہا جائے؟ یا ہوس اقتدار کا شاہکار ؟بہاولپور ریاست
کی چیف منسٹر شپ پر جلوہ گر ہونے والے مخدوم حسن محمود ریاست بہاولپور کی
بحالی کے سخت ترین ناقد اور مخالف بن گئے انہیں ایوبی عقیدت نے اپنی ابائی
ریاست کی بحالی کی راہ میں چٹان حائل کرنے پر مجبور کیا۔۔عمر بھر مسلم لیگ
کا دم بھرنے والے مخدوم حسن محمود ایوب خان اور مادر ملت کے صدارتی انتخابی
معرکے میں ڈکٹیٹرکے دست بازو بنے ۔ مخدوم حسن محمود بانی پاکستان کی پارٹنر
فاطمہ جناح کی مخالفت میں پیش پیش تھے۔۔ مخدوم حسن محمود اپنے والد مخدوم
الملک میراں شاں کی رحلت کے دس دنوں بعد خالق حقیقی سے جا ملے۔ میراں شاں
کو دربار بہاولپور یعنی ریاست بہاولپور نے پہلے مخدوم کا اعزاز عنایت کیا
بعد میں الملک کی دم بھی عطاکی۔۔ ریاست بہاولپور کے نوابوں کے مزاج بھی
نرالے اور نکھرے تھے۔ والی ریاست کو ملنے والے ہر شخص چاہے وہ استاد تھا یا
دانشور وہ نواب تھا یا سوختہ بخت پر لازم تھا کہ نہ صرف نواب کی قدم بوسی
کی جائے بلکہ ہاتھوں کو چومنے کی سنت بھی ادا کرنی پڑتی تھی۔دربار میں
القابات کی لوٹ سیل کا میلہ سارا سال جما رہتا۔ دربار میں زیادہ نذرانہ
دینے والے کو مخدوم الملک کا لقب دیا جاتا۔ گورنراحمد محمود فیملی نے نواب
کے قدموں میں ایک لاکھ روپے کا نقد نذرانہ واہ کیا یوں گورنر کے دادا کو
مخدوم الملک کا لقب مل گیا۔ مخدوم احمد محمود نے گورنر بنتے ہی بہاولپور
صوبے کا راگ شروع کردیا۔ اگر گورنر صاحب کے خاندان میںبزرگوں کی روایات کی
پیروی کرنے کی رسم موجود ہے تو پھر انہیں بہاولپور کو صوبہ بناو کی گردان
چھوڑ دینی چاہیے کیونکہ انکے مرحوم کے والد تحریک بحالی صوبہ بہاولپور کے
مخالف تھے۔ویسے ائینی قانونی اور تہذیبی طور پر ریاست بہاولپور کی صوبائی
شناخت کا احیا اور بحالی آئینی طور پر صد فیصد درست ہے مگر پون صدی قبل اور
آج کے زمینی معروضی حقائق کا تجزیہ کیا جائے تو پھر سرائیکی صوبے کا قیام
بہاولپور پر فوقیت رکھتا ہے۔ سرائیکی قوم کو باہم شیر و شکر بنانے کی سعی
کرنی چاہیے۔ سرائیکی صوبہ ہر صورت میں بننا چاہیے۔ بہاولپور ڈی جی خان
ملتان بھکر جھنگ اور ڈی آئی خان پر مشتعمل خطے کو سرائیکی صوبے کا درجہ دیا
جائے۔ گورنر پنجاب سرائیکی صوبے کے لئے دسیوں سالوں سے جدوجہد کرنے والے
رہنماؤں اور والیان ریاست بہاولپور اور سرائیکی بیلٹ کے سیاسی راہنماؤں
اراکین اسمبلی سینیٹرز کا مشترکہ اجلاس طلب کریں اور متفقہ چارٹر کے تحت
سرائیکی قوم کی فلاح و بہبود کی خاطر سرائیکی وسیب کو علحیدہ صوبائی شناخت
دیکر ملک کے چھٹے صوبے کے قیام کو یقینی بنایا جائے۔ سرائیکی بیلٹ سونے کی
چڑیا ہے جو پاکستان کی ستر فیصد زرعی ضروریات پوری کرتی ہے۔ سرائیکی صوبے
کے متخالف یہاں بسنے والی دیگر اقوام پنجابی اور اردو سپیکنگ کو لسانیت کے
نام پر ڈرا دھمکا رہے ہیں جبکہ سچ تو یہ ہے کہ سرائیکی مہمان نوازی دیدہ دل
فرش واہ کرنے والے محب وطن لوگ ہیں۔یہ علم و حکمت اور دانش و بنیش کا گڑھ
اور صوفیائے کرام اور عظیم المرتبت ولی اللہ بزرگوں کی روحانی تعلیمات کا
گہوارہ ہے۔یہاں نہ تو انتہاپسندی ہے اور نہ ہی شدت پسندی کی خرافات۔یہاں
ایک طرف تو لہلہلاتے کھیت و کھلیان عالمی سطح پر شہرت رکھنے والے باغات اور
ہر قسمی سونا اگلتی زمینیں ہیں مگر دوسری طرف ملک بھر کو گندم کپاس چینی
گنا سبزیاں پھل فراہم کرنے والے ہر دوسرے سرائیکی گھر میں غربت پسماندگی
درماندگی بے روزگاری اور جہالت کا رقص بسمل جاری ہے۔سات کروڑ سرائیکی غربت
کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرتے ہیں۔سرائیکی بیلٹ میں پیدا ہونے والی زرعی
سوغات کی دولت کی خوشبو لاہور اپر پنجاب اور اسلام آباد کی سڑکوں میں اتی
ہے۔گورنر صاحب عبدالرحمان ربیعہ کی محولہ بالہ داستان کی روشنی میں
سرائیکیوں کو استحصال اپر پنجاب کی غیر منصفانہ تقسیم دولت مقامی وسائل کا
مقامی علاقوں میں بروقت منصفانہ استعمال غربت بھوک و ننگ مفلوک الحالی
طبقاتی تقسیم کی زیادتیوں سے نجات دلانے کی خاطر نیو صوبے کی تشکیل کو
یقینی بنائیں یوں ایک طرف وہ خدائی تعلیمات اور اسلامی فرامین کی پاسداری
کے ہیرو ہونگے تو دوسری طرف تاریخ میں انکا نام عبدالرحمن ربیعہ کی طرح- |