ایک طالب علم اساتذہ کے لیے
دردسر بنا ہوا تھا، اسے کسی بھی موضوع پر مضمون لکھنے کو کہا جاتا وہ اس
میں اپنے دوست سعید کو ضرور کھینچ لاتا۔ مثلاً ایک بار اسے ’’میرا اسکول‘‘
پر مضمون لکھنے کو دیا گیا، دوسرے روز استاذ نے دیکھا تو اس نے لکھا تھا
’’میں صبح 7بجے تیار ہوکر اپنے دوست سعید کے گھر آجاتا ہوں،ہم دونوں رکشے
میں اسکول جاتے ہیں، سعید کے 4 بھائی ہیں، اس کے ابو ڈاکٹر……‘‘ آگے اس نے
اپنے وہی رٹے ہوئے جملے لکھ رکھے تھے۔ چند دن بعد استاذ نے بچوں کو بکری پر
لکھنے کو کہا، اس نے لکھا ’’ہمارے ہاں ایک بکری ہے، میں روزانہ اس کا دودھ
اپنے دوست سعید کو دینے جاتا ہوں، سعید کے 4بھائی ہیں، اس کے ابو ڈاکٹر……‘‘
ایک روز استاذ نے جہاز کے سفر پر مضمون لکھنے کے لیے دیا اور اسے سختی کے
ساتھ کہا کہ یاد رکھو اس بار سعید تمہارے ساتھ نہیں ہے، دوسرے روز استاذ جی
کاپی دیکھ کر چکراگئے، طالب علم نے لکھا تھا ’’میں ابو کے ساتھ اسلام آباد
جانے کے لیے ایئرپورٹ پہنچا، کچھ دیر بعد ہم جہاز میں سوار ہوگئے، جب جہاز
تھوڑا سا بلند ہوا تو میں نے کھڑکی سے دیکھا کہ میرا دوست سعید سڑک پر کھڑا
ہوا ہے، سعید کے 4بھائی ہیں، اس کے ابو ڈاکٹر……‘‘
یہ تو ایک لطیفہ تھا مگر ہمارے بعض بزرگ کالم نگار حضرات واقعتا ہم سے مذاق
کررہے ہیں۔ لوگ سیاسی کالم اس لیے پڑھتے ہیں کہ وہ جاننا چاہتے ہیں ملکی
سیاست کس رخ پر جارہی ہے، کون کیا کررہا ہے، کیا غلط ہورہا ہے اور ٹھیک کیا
ہے؟ یہ مقصد اسی وقت حاصل ہوسکتا ہے جب کالم نگار غیرجانبداری کے ساتھ صورت
حال کا تجزیہ کرکے نتیجہ قارئین کے سامنے رکھ دے۔ بدقسمتی سے ہمارے ہاں
ایسا نہیں ہورہا ہے، سیاسی کالم نگاری جماعتی پروپیگنڈے کی شکل اختیار
کرچکی ہے، آپ مختلف اخبارات میں لکھنے والے’’بڑے‘‘ کالم نگاروں کی فہرست
بنالیں، ان میں سے شاید ہی کوئی ایسا ہوگا جس کی کسی سیاسی جماعت سے واضح
وابستگی نہ ہو۔ کوئی نوازشریف کا ترجمان ہے، کسی کی تان عمران خان پر ٹوٹتی
ہے، کوئی پی پی پی کرتا نظر آئے گا اور کسی نے مذہبی جماعتوں کے دفاع کا
بیڑا اٹھا رکھا ہے۔ آپ ان کے کالم پڑھ کر دیکھیں، یہ لوگ بات خواہ کسی بھی
موضوع پر کریں مگر اس طالب علم کی طرح کسی نہ کسی طرح اپنے ’’دوست‘‘ کا ذکر
ضرور ٹھونس دیں گے۔ اب تو معاملہ یہاں تک پہنچ گیا ہے کہ قارئین کو کالم
شروع کرنے سے پہلے ہی پتا ہوتا ہے یہ کس کے حق اور کس کی مخالفت میں ہوگا۔
یہ بات تو ٹھیک ہے کہ کالم نگار کو بھی دیگر شہریوں کی طرح کسی بھی سیاسی
ومذہبی جماعت سے تعلق رکھنے کا پورا پورا حق حاصل ہے، مگر سوال یہ ہے اپنی
پسند اور ناپسند کو غیرجانبداری کی آڑ میں قارئین پر مسلط کرنا کہاں کا
انصاف ہے؟ اگر کسی معاملے پر کالم نگار کی رائے بھی وہی ہو جو اس کے
پسندیدہ سیاسی رہنما کی ہے، تب تو بات سمجھ میں آتی ہے، لیکن کیا ان کے
سیاسی دوستوں سے کبھی کوئی غلطی نہیں ہوتی؟ اگر ہوتی ہے تو اس کے خلاف کیوں
نہیں لکھتے؟ کسی سیاسی رہنما یا جماعت کا صرف اچھا رخ دکھانا پارٹی کارکنان
کا کام ہوتاہے، ایک غیرجانبدار سیاسی تجزیہ نگار سے اس کام کی توقع نہیں
رکھی جاسکتی۔ ایسا لگتا ہے ہمارے کالم نگار مختلف سیاسی جماعتوں کے ترجمان
بن گئے ہیں یا پھر جماعتوں کے ترجمانوں نے کالم نگاروں کا روپ دھار لیا ہے۔
ٹی وی اینکر تو چند ماہ قبل دوسروں کے مہرے بننے کی وجہ سے اپنی مٹی اچھی
خاصی پلید کراچکے ہیں، اب جماعتوں کے ڈھنڈورچی بننے کی وجہ سے سیاسی تجزیہ
کاری کی ساکھ بھی داؤ پر لگ گئی ہے۔
سیاسی کالم نگاروں پر سیاست دانوں سے مالی فوائد حاصل کرنے کے بھی الزامات
لگتے رہے ہیں۔ جب کوئی کالم نگار کسی سیاسی رہنما کا تقریر نویس ہو،
تنظیموں کے پالیسی ساز اجلاسوں میں شرکت کرتا ہو، سفیر بن کر مزے لوٹے ہوں،
سال میں 6ماہ ملک سے باہر سیرسپاٹوں میں گزارتا ہو۔ راتوں رات اس کے بینک
بیلنس میں اضافہ ہوگیا ہو اور کچی آبادی کے پلستر اکھڑے مکان سے اچانک پوش
علاقے کے بنگلے میں منتقل ہوگیا ہو تو پھر سوالات تو اٹھیں گے۔ کالم نگاروں
کے پاس قلم کی طاقت ہے، وہ عبارت آرائی کے ذریعے تنقید کرنے والوں کو جاہل
اور سازشی ثابت کرسکتے ہیں مگر محض من من وزنی الفاط کے زور پر خود پر لگے
دھبے نہیں دھوسکتے۔
انتخابات کی آمد آمد ہے، اسی عرصہ میں سیاسی تجزیہ کاروں کا اصل امتحان
ہوتا ہے، اب پتا چلے گا کون ’’کارکن قلم کار‘‘ اور کون غیرجانبدار قلم کار
ہے۔ کسی اور کے دسترخوان پر نظر رکھنے والے تجزیہ نگار اپنے ’’دوست‘‘ کو ہر
دلعزیز اور مقبول ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیں گے۔ وہ عوام کو
یہ پٹی پڑھائیں گے کہ میرا دوست بس آوے ہی آوے۔ غدار، لوٹا، ٹٹو، پٹھو جیسے
الفاظ تو پرانے ہوچکے ہیں، مخالفین کو نیچا دکھانے کے لیے نئے نئے الفاظ
اور تراکیب مارکیٹ میں لائی جائیں گی۔ ماضی میں کئی کالم نگار حضرات
انتخابی ’’سیزن‘‘ کے دوران سیاسی جماعتوں کے میڈیا سیل میں باقاعدہ طورپر
بھرتی ہوکر اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھاتے رہے ہیں۔ اس بار بھی دیہاڑی لگانے
والے ’’قلم مزدوروں‘‘ کی لمبی قطار لگی ہوئی ہے۔ اب تو ایک نیا رواج بھی چل
پڑا ہے، سیاسی جماعتوں نے کالم نگاروں کو خریدنے کے ساتھ ساتھ اب باقاعدہ
اخبارات میں مداخلت بھی شروع کردی ہے، وہ اخبارات جنہیں ’’بڑا‘‘ کہا جاتا
ہے، ان کے ادارتی صفحات پر کوٹا سسٹم نافذ ہے، ہر اہم جماعت نے اخبار کو
اپنا ’’کالم نگار‘‘ دیا ہوا ہے، وہ صاحب کالم کے نام پر کچھ بھی اوٹ پٹانگ
لکھ دے، اسے چھاپنا ضروری ہے۔ اس گھس بیٹھیے کالم نگار کا کام صرف اور صرف
اپنی جماعت کا امیج بہتر بنانا ہوتا ہے، اس لیے وہ سیاسی تجزیہ کاری کی آڑ
میں تنظیمی پروپیگنڈا کررہا ہوتا ہے۔
ہم سیاسی تجزیہ نگاروں کو تین خانوں میں تقسیم کرسکتے ہیں، ایک وہ جو
واقعتا کالم نگار ہیں مگر واضح طور پر سیاسی وابستگی رکھتے ہیں۔ دوسری قسم
وہ ہے جو بنیادی طور پر کالم نگار نہیں ہیں، صرف تنظیمی دباؤ کی وجہ سے
اخبارات پر مسلط ہیں، تیسری قسم وہ ہے جوسکہ بند کالم نگار بھی ہیں اور
غیرجانبداری کے ساتھ سیاسی تجزیہ بھی کرتے ہیں۔ گوکہ ایسے لوگ بہت کم ہیں
مگر انہی کی وجہ سے کالم نگاری کا بھرم قائم ہے۔ اخبارات کی مجبوری کا تو
ذکر اوپر کرچکا ہوں اگر وہ چاہیں تب بھی ’’پیڈکالم نگاروں‘‘ سے جان چھڑانا
ان کے لیے آسان نہیں ہے، البتہ اگر قارئین چاہیں تو وہ ان سے چھٹکارا
پاسکتے ہیں، نام لکھنے کی ضرورت نہیں اخبار پڑھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ
کون سا کالم نگار ایجنڈے پر کام کرنے والا اور کون سا غیرجانبدار ہے، بس آپ
صرف یہ کریں کہ کسی بھی کالم نگار کی بات پر آنکھ بند کرکے ہاں نہ کردیا
کریں۔ |