22۔دسمبر 2012کو پروفیسر ڈاکٹر
سید حنیف احمد نقوی نے داعی ءاجل کو لبیک کہا۔موت کے بے رحم ہاتھوں علم
وادب کا ایک اور خورشید غروب ہو گیا ۔ بیس سے زائد کتب کے مصنف اس بے مثال
ادیب نے پوری دنیا میں اپنی ادبی کا مرانیوں کے جھنڈ ے گاڑ دئیے۔ان کے کئی
اہم اور وقیع مقالات کے دنیا کی بڑی زبانوں میں تراجم ہوئے اور ان کو ممتاز
علمی اور ادبی مجلات میں شائع کیاگیا۔ اردو تنقید و تحقیق کے ہمالہ کی ایک
سربہ فلک چوٹی موت کے بے رحم ہاتھوں سے دیکھتے ہی دیکھتے سہسوان (ضلع
بدایون ،بھارت ) میں زمیں بوس ہو گئی۔اردو تنقید و تحقیق کو معیار اور وقار
کی رفعت سے آشنا کرنے والا حریت فکر کا دلیر مجاہد اب ہمارے درمیان
موجودنہیں رہا۔عالمی سطح پر اردو تنقید و تحقیق کو بلند ترین درجہ ءا ستناد
اور وقیع ترین مقام ثقاہت پر فائز کرنے والا ایک زیرک تخلیق کار ،وسیع
المطالعہ ادیب ،یگانہءروزگار فاضل ،انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا علم
بردار اور عالمی ادبیات کا زندہ دائرة المعارف راہی ءملک عدم ہو گیا ۔پروفیسر
ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے اردو تنقیدو تحقیق کی اسی روایت کو پروان
چڑھایا جسے رشید حسن خان،ڈاکٹر نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیر سیفی ،ڈاکٹر
رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر محمد ریاض اور ڈاکٹر صابر کلوروی نے خون جگر سے
سینچا۔علم و ادب کا یہ دبستان اب ماضی کا حصہ بن چکا ہے ۔زمین نے کتنے بڑے
آسمان اپنے دامن میں چھپا لیے ہیں ،اس کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔یہ
سب اہل کمال علم وادب کے خورشید جہاں تاب تھے جن کی تابانیوں سے اکناف عالم
کا گو شہ گوشہ منور ہو گیا۔علم و ادب ،تہذیب و ثقافت ،تحقیق و تنقید ،تخلیق
ادب و تاریخ اور لسانیات کے اتنے بڑے دانش وروں کا ایک ایک کرکے ستاروں کے
مانند غروب ہو جانا ایک بہت بڑا سانحہ ہے ۔ان کی وفات سے اتنا بڑا خلا پیدا
ہو گیا ہے جو کبھی پر نہیں ہو سکتا ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی 17۔اکتوبر 1936کو بدایوں (اتر پردیش ۔بھارت
)میں پیدا ہوئے ۔وہ صحیح معنوں میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی ایک قابل
تقلید مثال تھے ۔اپنے آبائی گاﺅں سہسوان سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد
وہ مزید تعلیم کے لیے اجین(Ujjain)میں واقع وکرم یو نیورسٹی (Vikram
Univetrsity )پہنچے ۔ایک فطین طالب علم کی حیثیت سے انھوں نے اس جامعہ میں
بھی ا پنی صلاحیتوں کا لوہا منوایااور ہر امتحان میں پہلی پو زیشن اور درجہ
اول حاصل کر کے پاس کیا ۔انھوں نے گریجویشن 1959میں کیا اور اس کے بعد پو
سٹ گریجویشن 1961میں کیا۔ان کی بے مثال تعلیمی کارکردگی ایک شاندار ریکارڈ
ہے ۔پی ایچ۔ڈی کی ڈگری انھوں نے 1963میں حاصل کی ۔انھوں نے اس جامعہ میں کا
میابی کے جو عظیم الشان ریکاڑد قائم کیے ان میں کوئی ان کا شریک و سہیم
نہیں ۔آج بھی ان کی تعلیم کامرانیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
1970میںپروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے بنارس ہند ویونیورسٹی میں
تدریسی خدمات کا آغاز کیا۔1973میں انھوں نے اسی جامعہ سے فار سی زبان و ادب
ایم۔اے کیا اور پہلی پو زیشن اور درجہ اول میں کامیابی حاصل کرکے اپنی
فقیدالمثال کامرانیوں کے نئے باب رقم کیے ۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں اردو
،فارسی اور عربی شعبے کا قیام 1916میں عمل میں لایا گیا ۔ا س کے بعد
1973میں اردو زبان و ادب کا ایک الگ شعبہ بنا یا گیا ۔وہ سال 2000کے ا
ختتام تک اس جامعہ سے وابستہ رہے اور ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے صدر شعبہ
ار دو کے منصب جلیلہ پر فائزہوئے ۔
اردو لسانیات اور غالبیات کے موضوع پر پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی
اور پروفیسر ڈاکٹر نثاراحمدقریشی کے خیالات ایک جیسے تھے ۔دونوں دانش ور
ادب کو عصر ی آگہی سے متمتع کرنے کے متمنی تھے ۔جدید لسانیات کے موضوع پر
ان دونوں محققین نے جوقابل قدر کام کیا ہے وہ تاریخ ادب کااہم باب ہے ۔پروفیسر
ڈاکٹر نثاراحمد قریشی کے ساتھ ان کے علمی ر وابط گزشتہ چار عشروں پر محیط
تھے ۔فرانسیسی ماہرین لسانیات کے افکار پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی ۔خاص
طور پر سوسئیر ،ژاک دریدا ، ژٓک لاکاں ،رولاں بارتھ اور فوکو کے افکار کی
جو لانیوں کو افکار تازہ کی ایک ایسی صورت سے تعبیر کرتے جس کے وسیلے سے
جہان تازہ تک رسائی کے امکانات مو جود ہیں ۔1995میں جب ڈاکٹر نثار احمد
قریشی الازہر (قاہرہ)میں تدریسی خدمات پر مامور تھے تو ان کے کئی بین
الاقوامی لیکچرز ہوئے جنھیں دنیا کی اہم جامعات میں پیش کیا گیا ۔ان اہم
لیکچرز کو پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے فروغ علم و ادب کے سلسلے
میں سنگ میل قرار دیا اور ان کی بہت پذیرائی کی ۔یہ ان کی علم دوستی اور
ادب پروری کی اعلیٰ مثا ل ہے ۔اردو زبان و ادب کی فاصلاتی تدریس کے سلسلے
میں وہ بہت پر جوش تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ اردو زبان کو دنیا کی مقبول زبان
بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تدریس پر توجہ دی جائے ۔ عالمی شہرت کے
حامل نامور پاکستانی ادیب ،ماہر تعلیم ،نقاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر
نثاراحمدقریشی نے اردو کی فاصلاتی تدریس کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا
رکھا تھا ۔ان کے مرتب کیے ہوئے اسباق کا پوری دنیا میں خیر مقدم کیا گیا ۔یہ
اسباق ابتدائی جماعتوں سے لے کر پی ایچ ۔ڈی سطح تک کے لیے ہیں۔پوری دنیا
میں اردو کے اساتذہ اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان اسباق سے
ضرور استفادہ کریں ۔ دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی میں ان
ادبی یونٹس کی بدولت اہم کا میابیاں نصیب ہوئی۔پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد
نقوی نے بھی اس موضوع پر ڈاکٹر نثاراحمد قریشی کی مساعی کو قدر کی نگاہ سے
دیکھا ۔ٍپاکستان میں ان کی تمام تصانیف کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جاتا ہے
اور ہزاروں تشنگان علم ان سے فیض یاب ہوتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد
نقوی کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
(1)شعرائے ارد و کے تذکرے نکات الشعرا سے گلشن بے خا ر تک ،1976 (2)رجب علی
بیگ سرور :چند تحقیقی مباحث 1991، ( 3)رائے بینی نرائن دہلوی :سوانح اور
ادبی خدمات ،1997، ۰ (4)مرزا غالب کے پنج آہنگ ،1997، ( 5)انتخاب رجب علی
بیگ سرور ،1988
ڈاکٹر بشیر سیفی کی طرح پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے بھی تاریخ ادب
اردو کے سلسلے میں اردو تذکروں کو بہت اہم قرار دیا ۔اردو میں تذکرہ نویسی
کا آغاز فارسی ادب کے زیر اثر ہوا ۔اہل عرب کے نزدیک تذکرہ کو گنجینہءمعانی
کے طلسم کی حیثیت حاصل ہے ۔اہل علم و دانش نے زمانہ قدیم سے تذکرہ نویسی کو
شعار بنائے رکھا۔جو کچھ ان کے دل پر گزرتی اورجو باتیں کے حافظے میں محفوظ
رہ جاتیں وہ اسے زیب قرطاس کرنے میں کبھی تامل نہ کرتے ۔وہ اپنے معاصرین کو
ذکر کرتے ،انھیں یاد کرتے ،ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور ان کی تخلیقی
فعالیت پر اپنی رائے دیتے ،ادبی نشستوں اور محافل اور مشاعروں کی یاداشتیں
احاطہ ءتحریر میں لاتے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری اور تخلیقات کو بھی
لکھ کر محفوظ کرتے جاتے ۔اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بیاض نویسی اور تذکرہ
نویسی کا تعلق زمانہ قدیم سے ہے اور اس کی افادیت آج بھی مسلمہ ہے ۔یہ کہنا
بے جا نہ ہو گا کہ ادیبوں کی بیاضیں ،یاداداشتیں ،منتشر اورا ق اور کتاب
زیست کے واقعا ت پر مبنی تحریریں ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی تذکروں کی شکل
میں ایک جامع صورت میں ہمارے سامنے مو جودہیں ۔ان تذکروں کے معجز نما اثر
سے جدید دور کے محقق نے ید بیضا کا معجزہ دکھایااور تاریخ ادب کی کئی گم
شدہ کڑیا ں ملا کرقاری کو تاریخی حقائق اور ادبی واقعات کے ادراک کے قابل
بنایا۔اردو تذکرہ نویسی پر جو وقیع اور مستند تحقیقی کام پروفیسر ڈاکٹر سید
حنیف احمد نقوی نے کیا ہے وہ انھیں اپنے عہد کے محققین میں منفرد اورممتاز
مقام عطا کرتا ہے ۔اردو ادب کے وہ طالب علم جو صدیوں سے اندھیروں میں ٹامک
ٹوئیے مارتے پھرتے تھے ان کونشان منزل مل گیا ۔پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد
نقوی نے اپنی تحقیقی کامرانیوں سے ادبی تحقیق کو نئی جہت عطا کی۔انھیں اس
بات کا قلق تھا کہ صحت زبان پر ستم ڈھانے والوں نے تحقیق و تنقید کو
پشتارہءاغلاط بنا دیاہے ۔وہ حریت فکر کے مجاہد تھے ،انھوں نے تما م زندگی
فروغ علم و ادب کے لیے وقف کردی اور ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہے ۔وہ
زندگی کی اقدار عالیہ کو پروان چڑھانے کی تمنا کرتے تھے ۔ان کی زندگی بے
لوث محبت ،ایثار ،قناعت ،دردمندی ،سب کے لیے مسرت کے مواقع کی فراہمی ،حق
گوئی و بے باکی اور انسانی ہمدردی کی شاندار مثا ل تھی ۔انھی اوصاف کی
بدولت ان کی زندگی میں نکھار پیدا ہوااور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے جذبہ
میں فولادی قوت پیدا ہوئی ۔زندگی جو اپنی اصلیت کے اعتبار سے جوئے شیر و
تیشہ و سنگ گراں کی ایک مشقت طلب صور ت ہے اس کے غیر مختتم مسائل سے عہدہ
بر آ ہونے کے لیے انھوں نے ہمیشہ صبر و تحمل اور اخلاق و اخلاص کو مقیاس
العمل قرار دیا۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ جب تک دنیا میںانسانیت کو
انصاف ،راست گوئی اور روزگار کے مواقع مہیا نہیں کیے جاتے اس وقت تک
معاشرتی زندگی کو امن و سکون کا گہوارہ نہیں بنایا جا سکتا۔وہ احترام
انسانیت کے قائل تھے ۔تخلیق ادب میں انھوں نے ہمیشہ ا س بات کاخیال رکھاکہ
ادب کو اخلاقیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے ۔ایک با کردار ،با ضمیر اور
بااخلاق ادیب مادی زندگی کی آلودگی سے اپنا دامن بچا کر ہو س زر اور جلب
منفعت کو اپنے پائے استقامت سے ٹھو کر مارتا ہے ۔ادب میں وہ مادیت کے بجائے
روحانیت کی اہمیت پر زیادہ توجہ دیتے تھے اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ روحانیت
کے اعجاز سے فکر و نظر کی کایا پلٹ جاتی ہے اور انسانیت کے احترام او ر
تقدیس کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر ان کی گہری
نظر تھی ۔تاریخی اعتبار سے یہ بات واضح ہے کہ 1857کے بعد بر عظیم میں مغربی
تہذیب و تمدن اور مغربی تعلیم کی وجہ سے اخلاقی اور روحانی اقدار کو طاق
نسیاں کی زینت بنادیا گیا ۔اس روش کے مسموم اثرات سے تا حال گلو خلاصی نہیں
ہو سکی ۔ مادی دور کی آلائشیں افراد کو پستیوں کی جانب دھکیل دیتی ہیں ،ان
اعصاب شکن حالات میں روحانیت ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے اور افراد کو
پریشاں حالی اور درماندگی سے نجات دلا کر ارفع مقاصد کے حصول پر مائل کرتی
ہے ۔موجودہ دور کاالمیہ یہ ہے کہ چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ادیبوں کی
ذاتی مجبوریوں اور مفادات کے باعث تخلیق ادب میں رو حانیت،دیانت اور
اخلاقیات کو بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے
کہ تخلیق فن کا عمل بھی مصلحتوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔گلشن ادب میں لفاظ
حشرات سخن کی چیرہ دستیوں نے رتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔چربہ ساز ،سارق اور
کفن دزد قماش کے لوگوں نے تحقیق کو بازیچہءاطفال بنا دیا ہے ۔ایسے عناصر کے
خلاف انھوں نے قلم بہ کف مجاہد کاکردا ادا کیا۔ اپنی عملی زندگی میں تیشہ
ءحرف سے حریت فکر کی ر اہ میں حائل فصیل مکر کو منہدم کرنے میں انھوں نے
کبھی تامل نہ کیا ۔اردو ادب میں ایسے جری تخلیق کار اب بہت کم باقی رہ گئے
ہیں ۔
لوح مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
تخلیق اور اس کے لا شعور ی محرکات کے بارے میں ان کا ایک واضح انداز فکر
تھا ۔وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ تمام علامتوں اور تمثالوں کے سوتے
انسانی لا شعور ہی سے پھوٹتے ہیں۔جہاں تک روحانیت کے ہمہ گیر اثرات کا تعلق
ہے وہ زندگی کے تما م شعبوں کا احاطہ کرتی ہے ۔ان کی تخلیقی تحریریں پڑھ کر
یہ احساس قوی ہو جاتا ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میںوہ خون بن کے رگ سنگ میں
اترنے کی سعی کرتے ہیں۔تخلیق ادب میں علامتی اظہار کی اہمیت مسلمہ ہے ۔اس
حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علامتی اظہار کی بو قلمونی اور مسحور
کن دل کشی کو رو بہ عمل لا کر ایک زیرک تخلیق کار وجدانی کیفیات کو لاشعوری
محرکات سے ہم آہنگ کر دیتا ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی کے اسلوب
میں لا شعور کے جملہ محرکات کو بہ طریق احسن پیش کیا گیا ہے.ان کی
تحریریںقاری کو زندگی کی حقیقی معنویت سے آشنا کرتی ہیں اور اس کی وجہ سے
جہد و عمل کی متعدد نئی صورتیں سامنے آتی ہیں ۔ان کی تحقیق سائنسی انداز
فکر کی مظہر ہے اس کے اعجاز سے تخمین و ظن کے بجائے ٹھوس حقائق تک رسائی کا
یقین ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی عالمانہ تنقید و تجزیہ پڑھ کر
قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ان کی تحریریں پڑھ کر
ذہنی بیداری پیدا ہوتی ہے اور ایک ایسا رد عمل پیدا ہوتا ہے جو جہد و عمل
اور گہرے غور و خوض کا نقیب ثابت ہو تا ہے ۔ ۔انھوں نے تخلیقی عمل اور اس
کے لا شعوری محرکات کو اشاریت کی صورت میں اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ہے
۔اپنے عہد کے حالات و واقعات ،نشیب و فراز ،ارتعاشات ،تہذیب و معاشرت اور
سماج کے بارے میں انھوں نے نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ اپنا مافی
الضمیر بیان کیا ہے ۔ادب کی جمالیاتی اقدار کووہ بہ نظر تحسین دیکھتے تھے ۔
پاکستان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو وہ قدر
کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔وہ ادب کے وسیلے سے دنیا بھر کی اقوم کوقریب تر
لانے کے داعی تھے ۔ پاکستانی ادیبوں سے انھوں جو عہد وفا استوار کیا تمام
زندگی تپاک جاں سے اس پر عمل کیا۔پاکستان سے شائع ہونے والے علمی و ادبی
مجلات کاوہ باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے ۔ان کی وفات پر پاکستان کے علمی و
ادبی حلقوں نے
اپنے جذبات حزیں کااظہار کیا ہے ۔ایک بے خو ف صدا مہیب سناٹوں کی بھینٹ چڑھ
گئی ۔اردو ادب کا ہنستا بولتا چمن دائمی خاموشی اختیار کر گیا۔ان کی یاد
میں ہر دل سوگوار ہے اور ہر آنکھ اشک بار ہے ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں
Ghulam Ibn-e-Sultan 22۔دسمبر 2012کو پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے
داعی ءاجل کو لبیک کہا۔موت کے بے رحم ہاتھوں علم وادب کا ایک اور خورشید
غروب ہو گیا ۔ بیس سے زائد کتب کے مصنف اس بے مثال ادیب نے پوری دنیا میں
اپنی ادبی کا مرانیوں کے جھنڈ ے گاڑ دئیے۔ان کے کئی اہم اور وقیع مقالات کے
دنیا کی بڑی زبانوں میں تراجم ہوئے اور ان کو ممتاز علمی اور ادبی مجلات
میں شائع کیاگیا۔ اردو تنقید و تحقیق کے ہمالہ کی ایک سربہ فلک چوٹی موت کے
بے رحم ہاتھوں سے دیکھتے ہی دیکھتے سہسوان (ضلع بدایون ،بھارت ) میں زمیں
بوس ہو گئی۔اردو تنقید و تحقیق کو معیار اور وقار کی رفعت سے آشنا کرنے
والا حریت فکر کا دلیر مجاہد اب ہمارے درمیان موجودنہیں رہا۔عالمی سطح پر
اردو تنقید و تحقیق کو بلند ترین درجہ ءا ستناد اور وقیع ترین مقام ثقاہت
پر فائز کرنے والا ایک زیرک تخلیق کار ،وسیع المطالعہ ادیب ،یگانہءروزگار
فاضل ،انسانیت کے وقار اور سر بلندی کا علم بردار اور عالمی ادبیات کا زندہ
دائرة المعارف راہی ءملک عدم ہو گیا ۔پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے
اردو تنقیدو تحقیق کی اسی روایت کو پروان چڑھایا جسے رشید حسن خان،ڈاکٹر
نثار احمد قریشی ،ڈاکٹر بشیر سیفی ،ڈاکٹر رحیم بخش شاہین،ڈاکٹر محمد ریاض
اور ڈاکٹر صابر کلوروی نے خون جگر سے سینچا۔علم و ادب کا یہ دبستان اب ماضی
کا حصہ بن چکا ہے ۔زمین نے کتنے بڑے آسمان اپنے دامن میں چھپا لیے ہیں ،اس
کے تصور ہی سے کلیجہ منہ کو آتا ہے ۔یہ سب اہل کمال علم وادب کے خورشید
جہاں تاب تھے جن کی تابانیوں سے اکناف عالم کا گو شہ گوشہ منور ہو گیا۔علم
و ادب ،تہذیب و ثقافت ،تحقیق و تنقید ،تخلیق ادب و تاریخ اور لسانیات کے
اتنے بڑے دانش وروں کا ایک ایک کرکے ستاروں کے مانند غروب ہو جانا ایک بہت
بڑا سانحہ ہے ۔ان کی وفات سے اتنا بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے جو کبھی پر نہیں
ہو سکتا ۔
مقدور ہو تو خاک سے پوچھوں کہ اے لئیم
تو نے وہ گنج ہائے گراں مایہ کیا کیے
پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی 17۔اکتوبر 1936کو بدایوں (اتر پردیش ۔بھارت
)میں پیدا ہوئے ۔وہ صحیح معنوں میں اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کی ایک قابل
تقلید مثال تھے ۔اپنے آبائی گاﺅں سہسوان سے ابتدائی تعلیم مکمل کرنے کے بعد
وہ مزید تعلیم کے لیے اجین(Ujjain)میں واقع وکرم یو نیورسٹی (Vikram
Univetrsity )پہنچے ۔ایک فطین طالب علم کی حیثیت سے انھوں نے اس جامعہ میں
بھی ا پنی صلاحیتوں کا لوہا منوایااور ہر امتحان میں پہلی پو زیشن اور درجہ
اول حاصل کر کے پاس کیا ۔انھوں نے گریجویشن 1959میں کیا اور اس کے بعد پو
سٹ گریجویشن 1961میں کیا۔ان کی بے مثال تعلیمی کارکردگی ایک شاندار ریکارڈ
ہے ۔پی ایچ۔ڈی کی ڈگری انھوں نے 1963میں حاصل کی ۔انھوں نے اس جامعہ میں کا
میابی کے جو عظیم الشان ریکاڑد قائم کیے ان میں کوئی ان کا شریک و سہیم
نہیں ۔آج بھی ان کی تعلیم کامرانیوں کو رشک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے ۔
1970میںپروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے بنارس ہند ویونیورسٹی میں
تدریسی خدمات کا آغاز کیا۔1973میں انھوں نے اسی جامعہ سے فار سی زبان و ادب
ایم۔اے کیا اور پہلی پو زیشن اور درجہ اول میں کامیابی حاصل کرکے اپنی
فقیدالمثال کامرانیوں کے نئے باب رقم کیے ۔ بنارس ہندو یونیورسٹی میں اردو
،فارسی اور عربی شعبے کا قیام 1916میں عمل میں لایا گیا ۔ا س کے بعد
1973میں اردو زبان و ادب کا ایک الگ شعبہ بنا یا گیا ۔وہ سال 2000کے ا
ختتام تک اس جامعہ سے وابستہ رہے اور ترقی کے مدارج طے کرتے ہوئے صدر شعبہ
ار دو کے منصب جلیلہ پر فائزہوئے ۔
اردو لسانیات اور غالبیات کے موضوع پر پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی
اور پروفیسر ڈاکٹر نثاراحمدقریشی کے خیالات ایک جیسے تھے ۔دونوں دانش ور
ادب کو عصر ی آگہی سے متمتع کرنے کے متمنی تھے ۔جدید لسانیات کے موضوع پر
ان دونوں محققین نے جوقابل قدر کام کیا ہے وہ تاریخ ادب کااہم باب ہے ۔پروفیسر
ڈاکٹر نثاراحمد قریشی کے ساتھ ان کے علمی ر وابط گزشتہ چار عشروں پر محیط
تھے ۔فرانسیسی ماہرین لسانیات کے افکار پر انھیں کامل دسترس حاصل تھی ۔خاص
طور پر سوسئیر ،ژاک دریدا ، ژٓک لاکاں ،رولاں بارتھ اور فوکو کے افکار کی
جو لانیوں کو افکار تازہ کی ایک ایسی صورت سے تعبیر کرتے جس کے وسیلے سے
جہان تازہ تک رسائی کے امکانات مو جود ہیں ۔1995میں جب ڈاکٹر نثار احمد
قریشی الازہر (قاہرہ)میں تدریسی خدمات پر مامور تھے تو ان کے کئی بین
الاقوامی لیکچرز ہوئے جنھیں دنیا کی اہم جامعات میں پیش کیا گیا ۔ان اہم
لیکچرز کو پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے فروغ علم و ادب کے سلسلے
میں سنگ میل قرار دیا اور ان کی بہت پذیرائی کی ۔یہ ان کی علم دوستی اور
ادب پروری کی اعلیٰ مثا ل ہے ۔اردو زبان و ادب کی فاصلاتی تدریس کے سلسلے
میں وہ بہت پر جوش تھے ۔وہ چاہتے تھے کہ اردو زبان کو دنیا کی مقبول زبان
بنانے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی تدریس پر توجہ دی جائے ۔ عالمی شہرت کے
حامل نامور پاکستانی ادیب ،ماہر تعلیم ،نقاد اور محقق پروفیسر ڈاکٹر
نثاراحمدقریشی نے اردو کی فاصلاتی تدریس کو اپنی زندگی کا نصب العین بنا
رکھا تھا ۔ان کے مرتب کیے ہوئے اسباق کا پوری دنیا میں خیر مقدم کیا گیا ۔یہ
اسباق ابتدائی جماعتوں سے لے کر پی ایچ ۔ڈی سطح تک کے لیے ہیں۔پوری دنیا
میں اردو کے اساتذہ اپنے شاگردوں کو یہ مشورہ دیتے ہیں کہ وہ ان اسباق سے
ضرور استفادہ کریں ۔ دنیا بھر میں اردو زبان و ادب کے فروغ کی مساعی میں ان
ادبی یونٹس کی بدولت اہم کا میابیاں نصیب ہوئی۔پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد
نقوی نے بھی اس موضوع پر ڈاکٹر نثاراحمد قریشی کی مساعی کو قدر کی نگاہ سے
دیکھا ۔ٍپاکستان میں ان کی تمام تصانیف کا بہ نظر غائر مطالعہ کیا جاتا ہے
اور ہزاروں تشنگان علم ان سے فیض یاب ہوتے ہیں۔پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد
نقوی کی اہم تصانیف درج ذیل ہیں :
(1)شعرائے ارد و کے تذکرے نکات الشعرا سے گلشن بے خا ر تک ،1976 (2)رجب علی
بیگ سرور :چند تحقیقی مباحث 1991، ( 3)رائے بینی نرائن دہلوی :سوانح اور
ادبی خدمات ،1997، ۰ (4)مرزا غالب کے پنج آہنگ ،1997، ( 5)انتخاب رجب علی
بیگ سرور ،1988
ڈاکٹر بشیر سیفی کی طرح پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی نے بھی تاریخ ادب
اردو کے سلسلے میں اردو تذکروں کو بہت اہم قرار دیا ۔اردو میں تذکرہ نویسی
کا آغاز فارسی ادب کے زیر اثر ہوا ۔اہل عرب کے نزدیک تذکرہ کو گنجینہءمعانی
کے طلسم کی حیثیت حاصل ہے ۔اہل علم و دانش نے زمانہ قدیم سے تذکرہ نویسی کو
شعار بنائے رکھا۔جو کچھ ان کے دل پر گزرتی اورجو باتیں کے حافظے میں محفوظ
رہ جاتیں وہ اسے زیب قرطاس کرنے میں کبھی تامل نہ کرتے ۔وہ اپنے معاصرین کو
ذکر کرتے ،انھیں یاد کرتے ،ان کی زندگی کے نشیب و فراز اور ان کی تخلیقی
فعالیت پر اپنی رائے دیتے ،ادبی نشستوں اور محافل اور مشاعروں کی یاداشتیں
احاطہ ءتحریر میں لاتے اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی شاعری اور تخلیقات کو بھی
لکھ کر محفوظ کرتے جاتے ۔اس سے یہ ثابت ہو جاتا ہے کہ بیاض نویسی اور تذکرہ
نویسی کا تعلق زمانہ قدیم سے ہے اور اس کی افادیت آج بھی مسلمہ ہے ۔یہ کہنا
بے جا نہ ہو گا کہ ادیبوں کی بیاضیں ،یاداداشتیں ،منتشر اورا ق اور کتاب
زیست کے واقعا ت پر مبنی تحریریں ارتقائی مراحل طے کرتی ہوئی تذکروں کی شکل
میں ایک جامع صورت میں ہمارے سامنے مو جودہیں ۔ان تذکروں کے معجز نما اثر
سے جدید دور کے محقق نے ید بیضا کا معجزہ دکھایااور تاریخ ادب کی کئی گم
شدہ کڑیا ں ملا کرقاری کو تاریخی حقائق اور ادبی واقعات کے ادراک کے قابل
بنایا۔اردو تذکرہ نویسی پر جو وقیع اور مستند تحقیقی کام پروفیسر ڈاکٹر سید
حنیف احمد نقوی نے کیا ہے وہ انھیں اپنے عہد کے محققین میں منفرد اورممتاز
مقام عطا کرتا ہے ۔اردو ادب کے وہ طالب علم جو صدیوں سے اندھیروں میں ٹامک
ٹوئیے مارتے پھرتے تھے ان کونشان منزل مل گیا ۔پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد
نقوی نے اپنی تحقیقی کامرانیوں سے ادبی تحقیق کو نئی جہت عطا کی۔انھیں اس
بات کا قلق تھا کہ صحت زبان پر ستم ڈھانے والوں نے تحقیق و تنقید کو
پشتارہءاغلاط بنا دیاہے ۔وہ حریت فکر کے مجاہد تھے ،انھوں نے تما م زندگی
فروغ علم و ادب کے لیے وقف کردی اور ستائش و صلے کی تمنا سے بے نیاز رہے ۔وہ
زندگی کی اقدار عالیہ کو پروان چڑھانے کی تمنا کرتے تھے ۔ان کی زندگی بے
لوث محبت ،ایثار ،قناعت ،دردمندی ،سب کے لیے مسرت کے مواقع کی فراہمی ،حق
گوئی و بے باکی اور انسانی ہمدردی کی شاندار مثا ل تھی ۔انھی اوصاف کی
بدولت ان کی زندگی میں نکھار پیدا ہوااور اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کے جذبہ
میں فولادی قوت پیدا ہوئی ۔زندگی جو اپنی اصلیت کے اعتبار سے جوئے شیر و
تیشہ و سنگ گراں کی ایک مشقت طلب صور ت ہے اس کے غیر مختتم مسائل سے عہدہ
بر آ ہونے کے لیے انھوں نے ہمیشہ صبر و تحمل اور اخلاق و اخلاص کو مقیاس
العمل قرار دیا۔ وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ جب تک دنیا میںانسانیت کو
انصاف ،راست گوئی اور روزگار کے مواقع مہیا نہیں کیے جاتے اس وقت تک
معاشرتی زندگی کو امن و سکون کا گہوارہ نہیں بنایا جا سکتا۔وہ احترام
انسانیت کے قائل تھے ۔تخلیق ادب میں انھوں نے ہمیشہ ا س بات کاخیال رکھاکہ
ادب کو اخلاقیات کا آئینہ دار ہونا چاہیے ۔ایک با کردار ،با ضمیر اور
بااخلاق ادیب مادی زندگی کی آلودگی سے اپنا دامن بچا کر ہو س زر اور جلب
منفعت کو اپنے پائے استقامت سے ٹھو کر مارتا ہے ۔ادب میں وہ مادیت کے بجائے
روحانیت کی اہمیت پر زیادہ توجہ دیتے تھے اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ روحانیت
کے اعجاز سے فکر و نظر کی کایا پلٹ جاتی ہے اور انسانیت کے احترام او ر
تقدیس کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔تاریخ اور اس کے مسلسل عمل پر ان کی گہری
نظر تھی ۔تاریخی اعتبار سے یہ بات واضح ہے کہ 1857کے بعد بر عظیم میں مغربی
تہذیب و تمدن اور مغربی تعلیم کی وجہ سے اخلاقی اور روحانی اقدار کو طاق
نسیاں کی زینت بنادیا گیا ۔اس روش کے مسموم اثرات سے تا حال گلو خلاصی نہیں
ہو سکی ۔ مادی دور کی آلائشیں افراد کو پستیوں کی جانب دھکیل دیتی ہیں ،ان
اعصاب شکن حالات میں روحانیت ید بیضا کا معجزہ دکھاتی ہے اور افراد کو
پریشاں حالی اور درماندگی سے نجات دلا کر ارفع مقاصد کے حصول پر مائل کرتی
ہے ۔موجودہ دور کاالمیہ یہ ہے کہ چند استثنائی مثالوں کو چھوڑ کر ادیبوں کی
ذاتی مجبوریوں اور مفادات کے باعث تخلیق ادب میں رو حانیت،دیانت اور
اخلاقیات کو بالعموم نظر انداز کر دیا جاتا ہے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے
کہ تخلیق فن کا عمل بھی مصلحتوں کا شکار ہو جاتا ہے ۔گلشن ادب میں لفاظ
حشرات سخن کی چیرہ دستیوں نے رتیں بے ثمر کر دی ہیں ۔چربہ ساز ،سارق اور
کفن دزد قماش کے لوگوں نے تحقیق کو بازیچہءاطفال بنا دیا ہے ۔ایسے عناصر کے
خلاف انھوں نے قلم بہ کف مجاہد کاکردا ادا کیا۔ اپنی عملی زندگی میں تیشہ
ءحرف سے حریت فکر کی ر اہ میں حائل فصیل مکر کو منہدم کرنے میں انھوں نے
کبھی تامل نہ کیا ۔اردو ادب میں ایسے جری تخلیق کار اب بہت کم باقی رہ گئے
ہیں ۔
لوح مزار دیکھ کر جی دنگ رہ گیا
ہر ایک سر کے ساتھ فقط سنگ رہ گیا
تخلیق اور اس کے لا شعور ی محرکات کے بارے میں ان کا ایک واضح انداز فکر
تھا ۔وہ اس بات پر زور دیتے تھے کہ تمام علامتوں اور تمثالوں کے سوتے
انسانی لا شعور ہی سے پھوٹتے ہیں۔جہاں تک روحانیت کے ہمہ گیر اثرات کا تعلق
ہے وہ زندگی کے تما م شعبوں کا احاطہ کرتی ہے ۔ان کی تخلیقی تحریریں پڑھ کر
یہ احساس قوی ہو جاتا ہے کہ تخلیق فن کے لمحوں میںوہ خون بن کے رگ سنگ میں
اترنے کی سعی کرتے ہیں۔تخلیق ادب میں علامتی اظہار کی اہمیت مسلمہ ہے ۔اس
حقیقت سے انکار نہیں کیا جا سکتا کہ علامتی اظہار کی بو قلمونی اور مسحور
کن دل کشی کو رو بہ عمل لا کر ایک زیرک تخلیق کار وجدانی کیفیات کو لاشعوری
محرکات سے ہم آہنگ کر دیتا ہے ۔پروفیسر ڈاکٹر سید حنیف احمد نقوی کے اسلوب
میں لا شعور کے جملہ محرکات کو بہ طریق احسن پیش کیا گیا ہے.ان کی
تحریریںقاری کو زندگی کی حقیقی معنویت سے آشنا کرتی ہیں اور اس کی وجہ سے
جہد و عمل کی متعدد نئی صورتیں سامنے آتی ہیں ۔ان کی تحقیق سائنسی انداز
فکر کی مظہر ہے اس کے اعجاز سے تخمین و ظن کے بجائے ٹھوس حقائق تک رسائی کا
یقین ہو جاتا ہے اور یہی وجہ ہے کہ ان کی عالمانہ تنقید و تجزیہ پڑھ کر
قاری کے فکر و نظر کو مہمیز کرنے میں مدد ملتی ہے ۔ان کی تحریریں پڑھ کر
ذہنی بیداری پیدا ہوتی ہے اور ایک ایسا رد عمل پیدا ہوتا ہے جو جہد و عمل
اور گہرے غور و خوض کا نقیب ثابت ہو تا ہے ۔ ۔انھوں نے تخلیقی عمل اور اس
کے لا شعوری محرکات کو اشاریت کی صورت میں اپنے فکر و فن کی اساس بنایا ہے
۔اپنے عہد کے حالات و واقعات ،نشیب و فراز ،ارتعاشات ،تہذیب و معاشرت اور
سماج کے بارے میں انھوں نے نہایت دردمندی اور خلوص کے ساتھ اپنا مافی
الضمیر بیان کیا ہے ۔ادب کی جمالیاتی اقدار کووہ بہ نظر تحسین دیکھتے تھے ۔
پاکستان میں اردو زبان و ادب کے فروغ کے لیے کی جانے والی کوششوں کو وہ قدر
کی نگاہ سے دیکھتے تھے ۔وہ ادب کے وسیلے سے دنیا بھر کی اقوم کوقریب تر
لانے کے داعی تھے ۔ پاکستانی ادیبوں سے انھوں جو عہد وفا استوار کیا تمام
زندگی تپاک جاں سے اس پر عمل کیا۔پاکستان سے شائع ہونے والے علمی و ادبی
مجلات کاوہ باقاعدگی سے مطالعہ کرتے تھے ۔ان کی وفات پر پاکستان کے علمی و
ادبی حلقوں نے اپنے جذبات حزیں کااظہار کیا ہے ۔ایک بے خو ف صدا مہیب
سناٹوں کی بھینٹ چڑھ گئی ۔اردو ادب کا ہنستا بولتا چمن دائمی خاموشی اختیار
کر گیا۔ان کی یاد میں ہر دل سوگوار ہے اور ہر آنکھ اشک بار ہے ۔
سب کہاں کچھ لالہ و گل میں نمایاں ہو گئیں
خاک میں کیا صورتیں ہوں گی کہ پنہاں ہو گئیں |