ہندو کی غلامی سے نجات اور دو قومی نظریہ

تحریر : محمداسلم لوھی

ہم چھوٹی چھوٹی باتوں پر پاکستان کو برا بھلا کہنے سے گریز نہیں کرتے لیکن پاکستان کی قیمت کااندازہ ان لوگوں سے پوچھنا چاہیئے جنہوں نے ایک آزاد فضا میں سانس لینے اور پاک سرزمین پر قدم رکھنے کے لیے اپنا سب کچھ قربان کردیا ۔ اس وقت میری مراد ایک ایسے عظیم انسان "مستقیم خان" سے ہے جو پیدا تو بھارت کے معروف شہر فیض آباد کے نواحی گاﺅں " پٹھان پروا " میں پیدا ہوئے ۔ یہ خالصتا مسلمانوں گاﺅں تھا جس میں رہنے والوں کی زیاد ہ تعداد اردو بولنے والے پٹھانوں کی تھی ۔ مستقیم خان 1946 میں فوج میں ایک سپاہی کی حیثیت سے بھرتی ہوگئے ابھی تربیت کے مراحل طے کئے ہی تھے کہ برصغیر پاک وہند میں دو قومی نظریے کی بنیاد پر ایک آزاد اور خود مختار ملک پاکستان وجود میں آنے کی خبریں سنی جانے لگیں ۔جہاں یہ خبر ہندوستان کے عام مسلمانوں کے لیے مسرت و انبساط کا باعث تھی وہاں مستقیم خان کے لیے نئی زندگی کی نوید لے کر آئی ۔اس کے باوجود کہ ان کے والدین بہن بھائی اور دیگر عزیز و اقارب بستی" پٹھان پروا " فیض آباد میں مدتوں سے آباد تھے اور خاندنی جائیداد بھی اسی علاقے میں تھی اچانک ان کے دل میں ایک آزاد وطن پاکستان میں رہنے کی امنگ جاگی ۔انہوں نے اس خواہش کا ذکر والدین سے کیا تو انہوںنے یہ کہتے ہوئے اجازت دینے سے انکار کردیا کہ اپنا گھر بار زمین جائیداد چھوڑ کر ایک اجنبی جگہ پر کون جاتاہے انہوں نے مستقیم خان کو سمجھایا کہ آپ کچھ بھی نہ کرو تب بھی یہاں آپ کو پیٹ بھر کر روٹی کھانے کو مل سکتی ہے لیکن سترہ اٹھارہ سالہ عمر کے اس نوجوان کی زندگی کا مقصد صرف ایک ہی تھا کہ ہم ہندوستان میں ہندو کی غلامی کرنے کی بجائے موت کو ترجیح دیتے ہیں ہمیں پیٹ بھر کر روٹی نہ بھی ملے ہمیں رہنے کو گھر نہ بھی میسر ہو ہمیں زندگی کی دیگر سہولتیں نہ بھی حاصل ہوں ہم پھر بھی پاکستان ضرور جائیں گے اور پاکستان کی پاکیزہ فضاﺅں میں آزادی سے سانس لیں گے ۔ مستقیم خان کے اس فیصلے سے والدین سخت ناراض تھے خاندان کے بزرگوں نے بھی سمجھایا بہن بھائی نے بھی منتیں کیں لیکن مستقیم خان کسی کو بتائے بغیر تن پر پہنے ہوئے کپڑوں کے ساتھ بھوکے پیاسے ٹرین پر بیٹھ کر پاکستان پہنچ گئے یہاں ان کا پہلا قیام شہر لاہور میں تھا اس وقت مستقیم خان پاکستان آرمی کی میڈیکل یونٹ میں صرف پانچ روپے ماہانہ پر ملازم ہوگئے دوران ملازمت بنوں کوہاٹ پشاور فرائض منصبی انجام دیتے رہے 1966ءمیں جب آپ فوج سے ریٹائر ہوئے تو ان کی پنشن صرف تین روپے ماہانہ مقرر ہوئی جس میں گھر کے اخراجات پورے کرنا ناممکن تھا اس لیے محنت مزدوری کا سلسلہ بھی جاری رہا کسی مہربان کے توسط سے 1969کو پی آئی اے میں لوڈر کی حیثیت سے ملازم ہوگئے اور 1994ءتک پی آئی اے میں خدمات انجام دیتے رہے ۔آزاد فضا میں سانس لینے کی خواہش کی بنا پر جہاں آپ کو دشوار گزار حالات میں سخت محنت و مشقت کرنی پڑی وہاں اللہ تعالی نے تین بیٹوں اور دو بیٹیوں کی نعمت سے بھی نوازا ۔پانچ وقت اللہ تعالی کے حضور جھکنے والا مستقیم خان بڑھاپے کی دہلیز پر پہنچتے ہی بیماریوں کی زد میں آنے لگا تنگ دستی اور معاشی بدحالی صحت مند انسان کو بھی بیمار کردیتی ہے اب انہیں پنشن کی صورت میں ملنے والی رقم 2012ءمیں 500 روپے تھی اس سے اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ وطن عزیز کی حفاظت کے لیے جان و مال کا نذرانہ پیش کرنے والے سرفروش کس قدر بدترین حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہوتے ہیں ماضی میں ریٹائر ہونے والے سرفروشوں کی داستانیں شاید اس سے بھی تلخ اور پریشان کن ہوں گی۔ مہنگائی اس بدترین دور میں پانچ سو روپے میں گزر اوقات کرنے کا کوئی تصور بھی کرسکتا ہے نہ جانے مستقیم خان جیسے صابر و شاکر کتنے ہی فوجی جوان بڑھاپے اور بیماریوں کے ساتھ ساتھ معاشی بدحالی ، غربت و افلاس سے دست بدست جنگ کررہے ہوں ۔ایک آزاد وطن پاکستان میں سانس لینے کے آرزو مند مستقیم خان 11 دسمبر 2012ءکو رات آٹھ بجے سی ایم ایچ ہسپتال میں اپنے خالق حقیقی سے جاملے ۔یوں حضرت قائداعظم محمد علی جناح کی قیادت کے دیئے ہوئے دو قومی نظریے کی بنیاد پر اپنا گھر بار ،والدین اور خاندان کو چھوٹر پاکستان آنے والے مستقیم خان کی زندگی کا سفر بھی تمام ہوا ۔آزادی کی قیمت مستقیم خان سے زیادہ اور کون جانتا ہوگا جو زندگی بھر صرف اور صرف ہند و کی غلامی سے چھٹکارا حاصل کرنے کا عزم لیے اپنوں کی محبت کو ترستا اور تڑپتا رہا اور شکوے کاایک لفظ بھی اپنی زبان پر نہ لایا ۔ بارہا مرتبہ والدین اور بہن بھائیوں نے بھارت واپس آنے پر مجبور بھی کیا لیکن وہ مرتے دم تک اس عہد پر پختہ رہے کہ آدھی روٹی کھاکر گزارہ کر لوں گا لیکن ہندو کی غلامی نہیں کروں گا بے شک مجھے پاکستان میں خاکروب کی نوکری ہی کیوں نہ کرنی پڑے۔آج وہ مستقیم خان مٹی میں دفن ہوچکا ہے لیکن اس کا عزم اور حوصلہ آج بھی 18 کردڑ پاکستانیوںکے لیے مشعل راہ ہے مستقیم خان جیسے لوگ پاکستانی قوم کے لیے ایک مثال ہیں جنہوں نے اپنے لہو سے پاکستان کی بنیادوں کو سینچا ہے آئیے عہد کریں کہ ہم سب پاکستانی اپنے پیارے وطن پاکستان کو اسی طرح پیار کریں اور اسے اپنی محنت لگن اور خداداد صلاحیتوں سے دنیا کا عظیم اور ترقی یافتہ ملک بنائیں ۔ بدترین حکمرانوں اور کرپشن بیورو کریسی اور ضمیر فروش سیاست دانوں کے باوجود ہمیں عہد کرنا ہے کہ ہم ہندو کی غلامی پر موت کو ترجیح دیتے ہوئے قائداعظم محمد علی جناح کے دیئے ہوئے وطن پاکستان کی حفاظت دل و جان سے کریں گے ۔
Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 114086 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.