عوامی حکمرانی کا دعوی کرنے
والے حکمران اس ملک کے کمی کمینوں کے خون پسینے کی کمائی پر عیاشی کرنا
اپنا حق سمجھتے ہیں اور انہی کمی کمینوں کے نام پر فنڈز نکالتے ہیں بین
الاقوامی خیراتوں سے لیکر قرضوں تک اس ملک کے جانوروں سے بدتر زندگی گزارنے
والے شہریوں کے نام پر لئے جاتے ہیں لیکن ان غریب غرباء کو اپنا حق بھی
نہیں دیا جاتا کسی زمانے میں مشرق وسطی کے شیخوں سے زکواة خیرات صدقات اسی
مد میں وصول کئے جاتے تھے پھر یہ سلسلہ ڈونرز اداروں اور یورپی ممالک تک
پہنچ گیا جہاں سے قرضے کمی کمینوں کی بہتری کیلئے لئے جاتے رہے لیکن نہ تو
اسلامی فلاحی عوامی اور جمہوری ملک کے غریب غرباء کی حالت بدلی اور نہ ہی
انہیں اپنا حق ملا-نعروں کی حد تک غیرت مند پاکستانی عوام کو ڈونرز کے
سامنے بھوکا ننگا بتاکر قرض خیرات صدقات اب بھی لئے جارہے ہیں اور یہ امداد
اب بھی اپنی کروڑوں کی گاڑیوں پر خرچ کررہے ہیں اور غریب غرباء کو یہ
حکمران یقین دلاتے ہیں کہ ہم ہی تم لوگوں کے نجات دہندہ ہیں - گدھوں کی طرح
کام کرنے والے زندہ باد اور مردہ باد کے نعرے لگاتے ہیں لیکن اپنے حق کیلئے
آواز نہیں نکال سکتے-
دو دن قبل راقم کی ملاقات پشاور پریس کلب میں لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ کے دو
ملازمین سے ہوئی ان میں ایک ناگمان کے علاقے کا رہنے والا گریجویٹ ہے جبکہ
دوسرے پجگی کا رہائشی ہے اور اس نے میٹرک تک تعلیم حاصل کی ہے دونوں نے
بتایا کہ وہ پریس کانفرنس کیلئے قرض رقم لیکر آئے ہیں کیونکہ ان دونوں
کوبیروزگار کردیا گیا ہے اور ابھی انصاف کے حصول کیلئے پریس کلب آئے ہیں
دونوں بمشکل چوبیس اور چھبیس سال کے عمر کے ہیں دونوں ہی کلاس فور کے
ملازمین کی حیثیت سے لائیو سٹاک ڈیپارٹمنٹ میں کام کررہے تھے ایک کا کام
دفتر میں چائے بنانا تھا جبکہ دوسرا کمی کمینوں پر مسلط بیورو کریسی کیلئے
سرکاری فارم سے ان کے گھر پر دودھ فراہم کرتا تھادونوں پشاور کے ڈومیسائل
رکھنے والے نوجوان ہیں دو سال قبل انہیں ڈیپارٹمنٹ میں ڈیلی ویجز ملازمین
کام مل گیا تھا دونوں اس بات پر خوش تھے کہ ایک تو ان کا روزگار شروع ہوگیا
دوسری انہیں ڈیپارٹمنٹ میں یہ کہا گیا تھا کہ اگر مستقبل میں کہیں مستقل
نوکریاں آئیں تو انہیں رکھ لیا جائیگا لیکن ایک ماہ قبل انہیں یہ کہہ کر
فارغ کردیا گیا کہ اب ان کی ضرورت نہیں دونوں کے ارمان خاک میں مل گئے
کیونکہ روزگار مستقل ہونے کے بجائے انہیں بیروزگار کردیا گیا بقول ان کے
محکمے کے اعلی عہدوں پر تعینات چار رکنی کمیٹی نے اپنے ہی علاقے سے تعلق
رکھنے والے نوجوانوں کے جعلی ڈومیسائل بنا کر انہیں تعینات کردیا جبکہ ان
بھرتی ہونیوالوں سے ایک ایک لاکھ روپے بھی لئے گئے ان دونوں نوجوانوں کے
بقول چونکہ وہ ایک لاکھ روپے ادا نہیں کرسکتے اسی باعث ان کا حق ہونے کے
بجائے انہیں بیروزگار کردیا گیا بیروزگار ہونیوالے ان دونوں نوجوانوں نے
مزید بتایا کہ ڈیپارٹمنٹ میں اٹھارہ ڈیلی ویجز ملازمین کے نام پر تنخواہیں
نکالی جارہی ہیں لیکن وہاں پر صرف پانچ ملازمین کام کررہے ہیں جن میں کچھ
انتظامی عہدے پر تعینات صاحب کے گھر میں چوکیداری کررہے ہیں او ر ان کا
تعلق قبائلی علاقہ باجوڑ ایجنسی سے ہے-ان ملازمین کا یہ بھی کہنا ہے کہ ان
اٹھارہ ملازمین کی فہرست خدا کی زمین پر اپنی بدمعاشی جمانے والے پارٹی کے
وزیر کو بھی دی گئی لیکن انہوں نے بھی حیرت انگیز طور پر خاموشی اختیار
کرلی اور اپنی آنکھیں بند اور کان بہرے کرلئے اسی باعث اب یہ دونوںنوجوان
انصاف کے حصول کیلئے میڈیا کی طرف آئے ہیں-راقم نے جب ان دونوں یہ سوال کیا
کہ دو سال تک ایک ہی ڈیپارٹمنٹ میں رہتے ہوئے تم دونوں نے کتنی ہی بے
قاعدگیاں دیکھی ہونگی تو تم نے میڈیا کے سامنے یہ بات کیوں نہیں کی جس کا
جواب دونوں کے پاس نہیں تھالیکن ساتھ میں یہ بھی کہا کہ اس وقت ہمارا
روزگار لگا تھا اسی وجہ سے ہم بات نہیں کرسکتے تھے اس سے اندازہ کیا جاسکتا
ہے کہ زندہ باد اور مردہ باد کرنے والوں کے جب اپنے مفاد پر ضرب پڑتی ہے تو
تب یہ لوگ احتجاج کرتے ہیں ورنہ دوسری صورت میں آنکھیں بندکرلی جاتی ہیں کہ
زیادتی کسی اور کیساتھ ہورہی ہیں اس لئے خاموشی ہی بہتر ہے اور یہی عمل ہم
سب کو تباہ کررہا ہے-
یہ صرف دو نوجوانوں کیساتھ ہونیوالی زیادتی نہیں بلکہ ملک اور خصوصا اس
صوبے کے ہر تیسرے نوجوان کا مسئلہ ہے اول تو یہاں روزگار ملنے سے رہا لیکن
اگر کہیں غلطی سے گریڈ سات کی سرکاری نوکری مل بھی جائے تو پھر ان کے ساتھ
ایسے ڈرامے کئے جاتے ہیں سب سے بڑا ڈرامہ جو اس ملک کے غریب عوام کیساتھ
حکمران کررہے ہیں وہ انہیں دی جانیوالی تنخواہیں ہیں حکومت نے مئی 2012 ء
میں کم از کم تنخواہ مزدور کیلئے آٹھ ہزار روپے مقرر کی لیکن سرکاری
ڈیپارٹمنٹس میں کام کرنے والے ان دونوں ملازمین کی طرح کتنے ہی ڈیلی ویجز
ہیں جنہیں حکومت اپنی ہی مقرر کردہ تنخواہ نہیں دے رہی ان دونوں نوجوانوں
کو ابتداء میں 5200روپے دئیے جاتے تھے جن میں سے دو سو روپے ڈیپارٹمنٹ کا
کیشیئر "دس خوشی"میں ان غریبوں سے لیتا اور بعد میں ان کی تنخواہ 6675ہوگئی
جو ان کی آخری تنخواہیں تھی اب حکمرانوں سے کوئی یہ پوچھے کہ جب تم لوگ خود
ہی اپنی ہی احکامات پر عملدرآمدنہیں کرتے تو پھر اس ملک میں کام کرنے والے
پرائیویٹ ادارے کس طرح قانونی تنخواہ اپنے ملازمین کو دے سکیں گے-مملکت
خداداد میں کمی کمینوں پر حکمرانی کرنے والوں اور ان کے میدان سیاست میں
نوزائیدہ بچوں کے بقول گذشتہ پانچ سالوں میں انہوں نے غریب غرباء کی حالت
بدل دی ہیں اور کمی کمین عیاشی کررہے ہیں حکمرانوں کی بات بھی صحیح ہے
کیونکہ مہنگائی امن وامان کی ابتر صورتحال لوڈشیڈنگ کرپشن بیروزگاری اور
ایزی لوڈ کے ہوتے ہوئے بھی اس ملک کے کمی کمین اگر دو وقت کی روٹی کھاتے
ہیں تو یہ بھی عیاشی ہیں کیونکہ ان کی تو کوشش ہے کہ انہیں بھوکا ننگا رکھ
کر خیرات صدقات اور زکواة لینے کیلئے زندہ رکھا جائے -
یہاں پر راقم کو حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کا ایک فرمان یاد آرہا ہے جس
میں بتایا گیا کہ غربت و افلاس بھی انسان کو کفر کی حد تک لے جاتی ہیں
مذکورہ بالانوجوان انصاف کے حصول کیلئے کہاں پر جائے کیونکہ ان غریبوں کے
پاس تو آنے جانے کیلئے کرایہ تک نہیں وکلاء کی فیس اور عدالتوں کے چکر ان
کی بس کی بات نہیں اب اگر یہ نوجوان ناامید ہو کر اپنے حق کیلئے اسلحہ
اٹھاتے ہیں یا پھر کسی تخریب کار کے ہتھے چڑھ جاتے ہیں تو پھر بھی انہی
نوجوانوں کو مورد الزام ٹھہرایا جاتا ہے کہ نوجوان طبقہ ملک میں تخریبی
کارروائیوں میں مصروف ہے حالانکہ اگر حق اور انصاف نہیں ملتا تو پھر کون
اپنے حق کیلئے خوار ہوتاہے ویسے بھی بقول شاعر "کون جیتا ہے تیرے زلف کے سر
ہونے تک " |