عالمی سطح پر مروج سنہ عیسوی کا
سال 2012ختم ہوا اور جاتے جاتے اتنے چرکے لگا گیا کہ پورا ملک نئے سال کی
آمد پرخوشی کے روائتی اظہار کے بجائے غم میں ڈوبا رہا۔گزرے سال کی سوگوار
شام نے نئے سال کی صبح کو بھی نمناک کردیا۔ صدر جمہوریہ، وزیر اعظم، لوک
سبھا اسپیکر، یو پی اے چیرپرسن اور مسلح افوا ج نے روائتی جشن نہیں منایا ۔ان
ہوٹلوں، کلبوں اور پارکوں میں رونقیں ناپید رہیں، جن میں لوگ جمع ہوکر سال
نو کا جشن مناتے تھے۔سرمستی کے بجائے غم کی چادرمیں لپٹے لوگوں نے صرف موم
بتیاں جلائیں، آنسو بہائے اور دعا کی کہ آنے والا سال محفوظ، پرسکون اور
مہذب ہو۔ بے اختیار ہمارا دل بھی چاہا کہ ان آرزوﺅ ںپر آمین کہہ دیں ، مگر
آشا کی کوئی کرن ایسی ابھرتی نظر نہیں آتی جس سے دل کو اطمینان ہو کہ شرکچھ
دب جائےگا اور خیر ابھر آئےگا اور ماحول طبقہ نسواں کےلئے محفوظ و مامون ہو
جائےگا۔ وجہ اس کی یہ کہ کوئی خواہش، کوئی آرزو، کوئی تمنا اس وقت تک بر
نہیں آتی جب تک اس کےلئے صحیح سوچ کے ساتھ صحیح سمت میں سفر کا آغاز نہ ہو۔
دہلی میں 16دسمبر(16/12) کو شہوانیت اور درندگی کا دل دہلادینے والا جو
اندوہناک واقعہ پیش آیا وہ اس اعتبار سے نادر ہے کہ اس نے پورے ملک کو دہلا
کر رکھ دیا،ورنہ جنسی جرائم کی خبریں توروز آتی رہتی ہیں ۔ اس بار ملک کے
ضمیر کو جھنجوڑنے میں صحیح یا غلط، جدید میڈیا نے اہم رول ادا کیا۔ 2002
میں ودی کے گجرات میں آبروزیری اور قتل کی اس بھی زیادہ بھیانک واراتوں کا
پردہ بھی تو اسی میڈیا نے فاش کیا تھا مگر ان وقت ایسا ردّعمل سامنے نہیں
آیا۔ کسی لیڈر کو یاد نہیں آیا تھاکہ اس کے بھی تو بیٹیاں ، پوتیاں ہیں۔
افسوس کہ ظالم اورمظلوم کا دھرم بدل جانے سے ظلم کی نوعیت بدل جاتی ہے۔
غنیمت یہ ہے کہ 16/12 کے مجرم سارے کے سارے اعلا ذات کے ہندو ہیں؛اگر
خدانخواستہ یہ بدبخت غیر ہندو ہوتے، تو اب تک نہ جانے کتنی بستیوں کو تاراج
اور کتنی سہاگنوں کو بیوہ اور کتنی لڑکیوں کو نشانہ ہوس بنا یاجاچکا ہوتا۔
بہر حال دیکھنا یہ ہے کہ 16/12 کے اس شر کے بطن سے خیر کا کوئی پہلو نکلتا
ہے یا عوام کے نچوڑنے کےلئے ملک کی بدعنوان پولیس کو ایک اور حربہ تھما دیا
جاتا ہے؟ قانون کو سخت کردینا اور سزاﺅں کو بڑھا دینا مسئلہ کا حل نہیں ،بلکہ
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ قانون کا نفاذایمانداری سے اور سرعت کے ساتھ ہو۔
انصاف کا تقاضا یہ بھی ہوتا ہے کہ سزا جتنی سخت ہو، عدالت کی کاروائی
اورشہادتوں کی جانچ پرکھ بھی اتنی ہی چست اور درست ہو۔ ہمارے یہاںتجربہ یہ
ہے کہ نچلی عدالتیں آنکھیں بند کرکے پولیس کی لائن پر دستخط کردیتی ہیں اور
ملزم کو جیل کے حوالے کرکے مطمئن ہوجاتی ہیں ۔ یہ تو برسوں بعد منکشف ہوتا
ہے کہ جس کو ملزم بناکر بند رکھا گیا تھا، اس کا جرم سے کوئی واسطہ ہی نہیں
تھا۔ اور کیونکہ سخت قوانین کے تحت بے قصوروں کو جان بوجھ کرپھنسالینے
والوںسے بعد میں کوئی باز پرس نہیں ہوتی، اس لئے قوانین کا استعمال دوسری
کدورتیں، نفرتیں اور طبقہ واری عصبیت نکالنے کےلئے خوب ہو رہا ہے۔ اس سے
پہلے جو خصوصی سخت قانون بنے، مثلاًٹاڈا، پوٹا، میسا، نارکوٹک ایکٹ اوراب
یو اے پی اے وغیرہ اور پاکستان میں انسداد اہانت رسول قانون ، انکا تجربہ
ہرگزحوصلہ افزا نہیں رہا۔
بہر حال جان لیوا تشدد اور جنسی ہوس کی شکار دہلی کی اس ایک مظلومہ کےلئے
ہی نہیں بلکہ ہم جنسی جرائم اور تشدد کی شکار ہر عورت ذات کےلئے اظہار
تعزیت کرتے ہیں ،ساتھ ہی اپنی بہنوں ، بیٹیوں اور فکر مند والدین سے گزارش
کرتے ہیں کہ اس سانحہ سے کچھ سبق وہ بھی سیکھیں۔ کچھ احتیاطی تدابیر وہ بھی
اپنے اوپر لازم کریں۔ قانون کتنا ہی سخت کیوں نہ بن جائے اور پولیس کے ہاتھ
کتنے ہی لمبے کیوں نہ کردئے جائیں، اس طرح کے جرائم پر اس وقت تک قابو نہیں
پایا جا سکتا ،جب تک جنسی ترغیبات و تحریصات کے دروازے بند نہیں کردئے
جاتے۔ ہم ہرگز یہ نہیں کہتے کہ خواتین گھروں سے نکلنا چھوڑ دیں البتہ ان کی
چال ڈھال، بول چال، لباس اور رویہ ایسا نہیں ہونا چاہئے کہ کسی کوبری نظر
ان پر ڈالنے کی ترغیب و ہمت ہو، خلوت میں کسی کو اتنا موقع نہ دیا جائے کہ
دست درازی کر گزرے۔ خود خواتین کونسوانیت کے ان تمام مظاہر کی بھی مزاحمت
کرنی ہوگی جن کا استعمال صنعت و تجارت کے فروغ کےلئے کیا جاتا ہے اور جن سے
شہوانی جذبات میں اشتعال پیدا ہوتا ہے۔عورتیں اٹھ کھڑی ہونگیں تو کسی کی
مجال نہیں کہ صنف نازک کا یوں استحصال جاری رکھ سکے اور ایسی فحاشیوں کا
سیل رواں نہ رکے۔خصوصاً نیم عریاں تصویروں کی اشاعت اور جنس زدہ فلموں کی
نمائش رکنی چاہئے۔ کچھ روک ٹوک شراب نوشی پر بھی درکار ہے۔
ہمسایہ ممالک
2012کا یہ سا ل جاتے جاتے ہمسایہ ممالک سے بھی بڑی ہی المناک خبریں لایا۔
چار لڑکیاں کراچی میں اور ایک پیشاور میں گولیوں کا نشانہ بنائی گئیں۔ یہ
لڑکیاں پولیو کی دوا پلانے نکلی تھیں۔ افغان پاک سرحد پر ’طالبان‘ نے
انسانی خون کی پیاس ان 21افراد کو شہید کرکے بجھائی جن کو ایک دن پہلے
سرحدی چوکیوں سے اغوا کیا گیا تھا۔ بلوچستان کے سرحدی علاقے میں مسلکی
جنونیوں نے ان 19 افراد کو شہید کردیا جو کسی سرکاری مشن پر نہیں تھے بلکہ
مذہبی تاریخی مقامات کی زیارت کےلئے ایران کے راستے پر تھے۔ نئے سال کے
آغاز پر روزنامہ ’ڈان‘ نے مختلف لوگوں کے تاثرات پر مشتمل فائزہ مرزا کی
ایک رپورٹ شایع کی ہے جسکا عنوان ہے: Wishes for 2013 – A safer and
tolerant Pakistan : ”نئے سال کےلئے خواہشات: ایک زیادہ محفوظ ، متحمل،
رواداراور بردبار پاکستان۔‘ ‘ اس سرخی نے 2012 کی کیفیت کو چند الفاظ میں
سمیٹ دیا ہے۔ آپ سوال کرسکتے ہیں کہ ایک ہندستانی صحافی کو پاکستان کی کیا
پڑی؟ تو عرض ہے کہ اولاً تو جو لوگ پاکستان میں بستے ہیں وہ ہمارے لئے کوئی
غیر نہیں، دوسرے ایک محفوظ، متموّل، متحمل، بردبار اورروادارپاکستان ہماری
قومی اورملی ضرورت بھی ہے۔ پاکستان میں کچھ بدبخت مذہب ، مسلک اور علاقائیت
کے نام پر جوشورش برپا کئے ہوئے ہیں، وہ تاریخ انسانی کے ماتھے پر کلنک کا
داغ ہے، دعوت اسلام کی راہ کی بڑی رکاوٹ ہے۔ ہماری حمیت ایمانی اور غیرت
انسانی متاثرین کے ساتھ ہمدردی اور ظالموں کے حق میں اصلاح کی دعا پر مجبور
کرتی ہے۔
ہر چند کہ گزشتہ برس کے دوران خون خرابہ نے ماحول کو پراگندہ رکھا تاہم
ہزار اندیشوں کے باوجود عوامی نمائندہ حکومت اپنی مدّت کارکو پورا کررہی
ہے۔ قیام پاکستان کے بعد یہ پہلی سرکار ہے ، پہلی پارلیمنٹ ہے جو اپنی مدّت
کار پورا کررہی ہے۔ یہ سال الیکشن کا ہے ، مگر کچھ لوگ الیکشن کے التوا کا
مطالبہ کرنے کےلئے اٹھ کھڑے ہوئے ہیں۔ وقت مقررہ پر کسی بھی بہانے شفاف
انتخابات سے گریز یقینا بڑا المیہ ہوگا۔
ادھر بنگلہ دیش سے بھی کچھ اچھی خبریں نہیں آرہی ہیں اور حسینہ واجد حکومت
نے اپنی نا اہلی سے عوام کی توجہ ہٹانے کےلئے 1971کے گڑے مردے اکھاڑنے
اور’جنگی جرائم کے خلاف مقدمہ چلانے ‘کے نام سے جو ڈرامہ شروع کیا ہے اور
جس کا طے شدہ ہدف کچھ لوگوں کا خون ناحق نظر آتا ہے ،اس پر دنیا بھر میں
سخت تنقید ہورہی ہے۔ حسینہ واجد اگر بنگلہ دیش کی ناصر، سادات اور حسنی
مبارک بننا چاہتی ہیںتو یاد رکھیں کہ رنگ حنا سمجھ کر جس خون سے وہ اپنے
ہاتھ رنگنا چاہتی ہیں، وہ خون اسی طرح رنگ لائیگا جس طرح حسن البنا شہید ،
سید قطب ؒاور دیگر اخوانیوں کا خون مصر میں رنگ لایا ہے۔
ایک تیسرے پڑوسی ملک برما سے بھی ظلم اور زیادتیوں کی خبریں آرہی ہیں۔
افسوس کہ وہاں کی جمہوریت پسند خاتون لیڈر آنگ سان سوچی بھی اُن مظالم کی
خاموش موئد بنی ہوئی ہیں جو روہنگیا مسلمانوں پر ڈھائے جارہے ہیں حالانکہ
ان کو انسانیت نوازی اور حق پسندی کا مظاہرہ کرنا چاہئے کہ ان کو نوبیل امن
انعام سے سرفراز کیا جاچکا ہے۔ ترکی اس پہلو سے لائق مبارکباد ہے کہ صدر
عبداللہ گل نے مظلوم روہنگیا مسلمانوں سے اظہار یک جہتی کےلئے اپنی بیگم
حیرالنسا گل کو بھیجا اور بنگلہ دیش کے حکمرانوں کو بھی تلقین کی ہے کہ وہ
نام نہاد جنگی جرائم کے ملزموں کے ساتھ ترحم کا مظاہرہ کریں۔
کشمیر میں امن
کشمیر اور پورے ملک کےلئے بڑی خبر یہ ہے سلسلہ کوہ پیر پنجال میں 14کلو
میٹر لمبی سرنگ سے گزر کر ریل لائن وادی کشمیر تک پہنچ گئی ہے۔ سرکار کی
طرف سے یہ خوش کن دعوا بھی کیا جارہا ہے کہ شورش زدہ کشمیر کےلئے یہ سال
امن کا رہا۔بڑی تعداد میں سیاح آئے، لاکھوں نے امرناتھ یاترا کی۔ یہ سرکار
کی کامیابی سے زیادہ کشمیریو ں کی رواداری کا مظہر ہے۔ تاہم سرکار یہ بھی
تو بتائے کہ سرینگر کی جامع مسجد میں پورے سال کتنے جمعہ نماز نہیں ہونے دی
گئی؟ کتنے مہاجروں کی وطن واپسی کی راہ آسان ہوئی؟ کتنی غیر شناخت شدہ
قبروں کی شناخت ہوئی ؟ معمولی معمولی الزامات میں مدّت سے قید سینکڑوں
معصوم بھی اس امن کا مطلب پوچھ رہے ہیں جو ان کےلئے قیدخانوں کے دروازے
نہیں کھول سکا اور فوج کے خصوصی اختیار قانون کو نہیں ہٹوا سکا۔
بھاجپا کےلئے نامرادی کا سال
یہ سال اپوزیشن خصوصاً بھاجپا کےلئے ہزیمت اور نامرادی کا سال رہا۔ ٹو جی
اسپکٹرم، کوئلہ کان، کرپشن، ایف ڈی آئی اور نجانے کس کس عنوان سے پورے سال
حکمراں یو پی اے کے خلاف سیاسی مہم چلائی جاتی رہی ، بند ہوئے، یاترائیں
ہوئیں، پارلیمانی کاروائی میں اڑنگے ڈالے گئے،مقدمے چلے، مگرحیف کہ پہلے
اترا کھنڈ اور اب ہماچل پردیش کی سرکار ہاتھ سے نکل گئی۔گجرات میں بھی
ممبران کی تعداد کم ہوئی ۔گویا یو پی اے کے خلاف ان منفی مہمات کا کوئی اثر
رائے دہندگان نے قبول نہیں کیا۔ جنوبی ہند کے سب سے مضبوط لیڈر یدورپا
پارٹی چھوڑگئے۔ صدر گڈ کری خود بدعنوانی کے الزامات میں گھرگئے اور پارٹی
کے اندر سے ہی ان پر تیکھے حملے ہورہے ہیں۔ گجرات میں مودی کو تیسری بار
کامیابی ضرور ملی مگر یہ کوئی انوکھی چیز نہیں۔ آسام میں گوگوئی، دہلی میں
محترمہ شیلا دیکشت اور مغربی بنگال میں جیوتی باسو یہ کارنامہ پہلے ہی
انجام دے چکے ہیں۔ رہی گجرات کی ترقی کی کہانی تو گجراتی فطری طور سے محنتی
ہوتے ہیں، کچھ ریاست کا محل وقوع اور بیرون ملک خوشحال گجراتیوں کی بڑی
تعداد کا اثر بھی ہے، مگر اہم سوال یہ ہے کہ گجرات کے غریب عوام کا حال کیا
ہے؟ یہ بات خود وزیر اعلا مودی تسلیم کرچکے ہیں کہ ریاست کی خواتین صحت بخش
غذا کی کمی سے متاثر ہیں۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گجرات کی تقریبا
17فیصد آبادی خط افلاس سے نیچے ہے جب کہ جموں و کشمیر جیسی شورش زدہ ریاست
میں بھی یہ شرح صرف 5.43فی صد ہے۔البتہ گجراتی مسلمان لائق مبارکباد ہیں جو
تباہی کو پیچھے چھوڑ کر اپنے وسائل سے پھر اپنے پیروں پر اٹھ کھڑے ہورہے
ہیں، تعلیم میں بھی انہوں نے کمال کردکھایا ہے۔
مودی کی حالیہ انتخابی جیت پر ایک مرتبہ پھر ان کے دل میں وزیر اعظم بن
جانے کی آرزو اچھال مارنے لگی ہے۔ ہرچند کہ سنگھ کی خوشنودی کی خاطر سشما
سوراج وغیرہ نے ان کو و زیر اعظم کےلئے موزوں ترین بھاجپائی ٹھہرایا ہے ،
مگرتاریخ گواہ ہے کہ آج تک کوئی ’مودی‘ وزیراعظم نہیں بن سکا ہے۔ آزادی کے
فوراً بعد، جب کہ تقسیم کی وجہ سے ماحول ہندو فرقہ پرستی میں ڈوبا ہوا
تھااور کانگریس میں کئی ’مودی‘ نمااحیاءپرست کٹر ہندولیڈر موجود تھے،مگر
قرعہ فال نرم رو نہرو کے نام نکلا۔ این ڈی اے کی سرکار بنانے کی باری آئی
تو بھاجپا کو ملک گیر پارٹی بنانے اور لوک سبھا میں ممبران کی تعداد دو سے
بڑھا کر 184 تک پہنچانے کا کارنامہ انجام دینے کے باوجود آڈوانی جی ٹاپتے
رہ گئے اور نرم رو باجپئی جی پی ایم بن گئے۔ پھر جب آڈوانی جی کو آگے کرکے
چناﺅ لڑا تو بھاجپا کو منھ کی کھانی پڑی۔یہ سب اتفاقات نہیں، ہندستانی
سیاست کی سچائیاں ہیں۔ جیٹلی، گڈکری ، میڈم سوراج اور راجناتھ وغیرہ سب
جانتے ہیں کہ مودی پی ایم بنے تو پھر کسی کو خاطر میں نہیں لائیں گے ۔ ہر
چند کہ دوریاستوں میںحالیہ شکست اور گجرات میں ممبران کی تعداد میںکمی کو
دیکھتے ہوئے یہ باور کرنا دور کی بات ہے 2014 میں این ڈی اے کی نوبت سرکار
بنانے کی آجائیگی ۔ بفرض محال آبھی گئی تو مودی وزیر اعظم ہرگز نہیں بن
سکتے۔ زیادہ سے زیادہ پٹیل اور آڈوانی کی طرح وزارت داخلہ پر صبر کرنا
پڑیگا اور وہ بھی اس لئے کہ ان کو گجرات سے ہٹادیا جائے۔
ابھی 26/12 کے المناک سانحہ کے پس منظر میں بھاجپا نے جو سیاسی کھیل شروع
کیا تھا، اس میں شکست نے اب یہ پختہ کردیا ہے کہ یو پی اے کے مقابلے بھاجپا
اناڑی ہے۔ پارٹی نے ایک دن پہلے اعلان کردیا تھا کہ اس کے بڑے بڑے لیڈر
مظلومہ کی آخری رسوم میں موجود رہیںگے۔ لیکن ایسا ہو نہ سکا، جبکہ یوپی اے
چیرپرسن سونیا اور وزیر اعظم نے رات کے تین بجے ایر پورٹ پہنچ کر متاثرہ کے
خاندان سے خود اظہار تعزیت کرکے بھاجپا کی بساط کو الٹ دیا ۔ ابھی دیکھنا
ہے کہ 2013کیا کچھ گل کھلاتا ہے اور پارٹی صدر کے انتخاب کا مرحلہ کیا رنگ
لاتا ہے؟ ۔ (ختم) |