دنیا کا نمبر ایک جاسوس خاتون صحافی کے جال میں پھنس گیا

امریکی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کو خاتون صحافی سے آپ بیتی لکھوانا مہنگی پڑ گئی۔

دنیا زمانے کے لئے اسکینڈل بنانے والے ، حکومتوں کا تختہ الٹنے والے، اور دنیا کے سیاست دانوں اور سربراہوں کے راز حاصل کرنے والے سی آئی اے کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے کبھی یہ خواب میں بھی نہ سوچا ہوگا کہ ایک دن ان کا ایک ایسا اسکینڈل سامنے آئے گا، جو نہ صرف ان کے منہ پر کالک مل دے گا ، بلکہ امریکہ کو بھی دنیا بھر میں رسوائی کا سامنا کرنا پڑے گا۔امریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے ڈائریکٹرڈیوڈپیٹریاس کو اپنی 60 ویں سالگرہ کے صرف دودن بعداس وقت مستعفی ہوناپڑا جب ایف بی آئی نے ان کے پاولابروڈویل نامی خاتون کے ساتھ ناجائز تعلقات کا رازافشاء کیا۔پیٹریاس کو 9 نومبر 2012ء کو اپنے عہدے سے الگ ہوناپڑا،یہ حسن اتفاق ہے کہ 9نومبر کو پاولاکی 40ویں سالگرہ تھی۔امریکی تاریخ کا یہ اسکینڈل ابھی اپنے اختتام کو نہیں پہنچا ہے۔ بلکہ یہ ایک آغاز ہے۔ جس کے پیچھے بہت سی کہانیاں اور انکشافات ہونے ہیں۔ اس بارے میں بھی تحقیقات ہورہی ہیں کہ آیا صدر اوباما کو الیکشن سے پہلے ہی سب کچھ معلوم تھا، اور انھوں نے اس معاملے کو ٹھنڈا کرنے کے لئے تاخیر کی تاکہ وہ الیکشن میں کامیاب ہوجائیں، تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اگر یہ اسکینڈل پہلے بے نقاب ہوتا تو اوباما صدر منتخب نہ ہو پاتے۔ کانگریس اس بارے میں تحقیقات کا کہہ چکی ہےصدر کی انتظامیہ پہلے ہی کانگریس سے درخواست کر چکی ہے کہ اس معاملے میں دی جانے والی وضاحت کی 13 نومبر کو شنوائی کی جائے۔ اس بارے میں پہلے ہی بہت سے شکوک پائے جاتے ہیں۔ کانگریس یہ بھی جاننا چاہے گی کہ کہیں اس معاملے کو 6نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات کی تکمیل تک دبایا تو نہیں گیا تھا۔ سب جانتے ہیں کہ اگر یہ بکھیڑا انتخاب سے پہلے کھڑا ہوا ہوتا تو اوبامہ دوبارہ "وہائٹ ہاؤس" کے مکین نہ بن سکتے۔صدارتی انتظامیہ کی جانب سے اس معاملے کو عارضی طور پر دبائے بنا چارہ نہیں تھا، ماسکو سٹیٹ یونیورسٹی کے شعبہ عالمی سیاست کے تجزیہ نگار آندرے سدوروو کو یقین ہے،" بلاشبہ اگر یہ معاملہ الیکشن سے پہلے عیاں ہو جاتا تو اوبامہ کی انتخابی مہم پر اس کا بہت برا اثر ہوتا۔ کسی نہ کسی شکل میں جس کا نتائج میں بھی اظہار ہوتا۔ امریکی خاندانی مسائل کو بہت زیادہ اہمیت دیتے ہیں۔ اس لیے اس اطلاع کا عام ہو جانا ملک کی مجموعی سیاسی صورت حال پہ بری طرح اثر اندازہوتا۔"

دوسری جانب امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈ پیٹریاس کے مستعفی ہونے کے بعد امریکا کی دفاعی کمپنی لاک ہیڈ مارٹن کے صدر اور متوقع چیف ایگزیکٹوکرسٹوفرکوباسک کو بھی ”غیر مناسب“ تعلقات پر ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق کمپنی کی طرف سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ تحقیقات کے بعد کمپنی کی ایک ملازم سے غیر مناسب تعلقات برقرار رکھنے پر ادارے کے صدر اور متوقع چیف ایگزیکٹو کرسٹو فر کوباسک کو ان کے عہدے سے برطرف کردیا گیا ہے۔جنرل پیڑیاس سے لیبیا میں امریکی سفیر کی ہلاکت کے حوالے سے بھی پوچھ گچھ ہونی ہے۔ کہنے والے کہتے ہیں کہ اس اسکینڈل میں بھی دو خواتین کی باہمی رقابت نے یہ دن دکھائے۔ اور دو خواتین کی لڑائی سی آئی اے چیف ڈیوڈ پیٹریاس کی نوکری اور عہدہ لے ڈوبی۔ امریکی حکام کے مطابق وائٹ ہاو ¿س اور اعلیٰ حکومت کو رواں ہفتے ہی پیٹریاس اور پاؤلا براڈول کے افیئر کا علم ہوا ہے۔ امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ پیٹریاس کی محبوبہ کو شک تھا کہ ان کے محبوب کسی دوسری خاتون کے چکر میں پڑگئے ہیں اور پاو ¿لا نے ایک خاتون کو دھمکی آمیز ای میل کرڈالی۔ خاتون نے ایف بی آئی کو شکایت کی اورمدد مانگتے ہوئے معاملے کی تحقیقات کی درخواست کی۔ سابق سی آئی اے چیف پیٹریاس کے پاولا براڈویل سے تعلقات کا علم ایف بی آئی کو اس وقت ہوا جب انہوں نے جل کیلی کوموصول ہونے والی دھمکی آمیزای میلزکی تحقیقات کیں۔یہ ای میلزپاولا نے بھیجی تھیں۔جاسوسوں نے جب پاولاکی ای میلزچیک کیں توپیٹریاس کے محبت نامے سامنے آگئے۔سی آئی اے کے سابق چیف ڈیوڈ پیٹریاس اور پاولا براڈویل کا معاشقہ منظر عام پر لانے والی خاتون پیٹریاس اور ان کی اہلیہ کی مشترکہ دوست نکلیں۔ فلاڈیلفیا کے شہر ٹیمپا میں مقیم جل کیلی کوپاولا براڈویل کی جانب سے دھمکی آمیز ای میلز موصول ہورہی تھیں جو انہوں نے ایف آئی اے کو دکھا دیں اور ایف آئی نے پیٹریاس پر نظر رکھنا شروع کردی۔

اس معاملے میں امریکا میں ایف بی آئی کے ایجنٹس نے ڈیوڈ پیٹریاس کے استعفے کی وجہ بننے والی پاولا براڈویل کے گھر کی تلاشی بھی لی ہے۔امریکی میڈیا کی رپورٹس کے مطابق ایف بی آئی کے درجن بھر کے قریب ایجنٹوں نے نارتھ کیرولینا کے علاقے شارلٹ میں پاولابراڈویل کے گھر کی تلاشی لی ، بکس اٹھاکر لئے اور گھر کے اندر کی تصاویربنائیں۔ ایک جانب ڈیوڈ پیٹریاس کے خلاف تفتیش شروع کرنے والے ایف بی آئی ایجنٹ کوخود تفتیش کا سامنا کرنا پڑگیا۔ غیرملکی خبرایجنسی کے مطابق ڈیوڈپیٹریاس کیخلاف تفتیش کی شروعات کرنے والے ایف بی آئی ایجنٹ سے جل کیلی کے ساتھ نامناسب رویئے کی تحقیقات کی جارہی ہیں۔ پیٹریاس کے معاشقے کی تفتیش کرنے والے اِس اہلکار پرالزام سامنے آیا ہے کہ اس نے اپنی قابل اعتراض تصاویر جل کیلی کو بھیجی تھیں۔

کتابی چہرے اور تیکھے نین نقش والی چالیس سالہ پاؤلا براڈویل جس کی جھیل جیسی گہری آنکھوں میں ڈوب کر دنیا کی سب سے بڑی خفیہ ایجنسی کے سربراہ کو اپنا عہدہ چھوڑنا پڑا۔ ویسٹ پوائنٹ کی ملٹری اکیڈمی کی گریجویٹ پاؤلا براڈویل ہارورڈ سینٹر فار پبلک لیڈر شپ میں ریسرچ فیلو بھی ہیں۔ جب کہ لندن کے کنگ کالج کے وار اسٹڈیز سے پی ایچ ڈی کررہی ہیں۔صحافت کا پیشہ اختیار کرنے والی پاؤلا کی ڈیوڈ پیٹریاس سے پہلی ملاقات دو ہزار چھ میں ہارورڈ کینیڈی اسکول میں ہوئی جہاں وہ لیکچر دے رہی تھیں۔ اس ملاقات میں پاؤلا نے خود کو اکیڈمک ریسرچر کے طور پر متعارف کرایا جس کے بعد نین سے نین ٹکرائے اور یوں سلسلے کا آغاز ہوا۔پاؤلا دو ہزار دس میں افغانستان بھی گئیں جہاں انہوں نے ڈیوڈ پیٹریاس کی چار سو صفحات پر مشتمل سوانح عمری ”آل ان : دی ایجوکیشن آف جنرل ڈیویڈ پیٹریاس“ کے نام سے تحریر کی جسے بائیو گرافی سے زیادہ لو لیٹر سے تعبیر کیا گیا۔ ایف بی آئی کو دونوں کے درمیان سلسلے کا علم ہوا تو پیٹریاس کو مستعفیٰ ہوکر قیمت ادا کرنا پڑی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ پاؤلا خود بھی شادی شدہ ہیں اور اپنے دو بچوں کے ساتھ شمالی کیرولائنا میں مقیم ہیں۔ وہ خصوصی آپریشن کمانڈ اور دہشت گردی پر ایف بی آئی کی مشترکہ ٹاسک فورس کے ساتھ بھی کام کرچکی ہیں۔پیٹر یاس پر ایک سنگین الزام یہ بھی ہے کہ انہوں نے لیبیا میں بر وقت کاروائی نیں کی۔ اس بارے میں ہارنے والے صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے اوباما پر الزام لگائے تھے۔ اور ظاہر ہے سی آئی اے کا چیف اس صورتحال سے پوری طرح آگاہ تھا۔

امریکی محکمہ دفاع نے جمعے کو ’ٹائم لائین‘ سے متعلق ایک دستاویز جاری کی ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ 11ستمبر کو بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر حملے سے ایک گھنٹہ قبل پینٹاگان کے اعلیٰ حکام حملے کے بارے میں آگاہ تھے۔ تاہم ، چار امریکیوں کو، جن میں امریکی سفیر بھی شامل تھے، ہلاکت سے بچانے کے لیے یورپ سے بروقت کمک پہنچانا ممکن نہ تھا۔وزیر دفاع لیون پنیٹا اور ان کے اعلیٰ فوجی مشیر کو حملے سے 50منٹ قبل اس کی اطلاع دی گئی تھی۔پنیٹا اور جوائنٹ چیفس آف اسٹاف کے چیرمین جنرل مارٹن ڈیمپسی نے 30منٹ بعد صدر براک اوباما سےوائٹ ہاؤس میں ملاقات کی، جِس میں بن غازی کی ممکنہ صورت حال سے نبردآزما ہونےسے متعلق غور ہوا۔ بن غازی میں شدت پسندوں نے قونصل خانے کا گھیراؤ کرکے اسے آگ لگا دی تھی۔حملے میں امریکی سفیر کرسٹوفر اسٹیونز ہلاک ہوئے۔پینٹاگان نے یہ ٹائم لائین اِس لیے جاری کی ہے تاکہ جنم لینے والےسوالات کا جواب دیا جاسکے جو قونصل خانے پر حملے سے متعلق باتوں نے پیدا کیے ہیں جن میں سفیر کی موت واقع ہوئی۔ حالیہ امریکی صدارتی انتخابی مہم کے دوران، ریپبلیکن چیلنجر مِٹ رومنی نے صدر اوباما پر الزام لگایا تھا کہ وہ حملے کی صورت حال سے مناسب طور پر نبرد آزما نہیں ہو پائے۔وزیر دفاع پنیٹا بارہا کہہ چکے ہیں کہ بن غازی کے قریب کوئی فوجی طیارہ یا فوجی دستے موجود نہیں تھے جو فوری طور پروہاں پہنچ پاتے۔اس روز پنیٹا اور ڈیمپسی وائٹ ہاؤس سے پینٹاگان گئے جہاں حملے کا جواب دینے سے متعلق تجاویز پر غور کے لیے کئی اجلاس منعقد ہوئے۔وہ جیسے ہی پینٹاگان پہنچے، ایک قریبی اڈے سے سی آئی اے کی ایک ٹیم بن غازی کے قونصل خانے پہنچ چکی تھی، تاکہ زندہ بچ جانے والے باقی اہل کاروں کو وہاں سے منتقل کیا جاسکے۔پنیٹا اور ان کے سینئر مشیروں کے اجلاس جاری رہے اور اسی دوران پنیٹا نے یورپ میں موجود انسداد دہشت گردی کے دستوں کو لیبیا میں تعیناتی کے زبانی احکامات جاری کیے۔دوسرے ہی روز تمام امریکیوں کو، جن میں ہلاک شدگان بھی شامل تھے، طیارے کے ذریعے بن غازی سے باہر لے جایا جاچکا تھا-

اس سے قبل اوباما جب پہلی بار منتخب ہوئے تھے تو بھی انہیں ایسی ہی گھمبر صورت حال کا اس وقت سامنا کرنا پڑا تھا ۔ جب جنرل میک کرسٹل نے ایک انٹرویو میں امریکی انتظامیہ، صدر اوباما اور نائب صدر جو بائیڈن کے خلاف تنقیدی تبصرے کئے تھے، جن کی انہیں بھاری قیمت چکانی پڑی۔ یہ تنقیدی تبصرے ’رولنگ سٹون‘ نامی میگزین میں شائع ہونے ہیں۔ تاہم اس مضمون کے متعدد حصے منظر عام پر آنے کے فوراً بعد ہی میک کرسٹل کو کابل سے واشنگٹن طلب کیا گیا۔ رولنگ سٹون کے ایک مضمون میں اس فوجی کمانڈر سے منسوب بیانات میں صدر اوباما، نائب صدر جو بائیڈن، وزیر دفاع رابرٹ گیٹس اور وائٹ ہاوس کے بعض دیگر اعلیٰ حکام پر کڑی تنقید کی گئی تھی۔امریکی فوجی کمانڈر نے افغانستان میں نامور صحافی مائیکل ہیسٹنگس کو ایک انٹرویو دیا تھا، جس میں انہوں نے افغان جنگ، اوباما انتظامیہ اور وائٹ ہاوس حکام پر کھل کر تبصرے کئے تھے۔ ان تبصروں کے منظر عام پر آنے کے بعد یہ صاف ہوگیا تھا کہ جنرل میک کرسٹل کا مستقبل خطرے میں پڑ گیا ہے۔صدر اوباما نے اس فیصلے سے یہ واضح کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ایک کمزور صدر نہیں ہیں۔ اس کے بعد ہی جنرل پیٹریاس کو افغانستان میں فوجوں کا کمانڈر بنایا گیا تھا۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریس کو عراق میں شیعہ سنی فسادات اور تشّدد کے واقعات پر قابو پانے کا کریڈٹ دیا جاتا ہے-

امریکا کے 60سالہ سابق فوراسٹارجنرل 40سالہ پاولاکی زلفوں کے اسیرہوگئے جو دوبچوں کی ماں ہےامریکا کی خفیہ ایجنسی سی آئی اے کے سابق سربراہ ڈیوڈپیٹریاس کے کیریئر کے خاتمے کا باعث بننے والی پاولابروڈویل نامی خاتون ہارورڈ یونیورسٹی میں ایسوسی ایٹ ہیں اورلندن میں کنگزکالج میں پی ایچ ڈی کررہی ہیں،بروڈویل نے 10برس تک فوج میں بھی خدمات انجام دی ہیں جبکہ وہ ایک صحافی بھی ہیں جن کے جال میں دنیاکانمبرایک جاسوس پھنس گیا، پیٹریاس اپنی اہلیہ کا 37برس کا ساتھ بھی بھلابیٹھے ،ان کے معاشقے کا بھانڈااس پھوٹاجب ایف بی آئی نے ان کے ای میل اکاونٹس کی نگرانی شروع کی،امریکی حکام کے مطابق اگر ڈیوڈپیٹریاس دوران سروس اس غلطی کا ارتکاب کرتے تو ان کا کورٹ مارشل ہوسکتاتھا،امریکی حکام کے مطابق اس معاشقے کابھانڈااس وقت پھوٹاجب ایف بی آئی نے پیٹریاس کے ای میل اکاونٹس کی نگرانی شروع کی کیوں کہ انہیں شک تھا کہ بروڈویل کو پیٹریاس کے ذاتی ای میل اکاونٹ تک رسائی حاصل ہے،تاہم ایف بی آئی کو ان کے ای میل اکاونٹ سے دونوں کے معاشقے سے متعلق پیغامات ملے،بروڈویل نے ”آل ان ، دی ایجوکیشن آف جنرل ڈیوڈپیٹریاس“کے نام سے ان کی سوانح عمری بھی تحریرکی ہے۔،پیٹریاس کی سوانح عمری کے دیباچے میں بروڈویل نے تحریرکیا ہے کہ ان کی پیٹریاس سے پہلی ملاقات 2006ءمیں ہوئی تھی جب وہ ہارورڈکے کینیڈی اسکول سے گریجویٹ کررہی تھیں،پیٹریاس وہاں آکرعراق جنگ اوردیگر جنگی محاذوں کے تجربات بیان کیاکرتے تھے،ہارورڈیونیورسٹی نے چندطلباء کو پیٹریاس سے ملاقات کی دعوت دی تھی جن میں بروڈویل بھی شامل تھیں جہاں انہوں نے پہلی بار اپنا تعارف پیٹریاس سے کروایا،پاولاامریکی ریاست شمالی کیرولینا میں اپنے شوہر اوردوبچوں کے ساتھ رہائش پذیر ہیں ،پیٹریاس کے ایک قریبی ساتھی کے مطابق پاولا نجی تقریبات میں اکثرپیٹریاس کا پیچھاکیاکرتی تھیں اور ان سے ملنے کے بہانے ڈھونڈتی تھیں،2011ء میں سی آئی اے چیف کا عہدہ ملنے کے بعددونوں کے تعلقات میں دراڑآگئی تھی تاہم پاولانے پیٹریاس کا پیچھاجاری رکھااور گزشتہ چندماہ کے دوران پاولانے انہیں سیکڑوں ایک میلز بھیجیں،ذرائع کے مطابق پاولاکی افغانستان میں بھی پیٹریاس تک رسائی تھی۔،پاولاکے خاوندکا نام اسکاٹ بروڈویل ہے جوایک ریڈیالوجسٹ ہیں ،اس جوڑے کے دوبچے ہیں۔پاولابروڈویل امریکی ریاست شمالی ڈکوٹامیں پلی بڑھی ہیں،انہوں نے ماسٹرڈگری ڈینور یونیورسٹی کے جوزف کوربل اسکول سے انٹرنیشنل اسٹڈیز میں حاصل کی جبکہ جان ایف کینیڈی اسکول سے پبلک ایڈمنسٹریشن میں بھی ماسٹرکیا،پاولانے امریکی فوج میں بھی خدمات انجام دیں ،انہیں 2012ء میں امریکی ریزرو فوج میں لیفٹیننٹ کرنل کے عہدے پر ترقی دی گئی،پاولا اپنے 15سالہ فوجی کیریئرکے دوران 60ممالک کا سفر کرچکی ہیں۔

پیٹریاس اسی ہفتے 60 برس کے ہوچکے ہیں ،ان کی شادی کو 38سال کا عرصہ بیت چکا ہے ،ان کی اپنی بیوی ہولی پیٹریاس سے ملاقات اس وقت ہوئی تھی جب وہ امریکی فوج میں ایک کیڈٹ تھے ، حکام کے مطابق اگرپیٹریاس دوران سروس اس غلطی کا ارتکاب کرتے توان کا کورٹ مارشل ہوسکتاتھا۔ مستعفی ہونے کے بعد ڈیوڈپیٹریاس نے سی آئی اے اسٹاف کے نام ایک پیغام میں کہا کہ ان کے استعفیٰ کی وجہ شادی سے ہٹ کرکسی اورکے ساتھ ناجائز تعلقات ہیں ،شادی کے 37برس بعدکسی سے ناجائز تعلقات رکھ کر میں نے انتہائی غلط فیصلہ کیا،بحیثیت شوہر یا کسی ادارے کا سربراہ یہ برتاو کسی صورت قابل قبول نہیں،ان کاکہناتھا کہ گزشتہ روزانہوں نے وائٹ ہاوس میں صدراوباماسے درخواست کی ہے اب وہ یہ عہدہ چھوڑناچاہتے ہیں ، پیٹریاس کاکہناتھا کہ صدراوبامانے جمعہ کو ان کا استعفیٰ منظور کرلیاہے۔ اس موقع پر امریکاکی نیشنل انٹیلی جنس کے سربراہ جیمزکلیپرکی جانب سے بھی ایک بیاں جاری ہوا۔جس میں کہاگیا کہ ڈیوڈ پیٹریاس کے مستعفی ہونے کے باعث ہمیں ایک انتہائی قابل احترام افسر سے محروم ہوناپڑاہے امریکی صدربارک اوبامانے بھی ڈیوڈ پیٹریاس کوخراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ ڈیوڈپیٹریاس نے کئی دہائیوں تک امریکا کی غیرمعمولی خدمت کی ہے،وہ ایک بہترین جنرل تھے،پیٹریاس کے دور میں اسامہ کے قتل کی کاروائی کی گئی تھی۔ جس نے اوباما کے مقبولیت کے گراف کو آگے بڑھایا تھا۔ امریکی حکام نے اس بات کا بھی انکشاف کیا ہے کہ اسامہ بن لادن کی جانب سے صدراوبامااورجنرل ڈیوڈپیٹریاس کوقتل کرنے کی منصوبے کاانکشاف ان کے کمپاونڈ سے ملنے والی دستاویزات سے ہواہے۔ اسامہ نے اس سلسلے میں الیاس کاشمیری کو ذمہ داریاں سونپی تھی۔ اوباماانتظامیہ کے ایک اعلیٰ عہدیدارکے مطابق اس نے ان دستاویزات کابغورجائزہ لیاہے جواصل ہیں اورجلد اصل عربی زبان اورترجمے ساتھ منظرعام پرلائی جائیں گی۔واضح رے کہ اسامہ کی موت کے ایک ماہ بعدالیاس کشمیری مبینہ طورپر امریکی ڈرون حملے میں ماراگیا تھا۔ڈیوڈ پیٹریئس ستمبر دو ہزار ایک کے واقعات کے بعد سے امریکہ کے اہم ترین فوجی افسروں میں سے ایک ہیں۔ عراق میں امریکی فوجیوں کی سربراہی اور افغانستان میں انسدادِ دہشت گردی کی مہم چلا کر ماہرین سے انھوں نے بہت داد سمیٹی تھی۔دو ہزار گیارہ کے وسط میں جب لیون پنیٹا وزیرِ دفاع بنے تو جنرل پیٹریئس نے افغانستان میں فوجوں کی سربراہی چھوڑ کر سی آئی اے کی قیادت سنبھل لی۔جنرل پیٹریئس کے بعد سی آئی اے ممکنہ طور پر مشکلات کا شکار ہو سکتی ہے۔ اس وقت ادارے کو بجٹ کٹوتی اور بن غازی میں امریکی قونصل خانے پر حملے میں اپنے کردار پر سوالات کے سلسلے میں مشکلات کا سامنا ہے۔. ڈیوڈپیٹریاس نے امریکی فوج میں سینتیس برس ملازمت کی۔2007 میں عراق میں امریکی آپریشن کی سربراہی اورپھرجون2010 سے افغانستان میں امریکی اورنیٹو افواج کے کمانڈررہے۔افغانستان میں انہوں نےجنرل اسٹینلے مییکرسٹل سے کمانڈ لی جن کورولنگ اسٹون رسالے کومتنازع بیان دینے کے باعث فوج سے نکال دیا گیاتھا۔پیٹر یاس اگست2011 کوامریکی فوج سے سبکدوش ہوئے توان کی خدمات کے اعتراف میں انہیں خفیہ ایجنسی سی آئی اے کا سربراہ بنایاگیا۔

1952میں پیدا ہونیوالےڈیوڈپیٹریاس نےانفنٹری رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا. اورانہوں نےپ ہلی بار2003 میں عراق میں ایکشن میں حصہ لیا۔ سنہ1991 میں پیٹریاس کےسینے پرغلطی سےگولی اس وقت لگی جب مشقوں کے دوران ایک فوجی لڑکھڑاکرگرگیااوراس سےگولیاں چل گئیں۔ لیکن پانچ گھنٹےکی سرجری کے بعد وہ بچ گئے۔۔۔ ڈیوڈ پیٹریاس موت کے منہ سے ایک اورباراس وقت بچے جب1999 میں مشقوں ہی کے دوران ان کا پیراشوٹ ساٹھ فٹ کی بلندی پرپھٹ گیا۔ سنہ2005 میں وہ فورٹ لیونفرتھ میں فوجی کالج کے سربراہ بنے اورانہوں نے انسداد دہشت گردی کا ہدایت نامہ دوبارہ تشکیل دیا۔ امریکی صدرجارج بش کی حکمت عملی تھی کہ عراق میں شدت پسندوں کو شکست دیکرملک کومستحکم کیا جائےاورفوج کاانخلاء کیا جائے۔ لیکن ستمبر2007 میں کانگریس کے سامنے جنرل پیٹریئس نے ڈیموکریٹس کومتنبہ کیاکہ انخلاء میں جلدی نہ کریں کیونکہ اس سے تباہ کن نتائج مرتب ہونگے۔ اس بریفنگ کے بعد امریکانے عراق میں تیس ہزارفوجی مزید بھجوائے۔ عراق میں بیس ماہ کمانڈ کرنےکےبعد ان کوسینٹرل کمانڈ کا سربراہ بنا دیا گیا۔۔۔ ان کی ذمہ داریوں میں مشرق وسطیٰ اوروسط ایشیا بشمول افغانستان اور پاکستان میں امریکی فوجی کارروائیاں اورمنصوبہ بندی شامل تھیں۔ پیٹریاس کی سربراہی میں سی آئی اے کےخفیہ آپریشنزمیں اضافہ ہواجس میں پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ڈرون حملے بھی شامل ہیں۔ امریکی میڈیا نے جنرل پیٹریاس کے استعفے کی ایک اور وجہ سیاست میں دلچسپی بتائی ہے ، اس سال کے شروع میں خبریں آئی تھیں کہ جنرل پیٹریاس، ری پبلکن پارٹی کی طرف سے صدارتی الیکشن لڑنا چاہتے تھے، اس سلسلے میں انہوں نے صدارتی امیدواروں کے بحث مباحثہ کیلئے مشہور سینٹ انسالم کالج آف نیو ہمپاشائر کا دورہ بھی کیا تھا، جنرل پیٹریاس ، اگرچہ سیاست میں دلچسپی کی تردید کرتے رہے ہیں۔

تاہم میڈیا کا اصرار ہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں ری پبلکن کے بہترین صدارتی امیدوار ہوسکتے ہیں، ایک امریکی اخبار کا کہنا ہے کہ پیٹریاس کو لیبیا میں امریکی قونصلیٹ پر حملے میں امریکی سفیر کی ہلاکت پر تنقید کا سامنا بھی تھا۔ امریکی اخبار نیویارک ٹائمز کے مطابق اوباما کو جمعرات کی صبح شائبہ تک نہ تھا کہ سی آئی اے چیف استعفیٰ دینے والے ہیں۔ صدر اوباما نے پیٹریاس کا استعفیٰ فوری منظور کرنے سے انکارکر دیا اور کہا کہ وہ رات کو اس کے بارے میں سوچیں گے تاہم اوباما اس نتیجے پر پہنچے کہ وہ پیٹریاس پر دباﺅ نہیں ڈال سکتے۔

یاد رہے کہ صدر براک اوباما نے گذشتہ سال جون میں افغانستان میں امریکی اور نیٹو فوج کے سربراہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس کو سی آئی اے کا ڈائریکٹر مقرر کیا تھا۔ امریکی اخبارات نے دعویٰ کیا تھا کہ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس سی آئی اے کے سربراہ بن گئے تو نائن الیون کے بعد دو جنگیں لڑنے والا یہ جنرل اپنی تیسری جنگ پاکستان میں لڑے گا ، خطے میں انٹیلی جنس ایجنسی کو زیادہ سے سے زیادہ مسلح کرنا ڈیوڈ پیٹریاس کی اولین ترجیح ہوگی، ڈیوڈ پیٹریاس کی بطور سی آئی اے سربراہ نامزدگی سے آئی ایس آئی بھی خوش نہیں تھی۔ جنرل ڈیوڈ پیٹریاس نے ایسے وقت میں سی آئی اے کی کمانڈ سنبھالی تھی۔ جب ایجنسی کو امریکا کی سب سے زیادہ خطرناک فوجی طاقت کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔ سی آئی اے افغانستان سے لے کر یمن تک متنازعہ علاقوں میں کام کر رہی ہے۔ اسی دور میں سی آئی اے نے پاکستان میں لگاتار ڈرون حملے کیئے ، حملوں میں تیزی کی بڑی وجہ بھی جنرل ڈیوڈ پیٹریاس تھے ۔جو ڈرون حملوں کے مضبوط حامی تھے ۔
امریکا کے نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر جیمز آر کلیپر نے ایک بیان میں ڈیوڈ پیٹریاس کے عہدہ چھوڑنے کے فیصلے کو ملک کے لیے نقصان قرار دیا ہے۔ واضح رہے کہ امریکا جیسے ممالک میں کسی بھی خفیہ یا حساس ادارے کے سربراہ کے اس طرح کے تعلقات کو معیوب سمجھتا جاتا ہے کیونکہ اس طرح حساس خفیہ معلومات کے افشاء کا احتمال موجود رہتا ہے۔پیٹریاس نے ستمبر 2007 میں کانگریس کے سامنے ڈیموکریٹس کو متنبہ کیا تھا کہ عراق سے انخلاء میں جلدی نہ کریں کیونکہ اس سے تباہ کن نتائج مرتب ہوں گے۔اس بریفنگ کے بعد امریکہ نے عراق میں تیس ہزار فوجی مزید بھجوائے اور پیٹریئس نے اپنا بنایا ہوا ہدایت نامہ نافذ کرایا ۔عراق میں بیس ماہ کمانڈ کرنے کے بعد ان کو سینٹرل کمانڈ کا سربراہ بنا دیا گیا۔ ان کی ذمہ داریوں میں مشرق وسطیٰ اور وسط ایشیا بشمول افغانستان اور پاکستان میں امریکی فوجی کارروائیاں اور منصوبہ بندی شامل تھیں۔سنہ 2010 میں انہوں نے افغانستان کی کمانڈ سنبھالی اور اگست 2011 میں فوج سے ریٹائر ہوئے۔ ریٹائرمنٹ پر ان کو سی آئی اے کا سربراہ مقرر کیا گیا۔ اس سارے فسانے میں جو ایک اہم بات ہے وہ یہ ہے کہ اہل مغرب اور امریکہ جن کو سیکولر معاشرہ کہا جاتا ہے ۔ وہاں کسی سلامتی ادارے اور صدر مملکت کے لئے سخت اخلاقی شرائط اور معیار کیا ہیں اس بات کو ڈیوڈ پیٹریاس کے حالیہ استعفیٰ سے دیکھا اور سمجھا جا سکتا ہے۔ بل کلنٹن کتنے طاقتور ڈیموکریٹ صدر تھے مگر جب ان کے تعلقات غیر مناسب انداز میں ایوان صدر میں کام کرنے والی ایک خاتون سے استوار ہو کر طشت ازبام ہو گئے تو انہیں نہ صرف پارلیمانی مواخذے کا سامنا کرنا پڑا بلکہ قوم کے سامنے آ کر اخلاقی جرم کو تسلیم اور اس کی معافی مانگنا پڑی، صدر نکسن کتنے طاقت ور صدر تھے مگر جب مخالفین کی سیاسی حکمت عملی سمجھنے اور اس کا توڑ ایجاد کرنے کے لئے اس بات کی خفیہ ریکارڈنگ کروائی تو بعد ازاں یہ معاملہ واٹر گیٹ سکینڈل کے نام سے سامنے آیا اور پوری قوم نے اپنے فیصلہ سے صدر کو اخلاقی مطلوبہ معیار سے ساقط قرار دے دیا تو نکسن کو مستعفی ہونا پڑا اور قوم سے معافی مانگنا پڑی تھی۔لیکن پاکستان میں کیسے کیسے اسکینڈل، سازش، گھناونے واقعات ، ارباب اقتدار سے وابستہ کہانیاں ہونے دن رات شراب نوشی اورغلط کاریوں میں اکثر غرق رہنے کے باوجود خود کو عقل کل اور پارسا ثابت کرتے ہوئے ملک کی تقدیر بنانے کے نام پر تباہی و بربادی بھی لاتے رہتے ہیں۔ کیا ہم میں ذرا سی بھی شرم اور حیاءموجود ہے؟ ۔ ہمارے سلامتی اداروں میں خمار آلود آنکھیں عذاب کا راستہ بن گئی ہیں۔ اعلیٰ قیادت اگر اخلاقی کرپشن میں ملوث ہو تو پوری قوم کو نحوست زدہ کر دیتی ہے۔ سیاسی فیصلہ ساز اگر مالی کرپشن اور اخلاقی کرپشن میں دھنسے ہوئے ہوں تو ہم سب برباد ہوسکتے ہیں۔ کیا ہم ڈیوڈ پیٹریاس کے از خود مستعفی ہونے سے سبق اور راہنمائی حاصل کر سکتے ہیں؟؟؟
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 387611 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More