فوجی کسی بھی ملک کی سر زمین پر
پیدا ہونے والا وہ انسان ہے جس کی زِندگی اُس کا وطن جس کی ماں اس کی مٹی
جس کی عزت اس کے وطن کی سلامتی اورجس کے عزیز عقارب اس کے ہم وطن ہوتے ہیں
مختصر یہ کہ اس میں ملک سے غداری کی صلاحیت نہیں ہوتی اسی ہی لئے لوگ بھی
اس کی بات پہ آنکھیں بند کرکے یقین کر لیتے ہیںمگر یہاں چیف آف آرمی سٹاف (یعنی
کہ ساری فوج کے سر براہ) جنرل اشفاق پرویز کیانی اور الیکشن کمیشن آف
پاکستان کے الیکشن انتہائی صاف شفاف کروائے جانے کی یقین دہانی کروانے کے
باوجود انتہائی قابل احترام ڈاکٹر طاہر القادری نے مینار پاکستان کے سائے
تلے ہونے والے جلسہ کے بعدایم کیوایم کے بھرپور تعاون سے پاکستان کے ایک
ایسے شہر میں جہاں پہلے ہی خون کی ندیاں بہہ رہی ہیںاُس روشنیوں کے شہر سے
لاشوں کے شہر میں بدلتے ہوئے کراچی جاکر وہاں پہلے سے ہی لگی میں اپنا رول
بھی ادا کردیا ہے جس نے ملک کے تمام تردانشور حلقوں کو جہاں ایک نئی سوچ
میں ڈالا ہے وہاں لوگو ں کے ذہنوں میںبے شمار سوالات نے بھی جنم لیناشروع
کر دیا ہے ،دوسرا دنیا میں پہلی بار ہونے والاحیران کن عمل یہ ہے کہ موجودہ
حکومت کا نائب وزیر اعظم اپنی ہی حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرنے جا رہا ہے
جس کے ساتھ ایک ایسی جماعت شریک ہے جس کے بغیر حکومت کا چار سال اور آٹھ
ماہ کا عرصہ گزارنا نہ ممکن تھا آج وہی جماعت کوجب حکومت اپنی مدت پوری
کرنے کو ہے تب قوم کو مذید بے وقوف بنانے کیلئے اپنی ہی حکومت کے خلاف لانگ
مارچ کی یاد آئی ہے ،اس سے پہلے پوری دنیا میںایسا ہوتا ہوا کبھی کسی نے
دیکھا تھاکہ کوئی نائب وزیر اعظم یا وہی جماعت جو حکومت کا حصہ ہواپنی ہی
حکومت کے خلاف لانگ مارچ کرے؟اگر نہیں دیکھا تو یہ پاکستان ہے یہاں آج بھی
بھٹو زندہ ہے کل بھی بھٹو زندہ تھا اس لئے یہاں سب کچھ دیکھنے سننے کوملے
گا؟اور ہوگا بھی ،مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر بھٹو یا اس کی جماعت زندہ ہوتی تو
آج کسی بھی قیمت پر ملک وقوم کا یہ حشر نہ ہورہا ہوتا ،ہمارے ملک کو غیر
ملکی ایجنسیاں نہ چلا رہی ہوتی ہم کبھی بھی امریکی اشاروں پہ نہ ناچ رہے
ہوتے ،ہاں جو ماننے کی بات ہے وہ یہ ہے کہ کل بھی لوٹے زندہ تھے آج بھی
لوٹے زندہ ہیں اسی ہی لئے ہم لوٹ مار کرپشن مہنگائی اور نا جانے کس کس طرح
کی دن دوگنی رات چوگنی ترقی کی راہ پر گامزن ہیں،خیر اب وہ وقت آچکا ہے جب
ہمارا ملک مکمل طور پر ہی بیرونی طاقتوں کے ہاتھ میں جارہا ہے جو کبھی نہیں
چاہتیں کہ پاکستان خود مختار اور ترقی پزیر ملک بنے ،اسی ہی لئے تو حکومت
کے اپنے اختتام کو پہنچتے ہی جب ملک و قوم میں مذید برداشت کی ہمت نہیں رہی
تب جاکے سٹیٹ بنک کو یومیہ کرپشن بتانے کی یاد آئی ہے اِسی ہی لئے تو ہمارے
اُوپر ایسے ایسے حکمران مسلط ہوجاتے ہیں جن کے بارے میں ہم نے کبھی سوچا
بھی نہیں ہوتااسی ہی لئے تو ایک چلتے ہوئے نظام کو انتہائی ٹیکنیکل طریقہ
سے پٹری سے اتار دیا جاتا ہے جیسا کہ اب ہونے والا ہے اگر ایسا نہیں تو پھر
ایسے الفاظ کیوں ؟ایسے احتجاج کیوں؟ جن سے شدت پسندی اورانتہا پسندی کو ہوا
مل رہی ہواور جوملکی سالمیت کیلئے شدید ترین قسم کے خطرات پیدا کر رہے
ہوںجن سے مگر مچھوں کو تو کوئی فرق نہیں پڑنے والا مگر غریب کا جینا اس سے
بھی زیادہ محال ہوجائے ،ایسے الفاظ جن سے ہمارے سیاستدا ن لوگوں کے دل دماغ
پر قابض ہونے کی کوشش کرتے ہوںاور وہی الفاظ لوگوں کی جانیں ضائع کرنے
کیلئے استعمال کئے جاتے ہوں تو دہشت گردو ں اور سیاستدانوں میں فرق کس بات
کا رہا؟اگر فرق ہے تو وہ یہ کہ دہشت گر د توبھولے بھالے بچوں کاچوری چھپکے
برین واش کرتے ہیںمگر سیاستدان اس بھولی بھالی قوم کے کھلے عام برین واش
کرتے ہیں پھر اپنی مرضی کے مقاصد حاصل کرتے ہیںمگر دانشور حلقوں کا برین
واش کرنے میںانہیں ذرا مشکل پیش آتی ہے کیونکہ اب وہ وقت نہیں رہاجب سیانے
لوگوں کے ساتھ باتوں سے بات بنالی جاتی تھی اب لوگ بہت باشعور ہوتے چلے جا
رہے ہیں اب باتو ں کے درمیان نکلنے والے سانسوں پر بھی غور کیاجاتا ہے جیسا
کہ قادری صاحب کے گذشتہ جلسہ میں میوزک پرمیڈیا نے بے شک توجہ نہیں دی مگر
عوام میںسب نے ہی اسے بہت نوٹ کیا اور کہا گیا کہ یہ جلسہ کسی مذہبی جماعت
کا نہیںبلکہ سیاسی جماعتوں کا ہے جس کی قیادت ملکی و غیر ملکی ایجنسیوں کے
اشاروں پرمذہبی شخصیت کر رہی ہے او ر وہ ہوا بھی ایسا ہی، اور اب چیف آف
آرمی سٹاف جنرل اشفاق پرویز کیانی اور الیکشن کمیشن کی الیکشن صاف شفاف
کروانے کی یقین دہانی کے باوجود ڈاکٹر صاحب کو اپنی ضد پہ ڈٹا ہوا دیکھتے
ہیں جس میں ایسی حکومتی جماعتو ں کا بھی بھرپور تعاون شامل ہے جو ملکی
تباہی میں خودبرابر کی شرک رہی ہوںیعنی کہ حکومتی حصہ رہتے ہوئے جب حکومت
کی مدت پوری ہونے کو ہو تب انہیں ملک کو تباہی کے دہانے پر پہنچا کر اچانک
ملک بچانے کی یاد آئے تو پھر کوئی بات ڈھکی چھپی نہیں رہتی لوگ صاف سمجھ
جاتے ہیںیہ کس کے اشارے پر ہونے جارہا ہے اور اس اس کا مقصد خانہ جنگی کے
علاوہ اور کیا ہو سکتا ہے؟ اور ایسا کرنے والوں کے قول و فعل کو ہم
سفرِاستحکامِ پاکستان کہیں یا سفرِ غلامانِ امریکستان فیصلہ ایک ایسی قوم
کے ہاتھ میں ہے کہ وہ ملک کن لوگوں کے ہاتھ میں دیتے ہیں جوماضی بھول کر ہر
نئے یا پرانے لٹیرے کے چنگل میں پھنس کر پانچ سال تک ہر جابر حاکم کا جبر
سہتے رہتے ہیںمگر اب وہ وقت آچکا ہے جب مذید کچھ سہنے کی ہمت نہیں رہی لہذا
ہمارے لئے یہ ایک بہت بڑالمحہ فکریہ ہے ۔ |