شیخ السلام اور گوجر خان پلان

شیخ الا اسلا م علا مہ طا ہر القا دری کی آمد نے کئیں سیا سی مند روں کی گھنٹیا ں بجوا دیں اور سیا سی ڈرامے کے سبھی کردا روں کو ایک ہی وقت میں ایک ہی سٹیج پر ایک ہی ڈائیلا گ بو لنے پر مجبو ر کر دیا ۔جمہو ریت کے سٹا ک ما رکیٹ شیئر ہو لڈرز نے اپنے اپنے بھی کھاتے بغلو ں میں دا ب کر اور بے ادبی کے نل کھول کر باہم جمہو ر یت ا شنا ن کا کچھ ایسا اہتما م کیا کہ میکا ولی اور چا نکیہ کی رو حیں بھی تڑ پ اُ ٹھیں ۔ پی پی پی ، ن لیگ، ق لیگ ،ف لیگ سے لے کر الف تا بڑی اور چھوٹی یے، لیگ تک سب کو قا وری ہواؤ ں نے متا ثر کیا اور ان کے تنخواہ دا ر کا لم نگا روں نے جگرا تا کا ٹ کر شیخ الا اسلا م پر چا روں اطرا ف سے یو رش کی۔سیکو لر اور سیا سی جما عتیں تو پر یشا نی میں مبتلا ہو ئیں سو ہو ئیں مگر مو لا نا فضل الرحمٰن اور جماعت اسلا می سمیت دیگر مذہبی سیا سی جما عتیں بھی پر یشا نی کے عا لم میں سیکو لر نظر یا ت کی حا مل جماعتوں کی ہم بو لی بن گئیں ۔سیا سی جما عت مذہبی ہو یا رو شن خیا ل سیکو لر سب کے مفا د ات یکسا ں ہو تے ہیں۔ ایم کیو ایم نے قا وری صا حب کے اجتما ع میں بھر پو ر شرکت کی اور تحریک انصا ف نے شیخ الا اسلا م کے منصو بے اور ارا دے کو اپنا ئیت دیکر خوش گلو ئی کا اظہا ر کیا ۔
شیخ الا اسلا م کے مخا لفین کا کہنا ہے کہ شیخ کے انقلا ب کی عمر تین ما ہ ہے وہ اپنا جو ش خطا بت نکا ل کر وا پس کینڈا چلے جا ئینگے۔اگر آئے تو ایسا سوا گت ہو گاکہ با قی زندگی زخم ملتے گزرے گی،کچھ دا نشوروں کا فر مان ہے کہ قا دری صا حب مغربی اور امریکی انٹیلیجنس ایجنسیوں کے کہنے پر پا کستا ن آئے ہیں تا کہ الیکشن ملتوی کر وا کر پسو ڑی ڈا لیں اور واپس لو ٹ جا ئیں ۔ایک اور طبقے کا خیا ل ہے کہ تبدیلی صر ف ووٹ کے ذریعے ہی ممکن ہے جمہو ریت میں ہی ملک کی بقا ہے۔ایک صاحبہ نے ٹیلی ویثرن پر قا دری صاحب پر پھبتیا ں کسیں اور کو سنے دئیے اور آخر میں کہا کہ ہمیں قا دری سے کو ئی ڈر نہیں یہ وقتی ابا ل ہے وہ چودہ تا ریخ سے پہلے ہی ملک چھوڑ جا ئیں گے۔قا دری صا حب کے آنے سے کچھ تبدیلی آئے یا نہ آئے مگر ایک بڑی تبدیلی جو سیا سی بزنس میں آئی ہے وہ سب جما عتو ں کا قا دری صا حب کے خلا ف یکجہتی کا اظہا ر ہے۔

کہتے ہیں کہ کسی گا ؤں میں بہت سے لو گو ں نے چو ری،چکا ری،غنڈہ گردی اور بیہو دگی سمیت ہر نوع و اقسام کی برا ئیا ں اپنا لیں اور شرفا کا جینا محال کر دیا ۔گا ؤں کے شرفا کو پتا چلا کہ چند میل دور کے گا ؤں میں ایک انتہا ئی دلیر آدمی رہتا ہے اور اس کا دعویٰ ہے کہ وہ کسی سے نہیں ڈرتا ۔گا ؤں والوں نے اس گھبرو جوا ن کی خدما ت حا صل کرنے کا فیصلہ کیااور ایک روز اُسے اپنے گا ؤں بلا یا کہ وہ اس کے نڈر پن کا مشا ہدہ کر سکیں۔گھبرو گا ؤں کے باہر آیا تو کچھ لو گ اس کے استقبا ل کے لیے پہنچ گئے اور اسے لیکر گا ؤں کی طرف چل پڑے۔ چند قدم چلے تھے کہ گلی سے ایک بیل آتا دکھا ئی دیا تو گھبرو نے گلی سے نکل کردوسری جا نب منہ کر لیا ۔میزبا نوں نے پو چھا بھا ئی آ پ تو کسی چیز سے نہیں ڈرتے یہ آپ نے کیا کیا ۔نو جوان بو لا محبھے بیل کا ڈر نہیں صرف اُس کے سینگو ں سے کچھ احتیا ط کی ہے۔اس طرح گا ؤں تک پہنچتے پہنچتے نڈر آدمی نے کتے، بلی،چو ہے سے لے کر بکری اور بھیڑتک ہر چیز سے احتیا ط کی۔
یہی حا ل ہما ری سیا سی جما عتو ں کا ہے۔کو ئی پو چھے اے دا نشمندوں اگر آپ کو قا دری صاحب سے کو ئی خو ف نہیں تو پھر واویلا کیسا۔ٹیلیویثرن اینکرز کے سا منے بیٹھ کر بڑھکیں ما رنے اور طعنے دینے کی کیا ضرورت ۔۔۔؟آخر کو ئی تو وجہ ہے کہ ہر جگہ تھر تھلی مچ گئی ہے یا پھر مچوائی گئی ہے۔کرا چی سے ایک شیر جوان نے کہا مد رسہ اور ملک چلا نے میں فرق ہے شا ئد اُن کا اشا رہ مو لا نا فضل الر حمٰن کی طر ف تھا چو نکہ مو لا نا کی پا رٹی کے اتحا د و برکا ت سے بننے والی بلوچستان حکو مت آگے چل رہی ہے اور نہ ہی پیچھے ہٹ رہی ہے۔اس طرح مشرفی جمہو ریت کے پنج سا لے میں سا بق صوبہ سرحد کی اسلا می حکو مت کے زیر اثر دہشت گر دی کی فصل پکتی رہی مگر جمہو ریت کے دلدا دہ علما ء کرا م نے اس طرف د ھیا ن ہی نہ دیا۔ فضل اﷲ اور صو فی محمد کو رہا کر دیا اور سوا ت میں اسلا می انقلا ب کی را ہ ہموار کی۔ دو صو بو ں میں مو لا نا کی حکو مت تھی جسکے ہر ممبر کا تعلق مدرسے سے ہی تھا جبکہ مر کز میں قا ئد حزب اختلا ف بھی مو لا نا خود ہی تھے۔یو ں دیکھا جا ئے تو مشرف حکو مت کی تما م نا کا میو ں اور عوام دشمن کا روائیو ں میں مو لا نا کی جما عت کا حصہ تھا جسکا خمیا زہ اب پا کستا نی عوا م بھگت رہے ہیں ۔یہی حا ل جما عت اسلا می کا بھی ہے۔ایک میٹھے بھائی کے مطا بق جما عت اسلا می کے 45 ہزا ر مدرسے اور سکول ہیں جو کہ قا بل فخر با ت ہے۔اگر ملک میں مو جو د شیعہ،سنی،بریلوی ،دیو بندی،اہل حدیث اور دیگر مذہبی جما عتوں کے مدا رس کو دیکھا جا ئے تو جما عت اسلا می کے مد رسے اور تعلیمی ادارے دیگر اداروں کی نسبت زیا دہ منظم اور ما ڈرن ہیں جہا ں دینی تعلیم کے علا وہ دیگر سا ئنسی علو م بھی دی جا تی ہے۔اسی طر ح اگر منہا ج القرآن کے تعلیمی ادا روں کو دیکھا جا ئے تو دُنیا بھر میں ان سے جدید اور ہر لحا ظ سے سا ئنٹیفک ادارہ کو ئی بھی نہیں۔ منہاج القر آن ایک مد رسہ نہیں بلکہ متعد د یو نیورسٹیوں اور کا لجو ں پر مشتمل ایک سلسلہ ہے۔ جہا ں ہزا روں طالبعلم تعلیم کے زیور سے آرا ستہ ہو رہے ہیں۔ان طلباء میں وہ بھی شا مل ہیں جو اپنے طو ر پر تعلیمی اخرا جا ت برداشت نہیں کر سکتے مگر منہا ج القر آن ان کی تعلم، صحت اور خورا ک کے علا وہ دیگر اخرا جات برداشت کرتا ہے۔بہت سے طا لبعلم اسکا لر شپ پر بیرون ملک تعلم کے لیے بھی جا تے ہیں اور جد ید علو م سے بہرہ ور ہو کر ملک و قو م کی خدمت کر تے ہیں ۔

ہمارے وہ لیڈر جنہیں جمہو ری زکا م لگا ہوا ہے حقیقت میں جمہو ریت کی آڑ میں جبر کا نظام نا فذ کیئے ہوئے ہیں اور عوام کو جمہو ریت کے نا م پر لو ٹ رہے ہیں ۔یہ کہا ں کی جمہو ریت ہے جن کی مدا ح سرا ئی کرنے والے جا گیر دا ر ، سمگلر،بھتہ خور،کا رخا نہ دار اور قبضہ ما فیا کے سرغنہ ہر رو ز سا ت ارب کی کر پشن کر رہے ہیں کیا یہ جمہو ریت ہے اور اس لو ٹ ما ر ،لا قا نو نیت اور کرپشن کا نا م ااستحکا م اور عوا م کی خدمت ہے۔سا ری دُنیا جا نتی ہے کہ پا کستا ن کی معیشت کا دا رو مدا ر زرا عت پر ہے اور جب تک ملک میں نئے ڈیم نہ بنے گے اور کسا نوں کو پا نی میسر نہ ہو گا زرا عت کا شعبہ بتد ریج تبا ہ ہو جا ئے گا۔ ایک جیا لے جوان وزیر کا بیا ن ہے کہ پا کستا ن سیا ستدانوں نے بنا یا تھا اور وہ ہی اس کی حفا ظت کریں گے۔کو ئی پو چھے کہ اے سیا ست کے افلا طون کیا حفا ظت کے لیئے ضرو ری ہے کہ پا کستا ن کو بنجر و بیا بان بنا یا جا ئے۔مو جو دہ جمہو ریت کے سنہری کا رنا موں میں ایک کا رنا مہ یہ بھی ہے کہ اے این پی کو را ضی رکھنے کے لیے بجلی اور پا نی کے سا بق وزیر اور موجو دہ وزیر اعظم نے عہدہ وزا رت سنبھا لتے ہی عوا م کو جو ش خبری سنا ئی کہ کا لا با غ ڈیم نہیں بنے گا چا ہے تم ہزا ر روپے سیر آٹا خریدو یا بچے بیچ کر جیو ۔بد قسمتی سے ہما رے ملک میں جمہو ریت نے بلیک میلنگ اور وطن دشمن کا رو پ دھا ر لیا ہے۔ جنا ب اجمل نیا زی کے مطا بق بھا رت کا لا با غ مخا لف پا رٹیو ں کو سا لا نہ اربو ں روپے دے رہا ہے تا کہ پا کستا نی قوم فا قوں مرے اور تنگدستی اور غربت کے شکنجے میں آ کر بھا رتی با لا دستی قبو ل کر لے۔وہ سیا ستدا ن جو ملک بچ ا نے کے دعویدا ر ہیں۔ ان میں اتنی صلا حیت نہیں کہ وہ اس مسئلے کو حل کر سکیں کیونکہ سند ھی قوم پرست اے این پی اورایم کیو کا ووٹ بینک خرا ب کر دیں گے۔ایک طرف ہما رے سے ا ستدا ن اور مبلغین جمہو ریت ڈیمو ں کی سیا ست میں اُلجھ کر معیشت کی ریڑھ کی ہڈی زرا عت کو تبا ہ کر نے کی کو شش میں ہیں اور دوسری طرف بھا رت عا لمی معا ہدوں اور قوانین کی پرواہ کیے بغیر پا کستا ن کی طرف آنے والے سبھی دریا وُں پر ڈیم بنا کر پا کستا ن کو بنجر بنا نے کی بھر پو ر کو شش کر رہا ہے۔

ہما رے وہ سیا ستدا ن جو پا کستا ن کو بنجر بنا نے والے بھا رت سے دو ستی کی پینگیں بڑ ھا نے اور امن کی آشا پر بے تہا شا خرچ کرنے میں مگن ہیں کس منہ سے جمہو ریت ،حب الوطنی اور ملکی سا لمیت کی بات کرتے ہیں ۔ کیا ملک کا خزا نہ لو ٹنا ،اسمبلیو ں میں بیٹھ کر اپنے لیے مرا عا ت حا صل کر نا ،اپنی عیا شیو ں اور حفا ظت پر قو می خزا نے پر ہا تھ صا ف کرنا ، لاقانو نیت کو استحکا م اور جرم کو مرا عات کہنا ،عوام کو غر بت ، افلا س اور بیروزگا ری کے دلدل میں پھیکنا سیا ست اور جمہو ریت ہے ؟کیا سرکا ری حج ،عمرے اور درگا ہو ں پر حا ضری اسلا م کی خد مت ہے؟ اور اگر ہے تو کس فقہ،اصول،فکر اور فلسفے کے تحت ہے ؟اس کا جواب بھی کسی اینکر کے سا منے بیٹھ کر دینا چا ئیے۔کیا میٹرک پا س دو ستو ں اور بیلی یا روں کو منا فع بخش عہدوں پر لگا کر اربو ں رو پے کی کرپشن کروا نا اور پھر کرپٹ لو ٹیرو ں کو با حفا ظت ملک سے بھگا دینا ملکی سا لمیت اور بقا ء کیلئے ضرو ری ہے؟

جنا ب مولا نا طا ہرا لقا وری فکر و نظر کے حا مل فلسفی اور دا نشور ہیں اور اگر وہ وا قعی عملی انقلا ب کا مشن لے کر آئے ہیں تو یقینا پا کستا نی عوام اُن کی آواز پر لبیک کہیں گے۔جیسا کہ خدشہ ظا ہر کیا جا رہا ہے کہ مو لا نا کا انقلا ب بھی دوسرے انقلا بیو ں کی طرح با ت چیت کی نظر ہو کر زبا نی اور بیا نی انقلا ب میں بدل جا ئے گا اور حکو مت اپنے اندرونی اور بیرو نی دو ستو ں کی مدد سے شیخ السلا م کے انقلاب کو لاہور تک ہی محدود رکھے گی ۔ایک لنگرگپ یہ بھی ہے کہ ملک ریاض عنقریب شیخ الاسلام سے ملاقات کرکے ان کے ادارے کے لئے خطیر رقم چندہ کرنے والے ہیں اور پھر اس چندے کو مندے کا سودہ بنا کر تشہیر کی جا ئے گی اور مو لا نا وضا حتیں دیتے وا پس چلے جا ئیں گے۔

شیخ الا السلا م کی آمد اور مستقبل کے منصو بے کی خوبصورتی یہ ہے کہ اس میں لمبی تا ریخ نہیں 14 جنوری میں چند رو ز ہی با قی ہیں اور غریب اور بد حا ل عوام ایڑیا ں اُ ٹھا اُٹھا کر دیکھ رہے ہیں کہ کیا مولا نا طا ہر القا دری گو جر خا ن تک بھی آتے ہیں یا نہیں۔آج کل اسلا م آبا د سے زیا دہ اہمیت گو جر خان کی ہے چونکہ عسکری، سیا سی اور رو حانی قیا دت(آستا نہ عالیہ جنا ب پرو فیسر رفیق صا حب)اسی خطہ زمین سے ہے۔دیسی دانشوروں کا خیا ل ہے کہ کسی بھی انقلا ب کیلئے گوجر خا ن کی حدیں کرا س کرنا ضرو ری ہے۔اسلیے آنے وا لی ہر تبدیلی کا دا رومدا ر گو جر خا ن منصوبے کی کا میا بی پر منحصر ہے۔گو جر خا ن کی مو جودہ حیثیت ویسی ہی ہے جیسے دہلی کیلئے پا نی پت کی تھی۔

گو جر خا ن کی زمین تا ریخ سا ز ہے۔یہ علا قہ ما رشل ریس کا مسکن ہے جہاں جراتوں کے امین شیر دلیر مجا ھد پیدا ہوئے اور وطن کی حفا ظت کیلئے تن من کی بازی لگا دی۔ لانس نا ئیک محفو ظ شہید نشا ن حیدر اور کیپٹن را جہ سرور شہید نشا ن حیدرکا تعلق اسی سر زمین سے ہے۔اس سر زمین پر بیشما ر ولیو ں ،شہیدوں ، غازیوں اور جذبہ عشق میں سرشا ر دین کے خدمتگا روں کے مسکن و مزار ہیں۔اسّی سال پہلے میرے علا قے سے تعلق ر کھنے وا لے ایک شا عر جن کا نا م را جہ زما ن تھا ، انھوں نے بھی گوجر خا ن کو اہمیت دی اور اپنی سہ حرفی میں گو جر خان کا مخصوص ذکر کیا ۔را جہ صا حب نے لکھا کہ سا ری دنیا بشمول گو جر خا ن دیکھی مگرچناں(را جہ صا حب کی محبوبہ) کے بغیر دنیا ویرا ن ہے را جہ زما ن کی دنیا چناں کے بنا ویرا ن تھی اور آج ہما رے جمہو ریت پسند سیا ستدان اسے بھا رت دوستی کے عشق میں ویرا ن کرنے جا رہے ہیں۔کیا شیخ الااسلا م گو جر خا ن کی سرحدیں عبو ر کر کے اسلام آباد پہنچ پا ئینگے؟ اور پا کستا ن کو ویرا ن ہو نے سے بچا سکیں گے۔اس کیلئے چو دہ تا ریخ کا انتظا ر ہے۔

م۔ ملک پنجا ب وچ با ہو ں پھر یا ں ،دلی کا نگڑہ جھنگ ملتا ن تکیا ، میر پو ر دریا توں پا ر ہویا ں کا لا مندرہ تے گوجر خان تکیا
کیتے سیر سمندری جہاز اُتے اٹلی ،روم تے عجب انگلستان تکیا، کی پچھنے اُو سچ زمان کولوں وزن چناں دے ملک ویرا ن تکیا

اﷲ اس ملک کی حفا ظت کرے ۔عوام کو عقل و شعور دے اور بھا رت اور مغرب دوست سیاستدانوں سے اور نام نہا د دا نشوروں سے نجا ت دے (آمین)
asrar ahmed raja
About the Author: asrar ahmed raja Read More Articles by asrar ahmed raja: 95 Articles with 90687 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.