انقلاب ....یا فتنہ و فساد؟

جب سے لاہور ہائی کورٹ سے ”سند یافتہ“ مولانا طاہر القادری عرف ”شیخ الاسلام“ کا شور و غوغا بلند ہوا ہے، مجھ ناچیز سمیت پاکستان کے اکثر عوام حیرت زدہ ہیںبلکہ عوام کیا خواص بھی حیرت کے سمندر میں ڈبکیاں گلا رہے ہیں۔ ملکی سیاست اور ریاست بچاﺅ نعرے کی بات کو آگے بڑھانے سے پہلے موصوف کا تھوڑا سا ماضی کھنگال لینے میں کوئی حرج نہیں ہوگا۔ عرصہ ہوگیا جب موصوف کے خوابوں کا خوب چرچہ کیا جاتا تھا، شائد لوگوں کے اذہان اس سے متاثر بھی ہوتے ہیں گے کیونکہ جب حضور اکرم ﷺ کی بات آجائے تو پھر کوئی اور بات نہیں ہوسکتی۔ موصوف کی ایک ویڈیو اب بھی یو ٹیوب پر پڑی ہے جو گذشتہ رات ایک ٹی وی چینل نے چلائی بھی کہ جس میں موصوف رو رو کر اپنی خواب بیان کررہے تھے کہ کیسے حضور اکرم ﷺ ان کے خواب میں تشریف لائے اور کس طرح انہوں نے اہل پاکستان، بالخصوص علماءکرام سے اپنی ناراضگی کا اظہار کیا اور موصوف کی گریہ زاری سے متاثر ہوکر صرف ان کا مہمان بننا پسند کیا بشرطیکہ موصوف حضور اکرم ﷺ کے پاکستان میں مزید ایک ہفتہ قیام اور مدینہ واپسی سفر کی ٹکٹ کا انتظام کرسکیں۔ میں اپنی رائے اس معاملہ میں محفوظ رکھتا ہوں کہ حضور ﷺکے پاکستان میں قیام اور واپسی کے لئے ان کو انظام و انصرام اور ٹکٹ کی ضرورت تھی؟ یہ تو ماضی بعید کی بات تھی ماضی قریب کی کچھ ویڈیوز بھی چند یوم قبل ایک مشہور ٹی وی پروگرام میں دکھائی گئی تھیں جن میں توہین رسالت ﷺ سے متعلقہ قانون 295-C کے بارے میں پاکستانیوں سے خطاب کرتے ہوئے موصوف کا دعویٰ تھا کہ ضیاءالحق دور میں یہ قانون موصوف نے ہی بنوایا تھا جبکہ مغربی میڈیا کے سامنے ان کا بیان اس سے قطعی مختلف تھا نیز ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ توہین رسالت کے قوانین کا اطلاق صرف اور صرف مسلمانوں پر ہوتا ہے غیر مسلموں پر ہرگز نہیں۔ جب ان سے اس بارے میں سوالات پوچھے جاتے ہیں تو وہ یہ کہتے ہیں کہ ان کی بات چیت کو سیاق و سباق سے ہٹ کر دکھایا گیا ہے جس سے مفہوم میں تبدیلی ہوگئی، اگر ایسی ہی بات ہے تو ان کو چاہئے کہ وہ ان ٹی وی چینلز کے خلاف ہرجانے کے دعوے کریں یا مکمل ویڈیو میڈیا کو جاری کردیں تاکہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہوجائے، لیکن مجھے یقین ہے کہ ایسا ہو گا نہیں کیونکہ یہ کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کا دور ہے جہاں اب ہر قسم کا ریکارڈ محفوظ ہے، جاہلیت تو اب بھی ہے لیکن صرف ان اذہان میں جو موصوف اور ان جیسے دوسرے لوگوں کے مریدین میں ہے، پرانا والا دور جس میں عوام کو جاہل سمجھ کر انہیں بیوقوف بنایا جاتا تھااب نہیں رہا کیونکہ اگلے لمحے سارا کچا چٹھا سامنے آجاتا ہے۔

بہر حال یہ تو جملہ معترضہ تھا موصوف کے ماضی بعید اور ماضی قریب کے حوالے سے، ویسے کون نہیں جانتا کہ موصوف اب کینیڈا کے باقاعدہ شہری ہیں اور نہوں نے ملکہ برطانیہ سے وفاداری کا حلف اٹھا رکھا ہے۔ اب وہ جو چاہے کہیں، جس طرح چاہے تاویلات پیش کریں لیکن بات بنتی نظر نہیں آتی کہ جس کا ماضی مشکوک، جو کینیڈا اور ملکہ برطانیہ کا وفادار، جس کا اس ملک اور اس دھرتی سے وہ تعلق باقی ہی نہیں جو یہاں کے بیس کروڑ لوگوں کا ہے، اس کے دل میں اچانک کیسے اس ملک و قوم کا درد اتنا بڑھ گیا کہ سب کچھ تیاگ کر یہاں قدم رنجہ فرمانے پڑے۔ نعرہ ہے کہ انتخابات سے پہلے انتخابی اصلاحات کی جائیں، آئین کی صحیح روح کے مطابق ایسے قوانین مرتب کئے جائیں جس سے ایک عام آدمی الیکشن لڑ سکے اور اسمبلی میں پہنچ سکے۔ ایسے حالات پیدا کئے جائیں جس سے جاگیر داری کا خاتمہ ہوسکے، امن و امان کی صورتحال اور کراچی میں روزانہ کی بنیاد پر گرتی ہوئی لاشوں کا ذکر کیا جاتا ہے لیکن کن لوگوں کو اپنے دائیں بائیں بٹھا کر، کن لوگوں کی مدد و تائید سے؟ کیا موصوف نہیں جانتے کہ اگر لندن والے الطاف حسین چاہیں تو کراچی میں خون خرابہ چند منٹ میں بند ہوجاتا ہے، کیا وہ نہیں جانتے کہ اصحاب قاف کم و بیش سارے کے سارے جاگیر دار ہیں، جو چند لوگ جاگیر دار نہیں ہیں، ان کی سوچ بہرحال ویسی ہی ہے۔ان لوگوں کی مدد سے کسی انقلاب کا راستہ ہموار نہیں کیا جاسکتا البتہ ملک میں انارکی ضرور پھیلائی جا سکتی ہے، فتنہ و فساد میں ضرور مبتلا کیا جاسکتا ہے، قتل و غارت گری کی راہ ضرور ہموار کی جاسکتی ہے، جو کی جارہی ہے۔

کون نہیں جانتا کہ ملک بڑی مشکلوں سے ایک آمر کے چنگل سے نکلا اور جمہوریت کے راستے پر چلنا شروع ہوا، یہ وقت کا تقاضا تھا کہ جب موجودہ حکومت کا آئنی وقت تقریباً پورا ہوچکا تو نئے انتخابات کرائے جائیں اور میراماننا ہے کہ اگر تین چار انتخابات تسلسل کے ساتھ ہوجائیں تو ایک راستہ متعین ہوجائے گا، پاکستانی قوم میں شعور آتا جائے گا، سوچ میں پختگی آتی جائے گا اور ایک وقت ایسا یقینا آئے گا جب لوگ وقتی فائدے کے لئے نہیں بلکہ قومی سوچ کے ساتھ ووٹ ڈالیں گے اور اپنے نمائندے منتخب کریں گے۔ اگر انتخابی اصلاحات کا ہی مطالبہ ہے تو موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آتے ہی کیا جانا چاہئے تھا کہ اگلے انتخابات تک اس کی اصلاح کی جائے ورنہ ہم انتخابات نہیں ہونے دیں گے، لیکن موصوف کے ماضی اور ان کی وارد ہونے کی ٹائمنگ نے سارا معاملہ مشکوک کردیا ہے۔ موصوف اگر نئے نظام، خلافت راشدہ یا متناسب نمائندگی کے انتخاب کی بات کرتے تو شائد ان کی دکان چل جاتی لیکن اب ان کی دکان میں وہ ”مال“ نہیں جو خریدا جاسکے اس لئے اس نعرے اور اس ایجنڈے کے پیچھے ایک خفیہ ہاتھ بہرحال نظر آتا ہے۔ ایک عام آدمی بھی اب کافی ہشیار اور سمجھدار ہوچکا ہے، وہ ماضی کی باتیں بھی کرتا ہے اور مستقبل بھی اس کے سامنے ہے۔

کیا ایسا محسوس نہیں ہوتا کہ ساری تگ و دو کا ایک ہی مقصد ہے کہ کسی طرح انتخابات نہ ہوسکیں اور یہ ایجنڈہ بھی ملکی اسٹیبلشمنٹ کا نہیں بلکہ بین الاقوامی اسٹیبلشمنٹ کا ہے۔ اگر غور کیا جائے کہ اس کی وجوہات کیا ہوسکتی ہیں تو کسی حد تک پتہ چلایا جاسکتا ہے۔ میرے نزدیک سب سے بڑی وجہ یہ ہو سکتی ہے کہ چونکہ 2014 میں امریکہ افغانستان سے واپس جا رہا ہے جس سے پہلے وہ وہاں ایسا سیٹ اپ قائم کرنا چاہتا ہے جو مستقبل میں افغانستان کو امریکہ کے ساتھ جوڑے رکھے اور طالبان کا وجود ختم کرنے میں مدد فراہم کرے جس کے لئے پاکستان میں کوئی ایسی حکومت ہونی ضروری ہے جو امریکہ کے سامنے چوں چراں نہ کرسکے اور جو انکل سام کا حکم ہو اس پر آنکھیں بند کرکے لبیک کہہ سکے، چنانچہ اس وقت پاکستان میں اگر کوئی سیاسی حکومت موجود ہو تو شائد اس طرح امریکہ کی خدمت نہ کرسکے جس طرح موجودہ حکومت کررہی ہے، آئندہ انتخابات میں چونکہ پیپلز پارٹی کے دوبارہ برسر اقتدار آنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں اس لئے عالمی قوتیں چاہتی ہیں کہ یا تو صفائی ستھرائی اور انتخابی اصلاحات کے نام پر کوئی ٹیکنو کریٹ حکومت ہو یا مارشل لاءہو کیونکہ امریکہ نے جب بھی اس خطے میں کوئی کارروائی ڈالنا ہوتی ہے اس سے پہلے پاکستان میں اپنی مرضی کی حکومت بنواتا ہے، ماضی میں اکثر فوجی ڈکٹیٹر ان کی مدد کیا کرتے تھے، اب چونکہ مشرف کے بعد فوج کو مشکل پیش آرہی ہے اس لئے ٹیکنو کریٹس کو استعمال کرنے کا پروگرام بن رہا ہے، لیکن اگر اس میں ناکامی ہوتی ہے تو پلان بی مارشل لاءہی ہوسکتا ہے۔ اس سارے تناظر میں دیکھا جائے تو یہی لگتا ہے کہ موجودہ حکومت اور اس کے اتحادی بھی اس ”گیم“ میں شامل ہیں، چاہے کوئی بھی سیٹ اپ ہو، یہ ان کو یقین ہے کہ صدر مملکت کے عہدے پر زرداری ہی رہیں گے، اسی لئے ایم کیو ایم اور قاف لیگ موصوف کی پوری مدد کر رہی ہیںکیونکہ ان کو بھی یقینا کوئی ”لالی پاپ“ دیا گیا ہوگا۔ اسی طرح ایک تیر سے کئی شکار کرنے کا پروگرام بن چکا ہے جن میں مسلم لیگ (ن)، تحریک انصاف اور مذہبی جماعتوں کو اقتدار کے کھیل سے فی الحال، ایجنڈے کی تکمیل تک باہر کردیا جائے، یہ جماعتیں ایسی ہیں جو کسی بھی مسئلہ پر تحریک تو چلا سکتی ہیں لیکن ملک و قوم کو فتنہ و فساد میں مبتلا نہیں کرسکتیں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ بھی شبہ ہے کہ متوقع لانگ مارچ میں خونریزی بھی کی جائے گی، کسی بم بلاسٹ کی صورت میں، فائرنگ کی صورت میں یا کسی بھی دیگر طریقہ سے دہشت گردی کے ذریعے یا لانگ مارچ میں شریک ہجوم اور امن و امان قائم رکھنے والے اداروں کے باہم ٹکراﺅ سے، کوئی بعید نہیں کہ وفاقی حکومت فوج کو بھی طلب کرلے، تاکہ باہمی منافرت میں اضافہ کیا جاسکے جو فتنہ و فساد اور انارکی پھیلانے میں یقین ممد و معاون ہوگی۔ آخر میں ایک مشورہ مسلم لیگ (ن) اور تحریک انصاف کی سپریم لیڈرشپ ،خصوصاً میاں نواز شریف اور عمران خان کے لئے، وہ یہ کہ موجودہ کھیل یقینا غیر ملکی اشاروں پر ہورہا ہے، آپکی جماعتیں اگر ملک سے محبت رکھتی ہیں، اگر جمہوری مزاج رکھتی ہیں، اگر فتنہ و فساد اور انارکی سے اس دھرتی کو بچانا چاہتی ہیں تو مہربانی فرمائیں کیونکہ یہ وقت آپس میں لڑنے کا نہیں، یہ وقت باہم اتحاد و اتفاق کا ہے، مل کر دشمن سے مقابلے کا ہے اس لئے اگر آپ اس ملک و قوم کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں تو صرف سیاست نہ کریں بلکہ مکار لوگوں سے اس دھرتی کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ وما علینا....
Mudassar Faizi
About the Author: Mudassar Faizi Read More Articles by Mudassar Faizi: 212 Articles with 222651 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.