پاکستانی فوج نے گیارہ سال بعد
دہشت گردی کے خلاف اپنی آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی کرتے ہوئے ملک کو لاحق
اندرونی خطرات کو ملکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔پاکستانی
فوج کی جانب سے شائع کردہ نئے فوجی نظرئے یا "آرمی ڈاکٹرِن"میں ملک کی
مغربی سرحدوں اور قبائلی علاقوں میں جاری گوریلا کاروئیوں اور بعض تنظیموں
کی جانب سے اداروں اور شہریوں پر بم حملوں کو ملکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا
خطرہ قرار دیا گیا ہے۔یہ"ڈاکٹرن"فوج اپنی جنگی تیاریوں اور استعداد کار کے
جائزے اور اسے درست سمت میں رکھنے کے لئے شائع کرتی ہے۔ اس بار دو سو سے
زائد صفحات پر مشتمل اس سبز کتاب میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا گیا ہے
جیسے"سب کنونشنل وار فیئر"یا نیم روایتی جنگ کا نام دیا گیا ہے۔ اس جنگ میں
کرداروں کا نام لئے بغیر بعض تنظیموں اور عناصر کا ذکر کیا گیا ہے۔لیفٹیننٹ
جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کے مطابق اس ڈاکٹرن کے شائع ہونے سے قبل بھارت ہی
پاکستان کا دشمن نمبر ایک رہا ہے۔یہ پہلی بار ہے کہ پاکستانی فوج نے
باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے کہ اب ملک کو اصل خطرہ اندرونی ہے جس کا
ارتکاز مغربی سرحد اور اس سے ملحقہ علاقوں میں ہے۔"پاک فوج کو اپنی عسکری
ترجیحات کی تبدیلی کا احساس یقینی طور پر شمالی مغربی طویل سرحد پر غیر
قانونی آنے والوں افراد کو روکنے میں ناکامی کے علاوہ ، نیٹو اور افغان
افواج کی جانب سے فوجیوں چوکیوں پر حملے سمیت اسامہ کی ہلاکت کے لئے امریکی
فورسز کی پاکستانی ریاست میں داخلے سے بے خبری سمیت ڈرون حملوں کو روکنے
میں ناکامی بھی شامل ہے۔مملکت میں جاری دہشت گردی کا منبع شمالی مغربی
سرحدوں پر غیر ملکیوں کی بلا روک ٹوک آمد میں رکاﺅٹ اس لئے بھی پیدا ہو رہی
ہے کہ اس طویل سرحد کو اگر پاکستانی فوج کنٹرول کرنے کی کوشش کرےگی تو پہلے
قبائلی علاقوں میں قائم دہشت گردی کے ٹریننگ کیمپوں اورمراکزکے خاتمے کے
لئے منطقی آپریشن کے عمل سے گذرنا ہوگا کیونکہ فوج کے مقابل ان علاقوں میں
ملک دشمن عسکری قوتیں بھرپور طاقت کے ساتھ جمع ہیں اور ان کے خاتمے کے لئے
پک فوج کو اپنے تمام ذرائع بروئے کار لاتے ہوئے مستقل بنیادوں پر کاروائی
کرنا ہوگی ، افغان روس جنگ میں امریکی مفادات کے لئے سرحدوں کا آزادنہ
استعمال اور نگرانی میں عدم دل چسپی کی وجہ سے اس طویل ترین سرحد کو امریکہ
بھی محفوظ بنانے میں ناکام رہا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بار بار مطالبے پر
بھی افغان ، امریکہ اور نیٹو فورس کی جانب سے سرحدی علاقوں کو سیل نہیں کیا
جاسکا ۔ پاک افغان سرحد پر مناسب کنٹرول کے لئے اندازے کے مطابق امریکہ کو
تیس ہزار کے قریب فوج تعینات کرنے کی ضرورت تھی لیکن بھاری اخراجات اور
اپنے افواج کے عدم تحفظ کی بنا ءپر مغربی سرحدیں اس قدر غیر محفوظ ہوگئیں
کہ اب باقاعدہ پاک بری فوج کی جانب سے منصوبہ بندی جاری ہوگئی ہے کہ اب اصل
خطرہ اور ملکی سلامتی کا پہلا دشمن کہاں ہے ۔اسی سلسلے میں فوج کے زیر
انتظام ایف ایم ریڈیو نیٹ ورک کے ذریعے نشریات پہنچانے کا سلسلہ بھی شروع
کیا گیا ۔اس ریڈیو نیٹ ورک کے ذریعے ملا کنڈ ڈویژن ، فاٹا کی اورکزئی کے
علاوہ تمام ایجنسیوں اور بلوچستان میں کوئٹہ ، پنچگور ، خصدار اور دیگر
علاقوں میں نشریات سنائی جارہی ہیں اور اس طریق کار سے عوام میں شعور و
آگاہی کی مثبت مہم کے بعد شمالی ، مغربی سرحدوں کی نگرانی کے لئے پاک فوج
کی سنجیدگی ،اہم اقدام ہے ۔ کیونکہ عسکری قوت کے تمام ہیڈ کواٹرز کو جس طرح
دہشت گردی کا نشانہ بنایا گیا اس سے عسکری قوت کی استعداد کار پر بہت بڑا
سوالیہ نشان چھوڑا تھا۔جیسے رد کرنے کے لئے پاک فوج کی جانب سے خطرناک دشمن
کی جانب رخ موڑ لینا بروقت اقدام ہے ۔ گو کہ بعض حلقوں کی جانب سے اس
تبدیلی کو تاخیری فیصلہ قرار دےتے ہوئے کہا گیا ہے کہ یہ فیصلہ بہت پہلے
کرلینا چاہیے تھا اگر یہ فیصلہ پہلے کرلیا جاتا تو یقینی طور پر پاکستان
کودہشت پسندی کی گوریلا جنگ میں اس قدر نقصان نہ اٹھاتا۔مغربی میڈیا کی
جانب سے متعدد بار شمالی وزیرستان میں آپریشن کے حوالے سے پاکستانی فوج کے
سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی اور افغانستان میں امریکی افواج کے اہم
کمانڈر جنرل جان ایلن کے درمیان بات چیت کے حوالے سے ماحول کو کافی گرم
رکھنے کی کوشش کی گئی لیکن آئی ایس پی آر نے جنرل کیانی کا ایک بیان جاری
کرکے اس تاثر کو دور کرنے کی کوشش کی تھی کہ پاکستان نہ تو وزیرستان
میںآپریشن کی کوئی تیاری کر رہا ہے اور نہ کسی کے کہنے پر وہاں کاروائی
کرنے کا کوئی ارادہ ہے۔اس کے باوجود تواتر سے آپریشن کے حوالے سے خبریں
میڈیا میں آتی رہیں۔ملالہ یوسف زئی حملے کے بعد قدرے تیزی آئی لیکن ملالہ
حملے کو متعدد جماعتوں نے سیاسی ایشو بنا کر شمالی قبائلی علاقوں میں
آپریشن کو متنازعہ بنا دیا ۔لیکن بشیر بلور کو شہید کئے جانے اور، خاص طور
پر پشاور میں غیر ملکیوں کی ائیر پورٹ حملے میں ہلاکت کے بعد اس مطالبے میں
نہاےت شدت پیدا ہوئی۔شمالی وزیرستان میں آپریشن ملکی سرحدوں کی حفاظت کے
لئے ناکافی تصور کیا جاتا رہا ہے اس لئے گمان یہی ہے کہ پاک فوج نے اپنی
روایتی دشمن سے پہلے نمبر کے ساتھ، گیارہ سال بعد دہشت گردی کے خلاف اپنی
آپریشنل ترجیحات میں تبدیلی کرتے ہوئے ملک کو لاحق اندرونی خطرات کو ملکی
سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دیا ہے۔چونکہ شمالی مغربی سرحدوں پر
سیاسی اور عسکری قوتوں کے ساتھ عوام میں اتفاق رائے پیدا نہیں ہورہا تھا
اور ضرورت اس بات کی تھی اتفاق رائے پیدا کی جائے کیونکہ اس سے پہلے
پاکستان کے قبائلی علاقوں اور خیبر پختوخوا میں جتنی بھی کاروائیاں ہوئی
ہیں ان کے لئے پہلے سے ایک ماحول موجود ہوتا تھا اور فوج کو سیاسی قیادت کے
ساتھ عوام کا ایک موقف ہوتا تھا۔ذرائع کے مطابق پاکستانی فوج وزیرستان میں
بیس ارب سے زائد پراجیکٹس پر کام کر رہی ہے۔افغان سرحدوں تک سڑکوں کے جال
بچھائے جا رہے ہیں اور دیگر منصوبوں پر بھی کام ہورہا ہے۔اس حالت میں مقامی
افراد کے تعاون کے بغیرکوئی بھی کاروائی نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے یہی وجہ
ہے کہ فوج کو بالاآخر اپنی ترجیحات کی درست سمت کے لئے واضح حکمت عملی دے
دی ہے۔لیکن اس بات کو واضح کردیا ہے کہ اپنے روایتی دشمن سے غافل نہیں
ہیں۔بری افواج کی ترجیحات کی تبدیلی سے رائے عامہ میں مثبت تبدیلی رونما
ہوگی۔جب امریکی وزیر دفاع لیون پنیٹا نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ پاکستان
افغان سرحد کے قریب قبائلی علاقے میں طالبان جنگجوﺅں کے خلاف فوجی کاروائی
شروع کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا ہے جہاں القاعدہ سے جڑے حقانی نیٹ ورک کے
شدت پسندوں نے محفوظ ٹھکانے بنائے ہوئے ہیں ۔تو دوسری جانب خیبر پختوخوا کے
وزیر اعلی امیر حیدر خان ہوتی نے کہا تھا کہ فوجی آپریشن کی باتیں اب تک
محض قیاس آرائیاں ہیں۔ اس بارے میں فیصلہ کرنے کے لئے پاکستان میں فورمز
موجود ہیں اور جب آپریشن کا فیصلہ کرلیا گیا تو سب کو علم ہوجائے گا۔اس پر
امریکی دفاع نے کہا کہ انھیں یہ نہیں معلوم کہ یہ فوجی کاروائی کب شروع
ہوگی لیکن انھوں نے کہا کہ" وہ سمجھتے ہیں کہ ایسا جلد ہی ہوگا لیکن اسکا
ہدف حقانی نیٹ ورک کے بجائے پاکستانی طالبان ہونگے۔چودہ اگست کے موقع پر
جنرل کیانی نے کہا تھا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف فوج کی نہیں بلکہ
پاکستانی عوام بھی اس کا حصہ ہیں۔اس لئے ضروری ہے کہ قوم اس کے لئے یکسو ہو
کیونکہ فوج کی کامیابی عوام کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔"چار ماہ بعد باقاعدہ
فوج کی جانب سے فوجی نظرئےے یا "آرمی ڈاکٹرِن"میں ملک کی مغربی سرحدوں اور
قبائلی علاقوں میں جاری گوریلا کاروئیوں اور بعض تنظیموںکی جانب سے اداروں
اور شہریوں پر بم حملوں کو ملکی سلامتی کے لئے سب سے بڑا خطرہ قرار دئےے
جانے کی دستاویز آنے کے بعد اب کوئی شکوک وشبہات نہیں رہے کہ پاک فوج مربوط
اور جامع منصوبہ بندی کے تحت شمالی مغربی سرحدوں کی حفاظت اور قبائلی
علاقوں میں آپریشن سمیت حکومتی رٹ قائم کرنے کا مصمم ارادہ کرچکی ہے اور
اپنی پہلی ترجیح میں شامل کرتے ہوئے اپنی روایتی دشمن سے بھی جارح اور
خطرناک دشمن اندرونی غیر راویتی جنگجوﺅں کو ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار
دیتے ہوئے عوام پر واضح کردیا ہے کہ انھیں پاک فوج کا ساتھ دینے کے لئے
اتفاق رائے پیدا کرنا ہوگا جو وقت کی اہم ضرورت اور ناگزیر ہے۔ |