وفاق اور تین صوبوں کی حکمران
جماعت پیپلزپارٹی کے اعلیٰ عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اپنی کارکردگی کی بنیاد
پر عوام کے پاس جائیں گے اور عوام کی حمایت سے دوبارہ حکومت بنائیں گے۔جبکہ
پاکستان کے سب سے بڑے صوبے ،صودہ پنجاب کی حکمران جماعت کے سربراہ میاں
محمد نوازشریف کا فرمان عالی شان ہے کہ عوام نے ساتھ دیاتو ملک و قوم کی
تقدیر بدل دیں گے۔
کچھ اس سے ملتا جلتا نعرہ سونامی خان بھی لگا رہے ہیں اور خادم اعلیٰ پنجاب
میاں محمد شہبازشریف کو تو کچھ لوگ خادم اعلیٰ لاہور کا خطاب دے چکے ہیں ۔ان
لوگوں کا خیال ہے پچھلے پانچ سالوں سے پنجاب میں جتنے ترقیاتی کام ہوئے ان
کا مرکز لاہور رہا۔میں ان لوگوں کو آج یہ بتانا چاہتا ہوں کہ وہ صرف
میٹروبس سروس منصوبے اور کچھ دیگر سڑکوں کی تعمیر کی بنیاد پرخادم اعلیٰ
پنجاب کو خادم اعلیٰ لاہور کا خطاب دے رہے ہیں جو نامناسب ہے۔کیونکہ یہ
منصوبے صرف اہل لاہور کی ضرورت نہیں ہیں بلکہ ان منصوبوں کے مکمل ہونے پر
پورے پاکستان سے لاہور آنے جانے والے لوگ مستفید ہوں گے۔اہل لاہور نے تو
میٹرو بس سروس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔
کیونکہ اس منصوبے کو مکمل کرنے کے لیے درجنوں مارکیٹیں مسمار کرنی پڑیں ہیں
جن سے ہزاروں لوگوں کا روزگار وابستہ تھا۔اوراس سے بھی بڑی مشکل اس منصوبے
نے شہر لاہور کو دو حصوں میں تقسم کردیا ہے۔پل دور دور ہونے کی وجہ سے سڑک
پار کرنے کے لیے دو سے تین کلومیٹر تک کا سفر طے کرنا پڑتاہے ۔اہل لاہور یہ
بات اچھی طرح سمجھتے ہیںکہ قدم قدم پر پل تعمیر کرنا بھی ممکن نہیں۔میری
نظر میں میٹرو بس سروس سے پورا پنجاب مستفید ہوگا نہ کہ صرف لاہور اور صرف
سڑکیں تعمیر کروانے پر میاں محمد شہباز شریف کو پنجاب کی بجائے خادم اعلیٰ
لاہور کہنا مناسب نہیں ہے۔
خیر یہ تو میری ذاتی رائے ہے جو غلط بھی ہوسکتی ہے ۔لیکن جو مسئلہ میں اب
آپ کی خدمت میں پیش کرنے جارہا ہوں وہ ان کی غلط فہمی دور کرنے کے لیے کافی
ہو گاجومیاں شہباز شریف کوخادم اعلیٰ لاہور کہتے ہیں وہ اس لیے کہ میں خود
لاہور کا رہنے والا ہوں ،ہماری آبادی میں پچھلے پانچ سالوں میں ایک بھی
ترقیاتی کام نہیں ہوا۔روٹی،کپڑااور مکان کا نعرہ لگانے والی جماعت نہ صر ف
کسی بھی قسم کاروزگارفراہم کرنے میں ناکام رہی بلکہ بجلی اورگیس کی
لوڈشیڈنگ بڑھانے کی وجہ سے پہلے سے موجود روزگارکو ختم کرچکی ہے۔عوام کی
تقدیربدلنے والی جماعت مسلم لیگ ن ہمارے ہاں پینے کے صاف پانی کا ایک
منصوبہ مکمل نہ کرواسکی۔ جی قارئین محترم میں کاہنہ نو حلقہ
NA129اورPP159لاہورکا رہائشی ہوں۔یہاں سے کبھی پیپلزپارٹی اور کبھی مسلم
لیگ کے اُمیدوارکامیاب ہوتے ہیں۔
یہاں سے کبھی بھی کسی تیسری پارٹی کا اُمیدوار کامیاب نہیں ہوا۔گزشتہ عام
انتخابات میں بھی NA129سے پیپلزپارٹی کے طارق شبیر اور PP159سے فاروق یوسف
گھرکی کامیاب ہوئے ۔سنا ہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب نے صرف لاہور میں زیادہ
ترقیاتی کام کرواے ہیں۔ہمارا حلقہ بھی لاہور میں ہی ہے لیکن بد قسمتی سے
ہماری حالت زار پر نہ تو پی پی پی کی حکومت کی نظر پڑی اور نہ ہی خادم
اعلیٰ پنجاب کی ۔پچھلے پانچ سالوں میں سوائے فیروزپورروڈ کی تعمیر کے کوئی
ترقیاتی کام نہیں ہوا ہاں جیالوں اور متوالوں کے ذاتی کام ہوتے رہے۔
مسائل تو بے بہا ہیں لیکن آج میں جس مسئلے کی طرف صدر پاکستان جناب آصف علی
زرداری اور خادم اعلیٰ پنجاب میاں محمد شہباز شریف کی توجہ دلانا چاہتا ہوں
ہے۔وہ مسئلہ ہے پینے کے صاف پانی کا۔کاہنہ نو میں ویسے تو زیر زمین سے پانی
نکالنا بہت آسان ہے لیکن وہ پانی پینے کے قابل نہیں ہے جوکہ مجبورا پینا
پڑتا ہے ۔نتیجہ یہ کہ آج کاہنہ نو کے تمام رہائشی جان لیوا امراض میں مبتلا
ہوچکے ہیں۔کوئی تین سال پہلے خادم اعلیٰ پنجاب نے یہاں واٹر فلٹر پلانٹ
لگانے کا حکم بھی دیا جس پر عمل کرتے ہوئے غلہ منڈی کاہنہ نو کے گیٹ کے پاس
ایک کمرہ تعمیر ہوا اور اس میں واٹر پمپ بھی نصب کردیاگیا لیکن بدقسمتی اور
خادم اعلیٰ کی عدم توجہ کی وجہ سے یہ عظیم منصوبہ تاخیرکا شکار ہوگیا۔جس کے
بعد انتظامیہ نے پیپلز پارٹی کے مقامی ایم این اے کے کہنے پر وہ کمرہ جو
واٹرفلٹر پلانٹ کے لیے تعمیر کیا گیا تھا۔
اسے ایل پی جی گیس فروخت کرنے والوں کو کرائے پر دے دیا جسے ایک سال بعد
میڈیا میں خبریں شائع ہونے پر مقامی انتظامیہ نے خالی کرواکے سیل کردیا
۔14اگست2012کے دن اس وقت کے گورنرپنجاب جناب لطیف کھوسہ ایک مقامی اکیڈمی
کی تقریب تقسیم انعامات کے موقعہ پرکاہنہ نو تشریف لائے تو ہم نے پینے کے
صاف پانی کا مسئلہ ان کے سامنے بھی رکھا جس پر انہوں ایک ہفتے میں واٹر
فلٹر پلانٹ کے منصوبے کو مکمل کروانے کا وعدہ کیا۔اس تقرب میں مقامی ایم
این اے جناب طارق شبیرمیو اور ایم پی اے محترم فاروق یوسف گھرکی بھی موجود
تھے لیکن ہمیشہ کی طرح یہ وعدہ بھی سیاسی ہی نکلا لیکن ابھی آس باقی تھی کہ
چند دن پہلے مقامی انتظامیہ نے واٹر فلٹر پلانٹ کے لیے تعمیر شدہ کمرے میں
سے لگا ہوا پمپ اکھاڑ کرکسی صحافی کو اس کمرے کا قبضہ دے دیا ہے۔
سنا ہے وہ شخص مسلم لیگ ن کے کسی سابق ایم پی اے کا قریبی ہے اور اسی سابق
ایم پی اے کے کہنے پر اسے قبضہ دیا گیا ہے ۔لیکن خیر ہمیں اس بات سے کچھ
لینا دینا نہیں کہ کون کس کا قریبی ہے۔اہل علاقہ تو صدر پاکستان جناب آصف
علی زرداری اور خادم اعلیٰ پنجاب جناب میاں شہباز شریف سے اپیل کرتے ہیں کہ
فوری طورپر غلہ منڈی کاہنہ نو کے باہر واٹر فلٹر پلانٹ کے لیے وقف کمرہ
خالی کرو اکے اس میں واٹر فلٹر پلانٹ نصب کیا جائے تاکہ اہل علاقہ کو پینے
کا صاف پانی میسر آسکے:اور معذرت کے ساتھ اگر اسی کو کارکردگی
اورتقدیربدلنا کہتے ہیں کہ کبھی پیپلز پارٹی کا ایم این اے اورکبھی مسلم
لیگ ن کا سابق ایم پی اے واٹر فلٹر پلانٹ کے لیے وقف کمرے کو اپنے رفقاء و
عزیزوں کے قبضے میں دیتے رہیں اور عوام صاف پانی پینے کے لیے ترستے رہیں۔تو
خدارا آپ لوگ اپنے ایم این اے اور ایم پی اے کی تقدیر بدلیں اور انہیں
لوگوں کو اپنی کارکردگی دکھائیں۔ |