2002ءکے انتخابات میں پرویز مشرف
کی آشیرباد سے رکن قومی اسمبلی بننے اور پھر جلد ہی اسمبلی رکنیت اور
پاکستانی شہریت سے لاتعلق ہو کر کینیڈا کے گوشہ عافیت میں بیٹھنے والے
منہاج القرآن کے سربراہ علامہ طاہر القادری کی بھرپور آمد سے سیاسی میدان
میں نئی ہلچل سی مچ گئی ہے۔ 23دسمبر 2012ءکو مینارِ پاکستان کے گراﺅنڈ میں
کامیاب جلسہ کرنے کے بعد علامہ طاہر القادری نے اگلی ڈیڈ لائن 14جنوری کی
تیاریاں شروع کر دی ہیں اور 10جنوری تک انتخابی اصلاحات نہ ہونے کی صورت
میں موجودہ سیاسی نظام کے خلاف لانگ مارچ ہوگا۔ اب سمجھ نہیں آ رہی کہ طاہر
القادری کا اصل ایجنڈا کیا ہے البتہ دونوں بڑی سیاسی جماعتیں پاکستان پیپلز
پارٹی اور مسلم لیگ (ن) اسے تیسری قوت کی سازش قرار دیتے ہوئے الیکشن کا
التواءاور جمہوریت پر شبِ خون مارنے سے تعبیر کرتی ہیں، جبکہ قاف لیگ اور
ایم کیو ایم سمیت تحریک انصاف بھی قادری صاحب کی ہم زبان ہو گئی ہے۔
طاہر القادری سمیت حکومتی اتحادی جماعتوں قاف لیگ اور ایم کیو ایم پر سب سے
زیادہ نوازشات پرویز مشرف کی رہی ہیں، جبکہ عمران خان بظاہر پرویز مشرف
کیخلاف دکھائی دیتے ہیں مگر یہ تاثر بھی عام ہے کہ اندرون خانہ دونوں کے
درمیان رابطے ہیں اور پسِ پشت ایسی گیم تیار ہو رہی ہے کہ جس میں آئندہ
پرویز مشرف (صدر) اور عمران خان (وزیراعظم) بن سکیں۔ عمران خان کو جی ایچ
کیو کا حمایت یافتہ سمجھا جاتا ہے مگر وہ اس تاثر کو اپنے خلاف پروپیگنڈہ
قرار دیتے ہیں۔ پرویز مشرف بھی اپنے بیانات اور انٹرویوز میں فوج اور آئی
ایس آئی کا بھرپور دفاع کرنے کے ساتھ ساتھ سیاست میں عمران خان کے کردار کا
اعتراف اور اُن کے ساتھ اتحاد کے خواہشمند نظر آتے ہیں۔ اگر عمران خان کھل
کر ایم کیو ایم، قاف لیگ یا پرویز مشرف سے اتحاد کا اعلان کرتے ہیں تو پھر
اس کا سارا نقصان نہ صرف تحریکِ انصاف کو ہوگا بلکہ ایسی صورت میں کئی
منجھے ہوئے سیاست دان بھی اُنہیں چھوڑ کر جا سکتے ہیں۔ لگتا ایسا ہے کہ اس
خلاءکو پُر کرنے کیلئے طاہر القادری کو میدان میں اُتارا گیا ہے تاکہ آئندہ
سیاسی منظرنامے پرموروثی سیاست سے باہر نہ نکلنے والی دونوں بڑی جماعتوں
نواز لیگ اور پیپلز پارٹی کے خلاف ایک نیا اور مضبوط سیاسی اتحاد بن
سکے۔بظاہر عمران خان نے طاہر القادری کے لانگ مارچ کی مخالفت کردی ہے لیکن
دونوں رہنماﺅں نے ایک بار پھر نون لیگ اور پیپلز پارٹی کو سابق فوجی صدر
پرویز مشرف کے خلاف ”اکٹھا“ ہونے کا موقع فراہم کر دیا ہے۔
اس تمام صورتحال میں سب سے زیادہ نقصان پیپلز پارٹی اور نواز لیگ کو پہنچے
گا۔ ن لیگ بروقت انتخابات چاہتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی کے اتحادی بکھرتے
دکھائی دے رہے ہیں۔ آج ملک جن حالات سے گزر رہا ہے ایسے میں آئندہ انتخابات
میں عوام کی طرف سے پیپلز پارٹی کو مسترد کرنے کے روشن امکانات نظر آتے
ہیں۔ بظاہر پیپلز پارٹی طاہر القادری کے لانگ مارچ کو جمہوریت کے خلاف سازش
قرار دیتی ہے مگر بعض سیاسی مبصرین کے مطابق وہ یہ خواہش بھی رکھتی ہے کہ
کسی طرح سے سارا سیاسی نظام لپیٹ دیا جائے۔ ایسے میں جہاں حکومت کی پانچ
سالہ کمزوریاں چھپ جائیں گی بلکہ پیپلز پارٹی مظلوم بن کر آئندہ اس سیاسی
شہادت کا بھرپور فائدہ بھی اٹھا سکے گی۔ ایسی صورتحال میں جہاں ایم کیو ایم
اور قاف لیگ کے کردار پر انگلیاں اُٹھ رہی ہیں وہیں قادری صاحب کے حیرت
انگیز طور پر پیپلز پارٹی کے دور حکومت کے ختم ہونے پر ظہور ہونے سے بھی
بہت سے شکوک و شبہات جنم لیتے ہیں۔ شاید ا سی وجہ سے تحریک انصاف اور جماعت
اسلامی سمیت دیگر چودہ سیاسی جماعتوں نے اس لانگ مارچ کی حمایت نہ کرنے کا
فیصلہ کیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے مطابق طاہر القادری کو آئندہ الیکشن میں
ہماری یقینی جیت کے راستے میں رکاوٹیں ڈالنے کیلئے بھجوایا گیا ہے، جبکہ
جمعیت علمائے اسلام(ف) بھی یہ سمجھتی ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابات چاہتی
ہیں مگر کچھ قوتیں ایسا نہیں چاہتیں جس کی وجہ سے آج کچھ لوگ اصلاحات کا
نعرہ لگا رہے ہیں اور آنے والے دنوں میں معاملات مزید خراب ہوتے نظر آتے
ہیں۔
بحیثیت ایک پاکستانی شخصیت پرستی کو ایک جانب رکھتے یہ حقیقت واضح ہے کہ
طاہر القادری صاحب کا ایجنڈا پاکستان اور پاکستانی عوام کے مستقبل کیلئے
کرپٹ لٹیروں کی پھیلائی گھور تاریکی میں اُمید کی ایک روشن کرن ہے مگر اُن
کا عین انتخابات کے قریب اصلاحات کا مطالبہ صحیح ہونے کے باوجود اس قلیل
وقت میں نا صرف ناقابل عمل ہے بلکہ یہ صرف انتخابات کے ملتوی کرانے کے سوا
کچھ نہیں ہے۔ اُن کو چاہئے تھا کہ وہ بجائے کینیڈا میں سکون کے اتنے سال
گزارتے، پاکستان میں رہ کر بہت پہلے سے اصلاحات کیلئے جدوجہد کرتے۔ علامہ
طاہر القادری کا ملک سے بے اعتنائی برت کے عین الیکشن سے پہلے آ کر مطالبے
کرنا صحیح نہیں لگتا، لہٰذا اُن کو واپس کینیڈا کا ٹکٹ بُک کروا لینا چاہئے
یا پھر الیکشن کے بعد آئندہ الیکشن کیلئے اصلاحات کی مہم شروع کر دیں۔ طاہر
القادری کو انتخابی اصلاحات کی بجائے پہلے عوامی اصلاحات کرنی چاہئیں،
کیونکہ جس ملک کی عوام کرپٹ اور اخلاقی اقدار سے گری ہوئی ہو اس کو حکمران
بھی ویسا ہی ملتا ہے۔ اگر وہ واقعی اس قوم کے ساتھ مخلص ہیں تو انہیں چاہئے
کہ وہ سب سے پہلے عوامی بیداری کی مہم چلائیں جس میں عوام کو حقیقی معنوں
میں حقائق سے روشناس کرائیں۔ ہماری عوام کو انتخابات کی حقیقت کا ہی علم
نہیں اور انہیں جس طرف ہانکا جاتا ہے وہ بیچارے لکیر کے فقیر بنے اسی طرف
بڑھے چلے جاتے ہیں۔
سچ پوچھئے تو ہمیں علامہ صاحب کا ملکی سیاست میں کوئی بڑا کردار نظر نہیں آ
رہا۔ چاہے وہ لانگ مارچ کیلئے لاکھوں افراد جمع کرلیں مگر اس سے کوئی بڑی
تبدیلی شاید ہی آ سکے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی ”خفیہ طاقت“ کے بغیر قادری
صاحب کی مقبولیت صرف ”جی ٹی روڈ“ تک ہی محدود ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ انہوں
نے ایم کیو ایم اور قاف لیگ کو ساتھ ملانے کی کوشش کی ہے تاکہ کراچی اور
دیگر صوبوں سے انہیں ”افرادی قوت“ میسر آ سکے۔ مانتے ہیں 23دسمبر کا جلسہ
بڑا ہوا ہے، ایم کیو ایم اور قاف لیگ کے تعاون کے بعد لانگ مارچ بھی بڑا ہو
سکتا ہے لیکن اس سے شاید انہیں وہ نتائج نہ مل سکیں جس کی وہ توقع رکھتے
ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ دیگر سیاسی جماعتیں ایسی بھی غیر مقبول نہیں ہیں
کہ ایسے لانگ مارچ کے جواب میں کوئی بڑا عوامی اجتماع منعقد نہ کر سکیں۔
اگر ہم ماضی میں گو زرداری گو تحریک کی طرف نگاہ دوڑائیں تو ہمیں اس کے
جواب میں وہ بہت بڑا عوامی اجتماع بھی نظر آتا ہے جو کہ پیپلز پارٹی نے
پنجاب اور سندھ کی سرحد پر ”اکٹھا“ کر لیا تھا۔ اس لیے جب تک بڑی سیاسی
جماعتیں منظرعام پر موجود ہیں صرف طاہر القادری صاحب کو ہی ”سب کچھ“ پلیٹ
میں رکھ کر نہیں دے دیا جائے گا۔ بلاشبہ طاہر القادری ایک اچھے مقرر ہیں
لیکن اب وہ پاکستانی نہیں بلکہ کینڈین شہری ہیں اور اُن کی اچانک بھرپور
واپسی اہلِ سیاست کے ذہن میں جو شکوک پیدا کر رہی ہے وہ بھی بلاجواز نہیں
ہے۔ |