ڈرون حملے: لہو لہو پاکستان

امریکی مزائل حملے،انسانی خون اتنا سستا تو نہیں:

امریکی ڈرون طیاروں کے قبائلی علاقوں پر حملوں سے ہر ذی شعور اور محب وطن پاکستانی کو انتہائی تشویش ہے۔ان کا دل خون کے آنسو رو رہا ہے، پاکستان میں ہی موجود شمسی ائر بیس سے اڑنے والے بغیر پائلٹ کے غیر ملکی جہاز جب اور جہاں چاہتے ہیں میزائل داغ دیتے ہیں۔نتیجے میں درجنوں افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں خون ایسے بہایا جاتا ہے جیسے کہ یہ انسان نہیں بلکہ جانوار مر رہے ہیں۔نام نہاد انسانی حقوق کے علبردار اور این جی اوز کو ان معصوم بچوں اور خواتین کی ہلاکتیں نظر نہیں آتیں جو معمولی سے واقعے پر فنڈز بٹورنے کے لیے پریس کانفرنسز کرتی پھرتی ہیں۔ حمکران جماعت پیپلز پارٹی نے جہاں خود کو صرف احتجاج اور افسوس تک محدود کرلیا ہے وہیں اسلام کے نام پر ووٹ لینے والی جماعت جمعیت علماء اسلام ف سمیت دیگر مذہبی جماعتیں بھی خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں۔چیف جسٹس کے لیے دھرنے اور لانگ مارچ کرنے والی مسلم لیگ ن کے سربراہ نواز شریف کو اپنی جلا وطنی پر بڑا افسوس ہے لیکن روتی، بلکتی ،سسکتی بچوں بچیوں اور جل کر کوئلہ بننے والی لاشیں نظر نہیں آتی ہیں اور صرف امریکہ کی خوشنودی کے لیے بیان تک جاری کرنے سے گریزاں ہیں۔دنیا کے کسی بھی کونے میں اگر کوئی امریکی یا برطانوی شہری قتل کردیا جاتا ہے تو واویلا مچایا جاتا ہے حتیٰ کہ انصار برنی صاحب بھی بول پڑتے ہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہورہی ہے لیکن اپنے وطن میں اقوام متحدہ کے دستور۔ جنیوا کنونشن سمیت دیگر کنونشنز مین موجود بنیادی انسانی حقوق نظر ہی نہیں آتے ہیں۔پاکستان کا ہی نہیں بلکہ اقوام عالم کا قانون کہتا ہے کہ اگر کوئی ملزم ہے کسی پر الزام ہے تو اس کو عدالت میں پیش کیا جائے اور عدالت اسے سزا دے، مگر یہاں تو گنگا ہی الٹی بہہ رہی ہے، وکیل بھی خود ہیں،منصف بھی خود ہیں اور فریق بھی خود ہی ہیں۔امریکہ دعویٰ کرتا ہے کہ ان حملوں میں عسکریت پسند یا دہشت گرد مارے گئے ہیں تو کیوں نہ ان کو پکڑ کر عدالت میں پیش کیا جاتا، دنیا کے بہترین اور جدید ہتھیاروں اور نگرانی کے آلات سے امریکہ لیس ہے خود دعویٰ کرتا ہے کہ ان کے پاس ہر شخص کی نقل و حمل کی معلومات ہوتی ہیں اور وہ جب چاہے حاصل کرسکتا ہے تو پھر کیوں نہ بیت اللہ محسود کو گرفتار کرتا۔ قبائلی علاقوں میں مگر اور پاکستان کی ایجنسیوں کے آلہ کار بنے ہوئے مخصوص نام مسلم خان، بیت اللہ محسود، منگل باغ کے پاس ایک عام رپورٹر کی رسائی ہوتی ہے۔ایک عام صحافی جاکر اس سے انٹرویو لیتا ہے تو پھر کونسی ایسی رکاوٹیں ہیں جو حکومت پاکستان اور امریکہ کو ان بدنام افراد کی گرفتاری سے روکتی ہے۔حقییقت تو یہ ہے کہ ہماری اپنی حکومت سمیت امریکہ بھی یہی چاہتا کہ کوئی آلہ کار گرفتار نہ ہوں تاکہ اس طرح ان کو معصوم لوگوں کا قتل کرنے کا لائسنس ملتا رہے۔قانون اقوام عالم کے دستور میں واضح ہے کہ کوئی ملک دوسرے کی خودمختاری خلاف ورزی نہیں کرے گا لیکن امریکہ سپر پاور اور سلامتی کونسل کا مستقل رکن ہونے کے باعث اس قانون سے مستثنیٰ ہے۔قانون کی بالادستی اور حکمرانی اگر پاکستان پر لاگو ہوتی ہے تو پھر یقیناً امریکہ سمیت دیگر تمام ممالک پر بھی ہونی چایئے جبکہ حقیقت اس کے برعکس نظر آتی ہے۔امریکی اثر و رسوخ اتنا بڑھ گیا ہے کہ اب کوئی خواب میں ہی سوچ سکتا ہے کہ یہ وہی پاکستان ہے کہ جس کا خواب بانی پاکستان قائد اعظم اور شاعر مشرق علامہ اقبال نے دیکھا تھا ۔کیا وہی پاکستان ہے جس کے لیے ماؤں بہنوں نے اپنی عصمتیں لٹائیں، نوجوان، بوڑھے بچوں کا بےدریغ قتل عام کیا گیا-کہتے ہیں کہ کسی بھی ملک کا دستور اس ملک کے عوام اور اس کی خواہشوں کی پہچان ہوا کرتی ہے اور جب دستور پر نظر ڈالی جائے تو کہیں سے ایسا نہیں لگتا کہ واقعی یہ وہی پاکستان ہے جس کے لیے عوام نے جانوں کا نذرانہ پیش کیا-اگست ٢٠٠٨ سے اب تک قبائلی علاقوں میں ڈرونز حملوں میں چار سو کے قریب افراد مارے جاچکے ہیں-ہوسکتا ہے کہ ان میں کچھ عسکریت پسند یا تخریب کار ہوں لیکن اکثریت معصوم بچوں اور خواتین کی تھی جس کا اعتراف خود حکومت پاکستان وقتاً فوقتاً کرچکی ہے-یہ انتہائی افسوسناک پہلو ہے کہ حکومت نے اس معاملے پر تقریباً چپ سادھ لی ہے اور وزیر اعظم پہلے پہل کہتے رہے کہ اوباما انتظامیہ کے آنے کے بعد صوتحال بہتر ہوجائے گی۔تاہم ان کی آمد کے بعد تو مزید گمبھیر ہوچکی ہے اور حالیہ دنوں کے حملوں کے بعد اوباما انتظامیہ کی آمد کے بعد آٹھ ڈرونز حملے ہوچکے ہیں جس میں متعدد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیتھے-ماضی کی مانند اب بھی آئی ایس آئی کا کردار مشکوک نظر آتا ہے ۔خفیہ ایجنسی میں شامل اہکار محض اپنے ذاتی مفادات کے لیے ملک کے مفادات کو داؤ پر لگا رہے ہیں، ماضی میں جہاد کا نام استعمال کرکے محب وطن اور اسلام پسند لوگوں کو آگ میں جھونکنے والی ایجنسیوں نے اب اپنے ملک کے عوام کو قربانی کا بکرا بنایا دیا ہے-اگر کوئی شخص یہ کہتا ہے کہ قصور صرف سابق آمر وقت جنرل پرویز مشرف کا ہے تو مجھے اس سے ہرگز اتفاق نہیں ہے گو کہ یہ بھی حقیقت ہے کہ غداری کا مقدمہ ان پر ضرور چلنا چاہیے لیکن یقیناً ان کے اور بھی ساتھی ہونگے جنہوں نے جان بوجھ کر اپنے ہی ملک کی خود مختاری اور عوام کی آزادی کو داؤ پر لگایا ہوا ہے-کہتے ہیں کہ سچ کڑوا ہوتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ایجنسیوں اور فوج کی وجہ سے ملک میں انتہا پسند تنظیمیں وجود میں آئیں اور وہ بھی سابق صدر جنرل ضیاء الحق کے دور میں جبکہ اس سے قبل دور دور تک ایسی تنظیموں کا وجود بھی نہیں تھا -صوبائیت کو پروان چڑھانے سمیت فرقہ واریت کو ہوا دینے والی تنظیموں کا وجود بھی ضیاء الحق کے دور میں ہی آیا جب کبھی برائی پھیلی ہے تو یہ محض ایک فرد کی وجہ سے نہیں بلکہ اس سے جڑے نظام اور سلسلے کی وجہ سے ہوئی-آج بھی وطن عزیز کو بالکل اسی قسم کے مسائل کا سامنا ہے ڈرونز حملوں کے لیے فوج نے امریکہ سے ڈیل اور اسی ڈیل کی بناء پر زرداری صدر بنے جبکہ امریکہ کو محترمہ بے نظیر کے عوامی امنگوں کے مطابق چلنے کا خوف ہوا تو ان کو راستے سے ہٹا دیا گیا ،ان کے قتل کے فوری بعد جائے وقوعہ کو صاف کردینا اسی سلسلہ کی کڑی ہے جس میں امریکہ صاف طور پر ملوث ہے لیکن اس کے ساتھ ملکی ایجنسیاں بھی ملی ہوئی ہیں جو امریکی مفادات کے لیے کام کررہی ہیں

مشرف دور میں اسلام آباد ،راولپنڈی میں چیف جسٹس کے پی پی کےاستقبالی کیمپ میں خود کش حملے کےعلاوہ کوئی اور واقعہ پیش نہیں آیا-لیکن اب آناً فاناً اسلام آباد بھی دھماکوں سے گونج رہا ہے، میریٹ پر حملہ کرایا گیا جس سے واضح ہوتا ہے کہ اندرونی ہاتھ ملے ہوئے ہیں کیوں کہ پاکستان کی خفیہ ایجنسیاں دنیا میں اپنے کام کے حوالے سے معروف ہیں،لیکن یہاب تک کسی حقیقی مجرم کی نشاندہی میں ناکام ہیں جس سے اس بات کے پیچھے مزید کوئی شواہد پیش کرنے کی ضرورت نہیں رہتی کہ اگر اندرونی ہاتھ ملوث نہیں ہوتے تو بیرونی ہاتھ کچھ نہیں کرسکتے-اب بھی وقت ہے کہ جمہوری حکومت ہوش کے ناخن لے اور واشگاف الفاظ میں امریکہ کے سمنے ڈٹ جائے اور بتادے کہ اگر شدت پسند اور عسکریت پسند ہیں تو ان کے ساتھ قانون کے مطابق سلوک کیا جائے اور اگر ایسا نہ ہوا تو پھر کسی کا بھی خون بہے تو یقیناً اس کا حساب کسی نہ کسی صورت تو دینا ہی پڑے گا۔
M A Azeem
About the Author: M A Azeem Read More Articles by M A Azeem : 12 Articles with 12325 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.