ورون گاندھی ”را“ اور بی جے پی کی چانکیائی سیاست کی نئی دریافت
”را “ نے ورون گاندھی کی شکل میں ایک اور نریندر مودی تخلیق کرلیا
بی جے پی نے ورون گاندھی کے ذریعے ایک بار پھر بھارتی مسلمانوں کا قتل عام
کرنے کی سازش تیار کرلی
پارسی دادا اور سکھ ماں کا بیٹا ‘ ورون گاندھی ” را “ کی سازش کا شکار ہوکر
جنونی ہندوؤں کا دست راست گیا اور مسلمانوں کی دشمن تعصب پرست دادی اندرا
گاندھی کے نقش قدم پر چل پڑا
بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی سازش میں مصروف عمل بھارت کی سرکاری
ایجنسی ”را “ اندرا گاندھی کے مسلمانوں سے پاک بھارت کے خواب کی تعبیر
کےلئے ورون گاندھی کے سر پر دست شفقت رکھ دیا
پیلی بھیت میں بھارتی مسلمانوں کے خلاف زہریلی تقریر بی جے پی نے ورون
گاندھی سے ”را “ کی ہدایت پر کروائی تقریر کا مقصد بھارت کو ہندو راشٹر میں
تبدیل کرنے کی سازش کےلئے مطلوبہ رائے عامہ کی شرح معلوم کرنا تھا
مسلمانوں کے حوالے سے زہریلی تقریر کرنے اور بھارت کے تمام مسلمانوں کو
پاکستانی ایجنٹ قراردیکر سب کو بھارت بدر کرنے کا مطالبہ کرنے والے نو آموز
و نوجوان بی جے پی رہنما ورون گاندھی ‘ مینکا گاندھی کے صاحبزادے ہیں وہ
مینکا گاندھی جو جانوروں اور پرندوں سے بھی ہمدردی رکھتی ہیں اور ان کے لئے
فکرمند بھی رہتی ہیں ۔ آخر کیا وجہ ہے کہ جس شخص کو جنم دینے والی ماں
جانوروں تک کو تکلیف نہیں پہنچنے دینا چاہتی اس کا بیٹا انسانی جان کو
نقصان پہنچانے کا عزم ” گیتا “ کی قسم کھا کر کرتا ہے۔ کیا ماں کی تربیت
میں کچھ کمی رہ گئی یا ورون گاندھی جن کی سیاسی ضرورت ہے انہوں نے ورون
گاندھی کے لئے یہی کردار طے کیا ہے ؟
بہت کم سیاسی رہبر یا رہنما ایسے ہوتے ہیں جو فی البدیح تقریر کے اسلوب سے
پر کامل مہارت رکھتے ہیں ورنہ تو زیادہ تر معروف سیاستدانوں کی تقاریر
باضابطہ اسکرپٹ رائٹر کے ذریعے لکھوائی جاتی ہیں ۔ اور اسکرپٹ رائٹرز کو یہ
تقریر جن خطوط پر لکھنی ہوتی ہیں ان کی نشاندہی یا فیصلہ اُس سیاسی پارٹی
کی الیکشن کمیٹی یا سربراہ طے کرتا ہے جسے مقرر سیاستدان کو حرف بہ حرف ذہن
نشین کرنا پڑتا ہے اور پھر اس تقریر کو ہی لوگوں کے سامنے اپنے زورِ خطابت
کے طور پر پیش کرنا ہوتا ہے جبکہ ورون گاندھی تو ابھی میدان سیاست میں طفل
مکتب ہیں ‘ پارٹی کی جانب سے ان پر اس قدر اعتبار و انحصار یقینا نہیں کیا
گیا ہوگا کہ انہیں اپنی مرضی کی تقریر کی کھلی چھوٹ اور اجازت دی گئی ہو
اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ ورون گاندھی کے لئے باقاعدہ تقریر اسکرپٹ رائٹ
کرانے کی بجائے کسی ماہر ڈائریکٹر کے ذریعے انہیں ڈائیلاگ ڈلیوری کی ریہرسل
کرائی گئی ہو اور مسلم دشمنی پر باقاعدہ ان کی ذہن سازی بھی کی گئی ہو جبکہ
یہ بات بھی بالکل صاف ہے کہ ورون گاندھی نے بھارتی مسلمانوں کے خلاف ہرزہ
سرائی کرتے ہوئے جو کچھ بھی کہا اور جس نفرت کا اظہار کیا وہ نادانستگی یا
غلطی نہیں بلکہ پورے ہوش و حواس میں کیا جانے والا خالصتاً برہمنانہ انداز
کا اظہار نفرت تھا اور یہ بھی ممکن ہے کہ جو مکالمے انہوں نے پیلی بھیت میں
ادا کئے وہ یقینا نئی دہلی میں لکھے گئے ہوں ۔کیونکہ ورون کی زہریلی تقریر
کی بنیاد پر ورون گاندھی کو انتخابات سے دوررکھنے کی بھارتی الیکشن کمیشن
کی صلاح کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے رَد کردیا ہے اور ورون گاندھی اب بھی
پیلی بھیت لوک سبھا کے حلقے سے بی جے پی کے میدوار ہیں ۔بھارتی سیاست کی
منافقت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ بی جے پی نے بھارت میں
لگائی جانے والی جس ایمرجنسی کی مخالفت کی تھی اسی ایمرجنسی کے ولن سنجے
گاندھی کے بیٹے ورون گاندھی اسی ”بھگوا پارٹی “ کے ”ہندو توا “ کے پوسٹر
بنے ہوئے ہیں اور وہ اس وقت بی جے پی کےلئے ریڑھ کی ہڈی بنے ہوئے ہیں ۔ اس
بات پر بھی اب کوئی پردہ نہیں رہا ہے کہ ”را “ کی ایما و مدد سے بھارت کو
ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کی سازشوں میں مصروف عمل ”بھگوا “ تنظیموں کی
سرپرست بھارتیہ جنتا پارٹی اصل میں بھارت سے مسلمانوں کا نام و نشان مٹا
دینا چاہتی ہے جس کے لئے اسی بھارت کی عسکری قیادت اور انٹیلی جنس ایجنسی ”
را“ کی مکمل حمایت ہی نہیں بلکہ ہر طرح کی مدد بھی حاصل ہے جس کا صاف اور
واضح مطلب یہ ہے کہ اپنے آپ کو سیکولر اسٹیٹ کہلانے والا بھارت دراصل بنیاد
پرست ہندو جنونیوں پر مشتمل ایسا ملک ہے جہاں موجود اقلیتوں کی جان و مال
اور عزت و آبرو کسی بھی طور محفوظ نہیں اور خود بھارت کے سرکاری ادارے اور
بھارت سرکار ایسی تنظیموں اور افراد کی پشت پناہی کررہی ہے جو بھارت میں
موجود اقلیتوں کا نام و نشان مٹا کر بھارت کو ہندو راشٹر میں تبدیل کرنے کے
خواب کی تکمیل کے لئے مصروف عمل ہیں ۔یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کا بھارت بدر
کرنے کا مطالبہ کرنے والے ورون گاندھی کو روز اول سے ہی بھارتیہ جنتا پارٹی
حمایت حاصل رہی ہے اور ان کی مذکورہ تقریر بھی بی جے پی یا دوسرے لفظوں میں
بی جے پی کی پشت پر موجود بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ”را “ کی ہی ایما کی
تکمیل تھی کیونکہ اس تقریر سے شاید ”را “ یہ بات معلوم کرنے کی خواہشمند
تھی کہ اگر بھارتی مسلمانوں کو پاکستانی ایجنٹ قرار دے کر ان کے خلاف
کاروائیوں کے تسلسل کو وسعت دی جائے تو پر عوامی ردِ عمل کیا ہوگا اور ورون
گاندھی سے مسلمانوں کے خلاف بیان دلوا کر ”را “ نے اس ردِ عمل کو جانچنے کے
ساتھ ساتھ یہ بھی پتا لگانے کی کوشش کی ہے کہ بھارت کو ہندو راشٹر میں
تبدیل کرنے کے لئے ”را “ کی سازشیں عوامی رائے عامہ میں کس قدر تبدیلی لانے
میں کامیاب ہوئی ہیں اور بھارتی عوام کا کتنا فیصد طبقہ بھارت کو اقلیتوں
سے پاک ہندو راشٹر بنانے کے حق میں ہے ۔ جس کےلئے انتخاب کیا گیا ورون
گاندھی کا اور علاقہ چنا گیا پیلی بھیت کیونکہ ورون کی ماں مینکا گاندھی
پیلی بھیت سے گزشتہ چار سالوں سے الیکشن لڑتی آرہی ہیں اور انہوں نے
بھارتیہ جنتا پارٹی کی کرمی اور لودھ عوام کو رجھانے کے حربوں کے ذریعے اس
علاقے سے لوک سبھا کے چار انتخابات جیتے ہیں لیکن اب اس حلقے کی تشکیل نو
کے بعد صورتحال یکسر تبدیل ہو چکی ہے اور اس میں ایک لاکھ بیس ہزار مسلم
رائے دہندگان بھی شامل ہوچکے ہیں جس کی وجہ سے اب اس حلقے میں مسلم رائے
دہندگان کی مجموعی تعداد چار لاکھ بیس ہزار سے تجاوز کرچکی ہے ۔ بی جے پی
کےلئے یہ صورتحال بڑی خطرناک تھی یہی وجہ تھی کہ شکست کے خوف سے مینکا
گاندھی نے پیلی بھیت سے انتخاب نہ لڑنے کا فیصلہ کیا تو بی جے پی نے ان کے
بیٹے ورون گاندھی کو اس انتخابی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیا اور ”را “
کی چانکیائی کھوپڑی نے ان حالات سے فائدہ اٹھانے کی فوری منصوبہ سازی کرتے
ہوئے ورون گاندھی کےلئے ایک ڈرامائی پلاٹ تشکیل دیا اور اس حلقے میں
انتخابی مہم کی ابتدا ہی ایسے تنازعہ سے کی گئی جس سے ہندو مسلم فساد پیدا
کر کے پیلی بھیت کے ہندوؤں کو مسلمانوں کے خلاف صف آرا کیا جاسکے جس فائدہ
ایک جانب تو بی جے پی کو مسلم مخاصمت میں ملنے والے ہندو ووٹوں کی شکل میں
ہوتا تو دوسری جانب ”را“ ایک بار پھر مسلمانوں کے قتل عام کے ذریعے
مسلمانوں کے لہو سے اپنی وحشیانہ پیاس بجھانے میں کامیابی حاصل کرنے کے
ساتھ ساتھ ہندو راشٹر کی تکمیل کے لئے رائے عامہ کی حمایت کی شرح کا اندازہ
لگانے میں بھی کامیاب ہوجاتی ۔
عمومی حالت میں صورتحال یہ تھی کہ پیلی بھیت حلقہ انتخاب کی تشکیل نو سے یہ
آثار پیدا ہو چلے تھے کہ اس علاقے سے مسلم امیدوار کی فتح یقینی ہے ۔ ماضی
میں بھی اس حلقے سے مسلم امیدوار شمس الحسن خان 1977ءمیں جیت چکے ہیں جنہوں
نے کانگریس کے موہن سروپ کو شکست دی تھی ۔اب کم و بیش تین دہائیوں بعد ایک
بار پھر آثار پیدا ہوئے ہیں کہ کوئی امیدوار جیت جائے ۔ پیلی بھیت لوک سبھا
کے تحت اس علاقے میں پانچ انتخابی حلقے ہیں جن میں سے تین نشستوں پر مسلم
امیدوار کامیاب ہوچکے ہیں جس سے تقویت پاکر سماج وادی پارٹی نے ورون گاندھی
کے مقابلے میں ریاض احمد نامی اپنے رکن اسمبلی کو میدان میں اُتارا ہے اور
ریاض احمد کی ممکنہ کامیابی کے شیش محل کو شکست سے چکنا چور کرنے کےلئے ہی
”را “ کی ہدایت پر بی جے پی نے ”اپنے اسٹائل “ میں چانکیائی سیاست کا
استعمال کرتے ہوئے ورون کو وہ سبق سکھا کر میدان میں اُتارا جو اس نے آر
ایس ایس سے سیکھا ہے کیونکہ بی جے پی ورون گاندھی کی شکل میں ایک اور
نریندر مودی دیکھ رہی ہے حالانکہ اگر تجزیہ کیا جائے تو یہ بات سامنے آتی
ہے کہ ورون گاندھی بنیاد پرست ہندو ہو ہی نہیں سکتا کیونکہ اس کے والد سنجے
گاندھی کا تعلق معتصب خاندان سے ضرور تھا مگر اس کی ماں مینکا گاندھی سکھ
مذہب سے تعلق رکھتی ہے اور ورون کی تربیت میں اس کی ماں کا بڑا عمل دخل ہے
تو پھر سکھ ماں کے ہاتھوں تربیت پانے والا ورون گاندھی بنیاد پرست ہندو کس
طرح ہوسکتا ہے ۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ ورون گاندھی نے پیلی بھیت میں
مسلمانوں کے خلاف جو جوشیلی ‘جذباتی اور اشتعال انگیز ہرزہ سرائی تقریری
شکل میں کی وہ اس کے اپنے نظریات و خیالات پر مشتمل ہرگز نہیں تھی بلکہ
مذکورہ تقریر کلی طور پر بی جے پی کے نظریات تھے جو ورون گاندھی کی زبان سے
ادا کرائے گئے جن کا بنیادی مقصد انتخابی کامیابی کا حصول اور ”را “ کے
ہندو راشٹر مشن کی تکمیل کے لئے رائے عامہ کی سازگاری کی شرح کا مطالعہ
کرنا تھا کیونکہ مالیگاؤں بم دھماکوں ‘ سمجھوتہ ایکسپریس سانحہ اور ممبئی
حملوں کی وارداتوں کا الزام مسلمانوں پر ڈال کر ہندوؤں اور مسلمانوں کو ایک
دوسرے کا خونیں دشمن بنانے کی ہندو توا کی سازشوں سے قلعی اتر چکی ہے اور
بھارت کے عوام مکمل طور پر اس بات سے باخبر ہوچکے ہیں کہ سنگھ پریوار کی
ذیلی اور بنیاد پرست جماعتیں راشٹریہ سیوک سنگھ اور بی جے پی وغیرہ ”را “
کی ایما و سرپرستی میں بھارت میں ہندو مسلم فسادات کے ذریعے اسے ہندو راشٹر
میں تبدیل کردینا چاہتی ہیں ‘ یہی وجہ ہے کہ بھارت کی سیاست میں تبدیلی کے
آثار نمودار ہونا شروع ہوگئے ہیں اور انتخابات کے بعد یو پی اے اور تیسرے
محاذ کے ملاپ سے حکومت کے قیام کے واضح اشارے مل رہے ہیں جو فرقہ پرست بی
جے پی کیلئے اس بات کا خطرہ ہے کہ گزشتہ انتخابات میں ” را “ کی مدد سے سب
سے بڑی پارٹی کے طور پر اُبھرنے والی پارٹی بی جے پی اس بار شکست و ریخت سے
دوچار ہوجائے گی اسلئے اپنے اقتدار کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کے لئے بی
جے پی کا ورون گاندھی کے کاندھے پر رکھ کر ہندو مسلم نفرت کی بندوق کا
چلانا اس کی چانکیائی سیاست اور ”را “ کی تربیت کا ثبوت ہے ۔ |