کٹورے پہ کٹورا بیٹا باپ سے بھی گورا...

کٹورے پہ کٹورا بیٹا باپ سے بھی گورا... !کہیں ایسا نہ ہوجائے...؟

یہ تو آپ نے بھی اکثر سُنا ہی ہوگاکہ” کٹورے پہ کٹورابیٹاباپ سے بھی گورا...“مگر یقین جانیئے کہ اِس کا اندازہ مجھے27دسمبرکو اُس وقت ہواجب پاکستان پیپلزپارٹی کے نومولودچیئرمین بلاول بھٹوزرداری شہیدرانی بے نظیربھٹوکی پانچویں برسی کے سلسلے میں گڑھی خدابخش میں منعقدہ ایک سیاسی ہجوم سے خطاب کررہے تھے تب مجھے اِس بات کا پکا یقین ہوگیاکہ سیانے اپنے تجربے کی بنیاد پرجو کہہ کہیں ہیں اِس میں کھوٹ ہونہیںسکتاہے معاف کیجئے گامجھے یہاں یہ کہنے دیجئے کہ مجھے تو اِن کے خطاب کا مرکز و محور اِن کے والد کے خطابات کی طرح سوائے ”مفاہمت“کے اور کچھ بھی محسوس نہیں ہواکیوں کہ اِنہوں نے بھی اپنے خطاب کی ابتداءاپنے والدمحترم صدرآصف علی زرداری کی طرح مفاہمت ہی سے کی اور اختتام بھی مفاہمتی الفاظ پر ہی کیا یعنی آج اگرآپ کھلی آنکھ سے بلاول بھٹوزرداری کے والد محترم صدرِمملکت آصف علی زرداری کی پانچ سالہ حکمرانی کو ہی دیکھ لیں تو معلوم ہوجائے گاکہ اِن کی حکمرانی کے سارے عرصے میں صدربذاتِ خود اور اِن کی حکومت مفاہمت کی پالیسیوں سے آگے نہیں جاسکی ہے اورشایدیہی وجہ ہے کہ پانچ سال تک ہمارے موجودہ حکمران اپنے سیاسی و ذاتی مفادات کے خاطر مفاہمت کاتو دامن تھامے رہے مگردرحقیقت یہ دیدہ ودانستہ عوامی مسائل سے منہ پھیرے رہے اور شترمرغ کی طرح ریت میں منہ ڈالے اپنی اِسی مفاہمتی پالیسی کو آگے بڑھاتے رہے یقیناجس کا فائدہ اِنہیں ضرور ہواہے مگرافسوس ہے کہ اِن کے اپنی ذات تک گھری مفاہمتی عمل کا عوام الناس کو کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

اگرچہ یہ ٹھیک ہے کہ موجودہ حکومت نے جس طرح مفاہمتی پالیسی کا راگ لاپتے ہوئے عوامی مسائل سے روگردانی کرکے ملک کے اٹھارہ کروڑعوام کو پستی اور گم نامی کے اندھیروں میں دھکیل دیاہے اِس سے عوام کا حکمرانوں سے اعتبار بڑی حد تک ختم ہوگیاہے اور عوام یہ سمجھنے لگے ہیں کہ جن کے نزدیک صرف مفاہمت ہی سب سے بڑاہتھیار ہو تو پھر سوچیںایسے لوگوں کی ماضی کی طرح آئندہ بھی کس بات اور کس فیصلے پر کوئی اعتبارکرے گا کیوں کہ جب حکمرانوں کی نظر میں اِن کا مفاہمتی عمل ہی مقدم ہوجائے اور یہ مفاہمت کو ہی یہ اپنا سب سے بڑاہتھیار قرار دینے لگیں تو پھرعوام کا یہی حال ہوتاہے جیساموجودہ حالات میں ہر سو نظر آتاہے اور آج ایک مرتبہ پھر مفاہمت کو اپنا سب سے بڑاہتھیار کا اعتراف گزشتہ دنوں پاکستان پیپلز پارٹی کے 25سالہ نئے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے بھی صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ کی تحصیل نوڈیرومیں اپنے نام بھٹوسے منسوب اپنے ناناذوالفقار علی بھٹوشہید کے بھٹوخاندا ن کے آبائی گاؤں گڑھی خدابخش بھٹو میں اپنی والدہ محترمہ بے نظیربھٹو شہید کی پابچویں برسی کے موقع پر ایک بڑے عوامی اجتماع سے اپنے ولولہ انگیز خطاب سے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغازکرتے ہوئے کردیاہے ۔

اگرچہ اِس اجتماع سے صدرِ پاکستان آصف علی زرداری سمیت پارٹی کے سینیئر عہدیداروں نے بھی اپنی مرحومہ قائد محترمہ بے نظیربھٹو کی سیاسی اوراِن کی ملک میں جمہوریت کے لئے پیش کی جانے والی خدمات اور جان کے نذرانے پر زبردست انداز سے خراجِ تحسین پیش کیا مگریہاں میں یہ کہناچاہوں گا کہ اِس اجتماع سے جہاں اور بہت سے پارٹی کے پرانے جیالوں نے خطاب کیا تو وہیں اِن سب سے زیادہ متاثر کن خطاب پاکستان پیپلز پارٹی کے نئے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا تھا جنہوں نے اپنے جوشِ خطابات میںاپنی پارٹی کی پانچ سالہ کارکردگی کا انتہائی نپے تلے مگر خوبصورت انداز سے ایک جائزہ توضرورپیش کیا اور اپنے آئندہ کے لائحہ عمل کا بھی اعلان کیامگر افسوس ہے کہ اُنہوں نے یہ اپنے پروگرام اور پہلے سے منصوبہ بندی کے مطابق اِس موقع پرعوام کو درپیش مہنگائی ، بجلی وگیس جیسے مسائل کے بار ے میں ایک لفظ بھی کہناگورانہیں کیا ۔

یہاں مجھے یہ کہنے دیجئے کہ پاکستان پیپلزپارٹی کے نئے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے بھی اپنے پہلے ہی خطاب میں اپنے نانااور والدہ کے نعرے ” روٹی ، کپڑااور مکان “ کوفلک شگاف انداز سے بلندکیااور اِس نعرے کے ساتھ ہی عوام کو اپنے ساتھ ملاکر چلنے اور اِنہیں اپنا حق دلانے کا عزم کیااور کہاکہ ہم ہر حال میں ملک کے غریب عوام کو روٹی ، کپڑااور مکان مہیاکریں گے مگر یہ سب عوام کو تب ہی میسر ہوسکیں گے جب ملک میں جمہوریت مضبوط ہوگی اور جمہوریت کس طرح مضبوط ہوگی ...؟یہ سب جانتے ہیں کہ جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لئے ایسی ہی قربانی دینی پڑتی ہے جیسی میرے ناناذوالفقار علی بھٹوشہیداور میر ی والدہ محترمہ بے نظیربھٹوشہیدنے دی ہیں اور بلاول بھٹوزرداری نے اپنے سیاسی کیریئرکے ابتدائی خطاب میں یہ بھی کہاکہ اِن کی رگوں میں شہیدبے نظیربھٹوکا خون دوڑرہاہے میں اپنی ماں کا مشن پوراکرکے رہوں گا“اور ایسے انگنت جذباتی جملے کہئے جیسے اِن کے والد صدرآصف علی زرداری پچھلے پانچ سالوں سے اپنے خطابات میںکہتے رہے ہیں مگر حقیقی معنوں میں اِن کا عمل کہیں نظر نہیں آتاہے۔

مگرپھر بھی میں اِن تمام باتوں کے باوجود پاکستان پیپلزپارٹی کے نئے اور جوشیلے نوجوان چیئرمین بلاول بھٹوزرداری کی ذات اور قیادت سے پتہ نہیں کیوں پُراُمیدہوں کہ یہ نوجوان اپنی ذات اور قول و فعل اور کردار سے اپنے نانااور اپنی والدہ کا ادھورامشن ضرورپوراکرے گا جس کے لئے اِس کے ننھیال والوں نے اِس ملک کے وقار اور عوام کی خوشحالی اور ترقی کے خاطر قربانیاں دی ہیں مگر اِس موقع پر میں اِنہیں اپنا ایک مشورہ دیتے ہوئے یہ کہناضرور ی سمجھتاہوں کہ وہ مفاہمتی پالیسی اُس طرح نہ اپنائے جس طرح آج اِن کے والدمحترم صدرِ مملکت عزت مآب آصف علی زرداری نے اپنارکھی ہے کیوںکہ آج بلاول بھٹوزرداری کو اپنے مثبت کردار اور عمل سے یہ ضرور تبدیل کرناہوگاکہ” کٹورے پہ کٹورابیٹابات سے بھی گورا...!! یوں ہی نہیں ہوتااِس میں بیٹے کی اپنی اچھی قسمت اور کردار بھی ہوتاہے جس سے یہ اپنی پہنچان بناتاہے۔(ختم شد)
Muhammad Azim Azam Azam
About the Author: Muhammad Azim Azam Azam Read More Articles by Muhammad Azim Azam Azam: 1230 Articles with 973948 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.