سال نو کے پہلے دن خیبر پختوخوا
کے ضلع صوابی انبار کے علاقے میں ایک غیر سرکاری تنظیم کی گاڑی پر حملے میں
چھ خواتین سمیت سات افردا ہلاک ہوئے۔اس تنظیم کے بارے میں بتایا جاتا ہے کہ
یہ ایک مقامی این جی او ہے جو علاقے میں تعلیم اور صحت کے شعبوں میں کام کر
رہی ہے۔افسوس ناک صورتحال یہ ہے کہ جاں بحق ہونے والوں میں پانچ استانیاں ،
ایک لیڈی ہیلتھ ورکر اور ایک ٹیکنشن تھا۔عام طور پر صوابی میں سکولوں پرتو
حملے ہوتے رہے ہیں اور ان کو تباہ بھی کیا گیا تاہم اس سے پہلے غیر سرکاری
تنظیموں کے اہلکاروں پر حملے نہیں ہوئے ہیں۔اب تک پاکستان کے قبائلی علاقوں
میں حکام کے مطابق گزشتہ پانچ برس کے دوران پانچ سو کے قریب تعلیمی ادارے
دہشت گردی کی مختلف کاروائیوںمیں تباہ ہوچکے ہیں ۔جس کی وجہ سے پانچ لاکھ
سے زیادہ بچے تعلیم کے حصول سے محروم ہوگئے ہیں ۔صوابی میں ہونے والے افسوس
ناک واقعے سے وابستہ اجالا کیمونٹی سینٹر کے 70طلبا کا مستقبل خطرے میں پڑ
چکا ہے کیونکہ والدین کو خدشہ ہے کہ اس قدر ہولناک واقعے کے بعد ان کے بچوں
کو کون پڑھانے آئے گا اور اگر انھوں نے امتحان نہیں دیا تو ان کا ایک سال
ضائع ہوجائے گا۔والدین کی جانب سے متفکر ہونے کاسبب یہی ہے اجالا کیمونٹی
مرکز میں ایک پرائمری اسکول اور ایک طبی مرکز قائم تھا اور گاﺅں کے قریب
کوئی سرکاری سکول اور طبی مرکز حکومت کی جانب سے قائم نہیں کیا گیا اسلئے
واحد یہ کیمونٹی سینٹر علم کا اجالا پھیلا رہا تھا۔لیکن اس بھیانک دہشت
گردی کے واقعے کے بعد کیمونٹی سینٹر کواپنے کارکنان کی محرومی کے علاوہ
مرکز بھی بند کرنا پڑا ہے کیونکہ دہشتگردی کی اس کاروائی کے بعد کسی دوسری
خاتون کا وہاںپڑحانا، ناممکنات میں سے ہے اور اس خطرناک صورتحال میں وہاں
کوئی نوکری کےلئے تیار نہیں ہوگا۔پولیس کا یہ تو کہنا ہے کہ کیمونٹی کو
تحفظ فراہم کیا جائے گا اور واقعہ کی شناخت کرلی گئی ہے۔تاہم گرفتاریوں کے
حوالے سے پولیس کے دعوے محض دعوے ہی ماضی کی طرح ثابت ہوتے رہے ہیں۔مجموعی
طور پر خیبر پختونخوا میں ایک ہزار سے زائد اسکولوں کو نشانہ بنایا جاچکا
ہے اور ان اسکولوں کی دوبارہ تعمیر پر اربوں روپے خرچ ہونے کا تخمینہ ہے ۔افسوس
ناک صورتحال یہ ہے کہ قبائلی پٹی کے اکثر علاقوں میں درس و تددریس کا سلسلہ
رک چکا ہے اور ہزاروں بچے اپنے خاندانوں سمیت ملک کے دیگر علاقوں میں منتقل
ہوچکے ہیں۔نکل مکانی نہ کرنے والے بیشتر خاندانوں کے بچے تعلیمی اداروں کی
تباہی کی بنا ءپر محنت مزدوری کرنے پر مجبور ہیں۔کیونکہ ایکطرف گھر کے
اخراجات اور پرائیوٹ اسکولوں کی فیس ادا کرنا ان کے بس سے باہر ہے۔قبائلی
علاقوں کی بد نصیبی یہ رہی کہ ان سے متعلق فیصلہ سازی میں انھیں کبھی
اعتماد میں تو کیا مشاورت میں نہیں لیا گیا۔یہ افسوس ناک صورتحال صرف ایک
علاقے ، ایک شہر ، ایک صوبے یا مملکت تک محدود نہیں ہے بلکہ اب ملک میں
انصاف کی یہ صورتحال ہوچکی ہے کہ انصاف بھی تشہیر کا محتاج ہوگیا ہے۔خیبر
پختونخوا میں لاکھوں بچوں کا مستقبل ، طاقت کے استعمال کے نتیجے میں تباہ و
برباد کیا جارہا ہے ۔لیکن اس پر کسی کو غور فکرکی ضرورت محسوس نہیں ہوتی ۔
کراچی کے ایک پوش علاقے میں دو فریقوں کے درمیان عام تنازعے کے بعدقتل کی
واردات میں ایک اعلی پولیس افسر کے بیٹے کو قتل کر دیا گیا ۔چونکہ دونوں کا
تعلق کراچی کے مہنگے پوش علاقے سے تھا ۔ ایک تعلق کم تعلقات اور دوسرے کا
زیادہ سیاسی تعلقات سے تھا اس لئے سوشل میڈیا نے اس واقعے کوبھرپور کوریج
دی۔سیاسی و سماجی تنظیموں کیجانب سے پریس کلب کے باہر مظاہرے بھی ہوئے اور
جس کی توقع تھی توجناب چیف جسٹس صاحب نے اس پر سو موٹو ایکشن بھی لے لیا ۔
بس پھرکیا تھا کہ جو قاتل تھا اس کے پورے خاندان کو زیر عتاب بنا لیا
گیا۔مکانات ، فیکٹریاں سیل ،اثاثے منجمدہونا شروع ہوگئے ۔ رشتے داروں کو
بھی کونے کدرے سے ڈھونڈ دھونڈ کر گرفتار کرنا شروع کیا گیا اور اپنی وردی
بچانے کےلئے پولیس نے دن رات ایک کردئےے ۔لیکن پاکستان کے دور افتادہ ایک
چھوٹے سے گاﺅں میں قتل کی شرمناک واقعے پر میڈیا نے رسمی رویہ اختیار کیا
کیونکہ ان کا تعلق کسی اعلی پولیس افسر یا کسی صنعت کار سے نہیں تھا اور نہ
ہی سپریم کورٹ تک ان خواتین استانیوں کی چیخیں سنائی دیں ہونگی جو غریب
محنت کش بچوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کرنے کےلئے گھر سے باہر نکلیں
تھیں۔اب گاﺅں کی زبوں حالی اور اس غریب گاﺅں کے بچوں کےلئے کون پریس کلب کے
باہر مظاہرے کرے گا ۔ ان بچوں میں کسی بچے نے صوابی کی ڈائری بھی نہیں لکھی
ہوگی ورنہ ان کے باپ کو بھی آج برطانیہ میں تعلیم کا اتاشی بنا دیا جاتا ۔سینکڑوں
اسکول، کالج کے تباہی پر عدلیہ کا کون سا ستون ڈگمگایا ،یا میڈیا نے کون سی
خصوصی مہم نشر کی کہ وہ لاکھوں بچوں کے مستقبل کی تباہی کو چیف جسٹس صاحب
تک پہنچا سکتے ۔ یا کراچی میں ہزاروں معصوم بے گناہوں کے ذمے داروں کی
ناکامی پر کسی ایک افسر کی تو وردی اتاری گئی ۔ شاہ زیب کا قتل افسوس ناک
ہے لیکن اس سے بھی بڑے بڑے واقعے کراچی ہی میں نہیں پورے پاکستان میں ہوتے
ہیں ۔لیکن قانون صرف اس وقت حرکت میں آتا ہے جب اس کی وردی اترنے کو ڈر
ہوتا ہے۔پولیو پلانے والے معصوم لڑکیوں کو دن دہاڑے شہید کردیا گیا لیکن
مملکت کا کوئی ستون حرکت میں نہیں آیا۔صوابی کا واقعہ انصاف کے منہ پر
طمانچہ ہے کہ اب تک سینکڑوں اسکولوں کی تباہی اور لاکھوں معصوم بچوں کے
مستقبل کے قاتلوں میں کسی کوطاقت ور کیوں نظرنہیں آتا ۔؟۔ہر باپ بھائی
کےلئے اپنی بیوی ،بیٹی،بہن کی عزت کا تحفظ جان سے بڑھ کر ہے۔بس فرق اتنا ہے
کہ اس کی بہن ، بیٹی کو اپنی بیٹی اور بہن نہیں سمجھا جاتا ورنہ آج شاہ زیب
جیسے واقعہ کے ساتھ صوابی جیسے اندوہناک واقعے پر عدلیہ کو نوٹس لینے کی
ضرورت نہیں پڑتی۔لیکن بات صرف احساس کی ہے کہ شاہ زیب جیسے واقعے تو روز
ملک بھر میں ہوتے ہیں لیکن ان سب کی رسائی عدلیہ اور میڈیا تک تو ہونہیں
سکتی ۔ تو کیا کوئی بتا سکتا ہے کہ وہ کیا کرے ؟ ۔کراچی کے مہنگے ترین
علاقے میں رہنے والے ایک اعلی پولیس افسر کی طرح غریب کی رسائی اعلی سیاسی
رہنماﺅں تک نہیں کہ اس کےلئے کون آواز اٹھائے؟ سیاسی جماعتوں اورسماجی
تنظیموں کو کم از کم اتنا تو ضرور سوچنا چاہیے کہ یہ سب کچھ تو نیا نہیں ہے
۔ سیاسی اثر رسوخ کا یہ کھیل پراناہے۔جیسے اس قدرمیڈیامیں اچھالا گیا کہ
انصاف کو مزید تشہیر کےلئے سوموٹو لینے کی ضرورت پیش آئی ۔ سندھ بھر کی
پولیس حرکت میں آگئی ۔ گناہ گاربے گناہ کی تخصیص کئے بغیر رشتے دار گرفتار
کر لئے گئے ۔ مکانات اور فیکٹریاں سیل کردیں گئی ۔ کیا کوئی بتائے گا کہ
دفعہ302کے کس قانون کے تحت کسی کے گھر سیل،اثاثے منجمد کرکے جرم میں ملوث
نہ ہونے والوں کو بھی گرفتار کرکے اپنی وردی بچائی اور سیاسی دکان چمکائی
جا سکتی ہے۔اسمیں کوئی شبہ نہیں کہ تفتیش کے نام پر پولیس سیاسی اثر رسوخ
کا شکار ہوتی ہے۔شاہ رخ کے والد تو خود پولیس سنیئر افسر رہے ہیں ۔وہ تو اس
کھیل کو بخوبی سمجھتے ہونگے۔لیکن جان بحق ہونے والوں میں پانچ استانیاں ،
ایک لیڈی ہیلتھ ورکر اور ایک ٹیکنشن کو کون انصاف دےگا ۔لاکھوں معصوم بچوں
کے تعلیمی قاتل کی وردی کون اتارے گا ؟ ۔کون ان معصوم بچوں کےلئے مظاہرے،
دھرنے اور شمعیں روشن کرے گا ۔ کوئی بتا دے کہ کیا صوابی ، میں تعلیم کےلئے
شہید کی جانے والی استانیاں ، کراچی کے شاہ زیب سے کم تر ہیں ۔؟؟ |