آج بروز جمعہ یہ خبر پڑھ کر اور جان کر دل
جیسے رک سا گیا کہ خیبر ایجنسی کے علاقے جمرود میں نماز جمعہ کے دوران خود
کش حملہ آوروں نے خود کو دھماکوں سے اڑا لیا جس کے نتیجے میں ستر افراد
ہلاک اور سو سے زائد زخمی تھے۔ یاد رہے کہ مسجد کے قریب ہی ٹرائبل پولیس
چیک پوسٹ بھی قائم تھی۔
تو میرے عزیز بھائیوں یہ کیا ہو رہا ہے۔ اب تو ملک میں آمریت بھی نہیں ہے،
منتخب لوگ ہر جگہ پر کام کر رہے ہیں، عدلیہ بھی آزاد ہو چکی ہے، جنہیں شدت
پسند اور دہشت گرد قرار دیا جا رہا تھا ان سے ناصرف مزاکرات کیے جاچکے ہیں
بلکہ ان کی شرائط کو بھی مان لیا گیا ہے (صوفی محمد صاحب وغیرہ)۔
اب تو سب سے افہام و تفہیم ہو رہی ہے۔ اب کون لوگ ہیں جو بھولے بھالے لوگوں
کو کس نام سے استعمال کرتے ہوئے وہی کاروائیاں کر رہے ہیں جن کاموں کے
الزامات و تمغے گزشتہ غیر منتخب حکومت کو دیے جاتے رہے ہیں۔
اور بھائی کیا کسی کے کان پر جوں بھی نہیں رینگی اور ہماری سول سوسائٹی اور
ہمارے ایکس ویکس ٹائپ کی ایجنسیاں اور ہمارے میڈیا اور عقل سلیم رکھنے والے
حضرات اور انسانی حقوق کی دعوے دار تنظیمیں کیا کر رہیں ہیں کیا ستر افراد
جو ہلاک ہوئے اور جو سو سے زائد زخمی ہوئے کیا وہ مسلمان یا انسان نہیں تھے۔
کیا ان بے گناہوں کا خون بارہ مئی کے روز ہلاک و زخمی ہونے والوں سے کسی
طرح کم ہے۔ اور کیا اتنی غیرت و شرم ہمارے ان لوگوں کو نہیں آتی جو ان
علاقوں سے ہی منتخب ہوئے ہیں اور دوسرے شہروں اور علاقوں میں تو دہشت گردی
اور کسی کی غنڈہ گردی انہیں نظر آتی ہے اور اپنے ہی علاقوں میں اتنی
خونریزیوں کے باوجود وہ اطمینان و سکون سے اپنی منتخب حکومت کا دستر خوان
جمائے بیٹھے ہیں۔
شرم آتی ہے ہمیں اپنی اس بےحسی، تعصب پسندی اور بےغیرتی پر کہ جب جس کا جی
چاہے وہ ملک کے علاقوں میں ہونے والے کسی واقعات کو تو انٹرنیشنل سطح پر لے
جائے اور جب اپنے مفاد میں نا ہو تو ستر اسی افراد بھی اگر کسی واقعہ میں
ہلاک ہو جائیں تو ان کے کانوں پر جوں بھی نہ رینگے۔
اب تو گھبرا کر کہتے ہیں کہ مرجائیں گے مر کر بھی چین نا پایا تو کدھر
جائیں گے۔
شرم تم کو مگر نہیں آتی۔
اے اللہ ہمیں ہدایت کاملہ نصیب فرما آمین |