امریکہ اور اس کے حواری

امریکہ اور اس کے حواری: عالمی قزاق اور کذاب

آج کل صومالیہ کے بحری قزاقوں کا بہت چرچا ہے۔ یہ قزاق کھلے سمندروں میں موجود بحری جہازوں کو اغوا کرنے اور تاوان وصول کرنے کے لیے مشہور ہیں۔ چھوٹی کشتیوں پر سوار ان قزاقوں کا طریقہ واردات یہ ہے کہ بحری جہاز کو گھیرنے کے بعد اس کے عملے کو یرغمال بناتے ہیں اور جہاز کو مخصوص مقامات پر لے جاتے ہیں۔ وہاں ان جہازوں کو روک کر متعلقہ اداروں اور حکومتوں سے بھاری تاوان کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ یوں دولت کے حصول کے بعد ان جہازوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے۔ دنیا بھر کےممالک، تمام تر وسائل کے باوجودفی الحال ان کم وسائل والے بحری قزاقوں کے سامنے بے بس ہیں۔

صومالی قزاقوں کی غیرقانونی اور غیراخلاقی حرکتوں کادائرہ محدود ہے، اور اس کا شکار وہ مخصوص طبقہ ہے جس کے کاروبار کا تعلق سمندری نقل و حمل سے ہے۔ اس وقت دنیا بھر کے لوگ جن عالمی قزاقوں ، کذابوں اور رہزنوں کی غنڈہ گردی کا شکار ہیں ان کا تعلق صومالیہ جیسے پسماندہ، غریب ، کمزور اور کم پڑھے لکھے معاشرے سے نہیں ہے۔ یہ قزاق اور کذاب تو نام نہاد مہذب ملکوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ ترقی ان کی باندی اور تعلیم ان کے ہاں عام ہے۔ ان کے گھروں میں بھوک اور افلاس کے ڈیرے نہیں ہیں، لیکن پھر بھی یہ صومالیہ کے بھوکے ننگے قزاقوں سے بڑے رہزن اور لٹیرے ہیں۔بحری قزاق تو اپنی بھوک سے تنگ آکر کسی امیر کاروباری کی دولت کو لوٹتے ہیں لیکن یہ مہذب لٹیرے تو غریب اور لاچار حکومتوں اور بے بس عوام کی رگوں سے خون نچوڑنے کے درپے ہیں۔ یہ عالمی لٹیرے دنیا کے ہر کمزور اور وسائل سے بھرپور ملک پر گھات لگائے بیٹھے ہیں اور جیسے ہی موقع ملتا ہے اس پر چڑھ دوڑتے ہیں۔ ایک ملک میں قتل وغارت اور لوٹ مار کرنے کے بعد دوسرے شکار کی تیاری شروع ہوجاتی ہے۔ حیرانی اس بات پر ہونی چاہیے کہ اس جدید دور میں یہ چنگیزی طرز عمل کیسے ممکن ہے اور دنیا بھر کے باشعور اور انسان دوست لوگ اس پر چپ سادھے کیوں بیٹھے ہیں۔ اس کی وجہ جھوٹ اور مکروفریب کا وہ جال ہے جس کے ذریعے یہ کذاب اپنا راستہ ہموار کرتے ہیں۔ جھوٹ اور مکروفریب کے اس ایجنڈے کی کامیاب تکمیل کے لیے میڈیا کے عالمی اداروں کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ان پروردہ اداروں کا کام کذاب ملکوں کی پالیسی کے مطابق دنیا بھر کے لوگوں کی ذہن سازی اور رائے عامہ ہموار کرنا ہے۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ، دہشت گردوں کا خاتمہ، جمہوریت کا قیام ،شخصی حکومتوں سے نجات، آزادی، ترقی اور انسانی برابری : یہ وہ خوبصورت نعرے ہیں جو رات دن زرخرید میڈیا کے توسط سے سننے کو ملتے ہیں۔ لیکن ان خوبصورت نعروں کی آڑ میں مذموم مقاصد کی تکمیل کی جارہی ہے۔عرب ممالک میں بادشاہتوں کے خاتمے اور جمہوریت کے قیام کا راگ الاپنے والوں کو فلسطین کی منتخب حکومت اور جمہوری نظام ہضم نہیں ہوا۔ جمہوریت کے چیمپئن پاکستان میں ۸ سال تک ایک ڈکٹیٹر کو شرف قبولیت سے نوازتے رہے، صرف اس لیے کہ وہ شخص ان کے شیطانی ایجنڈے کو آگے لے کر چل رہا تھا۔ یہ نعرے جعلی ہیں، ان کی حقیقت جھوٹ اور مکروفریب کے سوا کچھ بھی نہیں۔

امریکی حکام اور ان کے حواری عالمی میڈیا نے مہم کے تحت ساری دنیا کو باور کروایا کہ صدام حسین کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار(Weapons of Mass Destruction) ہیں۔ عراق پر عالمی قوتوں کی چڑھائی اور عراق کے شہروں پر خوفناک بمباری کی واحد وجہ یہ تباہی پھیلانے والے ہتھیار ہی تھے۔ آج عراق کو تاراج ہوئے عرصہ بیت چکا ہے، صدام حسین کو سولی پر چڑھادیا گیا، لاکھوں عراقی موت کے گھاٹ اتاردیئے گئے، عراقی شہروں کو کھنڈروں اور ویرانوں میں تبدیل کردیا گیا۔۔۔۔۔ لیکن وہ تباہی پھیلانے والے ہتھیار آج تک کہیں سے نہیں مل سکے۔تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کی موجودگی کا یہ دعویٰ وہ جھوٹ تھا جسے ببانگ دہل بولا گیا۔۔۔۔۔

آج کل پھر انہی کذابوں اور قزاقوں کی جانب سے جھوٹ کے نئے پلندے کھولے جارہے ہیں۔ ہر روز ایک نیا جھوٹ سننے کو ملتا ہے:
پاکستان میں طالبان اور القاعدہ کی محفوظ پناہ گاہیں ہیں۔
اسامہ بن لادن چترال میں چھپا ہوا ہے۔
ملا عمر نے کوئٹہ کے قریب پناہ لے لی ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں امریکہ پر حملے کی تیاری کی جارہی ہے۔
پاکستان کے قبائلی علاقوں میں موجود طالبان برطانیہ میں بمبئی کی طرز کے حملے کرسکتے ہیں۔
آئی ایس آئی طالبان کی مدد کررہی ہے۔
اور برطانیہ کے وزیراعظم کا یہ جھوٹ کتنا شاندار اور بروقت ہے کہ 9/11 کے حملے کی تیاری اور منصوبہ بندی پاکستان کے قبائلی علاقوں میں ہوئی تھی۔

اوبامہ کا نئی افغان پالیسی کے اعلان کے وقت یہ کہنا کہ پاک افغان سرحد دنیا کا سب سے خطرناک علاقہ ہے۔
یہ اور دیگر تمام جھوٹ قتل و غارت کے نئے بازار سجانے، دہشت و بربریت کے نئے طوفان اٹھانے، معصوم عوام کے خون سے ہولی کھیلنے اور کمزور اور بےبس ممالک کے وسائل سمیٹنے کے لیے بولے جارہے ہیں۔ افغانستان میں موجود غیرملکی حملہ آور فوجیں اپنے قیام کو طول دینے اور اس علاقے پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے جھوٹ اور مکروفریب کے نئے جال بن رہی ہیں۔ افسوس کہ ہم دشمن کی چالوں کو سمجھنے اور ان کا توڑ کرنے سے قاصر دکھائی دیتے ہیں۔ جھوٹ میں رچے ان بیانات کا ابتدائی نتیجہ سامنے آچکا ہے، امریکہ اور برطانیہ نے افغانستان میں مزید فوج بھیجنے کا اعلان کردیا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ سب ان ممالک کے ٹیکس ادا کرنے والے شہریوں کے خرچ پر ہوگا۔ ترقی یافتہ ممالک کے اہل علم لوگوں کو بھی اس بارے میں سوچنا چاہیئے کہ وہ کب تک اپنے ممالک کے وسائل نفرت اور دہشت کی اس جنگ میں جھونکتے رہیں گے۔ وہ کب تک خاموش تماشائی بنے آگ اور خون کا کھیل دیکھتے رہیں گے۔ اگر یہ کھیل مزید بڑھا تو کیا ان کے گھروں تک نہیں پہنچے گا۔

جھوٹ اور فریب کے پیکر ان لوگوں کا امام ابلیس بھی شاید مطمئن ہوگا کہ دنیا کو مکروفریب اور حرص و ہوس کی آماجگاہ بنانے کی جس خواہش کا ارادہ اس نے کیا تھا آج اس کی تکمیل کے لیے یہ پیروکار پوری دلجمعی سے کوشاں ہیں۔ موجودہ دنیا کو جہنم نظیر بنانے والے ان لوگوں میں ایک بات مشترک ہے۔ برائی اور بدی کی ان قوتوں کے علمبردار پہلے بش (Bush) اور بلیر(Blair) تھے۔ آج یہ کام باراک (Barack) اور براون (Brown) کررہے ہیں۔ ان تمام لوگوں کا مقصد بلٹ (Bullet) ، بم (Bomb) اور بارود کے ذریعے بدامنی، بے چینی اور بربریت (Barbarism) پھیلانا ہے۔
 

Zahid Sharjeel
About the Author: Zahid Sharjeel Read More Articles by Zahid Sharjeel: 5 Articles with 37117 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.