انسانیت اور مذاہب

اُٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے نمناک
نہ زندگی، نہ محبت، نہ معرفت ،نہ نگاہ!
یہ دنیا اربوں سالوں سے آباد ہے۔شروع سے اب تک اس پر لاکھوں قسم کی مخلوقات پیدا ہوئیں۔ پہلے صرف جمادات )مٹی،زمین،پہاڑ،جنگل،صحرا اور پانی( تھے۔ پھر نباتات اگیں، پھر کیڑے مکوڑے اور حیوانات پیدا ہوئے اور پھر آخر میں انسان آیا۔ خدا نے سب سے پہلے بابا آدم علیہ السلام کو تخلیق کیااور پھر ان کی پسلی سے اماں حوا علیہ السلام پیدا ہوئیں۔ چونکہ اللہ تعالٰی نے بابا آدم علیہ السلام میں اپنی روح پھونکی، اس طرح شروع سے ہی انسان کے دل اور روح کی گہرائیوں میں ایک خالق،مالک،رازق کا شعور،تصور بلکہ ایمان اور یقین رکھ دیا گیا تھا۔ اس لیے حضرت آدم علیہ السلام )پہلے نبی( نے اپنے تمام بچوں کو بلا کر اکٹھا کیا اور کہا کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے "کیا میں تمہارا پروردگار نہیں ہوں؟"۔ تو سب نے یک زبان ہو کر کہا: ہاں، کیوں نہیں، وہی ہمارا پروردگار ہے۔ اس پر حضرت آدم علیہ السلام بہت خوش ہوئے اور ۔۔۔انہوں نے اپنی اولاد کو نصیحت کی کہ اللہ تعالٰی فرماتا ہے کہ میری عبادت کرو، آپس میں پیار محبت سے رہو، ایک دوسرے سے زیادتی نہ کرو۔ کما کر کھاوَ۔ سچ بولو اور ظلم و زیادتی اور جھوٹ سے بچو۔ باہمی انصاف کرو اور اعتدال کے ساتھ زندگی گزارو۔ اور پھر موت کے بعد جنت پاوَ۔ لیکن قابیل نے ہابیل کو قتل کر دیا اور اپنے دوسرے بھائیوں سے الگ ہو کر مغرب کی طرف چلا گیا۔ یوں چالاک، طاقتور اور سرکش لوگوں نے زندگی کے اس لائحہِ عمل سے منہ موڑ لیا اور اپنی مرضی کرنے لگ گئے ۔ اُس دن سے طاقتور اور سرکش لوگوں کا دین بدل گیا۔ اور انہوں نے اپنی خود پسندی اور خود غرضی کو اپنا دین بنا لیا۔

پھر جوں جوں انسانی آبادی میں اضافہ ہوتا گیا تو لوگ دنیا میں ہر طرف پھیل گئے۔ حتی کہ دنیا کے کونے کونے میں پہنچ گئے اور زمینیں آباد کرنے اور بستیاں بسانے لگ گئے۔ اور طاقتور اور چالاک لوگوں نے روزی کے وسائل پر قبضے کرنے شروع کر دیےاور کمزور اور سیدھے سادھے لوگ غریب ہوتے گئے۔ امیروں، طاقتوروں اور چالاک لوگوں نے اپنی حکومتیں بنا لیں اور اپنی من مانی کرنے لگے۔ لیکن غریبوں اور کمزوروں کا دین وہی خدا کی عبادت، آپس میں پیار محبت، باہمی انصاف اور ایک دوسرے سے تعاون ہی رہا۔جب امیروں، سرمایہ داروں اور چالاک لوگوں نے دیکھا کہ غریب لوگوں کا آپس میں بہت پیارمحبت ہے، بھائی چارہ ہے، تعاون ہےتو انہوں نےاُن میں سے لالچی لوگوں کو کھلی روزی کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا اوریوں اُن میں پھوٹ ڈال کر اُن کو کمزور کر دیا ۔سو ہر گروہ کے مذہبی رہنماوَں نے ایک دوسرے کی مخالفت میں اور دنیاوی و مالی فوائد کی خاطر اپنےاپنےعقائد میں کانٹ چھانٹ اور ترمیم کرنی شروع کر دی۔ اور ہر گروہ اپنے اپنے حالات، و اقعات اور مجبوریوں اور ضرورتوں سے مغلوب ہو کر اپنے اپنے نئے نئے مذہب بنانے لگ گیا۔ اور یوں بعد میں انسانوں کے طرح طرح کے مذاہب وجود میں آگئے۔ چنانچہ سرمائے داروں کا الگ مذہب، امیروں، حکمرانوں کااپنی من مانی کا الگ مذہب، غریبوں، کمزوروں کا الگ مذہب اور غلاموں کا الگ مذہب بن گیا۔

اللہ تعالٰی کی ہمیشہ سے سنت رہی ہے کہ جب بھی کوئی قوم صراطِ مستقیم سے گمراہی کا شکار ہوئی اور ذہنی انتشار،غربت،جہالت،بیماری،غلامی کے چکر میں پھنسی تو ان میں ہمیشہ کوئی نبی ،دانش مند ،ناصح پیدا ہواجس نے اللہ تعالٰی کے حکم سےاپنی قوم کو ہدایت کا رستہ دکھایا ، ان کی ذہنی اصلاح کی، اور بڑی کوشش سے انہیں غربت، جہالت،بیماری،غلامی کےچنگل سے نکالا۔ لیکن چالاک، عیار اور سرمائے دار کب ہار ماننے والے تھے۔اس لیے ہر نبی،ناصح کی وفات کے بعد انہوں نے غریب لوگوں کو مختلف ترغیبات سے گمراہ کیا اور انہیں ڈرا دھمکا کر اور کھلی روزی کا لالچ دے کر اپنے ساتھ ملا لیا۔ مزید برآں طاقتور قوموں نے کمزور قوموں کے ساتھ جنگیں کر کے انہیں اپنا غلام بنا لیا اور مختلف طریقوں سے انہیں غریب سے غریب تر بنا دیا۔ اور ان کا دین بگاڑ دیا اور یوں وہ لوگ پھر سے ذہنی انتشار،غربت،جہالت،بیماری،غلامی میں مبتلا ہو گئے۔

پھر کئی صدیوں کے بعد دوبارہ اللہ تعالٰی کے نبیوں، اللہ کے نیک بندوں ، اور مخلص لوگوں نے آ کر لوگوں کےعقائد کی اور ان کے ذہنوں کی اصلاح کی۔ اُنہیں حوصلہ دیا اور انہیں محنت مزدوری کر کے اپنی مالی حالت سدھارنے کے گر بتائے۔ انہیں ظالموں کے چنگل سے آزادی دلانے کیلئے ایک پلیٹ فارم پر اکٹھا کیا۔ ان میں اتفاق و اتحاد پیدا کیا اور جدو جہد سے آزاد کرایا۔ تاریخ میں ہمیشہ ایسا ہوا کہ کسی قوم میں کوئی شخص ایسا آتا جو اچھے کام کرتا اور ان کی بھلائی کرتا تولوگ اس کے گرویدہ ہو جاتے تھے۔ پھر جب وہ فوت ہو جاتا تھا تو لوگ اس کی یاد گار کے طور پر اس کے مزار،مندر یا اس کی تصویر)بت( بنا لیتے تھے اور اس کے دن مناتے۔ اور اس کے بت کی صفائی کرتے اور وہاں خیرات کرتے تھے۔ پھر آہستہ آہستہ اس بت کی پوجا شروع ہو جاتی تھی۔ اس طرح بتوں کی پوجا شروع ہوئی اور آج کل مزاروں کی پوجا ہو رہی ہے جو کہ بت پرستی کی دوسری شکل ہے ۔ اس طرح خدا کی پوجا کے بجائے بتوں کی پوجا اور شخصیت پرستی شروع ہوئی۔ حالانکہ گر زندہ گرو فانی،ہوتا ہے۔

عقل اور جہالت، نیکی اور بدی، کفر اور ایمان، سرمائے اور غربت کی جنگ شروع سے جاری ہے اورآخر تک جاری رہے گی کیونکہ یہی مشیتِ ایزدی ہے۔ہم جانتے ہیں کہ غریبوں اور کمزوروں کا مذہب عاملوں، پیروں،فقیروں کی دعاوَ ں پر اندھا اعتقاد ہے۔جبکہ عوام کا مذہب عذاب قبر،حساب کتاب،جزا سزا،جنت دوزخ یعنی آخرت پر یقین ہے۔اسی طرح سرمائے داروں اور حکمرانوں کا مذہب دولت اور اپنی مرضی ہے، یہی ان کی دنیا اور زندگی ہے۔ جبکہ انبیا، عارفوں، فقیروں، درویشوں اور خدا کے عاشقوں کا مذہب حقیقت کی تلاش اور خدا کا دیدار ہے۔ پس وہ جنت اور حوروں کے لالچ اور قبر،قیامت اور دوزخ کے ڈر سے ہٹ کر سوچتے ہیں۔سو ہم نےخدا کے انبیا، عارفوں، فقیروں، درویشوں اور خدا کے عاشقوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انسانوں کو گمراہی سے بچانا ہے اور انہیں زندگی گذارنے کا شعور دینا ہے۔

یہ ایک مسلمہ امر ہے کہ تمام انسان کسی نہ کسی حیثیت میں، کسی نہ کسی شکل میں ایک خالق، مالک،رازق) اللہ تعالٰی( پر ایمان رکھتے ہیں اور نیکی بدی کی جزا سزا پر یقین رکھتے ہیں کہ موت کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر جنت یا دوزخ میں جانا ہے۔ یعنی قیامت پر پورا یقین رکھتے ہیں۔ لیکن زندگی گزارنے کے اصول، قانون اور شریعتوں میں اختلاف ہے۔ آج امیر قوموں اور امیر ملکوں نے غریب قوموں اور غریب ملکوں سے جنگیں کر کے ان کی زندگی کو دوزخ بنا دیا ہے کیونکہ انہوں نے دولت اور حرص و ہوس کو اپنا خدا بنا رکھا ہے۔ لہذا آ ج انسانیت ایک ایسے ہادیِ برحق کی متظر ہے جو کہ زمین میں عدل و انصاف کرے اور تمام انسانوں کو صحیح معنوں میں انسان بنائے تاکہ دنیا میں امن و سکون اور آخرت میں جنت اور خدا کا دیدار حاصل ہو سکے۔
ہند میں حکمتِ دیں کوئی کہاں سے سیکھے
نہ کہیں لذتِ کردار ہے اور نہ افکارِ عمیق
Talib Hussain Bhatti
About the Author: Talib Hussain Bhatti Read More Articles by Talib Hussain Bhatti: 33 Articles with 48714 views Talib Hussain Bhatti is a muslim scholar and writer based at Mailsi (Vehari), Punjab, Pakistan. For more details, please visit the facebook page:
htt
.. View More