صدر مصر محمد مرسی - اندھیروں میں ایک اور چراغ

گذرے ہوئے سال یعنی 2012ء میں مصر اسلام پسندوں کے زیر اقتدار آگیا۔ 2010-11ء میں ترکی (جس کو کبھی یوروپ کا ’’مردبیمار‘‘ بھی کہا جاتا تھا) اسلام پسندوں کے زیر اقتدار آنے کے بعد عالم اسلام کے ایک جری و بے باک سپاہی کے روپ میں سامنے آیا تھا اور اب مصر ’’عرب بہار‘‘ کے خواب کی تعبیر بن کر سامنے آیا ہے۔ طیب اردغان اور محمد مرسی سے اسلام پسندوں کو بڑی تقویت حاصل ہوگئی ہے۔ اندھیروں میں ڈوبے ہوئے عالم اسلام میں دو ایسے چراغ روشن ہوچکے ہیں جو پھونکوں سے انشاء اﷲ العزیز بجھائے نہ جاسکیں گے اور اندھیروں کو ان چراغوں کی روشنی کاٹتی چلی جائے گی۔

طیب اردغان کو ’’نام نہاد سیکولر لیکن دراصل اسلام دشمن نہ سہی لیکن اسلام بیزار عناصر کو قابو میں کرنے میں جس طرح کڑے کوس کاٹنے پڑے اسی طرح محمد مرسی کے آگے ابھی بڑے مسائل ہیں ابلیس کے چیلے ہر زمانے میں ’’خبر‘‘ کی قوتوں کو اپنی شرپسندی سے پریشان کرتے رہے ہیں شر اور خیر کی یہ جنگیں جاری ہیں لیکن اب شرپسند کمزور پڑرہے ہیں۔

2012ء میں اسلام پسندوں نے مصر میں تین اہم کامیابیاں حاصل کی ہیں۔ 2011ء میں مغرب اور صیہونیوں کے ایجنٹ حسنی مبارک کی اقتدار سے بے دخلی پہلی کامیابی تھی۔ مصر میں انتخابات میں اسلام پسندوں(اخوان المسلمین اور اس کی حلیف جماعت النور کی شاندار کامیابی دوسری کامیابی تھی۔ تیسری کامیابی مصر میں ایک ایسا دستور نافذ ہوگیا ہے جس کی وجہ شریعت اسلامی کے نفاذ کی راہ ہموار ہوگئی ہے۔ 64فیصد رائے دہندوں کی حمایت سے نیا دستور نافذ ہوگیا ہے۔ عیسائیوں اور مذہب بیزار عناصر کا کہنا ہے کہ دستور کے لیے ہوئے ریفرینڈم میں صرف ایک تہائی یعنی پانچ کروڑ دس لاکھ ووٹرس میں سے صرف ایک کروڑ ستر لاکھ نے اس ریفرینڈم میں حصہ لیا اس سے اس ریفرینڈم کی ساکھ ہی نہیں بلکہ قانونی حیثیت مجروح ہوگئی ہے۔ یہ اعتراض بے جوازیوں ہے کہ اگر تقریباً تین کروڑ چالیس لاکھ نے ریفرینڈم میں حصہ نہیں لیا تو یہ کیسے مانا جاسکتا ہے کہ یہ تین کروڑ چالیس لاکھ دستور کے مخالف ہیں۔ ڈر اور خوف کی وجہ سے بھی اکثر لوگ ایسے جھمیلوں سے دوری پسند کرتے ہیں۔ (گجرات کے حالیہ انتخابات میں بھی بیشتر مسلم ووٹرس نے رائے دہی میں حصہ نہیں لیا تھا) ۔ آج مصر جس منزل پر پہنچ گیا ہے اس کے لیے مصری عوام نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ مصر میں گزشتہ (60)سال کے دوران مصر کے اسلام دشمن یا نام نہاد سیکولر عناصر نے سارے ملک کو اپنے کراہیئت آمیز نظریات سے متاثر کیا ہے ۔ ہر ادارے کو اسلام دشمن بنادیا گیا ہے۔ لبرل سوشلسٹ اور سیکولر (جس میں عیسائی (قبطی) بھی شامل ہیں) پر مشتمل اسلام دشمن حزب اختلاف کا کردار غیر صحت مند نہیں بلکہ غیر منطقی ہے۔ ریفرینڈم کے جمہوری عمل کو بیرونی عناصر (خاص طور پر امریکہ کی سی آئی اے اور اسرائیل کے مفادات کی حفاظت کے لیے سرگرم عمل عناصر عوامی فیصلے اور جمہوری عمل کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ ان کا دستور پر اعتراض یہ ہے کہ نیا دستور شخصی آزادیوں، عورتوں اور اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ نہیں کرسکتا ہے یہ دستور معاشرہ میں انتشار و افتراق کا سبب ہوگا۔ اگر یہ دعویٰ صحیح ہے تو رائے دہی میں حصہ نہ لینے والوں کو تو اس آئین کے خلاف ووٹ دینے کے لیے سامنے آنا چاہئے تھا اور اس دستور کو مسترد کرنے کے لیے رائے دینا چاہئے تھا لیکن ایسا ہوا نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ بیرونی عناصر کے مفادات کا تحفظ کرنے والی حزب اختلاف کو مصر میں اسلام پسند حکومت قطعی ٔ پسند نہیں ہے وہ حسنی مبارک کے بدنام زمانہ اسلام دشمنی کے دور کو واپس لانا چاہتے ہیں وہ ملک کو اسلامی نظام کے نفاذ سے دور رکھ کر مصر میں انتشار کا دور دورہ چاہتی ہیں۔

صدر مرسی کے لیے اگلا چیالنج دو تین ماہ بعد ہونے والے پارلیمانی انتخابات ہیں جس میں اخوان المسلمین اور اس کی حلیف النور جماعت کو ’’لبرل‘‘ سوشلسٹ اور سیکولر ’’عناصر یا بیرونی مفادات کی نگران و محافظ و اسلام دشمن جماعتوں سے مقابلہ کرنا ہوگا۔ امید ہے کہ مصر میں ایک بار پھر انشاء اﷲ تعالیٰ اسلام پسند کامیاب ہونگے۔ (آمین)

صدر مرسی کے مخالفین نئے دستور کی مخالفت جن بنیادوں پر کررہے ہیں وہ عوام نے مسترد کردی ہیں چاہے رائے دہی کا فیصد کم ہو یا زیادہ کامیاب وہی کہلا تا ہے جس کی عوام کی بڑی بلکہ اکثریتی تعداد کامیاب کرے اور مصر میں عوام کی اکثریت نے اس کی تائید کی ہے اب اگر صدر مرسی کے مخالفین (جن کا ایک نکاتی ایجنڈہ صرف اسلام کی مخالفت ہے) نئے دستور کی مخالفت کرکے ملک کو دستور سے محروم کرکے عوامی انقلاب کو غیرمکمل رکھنا چاہتے ہیں؟ ساری دنیا جانتی ہے کہ شاہ فاروق کے دور میں اور چاہے جو برائیاں ہوں لیکن حکومت اسلام کی مخالف نہیں تھی لیکن 1952ء کے فوجی انقلاب کے بعد سیکولرازم اور سوشلزم کے نام پر اسلام کی مخالفت شروع ہوگئی۔ گزشتہ سال مصر کے انقلاب یا حسنی مبارک کی برطرفی تک ملک میں کوئی عوامی دستور نہ تھا ملک کا دستور آمرانہ تھا اور شخصی پسند نا پسند کا آئینہ دار تھا دستور میں اسلام کا کوئی گذر نہ تھا۔ باوجود زبردست مخالفت اور دستور کے خلاف جھوٹے پروپگنڈے کے عوام نے دستور کو منظور کیا لیکن اسلام دشمنوں کا زور اب بھی باقی ہے (جن کی پشت پر مغرب خاص طور پر امریکہ اور عالمی صیہونی تحریک ہو) وہ آسانی سے اسلام کی مخالفت حقوق انسانی، آزادی، مساوات اور حقوق نسواں کا نام لے کر اسلام اور اخوان کی مخالفت کی جارہی ہے۔ مصری عوام کی اسلام پسندی ہی نہیں بلکہ بالغ شعور سے امید ہے کہ وہ صدر مرسی کی حمایت جاری رکھیں گے۔

ویسے یہ بھی حقیقت ہے کہ صدر مرسی کو اپنی منزل (یعنی مصر میں اسلام کے اصولوں پر بنائے گئے دستور کے عملاً نفاذ کو سہولت سے ممکن بنانے کی راہ بڑی کٹھن ہے۔ اس کو طئے کرنے میں صدر مرسی کی مشکلات وہی ہیں جو ترکی میں طیب اردغان کو پیش آئی تھیں اور صدر مرسی کو طیب اردغان کے راستوں پر ہی چلنا ہوگا اس لیے صدر مرسی کو غیر معمولی صبر و ضبط، فہم و تدبر کے ساتھ کسی حدتک مصلحت پسندی اور سمجھوتے کرنے کی حکمت عملی اپناکر حزب مخالف کو ناکام بنانا ہوگا۔ صدر مرسی کو مصر میں اپنے مخالفوں کے علاوہ مغربی میڈیا کا بھی مقابلہ کرنا ہے۔ مصر کے ہی بزرگ صحافی محمد حسنین ہیبکل(جو صدر ناصر اور انور سادات سے قریب رہے ہیں۔ میڈیا کے تعلق سے بلکہ ان کے اثر و رسوخ کے بارے میں لکھا تھا ’’مغربی دنیا کا میڈیا پر اس قدر اثر و رسوخ ہے کہ ’’وہ اپنی مرضی سے تیسری دنیا کے کسی بھی قد آور رہنما کی سربلندی ختم کرنے کے لیے اس کو اس بری طرح بدنام کرسکتی ہے کہ وہ پنجرے میں مقید پرندے کی طرح بے بس ولاچار ہوکر رہ جاتا ہے‘‘۔ اس کا مظاہرہ ہم طالبات اور اسامہ بن لادن شہید اور ملا عمر اور صدام حسین کے ساتھ دیکھ چکے ہیں اور اب صدر مرسی کو ان کی عوامی مقبولیت کے باوجود حسنی مبارک سے زیادہ بڑے آمر کے روپ میں پیش کیا جارہا ہے۔ صدر مرسی کے تعلق سے پروپگنڈے کی شدت کا اندازہ اس سے لگائیے کہ کسی جمعہ کو تاہرہ کی مسجد شربتلی میں جب نمازیوں سے گھل مل کر ان سے باتیں کررہے تھے تو مسجد میں ان کے خلاف مظاہروں اور ان کے گھیراؤں کی من گھڑت خبر ساری دنیا میں پھیلادی گئی ان کے خلاف مظاہروں کی خبروں میں بھی مبالغہ آمیزی کی کوئی حد باقی نہیں رکھی گئی تھی۔ صدر مرسی پر آمرانہ طرز عمل کا الزام بڑی شدت سے عائد کیا گیا ۔ بات اتنی ہے کہ مصری انتظامیہ میں اب بھی حسنی مبارک کی باقیات کا خاصہ عمل دخل ہے (جو نہ صرف اسرائیل نواز مغرب پرست بلکہ اسلام دشمن ہیں) صدرارتی انتخابات میں محمد مرسی سے شکست کھانے والے عناصر خاص طور پر حسنی مبارک کے سابق وزیر اعظم احمد شفیق، سابق وزیر خارجہ عمرو موسیٰ وغیرہ ان کی پشت پر تھے چنانچہ حسنی مبارک کے دور کے جج صاحبان پر مشتمل عدلیہ نے انقلاب کے بعد منتخب ہونے والی پارلیمان کو تحلیل کردیا جس کا کوئی جواز نہ تھا اس کے بعد یہی عدلیہ اس بات پر غور کررہی تھی کہ دستور ساز اسمبلی کو ہی تحلیل کردیا جائے اسی لیے مصری صدر نے دستور ساز اسمبلی کو بچانے کے لیے عدلیہ کو دستور ساز اسمبلی کو غیر قانونی قرار دینے کے حق سے محروم کردیا تاکہ عدلیہ دستور کی تیاری کو ہی ناممکن نہ بنادے۔ اسی خطا کی بناء پر کہ صدر مرسی انقلاب کی تکمیل کرنے کے لیے دستور ساز اسمبلی دستور تیار کرکے عدلیہ کے اختیارات محدود کردئیے اور آمر کہلائے۔ انقلاب دشمن مبارک کے حامی اور نام نہاد (سیکولر اور سول سوسائٹی کے ارکان سڑکوں پر نکل آئے محمد البرادعی امریکہ کا پٹھو ہے۔ عمر و موسیٰ اسرائیل نواز اور حمدین صباحی ناصر کے پرستار ہیں لہٰذا اسلام دشمن بھی ہیں لیکن ان نیتوں کی مخالفت کے باوجود دستور منظور ہوگیا۔ ریفرینڈم سے پہلے ہی صدر مرسی نے اختیارات واپس کردئیے۔

جو دستور منظور ہوا ہے اس میں تینوں بڑے مذاہب اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے ماننے والوں کے حقوق میں کوئی امتیاز نہیں رکھا گیا ہے۔ خواتین کے حقوق کا مکمل احترام ہے ۔ صدر مرسی کے مخالفین کا یہ الزام غلط ہے کہ یہ دستور سیاسی حقوق پر پابندیاں عائد کرتا ہے۔ صدر مرسی کے مخالف اتنے طاقت ور نہیں ہیں جتنا کہ بااثر اور طاقت ور ان بتایا جاتا ہے۔ اسی طرح صدر مرسی کی مخالفت کی خبریں بھی مبالغہ سے بھر پور ہیں۔ افسوس تو یہ ہے کہ وطن عزیز کا اردو میڈیا بھی اس پروپگنڈے کو سچ مان کر اس کی تشہیر کررہا ہے کیونکہ مسلمان صحافیوں نے مولانا محمد علی جوہر، ابوالکلام آزاد، حسرت موہانی، عثمان فارقلیط اور قاضی عبدالغفار کی راہ ترک کردی ہے لیکن حق بات قارئین تک پہنچانے والے صحافی اور اخبارات موجود ہیں۔ خاص طور پر یہی اخبار جو آپ کے زیر مطالعہ ہے (اردو ٹائمز ممبئی)۔

انتہائی صبر آزماحالات میں محمد مرسی کی نہ صرف حکمت عملی بلکہ ان کا طریقہ کار بھی ’’مومن کی اس فراست کی آئینہ دار رہی ہے جس کے متعلق رب الکریم کا ارشاد ہے کہ مومن کی فراست سے ڈرو وہ اﷲ کے نور سے دیکھتا ہے‘‘۔ محمد مرسی کے خلاف مغربی میڈیا اور حسنی مبارک کی باقیات یعنی مخالف اسلام عناصر کا متحدہ محاذ ہے اس کا مقابلہ آسان تو نہیں ہے لیکن محمد مرسی سے امید ہے کہ وہ انشاء اﷲ تعالیٰ کامیاب ہوں گے۔ (آمین ثمہ آمین) ان عناصر سے نبردآزما ہونے میں محمد مرسی کو طیب اردغان کی طرح صبر و تحمل کے ساتھ انتہائی چوکس رہنا ہوگا۔ مصر کا انقلاب پہلے عالم عرب پھر عالم اسلام کے لیے ایک مثال ثابت ہونی چاہئے (کسی اسلام کو اس طرح پیش کررہے ہیں کہ اس کی مخالفت نہیں کی جاسکتی ہے اب تک تو مرسی علی احمد جلیلیؔ کے اس شعر کی تفسیر ثابت ہورہے ہیں۔
پھونکوں سے بجھاہوں نہ مٹانے سے مٹا ہوں
میں وقت ہوں تاریخ کے ماتھے پر لکھا ہوں
Rasheed Ansari
About the Author: Rasheed Ansari Read More Articles by Rasheed Ansari: 211 Articles with 166705 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.