شاعر بھی ہیں پیدا علماءبھی
حکماءبھی
خالی نہیں قوموں کی غلامی کا زمانہ
مقصد ہے ان اللہ کے بندوں کا مگر ایک
ہر ایک ہے گو شرح معافی میں یگانہ
بہتر ہے شیروں کو سکھا دیں رم آہو
باقی نہ رہے شیر کی شیری کا فسانہ
کرتے ہیں غلاموں کو غلامی پہ رضا مند
تاویل مسائل کو بتاتے ہیں بہانہ
حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ کی یاد آج کے حالات پر مجھ ناچیز کو بہت آتی
ہے ۔ نئے سال کی آمد پر میرے صحافی دوستوں نے کہا کہ نئے سال پر کیا کوئی
کالم تحریر کیا؟ میں نے اپنے دوستوں سے کہا کہ ٹھہر جائے کسی پل تو نظر آئے
گی تصویر۔!! آج میں نے شاعر مشرق حضرت علامہ اقبال رحمتہ اللہ علیہ کے شعر
سے اپنا کالم شروع کیا ، حقیقت تو یہ ہے کہ علامہ اقبال نے گویا آج کے
حالات کو اپنے زمانے میں ہی پردہ اسکرین پر دیکھ لیا ہوگاکیونکہ یہ شعرمکمل
آج کے زمانے پر اترتاہے۔
اسی لیئے میں نے اپنے کالم کا عنوان بھی سیاسی کروٹ یا سلوٹ رکھا ہے کیونکہ
وقت کے ساتھ ساتھ دشمنان پاکستان کے غلاموں کی تعداد اس قدر بڑھ گئی ہے کہ
اب پاکستان صرف نام کی حد تک ہی رہ گیا ہے اس کے آپریشن ہوں یا انتظامی و
سیاسی معاملات تمام کے تمام حکومت برطانیہ ، حکومت امریکہ اور اُن کے پس
پشت ممالک کے احکامات اس وطن عزیز پر عمل پزیر ہوتے ہیں ۔۔۔ یہ ملک سن انیس
سو سینتالیس کو لاکھوں مسلمانوں کی شہادت کے طفیل حاصل ہوا اور جس کا اصل
مقصد خالصتا ً اسلامی ریاست تھا ۔پاکستان کے معروض وجود میں آنے کے ایک سال
بعد ہی بد قسمتی سے بانئی پاکستان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح کی رحلت
ہوگئی ،آپ کی رحلت کے بعد پاکستان کا مقصد بھی پاش پاش ہوگیا اور یہ
مفادپرستوں کے ہاتھ آنے سے سیکولر، ماڈرنزم کی جانب بڑھنے لگا گویا” کوا
چلا ہنس کی چال اپنی چال بھول گیا “ اسلام نے کبھی بھی جدیدیت کی مخالفت
نہیں کی ہے بلکہ علم و تحقیق حاصل کرنے کا سختی سے حکم فرمایا ۔اسلام مکمل
ضابطہ حیات ہے وہ ہر دور ، ہر زمانے کیلئے یکساں بنا یا گیا ہے اگر طریق
غلط ہو تو اُس کی بندش آئی ہے ورنہ آزادی جس قدر مذہب اسلام نے دی ہے کسی
اور مذہب میں نہیں ملتی۔۔ مساوات، عدل و انصاف، بھائی چارگی، اخوت، اتحاد،
یقین ، محکم ، منافع، کاروبار، عبادات گو کہ زندگی کا زرہ زرہ بھی مذہب
اسلام نے سیکھایا اور بتایا ہے۔۔ قرآن کے تمام علوم غیر مسلموں نے
تواپنالیئے ہیں مگر قرآن والے قرآن سے کیوں دور رہ گئے۔ سوچیں آج کے مسلمان
بالخصوص پاکستانی؟؟
میں صحرا میں کروں خواہش پھولوں کی
اور دریا میں نخلستان تلاش کروں
انسانوں سے میں مانگوں جب پیار کی بھیک
حیوانوں میں میں انسان تلاش کروں
بھائی بھائی مل بیٹھیں اور خوش خوش ہوں
احمق ہوں وہ دسترخوان تلاش کروں
جو نقشہ قائد نے دیا ہمیں اس کا
ہائے۔۔۔ ایسا پاکستان تلاش کروں
خنجر مجھ پر تان نہ رکھا ہو جس نے
شہر شہر میں وہ دربان تلاش کروں
ہمارے منتخب نمائندے وہ کسی بھی سیاسی پارٹی سے تعلق رکھتے ہوں اکثریت کی
تعداد دوہری شہریت پرمبنی ہے ، وہ تو اِس ملک میں راج کرنے چلے آتے ہیں اور
غیر ملکیوں کے آلہ کار بنکر اپنی ہوس دولت اور پاکستان کی بد حالی کا باعث
بنتے رہتے ہیں ۔ آج پاکستان دنیا میں کہاں کھڑا ہے اس بات کو ہر پاکستانی
جانتا ہے کہ حقیقت کیا ہے ؟؟ لیکن نجانے کیوں اب بھی سیاست کے مہاراجوں کی
غلامی اور ذاتی مراعات کے حصول کیلئے ان کا ساتھ دینے کیلئے آکھڑے ہوتے
ہیں، پاکستان پیپلز پارٹی اور پاکستان مسلم لیگ نون نے اس قوم کو بہت مایوس
کیا، سن دوہزار آٹھ کے الیکشن کے بعد پاکستان مسلم لیگ نون حکومت کا تین
سال تک حصہ بنی رہی پھر علیحدہ ہوگئی ان کے بعد پاکستان مسلم لیگ ہم خیال
چوہدری شجاعت گروپ حکومت میں شامل ہوگئی، عمران خان اپنی پارٹی پاکستان
تحریک انصاف کو لیکر چلے اور لاہور ، کراچی میں بڑے جلسے کرکے سونامی کا
خطاب دیا۔۔۔ ابھی یہ سونامی چل ہی رہی تھی کہ کینیڈا سے ڈاکٹر طاہر القادری
نے آکر اس قوم کو ایک نئے اشوکی جانب راغب ۔۔!! آپ کا یجنڈا ہے کہ سیاست
نہیں بلکہ ریاست بہتر کرو اور نظام تبدیل کرو ۔ ذرا غور کیجئے۔۔!! زیادہ
نہیں تھوڑا ہی سہی۔۔ماضی کی جانب جب ہم دکھتے ہیں تو پاکستان میں سیاسی
ڈھانچوں میں پاکستان پیپلز پارٹی ، پاکستان مسلم لیگ نون یا آج سے چالیس،
پچاس سال سے تمام سیاسی پارٹیوں نے ہمیشہ نظام کی مخالفت اور عوامی خدمت کا
پیغام ہی تو دیا اور ان سب کے ایجنڈوں میں فلاحی عوامی ریاست کا عنصر
پیوستہ رہا ، کہیں کہیں اسلام کا رنگ بھی رکھا گیا اس کے علاوہ نام نہاد
مذہبی سیاسی جماعتوں نے سوائے عوام کو مایوسی کے کچھ نہیں دیا البتہ اپنے
مفادات کی تکمیل کیلئے فوجی حکومتوں سے تعاون بھی کیئے اس میں جماعت اسلامی
سرفہرست نظر آئی!! کیا آج تک کوئی نظام یا عوامی خدمت کرپایا ۔۔!! آخر کیوں
۔۔؟؟ اس کی کئی وجوہات ہیں جس میںسب سے پہلے ہماری قوم خود ذمہ دار ہے، پھر
انتظامیہ ، ادارے اور افواج پاکستان۔۔۔اس بات کی تفصیل بیان کرنے سے پہلے
پاکستان کی میڈیا کا کردار جاننا بہت ضروری ہے میڈیا نے اپنی ذمہ دایوں کو
سنجیدگی سے نہیں رکھا کہیں ان کے ذاتی مفادات تھے تو کہیں احباب پرستی میں
حقائق پرچشم پوشی رکھی ان میں وہ اینکرز زیادہ شامل رہے ہیں جن کا صحافت سے
قطعی تعلق نہ ہے اور نہ رہا ہے وہ صرف ایک اینکر ہیں جبکہ صحافت سے تعلق
رکھنے والے اینکر اپنی صحافتی ذمہ داریوں کو خوب جانتے ہیں اسی لیئے وہ
اپنی ذمہ داریوں کے دائرے میں رہتے ہوئے سیاسی رہنماﺅں سے باز پرستی کرتے
ہیں ۔ گزشتہ سال چند ایک کی کوتاہی سے صحافتی برادری کو شرمندگی کا سامنا
کرنا پڑا جبکہ یہ عمل چند ایک کے ذاتی اعمال تھے بحرکیف میڈیا کے اینکرز کو
بھی اس سلسلے میں احتیاط برتنے کی ضرورت ہے ، ایک صحافی عوام کی اصل آواز
کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے۔ آج کل یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ اگر کوئی اینکر
کسی سیاسی جماعت کی طرف رغبت رکھتا ہے تو وہ اس جماعت کی خامیوں پر بحث
نہیں کرتا بلکہ اچھائیوں کی جانب زیادہ جھکاﺅ رہتا ہے اور چینلز میں ان
سیاسی افراد کی اشتہار گری پھیلائی ہے ، کبھی بھی اصل مدعا پر بحث نہیں کی
بلکہ اپنے مفادات کو سامنے رکھا ۔ سب سے بڑھ کر افسوس اس بات کا ہے کہ
پاکستان میں سیاسی آزادی کی بات کی جاتی ہے مگر کبھی بھی صحافی کو آزاد
لکھنے نہیں دیا جاتا اور اگر کوئی لکھ بھی دے تو اُسے بھاری قیمت ادا کرنی
پڑھ جاتی ہے خاص کر وہ سیاسی رہنما جو کسی حکومتی منصب پر قائم ہوں، ایسے
ملک میں بھلا کیا نظام یا ریاست کی درستگی کا عمل ہوسکے گا ۔چونسٹھ سالوں
سے عوام یہ سنتے سنتے تھگ گئی کہ اب نظام درست ہوگا، ترقی کا پہیہ تیزی سے
ڈورے گا، غربت کاخاتمہ ہوگا ، روزگار کی فراوانی ہوگی، انصاف آسانی سے مہیا
ہوگا، مظولموں کی فریاد سنی جائیگی، علم و ہنر کی روشنی پھیلائی جائیگی،
صحت کر مراکز بڑھادیئے جائیں گے اور زندگی بچانے کی ادویات سستی مہیا کی
جائینگی، صنعت و تجارت کا جال پھیلایا جائیگاگو کہ ہر سیاسی پارٹی اور
جماعت نے کبھی بھی ایسی بات نہیں کی جس میں عوام کی بہتری کا عنصر شامل نہ
ہو بلکہ یہ کہنا درست ہوگا کہ ہر ایک نے نئے نئے فارمولہ اور طریقہ کار کو
پیش کیا جس نے ملکی و قومی بھلائی اور بہتری کا نتیجہ یقینی ظاہر ہو لیکن
عملاً ایسا کبھی بھی دیکھنے میں نہیں آیا آخر کیوں ؟؟ اس سوال کا تو ہر
سیاسی پارٹی دوسرے کو تنقید کا نشانہ بنائے بغیر اپنے منشور کی وضاحت کرنی
چاہیئے اور عمل نہ ہونے کا اعتراف بھی کرنا چاہیئے جب کوئی بھی صحافی ان سے
ان کی کارکردگی کے بارے میںسوال کرتا ہے تو یہ فوراً اپنے مخالف پارٹی کی
تنقید پر چلے جاتے ہیں اور اصل مدعا جوں کا توں ہی رہ جاتا ہے کیونکہ انہیں
حقائق کو بتاتے ہوئے گھبراہٹ ہوتی ہے حقیقت میں ان کے حصے میں مثبت امور جو
نہیں ہوتے۔ پاکستانی سیاست تنقید برائے تنقید پر گامزن ہے گویا دوسرے کا
بال شہتیر اور اپنا شہتیر بال سے بھی کم نظر آتا ہے۔ ریاست پاکستان میں اُس
وقت تک نظام تبدیل نہیں ہوسکتا جب تک کہ ایوان کے ممبران ہی میرٹ اور صحیح
بنیادوں پر نہ پہنچےں،افوس کی بات تو یہ ہے کہ جن ممالک کی پاکستانی سیاسی
جماعتیں اطباء کرتے ہیں ان ممالک میں ووٹنگ کا نظام جدید خطوط پر استوار ہے
وہاں ہر شہری کو ووٹ کی اہمیت کا شور بیدار کرتے ہوئے کمپیوٹرائز نظام
کررکھا ہے تاکہ وہاں بھی کوئی بوگس ، جعلی ووٹ نہ ڈال سکیں۔ پاکستان میں
کئی سیایس پارٹیاں دعویٰ کرتی ہیں کہ وہ عوام کا بھاری مینڈیٹ رکھتی ہیں
اور عوام کے چناﺅ سے ہی اکثریت کی بنیاد پر کامیابی حاصل کرتی ہیں تو ووٹنگ
میں نادرا کے ساتھ ڈیٹا منسلک کرنے اور انگوٹھے کا اسکینگ کیلئے کیوں نہیں
ایوان میں بل پیش کرتی ہیں ۔اگر ایوان میں انتخابات کے وقت ووٹنگ کو نادرا
کے ڈیٹا اور انگوٹھے سے مشروط کردیں تو یقینا انتخابی جرائم کنٹرول میں
آجائیں گے ، شفاف اور بہتر نتائج کی امید کی جاسکتی ہے ۔ مذہبی رہنما ہوں
یا سیاسی لیڈران جلسے، جلوس اور اجلاس سے قطعی ریاست کا نظام نہیں بدل
سکتے۔ پاکستان عوام کوگویا یرغمال بناکر رکھ دیا گیا ہے ، نواز شریف نے
اپنی گزشتہ حکومت میں پاکستان کی تقدیر بدلنے کیلئے ملکی و بین الاقوامی
سطح پر فنڈ جمع کیئے اُس وقت نعرہ لگایا کہ قرض اتارو ملک سنوارو! ! میرے
صحافی دوستوں نے بھی اس مد میں بہت سی خبریں شائع کیں لیکن ان سب خبروں میں
مایوسی اور دھوکے کے سوا کچھ نظر نہ آیا اور نہ ہی کبھی بھی اُس فنڈ کا
احتساب کیا گیا ، عوام آج بھی اپنی اُس محنت کردہ رقم کی تفصیل جاننا چاہتی
ہے ۔ پاکستان میں احتساب کا محکمہ تو بنایا گیا ہے مگر یہ آزاد نہیں !
محکمہ احتساب،محکمہ محتسب، محکمہ عدلیہ، محکمہ پولیس و انتظامیہ کو قلی طور
پر آزاد کیا جانا چاہیئے۔ اس کے ساتھ ساتھ ان کے احتساب کا بھی عمل رکھنا
چاہیئے تاکہ حقیقی معنوں میں پاکستان کے نظام میں واضع تبدیلی نظر آئے ۔
اقربہ پروری، اختیارات کا ناجائز استعمال، وزراءو امراءکی آزادانہ اسلحہ کی
نمائش ان سب کو محدود رکھتے ہوئے عوامی خدمات کے تحت یکساں رکھا جائے ۔ یہ
ملک شہنشاہیت یا بادشاہت کیلئے نہیں بنا تھا کل کے غرباءآج کے امراءبن گئے
ہیں اور آج کے امراءکل کے غرباءضرور ہونگے ۔ اگر پاکستان میں ایمان اور
تقویٰ رکھنے والے سیاستدان پیدا ہوگئے تو یقینا اس ملک پاکستان میں سب کا
یکساں احتساب ہوگا ایسے ہی کہ جیسے علامہ اقبال نے اپنے اس شعر میں کہا ہے
:
ایک ہی صف میں کھڑے ہوگئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا اور نہ کوئی بندہ نواز
یعنی احتسابی وہ عمل جو دین اسلام اور اخلاقیات نے دیا ہے ، جس میں بلا
تفریق ، بلا اقوام، بلا زبان، بلا رتبہ انصاف و مساوات کے تحت قانون پر عمل
کرایا جائے،تاکہ انصاف کو بھی انصاف حاصل ہواور انصاف بدنامی کے زمرے میں
نہ آئے ۔ قاضی وقت یعنی جسٹس و وکلاءکو مکمل آزادی سے ہمکنار کرتے ہوئے
اسلامی و اخلاقی دائرہ میں محدود کیا جائے۔ حیرت کی بات تو یہ ہے کہ دین
اسلام جو اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کا دین محمدی ہے وہ تا قیامت تک کیلئے آیا
ہے ، اس دین اسلام میں کائنات کے ہر زرہ اور لمحہ کی رہنمائی و آگاہی بیان
کردی گئی ہے لیکن عقل و شور رکھنے والوں کیلئے ۔آج پاکستان میں ہر وہ برائی
دیکھی جاسکتی ہے جو پچھلی قوموں میں موجود تھیں یاد رہے کہ اللہ نے اُن
برائیوں کے سبب نیست و نابود کردیا تھا ، اللہ قادر و مطلق ہے وہ اگر اپنے
پیارے حبیب ﷺ کی محبت کی بناءپر اس امت پر عذاب نازل نہیں کررہا تھا اس کا
مطلب ہر گز نہیں کہ ہر شخص اللہ اور اس کے پیارے حبیب کے احکامات کو بھول
جائیں ۔ پاکستانی ریاست کے نظام کی تبدیلی کیلئے پہلے پہل خود اس قوم کو
اپنے اعمال درست کرنے ہونگے اور ہر شخص اپنے اپنے طریقہ کار کو دین اسلام
کے تحت اپنائے تو انشاءاللہ یقینا وہی ماحول اور نظام نظر آئے گا جس کا حکم
اللہ اور اُس کے حبیب نے دیا ہے ۔ علماءو مشائخ و پیران اللہ اور اُس کے
حبیب ﷺ کے دین کی پیروی کے احساس کو بیدار تو کرسکتے ہیں مگر عملی جامعہ
خود ہر شخص کو پہنانا ہوگا۔ چودہ جنوری اسلام آباد میں ہونے والا جلسہ جس
کی قیادت ڈاکٹر طاہر القادری کررہے ہیں یہ احساس اور زمہ داری کی گھنٹی ہے
کہ اب بھی سنبھل جاﺅ اے قوم پاکستانی ، ورنہ تمہاری ہستی مٹ جائے گی اس
دنیا سے!!
کیونکہ یہودی اور دیگر غیر مسلم ممالک کو پسند نہیں کہ پاکستان پنپے اور
امن سلامتی کے ساتھ رہے ۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ جب قوم چین افیون کے نشے
میں مست تھی پھر دنیا نے دیکھا کہ وہی قوم آج بلندی پر ہے ، تمام قوم نے
یکجا ہوکر عہد کیا کہ آئندہ وہ ملک کی سلامتی و ترقی کیلئے سچائی،
ایمانداری، اخوت، بھائی چاری اور بد عنوانی سے ہمیشہ کیلئے باز آجائیں گے
اور تعلیم و ہنر اور صحت کو پروان دیکر دنیا سے آگے نکل جائیں گے وہ ثابت
قدم رہے تو کامیابیاں قدموں مین رہی ہیں پھر پاکستان کیوں نہیں ہو سکتا ؟؟
پاکستان تو خوش نصیب ملک ہے کہ یہ اسلام کے نام پر وجود میں آیا ہے بس ہم
سب کو غلامی سوچ اور غلامان امریکہ و دیگر یورپی ممالک سے باہر نکلنا ہوگا۔
قرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کیلئے اپنی اضافی تعائشتات کو ختم کرکے قدرتی
وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے آگے بڑھنا ہوگا۔ یاد رہے اب تک کی تمام سیاسی
جماعتوں نے ہمیشہ مایوس ہی رکھا ہے جبکہ کئی بار حکومتوں کے تاج پہنے مگر
ہر تاج کے بعد عوام کی اصل ضروریات کو بھلاتے رہے اور اپنے کارکنان ، ذمہ
داران کیلئے قومی خذانوں کے منہ کھول دیئے گئے مگر پوم کیلئے مستقل بنیاد
پرکوئی بھی تعمیری کام نہ کیا جو کچھ بھی دکھانے کیلئے کیا گیا اُس میں بھی
انتہائی ہیر پھیر کی گئی کہ ناقص میٹریل کا استعمال جاری رکھا۔ میری ناقص
عقل اور تجربہ کی بنیاد پر آج جو پاکستان میں سیاسی شور مچی ہوئی ہے وہ کسی
فسکینگ میچ سے کم نہیں لیکن پھر بھی اللہ کی ذات سے مایوس نہیں کیونکہ صبح
کا بھولا شام کو گھر آئے تو اُسے بھولا نہیں کہتے ۔۔۔!!پاکستان کے اوائل
زمانے میں پاکستانی ماحول اور سیاست اس قدر پرگندہ نہ تھے جو آج موجود ہیں
، اب مسلمانیت تو کجا انسانیت بھی نہ رہی ہے لوگ منقسم ہوگئے ہیں ذاتوں میں
،فرقوں میں، زبانوں میں ، خاندانی روایتوں میں ۔۔ کہیں بھی مسلم اور
پاکستانی نظر نہیں آتا۔ کیا سیاستدانوں کی ذمہ داری نہ تھی اس قوم کو متحد
کرنے کی، کیا علماءو مشائخ کی ذمہ داری نہ تھی اس قوم کو بکھرنے اور مشتعل
ہونے سے روکنے کی، کیا انتظامیہ کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ جرائم پر قابو
پاتے، کیا عدلیہ کی ذمہ داری نہ تھی کہ وہ جلد اور صحیح انصاف فراہم کرتے،
کیا ڈاکٹروں کی ذمہ داری نہ تھی کہ اس پیشہ کو کاروبار بنانے سے روکیں،
یقینا پاکستان ہر کوئی اس ضمن میں ذمہ دار ہے کہ اُس نے اپنے اپنے شعبہ
ہائے زندگی میں انصاف نہ برتا اور اپنی ہوس دولت و مرتبہ کیلئے جائز و نا
جائز کو اپنالیا۔ اسلام دشمنان بھی یہی چاہتے تھے سو کردکھا دیا۔اگر اللہ
اور اس کے حبیب ﷺ کی محبت حاصل کرنے ہے اور اعلیٰ ترین ریاست بنانی ہے تو
تقیناً انقلاب لایا جائے مگر دیکھ کر ذرا سی غلطی بہت بڑے نقصان کا پیش
خیمہ بھی ہوسکتی ہے واللہ آزمائے کو اب مت آزمانا۔پاکستانی قوم میں جوش بہت
ہے مگر ہوش نہیں ، یہ جوش میں آکر حقائق سے دور بھی چلے جاتے ہیں ، جوش اور
ہوش ساتھ ہوتو طاقت دوبالا ہوجاتی ہے لیکن صرف جوش ہو تو راستہ بھٹک بھی
جاتے ہیں اسی لیئے جوش کے ساتھ ہوش ہونا لازمی ہے تاکہ اچھے اور برے کی
تمیز رہے۔اسی جوش پر
علامہ اقبال نے کہا ہے کہ :
مسجد تو بنادی شب بھر میں ایمان کی حرارت والوں نے
من اپنا پراناپاپی تھا برسوں میں نمازی بن نہ سکا
علامہ اقبال نے بھی اپنے اشعار سے قوم اور امت محمدی کو پیغام دیا کہ مستقل
مزاجی ہی کامیابی کی ضمانت ہے مانا کہ جوش سے طاقت کا اظہار تو کردیا جاتا
ہے مگر طاقت کو برقرار رکھنے کیلئے ہوش یعنی مستقل مزاجی ہونا بہت ضروری ہے
اگر اسی بات کو اسلامی آئینہ میں دیکھتے ہیں تو ہمیں بار ہا بار مستقل
مزاجی کی تلقین ملتی ہے۔ اب رہی بات چودہ جنوری کے اعلان کی تو کئی سوالات
جنم لے رہے ہیں ان میں یہ بات سامنے آرہی ہے کہ کیا چودہ جنوری کو سیاسی
کروٹ کا عمل ہوگا یعنی کروٹ سے مراد مکمل سیاسی ڈھانچے کا خاتمہ اور نئے
چہروں کی آمد یہ بات تو صاف طور پر غلط ثابت ہورہی ہے کہ سیاسی کروٹ نہیں
ہے اگر سیاسی کروٹ نہیں تو کیا سیاسی سلوٹ کا عمل ہوگا یہاں سیاسی سلوٹ سے
مراد نظام میں ناپید گیوں کی درستگی۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے جب نظام کی
تبدیلی کیلئے آواز بلند کی تو سب سے پہلے متحدہ نے لبیک کہا پھر گویا دھیرے
دھیرے دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی ساتھ دینے کا عندیہ دیا جن میں چوہدری
شجاعت، عمران خان اور دیگر یہ وہ جماعتیں ہیں جو کبھی حکومت میں رہتی ہیں
تو کبھی حکومت سے باہر اور انھوں نے کم از کم پانچ بارالیکشن میں حصہ لیا
ہے کبھی کامیابی سے ہمکنار ہوئے تو کبھی نہیں تو کبھی خود ہی بائی کاٹ کیا
گویا ایک طویل عرصہ سے سیاست کے میدان میں رہنے کے باوجود کبھی بھی نظام کی
سلوٹ کوصحیح کرنا کا کبھی بھی عمل نہ کیا تو کیا اب کریں گے؟؟ بحرحال آواز
تو وہی ہے جو آج سے پہلے بھی سیاستدان عمل کے جلسوں میں بیان کرتے نظر آتے
رہے ہیں کیا کسی نے اس پہلو کو کبھی پہلے اجاگر کیا تھا تو پھر آج کیوں ؟؟
کیا اس کے پیچھے بھی سیاسی ذاتی مقاصد ہیں یہ تو وقت ہی بتائے گا ۔ سن انیس
سو تیرہ یعنی امسال امریکہ اپنی افواج کا انخلاءچاہتا ہے اور اسی ایسے
حالات درکار ہیں جو اپنی قوم کیلئے جواب دہی کیلئے بہتر ثابت ہوں یاد رہے
امریکی و یہودیوں اور دیگر الحاق ممالک مسلم ممالک کو ڈسٹرب کرکے خود بھی
وبال میں پھنس چکے ہیں اور اب وہ چاہتے ہیں کہ واپسی ایسی ہو کہ بدنامی کا
عنصر چھپ جائے یاد رہے اس موقع پر اگر مسلم ممالک نے یکجا ہوکر ان کے ان
عزائم کو ناکام بنادیا تو آئندہ کیلئے ان کے راستے بند ہوسکتے ہیں یہ بات
بالخصوص پاکستانی حکومت اور پاکستانی عوام کو سمجھ لینا چاہیئے۔ دیکھتے ہیں
پاکستان کے نظام کو تبدیل کرنے والے کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں ویسے ہر
پاکستانی کی خواہش ہے کہ پاکستان میں ایسا نظام ہو جو فرقہ واریت سے پاک ہو
، جس میں انصاف آسان ہو، طبقات اور کرپشن و ملاوٹ سے پاک ہو،جس میں زبان کی
بنیاد پر تعصب نہ ہو، جس میں اہلیت کو فوقیت حاصل ہو تو یقینا ہم سب امن و
ترقی کی راہ پر گامزن ہوجائیں گے ۔انشاءاللہ لیکن اس کیلئے جہاں لیڈران کو
اپنے قبلہ درست کرنے ہیں وہیں عوام کو اپنے اعمال کی اسلاح بھی لازمی کرنی
ہوگی۔ اللہ پاکستان کی حفاظت فرمائے آمین
پاکستان زندہ باد ، پاکستان تابندہ باد |