میں نے جب شعور کی دنیا میں قدم
رکھاچیزوں میں فرق،گرم و ٹھنڈا ،اچھابرا جاننے لگاتو انہی دنوں کی بات ہے
کہ میری سماعتوں سے ایک لفظ ٹکرایاکرتاتھا کہ حقوق۔میرے حقوق اس کے حقو ق ۔اس
نے حق مارلیا۔میرا حق کہاں ہے ۔باپ کی جائداد میں میراحق بھی ہے ۔ہائے افسو
س میرے حقوق سلب ہوگئے ہیں ۔آخریہ حقوق ہیں کیا؟ وقت کے ساتھ ساتھ میں جب
شعوری طور پر بالغ ہوا۔تومیرے مطالعہ اور میرے فہم میں اس سوال کے جوابات
گردش کرنے لگے ۔بات سمجھ آگئی ۔اس مسئلہ کا حل اس سوال کا جواب دین اسلام
نے احسن ،مفصل اور معتمد انداز میں پیش کردیا ۔وہ وضاحت کہ جو شایدکہیں اور
میسر نہ آئے۔ایسی وضاحت ،ایسی صراحت کہ جس کے بعد انسان کو اپنے مسلمان
ہونے پر فخر اوراسلام کی عالمگیر تعلیمات پر مسرت محسوس ہوتی ہے ۔
محترم قارئین کرام!
اسلام کی تعلیمات انسانیت کی معراج ہے آج ہم لوگ نفس نفسی کے عالم میں جی
رہے ہیں ہر کسی کو اپنے حق کی فکر ہے ہر کوئی اپنے حق کا متلاشی ہے ہر
دوسرا شخص اپنا حق حاصل کرنے کی تگ ودو میں مصروف ہے اور حق بھی کیا؟
اپنا حق! کہ بھا ئی اس گھر،دوکان، جائیداد میں میرا بھی حق ہے!
دوسرے کا حق؟بیماری سے مر رہا تھا اتنا وقت نہیں ملا کہ ٹھوڑی دیر عیادت ہی
کرلے اپنے عزیز کے ساتھ دو گھڑی گزار لیں جناب دنیا میں مگن رہے اورتو اور
بڑے شرم کی بات ہے جنازے میں بھی نہیں حاضر ہوئے آخری دیدار کی بھی سعادت
نہیں ملی یہ حق نہیں تھا اسکا پتہ نہیں ہے؟ اور اب حق جتانے آگئے جناب!
محترم قارئین اسی طرح کے بحث و مباحثہ آپ بھی سنتے رہتے ہوں گے جب بھی حق
کی بات آتی ہے تو جائیداد ہی کے درمیان ۔
ٹھیک ہے شریعت نے جائیدادمیں آپ کا حق رکھا ہے تو وہ آپ کو ملنا ہی چاہئے ۔لیکن
جس چیز کا شریعت نے آپ سے تقاضیٰ کیا آپ بھی تو وہ پورا کریں چہ جائے کہ وہ
حقو ق اﷲ ہوں یا حقو ق العباد۔
محترم قارئین کرام! اس کالم میں آپ اسلام کا پیغام ،اسلام کی تعلیمات میں
انسانیت کی معراج ہے کے تحت مسلمان کے مسلمان پر جو جو حقوق ہیں انکی تفصیل
قرآن و احادیث کی روشنی میں جانیں گے۔
دعا ہے کہ اﷲ تعالیٰ عمل کی بھی توفیق دے آمین۔
(۱)عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرٍو رَضِیَ اللّٰہُ عَنْہُمَا عَنْ
النَّبِیِّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ قَالَ ’’الْمُسْلِمُ مَنْ
سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ لِسَانِہِ وَیَدِہِ وَالْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ
مَا نَہَی اللّٰہُ عَنْہُ‘‘ ھٰذَا لَفْظُ الْبُخَارِیْ وَلِمُسْلِمٍ
قَالَ’’اَنَّ رَجُلاً سَأَلَ النَّبِیَّ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیہِ وَسَلَّمَ
أَیُّ الْاِسْلَامِ أَفْضَلُ قَالَ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ
لِسَانِہِ وَیَدِہِ
(صحیح بخاری، کتاب الایمان،حدیث۹، صحیح مسلم، باب بیان تفاضل الاسلام ……
الخ، حدیث۵۹)
حضرت سیدنا عبد اﷲ بن عَمرْو رضی اﷲ تعالیٰ عنہما سے روایت ہے سرکارِ مدینہ
صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور
ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ جو ممنوع چیزوں کو چھوڑ دے۔یہ
بخاری کے الفاظ ہیں اور مسلم میں ہے ، فرماتے ہیں کہ کسی شخص نے سرکارِ
مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم سے پوچھا کہ کون مسلمان بہتر ہے ؟
فرمایا ، جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں ۔
محترم قارئین کرام!
حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ’’ الْمُسْلِمُ مَنْ سَلِمَ الْمُسْلِمُونَ مِنْ
لِسَانِہِ وَیَدِہِ‘‘ یعنی مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان
محفوظ رہیں ‘اس میں مسلمان سے مراد کامل مؤمن ہے جبکہ زبان اور ہاتھ سے
محفوظ رہنے کی تخصیص اس لئے کی کہ زیادہ ایذائیں زبان اور ہاتھ سے ہی دی
جاتی ہیں ،زبان کو ہاتھ پر مقدَّم اس لئے کیا کہ زبان کی ایذا رسانی بہ
نسبت ہاتھ کے زیادہ ہے ، ہاتھ سے صرف اس کو ایذا دی جا سکتی ہے جو موجود ہو
مگر زبان سے حاضر اور غائب دونوں کو ایذا دی جا سکتی ہے نیز زبان کی ایذا
بہ نسبت ہاتھ کے زیادہ اذیت ناک ہے۔جیسے کہا جاتا ہے
جَراحَاتُ السِِِِّنَانِ لَھَا التِّیَامُ
وَلاَ یَلْتَامُ مَا جَرَحَ الِّلسَانُ
;نیزے کے زخم اچھے ہو جاتے ہیں
(لیکن)زبان کا زخم نہیں اچھا ہوتا
(نزہۃ القاری ، شرح صحیح البخاری ، ج۱، ص ۲۵۲)
علامہ ابنِ حَجَر عسقلانی رحمۃ اﷲ تعالیٰ علیہ فتح الباری میں لکھتے ہیں کہ
’’اَلْمُسْلِمُ‘‘سے مراد یہ ہے کہ جو اﷲ تعالیٰ کے حقوق ادا کرنے کے ساتھ
ساتھ بندوں کے حقوق بھی ادا کرے یعنی جو یہ حقوق ادا کرے وہ کامل مسلمان ہے
۔ (فتح الباری ، کتاب الایمان ، باب المسلم من سلم، ا،الشاملہ )
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکارِ مدینہ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ، مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق
ہیں (۱) سلام کا جواب دینا (۲) مریض کی عیادت کرنا (۳) جنازوں میں شرکت
کرنا (۴) دعوت قبول کرنا (۵) چھینک کا جواب دینا ۔
(صحیح بخاری ، کتاب الجنائز ، باب الامر باتباع الجنائز ، حدیث ۱۱۶۴،
الشاملہ )
ان پانچ حقوق کو حدیثِ پاک کی روشنی میں آپ کے سامنے پیش کیا جاتا ہے ۔
پہلا حق ’’سلام کا جواب‘‘ دینے کے بارے میں ہے اس کی فضیلت کے بارے میں
حدیثِ پاک میں ارشاد ہوتا ہے ، چنانچہ سرکارِ والا تَبار، ہم بے کسوں کے
مددگار، شفیعِ روزِ شُمار، دو عالَم کے مالک و مختار، حبیبِ پروردگارصلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا، ’’جو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْکہتاہے اس
کے لئے دس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ
اللّٰہِ کہتاہے اس کے لئے بیس نیکیاں لکھی جاتی ہیں اور جو اَلسَّلَامُ
عَلَیْکُمْ وَرَحْمَۃُ اللّٰہِ وَبَرَکَاتُہٗ کہتاہے اس کے لئے تیس نیکیاں
لکھی جاتی ہیں ۔‘‘
(المعجم الکبیر ،مسندسہل بن حنیف ،رقم ۵۵۶۳ ،ج۶، ص ۷۶)
حضرت ِ سیدنا براء بن عازِب رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نور کے پیکر،
تمام نبیوں کے سَرْوَر، دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصصلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا کہ ’’سلام کو عام کرو سلامتی پالو گے
۔‘‘ (الاحسان بترتیب ابن حبان، کتاب البر والاحسان ، رقم ۴۹۱، ج۱، ص ۳۵۷)
حضرت ِ سیدنا عبداﷲ بن عَمْرو رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ شہنشاہِ خوش
خِصال، پیکرِ حُسن وجمال،، دافِعِ رنج و مَلال، صاحب ِجُودو نوال، رسولِ بے
مثال، بی بی آمنہ کے لالصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایاکہ ’’رحمن
عزوجل کی عبادت کرو اور سلام کو عام کرو اور کھانا کھلاؤ جنت میں داخل
ہوجاؤ گے ۔‘‘ (الاحسان بترتیب ابن حبان ،کتاب البر والاحسان ،باب افشاء
السلام ،رقم ۴۸۹ ،ج۱، ص ۳۵۶)
دوسرا حق’’ مریض کی عیادت کرنا ‘‘ہے اس کی فضیلت کے بارے میں حدیثِ پاک میں
ارشاد ہوتا ہے ، چنانچہ حضرتِ سیدناابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے
کہ تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نُبوت، مَخْزنِ جودوسخاوت، پیکرِ عظمت و شرافت،
مَحبوبِ رَبُّ العزت،محسنِ انسانیت صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا کہ جو شخص کسی مریض کی عیادت کرتاہے تو ایک منادی آسمان سے ندا
کرتاہے ،’’ خوش ہوجاکہ تیرا یہ چلنا مبارک ہے اور تو نے جنت میں اپنا
ٹھکانا بنالیا ہے۔‘‘
(سنن ابن ماجہ، کتاب الجنائز، باب ماجاء فی ثواب من عا د مریضا، رقم۱۴۴۳،
ج۲، ص۱۹۲)
حضرت ِ سیدنا ابو سَعِیْد خُدْرِی رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ نبی
مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایاکہ’’ مریضوں کی عیادت کیا کرواور جنازوں میں شرکت کیا
کرو یہ تمہیں آخر ت کی یا د دلاتے رہیں گے ۔‘‘
(مسند امام احمد،مسند ابی سعید الخدری ،رقم ۱۱۱۸۰ ،ج۴ ،ص ۴۷ )
حضرت ِ سیدنا جابر رضی اﷲ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ سیِّدُ المبلغین،
رَحْمَۃ لِّلْعٰلَمِیْن صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایاکہ’’ جس
نے مریض کی عیادت کی ، جب تک وہ بیٹھ نہ جائے دریائے رحمت میں غو طے لگاتا
رہتاہے اور جب وہ بیٹھ جاتا ہے تو رحمت میں ڈو ب جاتا ہے ۔‘‘
(مسند امام احمد، مسند جابر بن عبداﷲ ،رقم ۱۴۲۶۴، ج۵، ص ۳۰)
تیسرا حق ’’کسی مسلمان کے جنازے میں شرکت کرنا ‘‘ہے اس کی فضیلت کے بارے
میں حدیثِ پاک میں فرمایا گیا ، چنانچہ حضرت ِسیدناابن عباس رضی اﷲ تعالی
عنہ سے روایت ہے کہ نبی مُکَرَّم،نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی
آدم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا، ’’بندے کو اپنی موت کے بعد
سب سے پہلے جو جزاء دی جاتی ہے وہ یہ ہے کہ اس کے جنازے میں شریک تمام
افراد کی مغفرت کردی جاتی ہے۔‘‘(مجمع الزوائد، کتاب الجنائز، باب اتباع
الجنازۃ، رقم۴۱۳۴، ج۳، ص۱۳۲)
حضرت ِسیدناا بنِ عمر رضی اﷲ تعالی عنہما سے روایت ہے کہ آقائے مظلوم،
سرورِ معصوم، حسنِ اخلاق کے پیکر،نبیوں کے تاجور، مَحبوبِ رَبِّ اکبرصلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا، ’’جو نماز ادا کرنے تک جنازے کے ساتھ
رہا اس کے لئے ایک قیراط (اجر)ہے۔ ‘‘صحابہ کرام علیھم الرضوان نے عرض کیا،
’’یارسول اﷲ عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم!کیا یہ ہمارے قیراطوں
جیساہے ؟‘‘ ارشاد فرمایا، ’’نہیں بلکہ اُحد پہاڑ کی مثل یا اس سے بھی کہیں
بڑا۔‘‘ (مسند احمد ، رقم۴۴۵۳،ج۲ ، ص۲۰۰)
نیز سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا، ’’جو
کسی مسلمان کے جنازے میں ایمان اوراجروثواب کی نیت سے شریک ہوا اور نماز
جنازہ ادا کرنے اور تدفین تک جنازے کے ساتھ رہا تو دو قیراط ثواب لے کر
لوٹے گا ان میں سے ہر قیرا ط احد پہاڑ کے برابر ہوگا اور جو نماز پڑھ کر
تدفین سے پہلے لوٹ آیا تووہ ایک قیراط ثواب لے کر لوٹے گا ۔‘‘
(مسلم، کتاب الجنائز، باب فضل الصلوۃ علی الجنازۃ، رقم۹۴۵، ص۴۷۱)
چوتھا حق کسی کی’’ دعوت قبول کرنے کے بارے‘‘ میں ہے ، چنانچہ اس کے بارے
میں سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے ،
حضرت سیدنا جابر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مرویہے کہ سرکارِ مدینہ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا: ’’جب کسی کو کھانے کی دعوت دی
جائے تو قبول کرنی چاہیے پھر اگر چاہے کھائے، چاہے نہ کھائے۔‘‘
(صحیح مسلم، کتاب النکاح، باب الامر بإجابۃ الداعی․․․ إلخ، الحدیث: ۳۵۱۸،
ص۹۱۸)
سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جب کسی
شخص کو ولیمہ کی دعوت دی جائے تو اسے آنا چاہیے۔‘‘ (صحیح البخاري، کتاب
النکاح، الحدیث: ۵۱۷۳، ص۴۴۷)
حضرت سیدنا ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے سرکارِ مدینہ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا ،’’برا کھانا ولیمہ کا کھانا ہے،
جس میں مال دار لوگ بلائے جاتے ہیں اور فقراء چھوڑ دیے جاتے ہیں اور جس نے
دعوت کو ترک کیا (یعنی بلا سبب انکار کردیا) اس نے اﷲو رسول عزوجل و صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نافرمانی کی۔‘‘ (صحیح البخاري، کتاب النکاح،
الحدیث:۵۱۷۷، ص۴۴۷)
جبکہ ایک مسلمان کا دوسرے مسلمان پر پانچواں حق یہ ہے کہ وہ ’’چھینک کا
جواب دے ‘‘چنانچہ چھینک کا جواب دینے کے بارے میں حدیثِ پاک میں ارشاد ہوتا
ہے ، ’’ سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا،
’’جب کسی کو چھینک آئے تو’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہ‘‘کہے اور اس کا بھائی یا ساتھ
والا ’’یَرْحَمُکَ اللّٰہ‘‘کہے جب یہ(یعنی سننے والا) ’’یَرْحَمُکَ
اللّٰہ‘‘ کہہ لے تو چھینکنے والا اس کے جواب میں یہ کہے’’یَھْدِیْکُمُ
اللّٰہُ وَیُصْلِحُ بَا لَکُمْ‘‘۔‘‘
(صحیح البخاري، کتاب الادب، باب اذا عطس کیف یشمت، الحدیث:۶۲۲۴، ص۵۲۴)
عبداﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا،’’جب کسی کو چھینک آئے تو’’اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ
رَبِّ الْعَالَمِیْنَ‘‘ کہے۔‘‘
(المعجم الکبیر، الحدیث:۱۰۳۲۶، ج۱۰، ص۱۶۲)
حضرت عبداﷲ ابن عباس رضی اﷲ تعالیٰ عنہماسے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلی اﷲ
تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:’’ جب کسی کو چھینک آئے اور وہ
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ ‘‘کہے تو فرشتے کہتے ہیں ’’رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘‘ اور
وہ ’’ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ ‘‘ کہتا ہے ، تو فرشتے یَرْ
حَمُکَ اللّٰہُ یعنی اﷲ عزوجل تجھ پر رحم فرمائے ۔(طبرانی اوسط،الحدیث
۳۳۷۱ج۲،ص۳۰۵)
نیز کسی مسلمان کے لئے جگہ کشادہ کرنا بھی ’’حَقُّ الْمُسْلِم ‘‘ میں داخل
ہے جیسا کہ حضرتِ سَیِّدُنا واثِلہ بِن خَطَّاب رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے
رِوایَت ہے کہ ایک شَخْص تاجدارِ مدینہصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی
خِدمت میں حاضِر ہوا۔ آپ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم مَسجِد میں
تَشرِیف فرما تھے۔ رَحمتِ دو عالَم ،نورِ مُجَسَّم، شاہِ بنی آدم،رسولِ
مُحْتَشَم صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم اُس کیلئے اپنی جگہ سے سَرَک
گئے۔اُس نے عرض کی،یارسولَ اﷲ! عَزَّوَجَلَّوَصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم جگہ کُشادہ مَوجُود ہے۔آپ نے سَرَکنے کی تَکلِیف کیوں فرمائی !
فرمایا،’’،مُسلمان کا حق یہ ہے کہ جب اُس کا بھائی اُسے دیکھے اُس کیلئے
سَرَک جائے۔‘‘ (شُعُب الایمان، رقم الحدیث۸۹۳۳، ج۶، ص۴۶۸، دارالکتب العلمیۃ
بیروت)
نیز مسلمانوں کے حقوق کے بارے میں اﷲ تعالیٰ قرآنِ پاک میں ارشاد فرماتا
ہے:
وَاعْبُدُوْا اللّٰہَ وَلَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ
اِحْسَانًـا وَّبِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَالْجَارِ
ذِیْ الْقُرْبٰی وَالْجَارِ الْجُنُبِ وَالصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَابْنِ
السَّبِیْلِ وَمَا مَلَکَتْ اَیْمَانُـکُمْط اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ
مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرًا0(پ۵، النسآء:۳۶)
Óترجمۂ کنز الایمان :اور اللّٰہ کی بندگی کرو اور اس کا شریک کسی کو نہ
ٹھہراؤ اور ماں باپ سے بھلائی کرو اور رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں
اور پاس کے ہمسائے اور دُور کے ہمسائے اور کروٹ کے ساتھی اور راہ گیر اور
اپنے باندی غلام سے ۔
اس آیتِ مبارکہ میں اﷲ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو دس باتوں کا حکم دیا (۱) اﷲ
کی عبادت (۲) ماں باپ سے سلوک (۳) قرابت داروں (۴) یتیموں (۵) مسکینوں (۶)
قریب کے پڑوسیوں (۷)دور کے پڑوسیوں (۸) ہر قسم کے ساتھیوں (۹) مسافروں (۱۰)
لونڈی غلاموں بلکہ جانوروں سے اچھے برتاؤ کا حکم فرمایا ہے ۔ (تفسیر نعیمی
، ج۵، ص۸۶)
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے عرض کی
، یارسول اﷲ عَزَّوَجَلَّ وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم فلانی عورت نماز
و روزہ ، صدقہ کثرت سے کرتی ہے مگر یہ بات بھی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں کو
زبان سے تکلیف بھی پہنچاتی ہے ۔ سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے فرمایا ، ’’ وہ جہنم میں ہے ۔ ‘‘ اس شخص نے پھر عرض کی ، یارسول اﷲ
عَزَّوَجَلَّ وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم فلانی عورت کے روزہ ، نماز
وصدقہ ( یعنی نوافل ) میں کمی ہے ، وہ پنیر کے ٹکڑے صدقہ کرتی ہے اور اپنی
زبان سے پڑوسیوں کو ایذا نہیں دیتی ، آقائے دو جہان صلی اﷲ تعالیٰ علیہ
واٰلہٖ وسلم نے فرمایا، ’’ وہ عورت جنت میں ہے ۔ ‘‘ (المسند للإمام أحمد بن
حنبل، مسند أبي ھریرۃ، الحدیث۹۶۸۱، ج۳، ص۴۴۱)
حضرت سیدنا عبد اﷲ بن مسعود رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے
مدنی آقا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خدمت میں عرض کی ، یارسول اﷲ
عَزَّوَجَلَّ وصلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم مجھے یہ کیسے معلوم ہو کہ
میں نے اچھا کیا یا بُرا کیا ؟ سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے فرمایا ، ’’ جب تم اپنے پڑوسیوں کو یہ کہتے ہوئے سنو کہ تم نے اچھا
کیا تو بے شک تم نے اچھا کیا اور جب تم یہ کہتے سنو کہ تم نے برا کیا تو بے
شک تم نے برا کیا ہے ۔ ‘‘ (سنن ابن ماجہ، ابواب الزھد، الحدیث:۴۲۲۳، ص۲۷۳۳)
ایک اور حدیثِ پاک میں سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے
فرمایا: ’’خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی قسم! وہ مومن نہیں، خدا کی
قسم! وہ مومن نہیں۔ عرض کی گئی، کو ن یارسول اﷲ! عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ
علیہ واٰلہٖ وسلم؟ فرمایا، وہ شخص کہ اس کے پڑوسی اس کی آفتوں سے محفوظ نہ
ہوں یعنی جو اپنے پڑوسیوں کو تکلیفیں دیتا ہے۔ (صحیح البخاري، کتاب الادب،
الحدیث:۶۰۱۶، ص۵۰۹)
حدیثِ پاک میں ارشاد ہوا کہ ’’ الْمُہَاجِرُ مَنْ ہَجَرَ مَا نَہَی اللّٰہُ
عَنْہُ‘‘ یعنی مہاجر وہ جو ممنوع چیزوں کو چھوڑ دے۔حضرت سیدنا اَنَس بن
مالک رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے ارشاد فرمایا ، ’’ مومن وہ ہے جس سے لوگ امن میں رہیں اور مسلمان
وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے مسلمان محفوظ رہیں اور مہاجر وہ ہے جو برائی
کو چھوڑ دے ، خدا کی قسم وہ بندہ جنت میں داخل نہ ہو گا جس کے شر سے اس کا
پڑوسی محفوظ نہ ہو ۔ ‘‘
( مسند احمد ، باب باقی مسند المکثرین ، مسند انس بن مالک ، حدیث
۱۲۱۰۳الشاملہ)
ایک اور حدیثِ پاک میں ہے ، سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم
نے ارشاد فرمایا ، ’’مہاجر وہ ہے جو خطاؤں اور گناہوں کو چھوڑ دے ۔ ‘‘
(مسند احمد، باب باقی مسندالانصار، مسند فضالہ بن عبید انصاری، حدیث
۲۲۸۳۳الشاملہ)
اﷲ عزّوجل کی رضا کے لئے گناہ چھوڑنے کی فضیلت کے بارے میں احادیث مالا مال
ہیں چنانچہ چند احادیث ملاحظہ ہوں ۔سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے ارشاد فرمایا ، ’’تم میں جو شخص بری بات دیکھے اسے اپنے ہاتھ سے
بدل دے اور اگر اس کی استطاعت نہ ہو تو زبان سے بدلے اور اس کی بھی استطاعت
نہ ہو تو دل سے یعنی اسے دل سے برا جانے اور یہ کمزور ایمان والا
ہے۔‘‘(صحیح مسلم، کتاب الایمان، باب بیان کون النھی عن المنکر من الایمان،
الحدیث:۱۷۷، ص۶۸۸)
ایک اور مقام پر سرکارِ مدینہ صلی اﷲ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد
فرمایا ، ’’ جب زمین میں گناہ کیا جائے تو جو وہاں موجود ہے مگر اسے برا
جانتا ہے، وہ اس کی مثل ہے جو وہاں نہیں ہے اور جو وہاں نہیں ہے مگر اس پر
راضی ہے، وہ اس کی مثل ہے جو وہاں حاضر ہے۔ ‘‘
(سنن أبي داود، کتاب الملاحم، باب الامر والنھی، الحدیث۴۳۴۵۔۴۳۴۶، ص۱۵۴۰)
محترم قارئین :مجھے اپنے حروف ،علمی نگارشات ،فہم و ادارک پر ذرابھی گھمنڈ
نہیں کہ وہ تاثیر رکھتے ہیں ہاں اس بات پر کامل و اکمل یقین ہے کہ جس عظیم
ہستی کے لبہائے مبارک سے جنبش پانے والے ،مشکبار ،عطر بار الفاظ آپ کے ذوق
مطالعہ کی نظر کیے وہ فیض و کرم رشد و ہدایت کا منبع ہیں ۔وہ ضرو ر اپنے
تاثیر سے ہمارے قلوب کو بہرمند فرمائیں گئے ۔علم دوست بنیں ،چراغ سے چراغ
جلیں گئیں تو سارا عالم منور ہوجائیگا۔حق دار کو حق ملے گا۔صداقت ،رواداری
،اعتدال پروان چڑھے گا۔حق تلفی ،ظلم و بربریت کے بادل چھٹ جائیں گئے ۔
یازندہ صحبت باقی
وہ آج تک نوازتا ہی چلاجارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس ایک بارکہا تھا میں نے یا اﷲ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
عزوجل و صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم |