ایک عام انسان کا دل اگر ایک منٹ
میں ساٹھ مرتبہ سے کم دھڑکے تو اس کے نظامِ تنفس میں آکسیجن کی روانی متاثر
ہونے لگتی ہے ‘ سانس اکھڑنے لگتی ہے‘ انسان بے ہوش ہو سکتا ہے حتی کہ اس کی
موت بھی واقع ہو سکتی ہے‘ اسی طرح ایک عام انسان کا دل اگر ایک منٹ میں سو
مرتبہ سے زیادہ دھڑکے تو دل جسم میں خون کے بہاو کے عمل کومناسب رفتار سے
جاری نہیں رکھ پاتااور جسم میں آکسیجن کی ضرورت بڑھ جاتی ہے‘ اگر دل ایک
منٹ میں ایک سو تیس مرتبہ سے زیادہ دھڑکنے لگے تو یہ رفتار انسان کیلئے جان
لیوابھی ثابت ہو سکتی ہے‘اگر فشارِ خون کم ہو جائے تو دل تیزی سے دھڑکنے
لگتا ہے تا کہ فشارِ خون کو متوازن کیا جا سکے‘ لیکن لانس (Lance)کو اپنے
نظامِ تنفس اور دل کی دھڑکن پر کتنا اختیار ہے اور وہ کس اعلی درجے کا
ایتھلیٹ ہے اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایک منٹ میں لانس کے
دل کی کم سے کم دھڑکن بتیس سے چونتیس اور تیز ترین دھڑکن دو سو ایک مرتبہ
تک ریکارڈ کی گئی ہے۔وہ امریکہ سمیت دنیا بھر میں نامورسائیکل ریسر کے طور
پر جانا جاتاہے‘ا س نے انیس سو نناوے سے دو ہزار پانچ تک مسلسل سات مرتبہ
ٹور ڈی فرانس مقابلے جیتے ۔لوگ لانس کو کتنا پسند کرتے تھے‘ اس کا اندازہ
آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ دو ہزار چھ میںصرف ایک میراتھن ریس میں اس نے
ایک فلاحی مقصد کیلئے اپنے مداحوں سے چھ لاکھ ڈالرز اکٹھے کئے تھے‘دو ہزار
بارہ تک اس کی دولت کا تخمینہ بارہ کروڑ پچاس لاکھ ڈالرز لگایا گیا تھا‘وہ
باہر نکلتا تو اس سے آٹوگراف لینے والوں کا تانتا بندھ جاتا‘ لوگ اس کے
ساتھ تصاویربنوانے میں فخر محسوس کرتے اور خواتین اس پر جان نچھاور کرنے
لگتیں‘سائیکل ریس کے آغاز سے اختتامی لائن تک لانس کی ایک جھلک دیکھنے
کیلئے ہزاروں مداح پلکیں اٹھائے رکھتے ۔ابتدا میں‘ ’آرمسٹرانگ‘اس کے نام کا
حصہ نہیں تھا‘ جب وہ دو برس کا تھا تو اس کے باپ ”ایڈی چارلس“نے اس کی ماں
سے علیحدگی اختیار کر لی‘ایک سال بعد اس کی ماں نے ایک سیلز مین ٹیری
آرمسٹرانگ سے شادی کر لی اور لانس نے اپنے نام کے ساتھ اپنے سوتیلے باپ کے
نام کے آخری لفظ”آرمسٹرانگ“ کا اضافہ کر لیا‘اور یوں لوگ اسے لانس
آرمسٹرانگ ( Lance Armstrong )کے نام سے جاننے لگے۔
گزشتہ برس امریکہ کی اینٹی ڈوپنگ ایجنسی نے اس پر الزامات عائد کئے کہ وہ
اپنے کیرئیر(Career) میں دورانِ کھیل ممنوعہ ادویات(Steroids)کا استعمال
کرتا رہا ہے‘ ان ادویات سے انسان کم وقت میں مصنوعی اور زیادہ توانائی حاصل
کر سکتاہے‘ الزامات سامنے آنے کے بعد ان پر تحقیقات شروع کر دی گئیں‘
تحقیقاتی ٹیم نے چھبیس ایسے افراد کے بیانات قلمبند کئے جو لانس کو انتہائی
قریب سے جانتے ہیں‘اس کے پیشاب اور خون کے نمونے حاصل کئے گئے جن میں ایپو
( ایرتھروپوئٹن، یہ وہ ہارمون ہے جو خون کے سرخ خلیوں کی پیداوار کو کنٹرول
کرتا ہے) اور ٹیسٹوسٹیرون سمیت کئی دوسری ممنوعہ ادویات کی آمیزش ثابت ہو
گئی‘ اس پر الزامات ثابت ہو ئے توسائیکلنگ کی عالمی تنظیم کے صدر پیٹ
مکوئیڈ ( Pat McQuaid) نے واشگاف الفاظ میں کہا کہ لانس کی اب سائیکلنگ کی
دنیا میں کوئی جگہ نہیں ہے ‘ اوریوں اس پر سائیکل ریس میں حصہ لینے پر تا
حیات پابندی لگا دی گئی‘ الزامات ثابت ہونے کے بعدیکم اگست انیس سو اٹھانوے
سے اب تک لانس کے جیتے ہوئے تمام اعزازات اس سے چھین لئے گئے۔
میں لانس کے ایک اخلاقی جراتمندانہ فیصلے کا ذکر ضرور کروں گا جس نے مجھے
انتہائی متاثر کیا ہے‘ اس نے انیس سو ستانوے میں کینسر کے مریضوں کی فلاح و
بہبود کے لئے لانس آرمسٹرانگ فاونڈیشن قائم کی اور وہ اس کا چیئرمین بنا ‘
لیکن لانس نے سترہ اکتوبر دو ہزار بارہ کو ڈوپنگ سکینڈل سامنے آنے کے
بعدفاونڈیشن کی چیئرمین شپ سے استعفی دے دیا تا کہ اس کی وجہ سے یہ
فاونڈیشن اور اسکے اہداف متاثر نہ ہوں۔
آپ ذرا سائیکل ریس کا اپنے ملک پاکستان اور لانس آرمسٹرانگ کا موازنہ اپنے
سیاستدانوں سے کریں توآپ کا سر شرم سے جھک جائے گا‘ ترقی یافتہ ممالک نے
کھیلوں سے متعلق بھی انتہائی سخت قواعد و ضوابط بنا رکھے ہیں‘ حالانکہ کھیل
تو کھیل ہوتا ہے اگر اسے اتنا سنجیدہ موضوع نہ بھی بنایا جائے تو کون سی
قیامت برپا ہو جائے گی‘ لیکن شاید یہ ہی ترقی یافتہ ممالک کی ترقی کا راز
ہے کہ ریاست تو ریاست سہی وہ کھیل کو بھی انتہائی سنجیدگی سے دیکھتے ہیں‘
ان کے ہاں کھیل کو صرف کھیل ہی نہیں سمجھا جاتا بلکہ اس کیلئے بھی انتہائی
سخت قوانین اور اصول مرتب کئے گئے ہیں اور یہی قوانین ’حرفِ آخر‘ کہلاتے
ہیں۔
سابق وزیر اعظم گیلانی اور ان کے خاندان کے تقریبا ہر فرد پر معمولی یا غیر
معمولی کرپشن کا الزام لگایا گیا‘اس کے با وجود ان کے دونوں صاحبزادے
پارلیمنٹ کے رکن منتخب ہو گئے‘ یوسف رضا گیلانی کو نیب اور ایف آئی اے
بارہا نوٹس بھیج چکی ہے لیکن وہ کسی بھی ادارے کے سامنے جوابدہی کو اپنی
توہین سمجھتے ہیں۔ مسلم لیگ ق اور پی پی پی میں ماضی میں بہت سے اختلافات
رہے لیکن دونوں جماعتیںاب اتحادی بن چکی ہیں ‘ نواز شریف صاحب مسلم لیگ ق
پر دو ہزار دو کے بعد انتہائی برہم تھے اور اس جماعت کے لوگوں سے ہاتھ
ملانے کے بعد غسل کرنا واجب سمجھتے تھے لیکن آج نصف ق لیگ ان کے سامنے دو
زانو اور وہ انہیں اپنے پہلو میں جگہ دے رہے ہیں‘ تحریک انصاف کی بڑھتی
مقبولیت اور عہدوں کی خاطر اس میں شامل ہونے والے سیاستدان اب کہیں اور
خالی گھونسلے تلاش کررہے ہیں‘ جہاں انڈے پہلے سے تیار ہوں صرف ان کے بیٹھتے
ہی بچے نکل آئیں اور یہ خوشی سے پر پھڑپھڑانے لگیں‘ پی پی پی کی موجودہ
حکومت کی کونسی ایسی ناکامی نہیں ہو گی جس پر سنی اتحاد کونسل نے واویلانہ
مچایا ہو ‘ لیکن اب یہی سنی اتحاد کونسل پی پی پی کی سانس کی نالی یعنی ق
لیگ سے انتخابی اتحاد یا سیٹ ایڈجسٹمنٹ کر چکی ہے‘ ایم کیو ایم اور اے این
پی دونوں پی پی پی کی اتحادی ہیں لیکن دونوں کبھی وفاقی کابینہ سے علیحدہ
ہو جاتی ہیں اور کبھی صوبائی کابینہ سے ‘ ایم کیو ایم کے گورنر نے تو ایک
دفعہ اپنے عہدے سے استعفی دے کر دبئی میں قیام بھی کر لیا تھا‘ ایم کیو ایم
ایک طرف تو حکومت کی رگوں میں خون کی طرح دوڑ رہی ہے اور دوسری طرف حکومت
کے خلاف ہونے والے طاہرالقادری کے لانگ مارچ کی کھیتی بھی سیراب کر رہی ہے‘
جمیعت علمائے اسلام کی مصلحتی اور مفاہمتی سیاست تو پاکستانی سیاست کا ایک
باقاعدہ ”تابناک “ باب بن چکی ہے‘ ادھر دیگر قوم پرست یا بونے قد کی
جماعتیں بھی اپنی بقا اور سیاسی دکانداری کیلئے کسی سے پیچھے نہیں رہتیں‘
اور پرویز مشرف بھی پر تول رہے ہیں لیکن ابھی نہ تو کوئی خریدار ہے اور نہ
ہی وہ ایک نا یاب جنس ۔
پاکستانی سیاست کی ان بو قلمونیوں سے اب تو بو آنے لگی ہے‘ نہ تو سیاست اور
نہ ہی سیاستدانوں میں کوئی ضابطہ اخلاق باقی رہا ہے‘ آپ کسی بھی سیاستدان
سے ذرا اس کی غیر مستقل مزاجی کا سوال کریں تو آپ کو ایک ہی جواب ملے گا کہ
سیاست میں کچھ” حرفِ آخر“ نہیں ہوتا‘ اگر ترقی یافتہ ممالک میں کھیلوں
کیلئے غیر جانبدارانہ ، سخت اور حتمی قوانین بنائے جا سکتے ہیں توکیا ہماری
سیاست میں کوئی اصول نہیں ہونا چاہیے ؟ اگر لانس آرمسٹرانگ کے خلاف آنے
والا فیصلہ اس کے تابناک سفر کا حرفِ آخر بن سکتاہے توکیا سیاست جیسے اہم
میدان میں حرفِ آخر نہیں ہو سکتا؟ اگر لانس آرمسٹرانگ جیسا کھلاڑی حرفِ آخر
کی تضحیک کرنے پر نشانِ عبرت بن سکتا ہے تو پھر لغاری، مزاری، وٹو،
گیلانی،چودھری، ٹوانے اور مخدوم کب تک حرفِ آخر کی تضحیک کرتے رہیں گے؟
حضور! اگر سیاست میں حرفِ آخر نہیں ہوتا‘ تو پھر آخر ہوتا ہی کیا ہے؟؟؟ |