جمہوری حکومت کے ”عظیم کارنامے“

جمہوریت بہترین انتقام کے الفاظ سے شر وع ہو نے والی عوامی حکومت میں جو حال ملک و عوام کا ہو رہا ہے وہ سب کے سامنے ہے اور جو حال آ ئندہ ہو نے والا ہے وہ بھی لوگ سو چ و بچار کر چکے ہیں اور اکثر تو اس سے بھی بدتر کہہ رہے ہیں کہ اس حکومت سے یہ سوال کر رہے ہیں کہ ”عوامی حکومت“ نے تو اپنے پانچ سال پور ے کرلینے ہیں مگر اپنی بے حس عوام کے لئے، جس کے ووٹوں سے یہ منصب اقتدار پر پہنچی ہے جن کے زخموں پر سیاست چمکا کر انھوں نے اقتدار سمبھلا ہے اور غریبوں کو جو خواب دکھائے ہیں ان کی تعبیر کہاں گئی کو ن سا وعدہ پورا کیا ہے ؟ اور ان کے سابق وزیر اعظم کی پرتیاں بھی قابل غور ہیں جنھوں نے اپنے اقتدار کے شروع دنوں میں اپنے (سابق)وزیر راجہ پرویز اشرف کے کہنے پر لوگوں کو بے وقوف بنانے کے لئے یہ نعرہ بھی لگا یا کہ پیپلز پارٹی ملک سے لوڈشیڈنگ کا خاتمہ کر دے گی سا ل پر سال اور تاریخوں پر تاریخیں گزرتی رہی مگر وہ دن نہ آ یا جب پاکستانی عوام نے اپنی حکومت کے وعدے کو ایفا ءہو تے ہو ئے دیکھا اور لانگ مارچ کرنے والے بھی اپنے فوائد کے لئے اس ایشو پر سیاست چمکاتے رہے ۔مگر یہ لو ڈ شیڈ نگ تو ختم نہ ہو ئی مگر گیلانی صاحب کا اقتدا ر ضرور ختم ہو گیا ۔اور خوش قسمتی اس حکومت کی خوشامندی چالوں کی کہ اس نے نہ تو ا س سلگتے مسئلے پر آ واز بلند کر نے کی کسی کو ہمت دی اور نہ کو ئی اجتجاج کامیاب ہو نے دیا بلکہ ہر وقت ”مفاہمت کی پالیسی“ کے ساتھ اپنے اتحادیوں کو اپنے ساتھ ملائے رکھا اور تمام مسئلے صرف بیانوں کی حد تک عوام کو اذیت دے رہے ہیں او پر سے حکومتی وزرا ءو مشیروں کے بے ڈھنگ اور بے وقت کے نت نئے بیانات عوام کو ذہنی مریض بنا چکے ہیں ہمارے سابق وزیر اعظم صاحب نے بس یہی پر بس نہیں کیا انھوں نے تو اپنی کابینہ میں جس جس جیالے اور اتحادی کو حصہ دار بنایا انھوں نے اس محکمے کا وہ حال کیا جو محمد بن قاسم نے راجہ دہر کی فوج کا کیا تھا کہنے کا مطلب ہے کہ انھوں نے ان تمام منافع بخش اداروں اور محکموں کو کروڑوں کا قرض دار بنا ڈالا ہے واپڈا نے کروڑوں روپے پی ایس او کو دینے ہیں (جو حکومت دے نہیں پا رہی) سٹیل مل اپنی آ خری سا نسیں لے رہی ہے پی آ ئی اے بھی ماشااللہ بند ہو نے کی امید ظاہر کیئے جا رہی ہے اور وہ غریب کی شاہی سواری کا تو حال ہی نہ پوچھیئے وہ تو بے حس ہاتھی کی طرح بڑے سٹیشنوں سے ہی باہر نہیں نکلتی اور جو کوئی نکلتی ہے وہ ایک دن کا سفربھی4/4دن میں طے کرتی ہے اور حج کرپشن تو ابھی کسی کو بھولا نہیں ۔ ان کی تو بات چھوڑیئے ہمارے سابق وزیر اعظم صاحب جو خود کو لمبی ترین عہدہ وزیراعظم کا ایوارڈ دے گئے ہیں مگر اپنی کابینہ میں ان لوگوں کو جگہ دی جن پر کریشن کے الزامات ہیں انکے دور حکومت میں ہر سال کرپشن میں اضافہ ہوا جو کہ ان کے دور حکومت کو کمزور طرز حکومت قرار دیا جا سکتا ہے وہ خود تو اپنے منصب اقتدار پر پھولے نہیں سمارہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ ہم نے یہ کر دیا ہے وہ کر دیا ہے ملک کو چاند پر پہنچا دیا ہے (شاید سورج پر پہنچانے کا ارادہ تھا مگر وہاں کی گرمی نے موڈ بدل دیا ہو) مگر حقیقت یہ ہے کہ ان کا دور حکومت ناکام ترین دورحکومت تھا وہ بلوچستا ن کے حقوق کی تو بڑی بات کرتے تھے اوراین ایف سی ایوارڈ جیسی سکیمیں بھی سامنے آ ئیں مگر ان سے بھی بلو چیوں کوئی خاطر خوا ں فائدہ نہیں ہوا انھوں نے تو اپنی کابینہ میں وقتا فوقتا اضافہ صرف اس لئے کیا کہ اپنے چہتے اور جیالوں کو خوش کر سکیں اور تمام سیاسی جماعتوں کو اقتدار کے مزے دے سکیں اور یہی وجہ ہے کہ اب قومی اسمبلی کے 342ارکان ہیں اور ان میں سے اکثریت کا تعلق پیپلز پارٹی سے ہے کیونکہ پیسہ اس عوام کا ہے جو خود تو اپنی بنیادی ضروریات زندگی کے لئے سڑکوں پر ڈنڈے کھاتی ہے اپنے ملک کے وزیر و مشیروں ، وزیر اعظموں، صدروں کے لئے سڑکوں پر ایمبولینسوں میں مر تی ہے مگر ان کے سامنے ”اُف“ تک نہیں کر تی بات ہو رہی تھی سابق وزیر اعظم کے اقدامات کی تو ان کے ساڑھے چار سالہ دور میں صرف عوام کا خون نچھوڑا گیا ان کے ہی اقداما ت تھے حکمت عملی تھی کہ ڈالر آ ج 100پر پہنچ رہا ہے ڈیزل پٹرول کی قیمتیں آ سمان کو چھو رہی ہیں اور 100سے اوپر بھی انہیں کی کامیاب حکمت عملیوں کی وجہ سے گئیں حج سکینڈل ،پاور پلا نٹ سکینڈل اور ایفی ڈین سکینڈل ان کے ہی منصب اقتدار پر موجو دہو تے ہو ئے آ ئے اور تو اور ان کے ایک وزیر خورشید شاہ نے پاکستان کے حصے کا پانی بھی ازلی دشمن کو ”تحفے “ میں دے دیا او ر خود باہر ”سکون“ کی زندگی گزار رہے ہیں۔جب کہ حکومت کی انہی با توں سے عوام بھی اس بے یقینی صورتحال میں خود کو غیر محفوظ تصور کر رہی ہے اور حکومت وقت کے احکامات کو دل سے برا کہہ رہی ہے کہ موجود ہ حکومت نے تو ایک شہید کے لہو کے صدقے حکومت ملی تھی مگر موجود ہ حکومت نے عوام کو ذلیل و پریشان کر کے ا ن شہیدوں کی روحوں سے بھی بے وفائی کی ہے جن کی وجہ سے آ ج وہ ملک کے سیاہ سفید کے مالک بنے ہو ئے ہیں اور لوگ سوال کر نے پر مجبور ہیں کہ پیپلز پارٹی کے دور حکومت میں کرپشن اور امن و امان کی صورتحال خراب کیوں ہورہی ہے حالانکہ یہ تو عوم کی جماعت ہے آ ج ہمارے منصب اقتدار پارٹیوں میں سے پیپلز پارٹی ہے جو اپنے ”اتحادیوں “ کے ساتھ صرف مسلم لیگ (ن) کو شکست دینے کے لئے نئے صوبوں کا شوشہ چھوڑ رہی ہے یہ انتظامی معاملات پر نہیں لسانی بنیادوں پر پنجا ب کے ٹکرے کر نے کا کہہ رہی ہے اور سوچ رہی ہے اور سب سیا سی جماعتیں بھی ان کی جی میں جی ملائے جا رہی ہیں جب کہ ملک کے طو ل وعرض میں صوبہ ہزارہ اور سندھ کوبھی صوبوں میں بانٹنے کی با تیں ہو رہی ہیں کوئی غیور پٹھانوں کے لئے نیاءصوبہ بناناچاہتا ہے تو کوئی سندھیوںکاالگ سے صوبہ بنا نا چا ہتا ہے جب کہ آج تک کسی بھی حکمران نے سچے دل سے اور ٹھوس پالیسی سے کسی بھی مسئلے پرکوئی کام نہیں کیا یہی وجہ ہے کہ ملک مسائلستان بنا ہوا ہے اور سیاسی پارٹیوں کو صرف اور صرف اپنے اقتدار کی فکر پڑی ہو ئی ہے کو ئی اقتدار میں موجو دہے اسے طوالت کی پڑی ہے تو کو ئی آ نے والے”سنہری دور کو خوابوں میں سجا ئے ہو ئے ہے“ اور کو ئی ”موقعہ ملے کدی کدی“ کے مصداق اپنے الیکشن پر لگے ہو ئے پیسوں کو پورا کر نے کی فکر میں ہے غرض ان میں سے کوئی بھی عوام کے دکھوں، سے آ شنا نہیں بلکہ لا علم ہیں یہ لو گ سیاست تو غریب عوام کے زخموں اور مسائل پر کر تے ہیں مگر یہ مسائل پیدا کر نے میں بھی انہی حکمرانوں کا زیادہ ہاتھ ہے جو اپنے اقتدار میں ملک کے عوام کے مسئلوں پر اور بحرانوں پر کو ئی ٹھوس قدم نہیں اٹھا تے بلکہ وقتی پالیسیوں کا استعما ل کر تے ہو ئے اپنے اقتدار کے دن پو رے کر تے ہیں ا ب بھی وقت ہے کہ پاکستان ایک ترقی یا فتہ اور بلند مقام پر پہنچ سکتا ہے بس اگر اس کی عوام اپنے اخلاقی اور قانونی نکات پر عمل کر ے اور حکمرانو ں کو بھی توڑو اور حکومت کرو کی پالیسی چھوڑنی ہو گی اور یہ سو چنا ہو گا کہ یہ ملک ہے تو ہم ہیں اگر یہ ملک ہی نہ رہا تو وہ حکمران نہیں رہیں گے اورہر آ نے والی حکومت کو ملکی مسائل کے حل کے لئے مضبو ط ،اور دیر پا پالیسیاں مرتب کر نا ہو گی اورعوام کو وہ حکمران چنے ہو نگے جو ان کے مسائل حقیقی طور پر جانتے ہو ں اور ان سے با خبر ہوں جو ان کے دکھوں کا مداوہ کر سکتے ہوں کیو نکہ اب نہیں بدلاﺅ آ ئے گا تو کب آ ئے گا اس قوم نے آ ج تک فصلی بٹیرے ہی دیکھے ہیں ۔ جو اس عوام کو اپنے فائدے کے لئے تختہ مشق بنا ئے ہو ئے ہیں-
Muhammad Waji Us Sama
About the Author: Muhammad Waji Us Sama Read More Articles by Muhammad Waji Us Sama: 118 Articles with 130120 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.