وقت کی قدر کرو ، وقت بیش
بہا دولت ہے ، گیا وقت ہاتھ آتا نہیں جو وقت کی قدر و قیمت نھیں جانتا و ہ
بہت بڑے گھاٹے میں ہے -یہ اور اس طرح کے بےشمار اقوال دنیا کی ہر زبان میں
موجود ہیں- وقت جو ہر گزرتے لمحے کے ساتھ گزر رہاہے اس سیل رواں کے آگے
کوئی بند نھیں باندھا جاسکتا اور نہ ہی کوئی اسکو تھام سکتا ہے۔یہ وقت طوعا
و کرہا گشرا ہی جا رھا ہے- گھڑی کی ایجاد سے وقت کا پیمانہ اور آسان ہوگیا
- سیکنڈ ۔منٹ میں منٹ گھنٹے میں اور گھنٹے شب و روز، ہفتوں، مہینوں اور
سالوں میں بدلتے ہیںفی زمانہ ٹک ٹک کرتی گھڑیاں اور گھڑیال تو ایک طرف آپکے
فون، کمپیوٹر ،ٹیویاور تمام بجلی کے آلات پرلمحہ لمحہ ڈیجیٹل وقت بتا نے کا
انتظام ہے-اگرغور کریں تو ھر گزری ہوئی بات لگتا ہے کل کی بات ہےحالانکہ
اکثر واقعات کو گزرے ہوے مدتیں ہو چکتی ہیں- اپنی عمر کے متعلق ہمیں احساس
ہوتا ہے کہ کل ہی تو ہم بچے تھے-کل ہی تو یہ واقعہ ہوا تھا اگرچہ گزرا ھوا
وقت بہت سے المیوں کے لئے انسان کے لئے بہت بڑا مرہم ہوتا ہے-
قرآن پاک میں العصر میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے زمانے اور گزرتے ہوئے وقت
کی قسم کھائی ہے " عصر کی قسم ،بے شک انسان خسارے میں ہے مگر وہ جو ایمان
لے آئے اور نیک اعمال کیے اور ایک دوسرے کو حق اور صبر کی تلقین کرتے رہے"
بطور ایک مسلمان ہمیں اپنے اوقات کو صحیح اور اللہ کی رضاء کے مطابق
استعمال کرکے آحرت مین سرخروئی کی جد و جہد کرنی ہے رہنا اٰتنا فی الدنیا
حسنۃ و فی الاٰخر حسنۃ و قنا عذابالنار اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھی
بھلائی عطاکر اور اٰخرت مین بہی بھلائی عطاکر اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا
لےگویا ایک مسلمان کا مقصد دنیا اور آخرت دونوں کی کامیابی ہے-اس لحاظ سے
ہمارے وقت کا ایک ایک لمحہ ہر ایک سیکنڈ جو ہمارے گزرتے ہوۓ سانس کے ساتھ
گزر رھا ہے ہمارے لئے ایک انمول اور قیمتی سرمایہ ہے- روز قیمت اللہ تعالٰ
بندے سےجو اولین سوال کرینگے اسمیں یہ سوال شامل ہوگا “وقت کیسے گزارا”اور
بندہ جب تک اسکا صحیح جواب نہیں دے گا جب تک آگے نہ بڑھ سکے گا –
فی زمانہ جن ترقی یافتہ اقوام پر ہم نظر دالتے ہی ںانھوںنےوقت کی قدر کی
اسکا صحیح استعمال کیا اور یوں دنیا میں کامیابیاں حاصل کیںآجکل کی تعلیم و
تربئت میںtime management" پر بھت زور ہے اردو میں ہم اسکو اوقات کی صحیح
تقسیم کہہ سکتے ہیں اسکو کامیابی کا گر کھا جاتا ہے اسکے لحاظ سے ہمارے
فرائض ،افعال اور اعما ل جو ہم 24 گھنٹےکے دوران انجام دیتے ہیں اسکا ایک
سر سری سا خاکہ ہمارے سامنے آجاتاہے ایک مسلمان کے وقت کی تقسیم میں دنیاوی
ذمہ داریوں کے اللہ تعالئٰ کی عبادات کے اوقات بہی شامل ہوتے ہیں جن میں
پنج وقتہ فرض نماز سر فہرست ہے انکے اوقات کو اپنے معمولات میں اسطرح شامل
کیا جائےکہ دنیاوی فرائض خوش اسلوبی سے ساتھ ساتھ انجام پاتے رہیںاور نماز
بھی وقت پر ادا ہو-اسی طرح اپنے تمام اعمال اور دنیاوی ذمہ داریاں جو ہم
اللہ کی رضاء کے مطابق ادا کرتےہیں وہ بھی عیں عبادت ہیں- وقت جو گزرتا ہی
چلا جاتا ہے چاہے اسکا فائدہ اٹھایا جاۓ چاہے اسے ضائع کیا جائےوقت ضائع
کرنے کے انگنت طریقے اور زریعے ہیں اور اس سے فائدہ اٹھانے کے بھی انگنت
طریقے ہیں -ایک مشہور کھاوت ہے کہ بازار میں ایک شخص برف کی سل لے کر بیٹھا
ہوا صدائیں لگا رھا تھا" ھےکویئ ہےجو میرا یہ قیمتی سرمایہ گھلنے سے بچا
لے؟"وقت کی مثال بالکل ایسی ہی ہےاس سیل رواں کے آگے کویی بند باندھنے کا
اہل نہیں ہےسوائے اسکے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ اسکو تھام لے جیسے کہ شب
معراج کے بارے میں ہم جانتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مسجد
اقصیٰ سے سدرۃالمنتہی تک کا سفر اور مشاہدات کرکے واپس لایا گیا تو دروازے
کی کنڈی ہل رہی تھی اور آپکا بستر تک گرم تھا- ہالی ووڈ کی فلموں میں مختلف
موضوعات میں اگلے پچھلے وقتوں میں داخل ہونے کی کوشش کی گئی ہے اسمیں ایک
تو back to the future کی سیریز ہے دیگر ٹائم مشین اور دوسرے عنوانات سے ہے
لیکن انکا حقیقت سے کوئی تعلق نھیں ہے محض تخیلاتی کھانیاں ہیں-
ہمیں بطور مومن اللہ تعالیٰ کے حضور جوابدہی کے احساس سے اپنے اوقات سے
پوری طرح باخبر ہونا چاہئےدو لکھنے والے کراما کاتبین ہر ہر لمحہ ہمارا
حساب کتاب درج کرنے میں مصروف ہیں ، یہ نامہ اعمال اوقات کا یہ روزنامچہ
اللہ کے حضور روز قیامت پیش کیا جائے گا اسدن وہی سرخ رو ہونگے جنکے نیک
اعمال کے پلڑے بھاری ہونگے اور جنہوں نے اپنے اوقات کا بہترین اور مثبت
استعمال کیا ہو!
ایک عام انسان کے عموما 8سے 10 گھنٹے سونے میں گزرتے ہیں اوریوں چودہ سے
سولہ گھنٹے بچ جاتے ہیں جن پر ہم اپنے کاموں کے لئے وقت کی تقسیم کر سکتے
ہیں ان کاموں میں ھماری ذاتی ضروریات اور افعال بھی شامل ہیں اگر ایک انسان
کی زندگی کا جائزہ لیا جائے تو بچپن کے 8سے 10 سال تک اسکی ذہنی و جسمانی
نشو و نما تشکیل پاتی ہے بچپن کا وقت عام طور سے بے فکری اور کھیل کود والا
ہوتا ہےاور یوں ایک عام صحتمند انسان 60-65 سال کی عمر تک ایک چست اور
کارآمد زندگی گزارتا ہے اس دوران اسکے ذہن اور جسم میں توانائی ہوتی ہے اور
وہ اسکو بہتریں مصرف میں لاسکتا ہے، دینی او دنیاوی دونوں میدانوں میں اپنا
لوہا منوا سکتا ہے اور اپنی حیثئت تسلیم کرواسکتا ہےاگرچہ مستثنی لوگ موجود
ہیں- ڈھلتی عمر میں ماسوائے چند کے انسانی جسم اور ذہن کا انحطاط شروع
ہوجاتا ہے مختلف بیماریاں ،عارضے اور ضعف کا عمل شرو ع ہوتا ہےجو ہمارے دین
میں بتایا گیا ہے “ جوانی کو غنیمت جانو بڑھاپے سے پھلے اور صحت کو غنیمت
جانو بیماری سے پھلے” کی سو فیصد حقیقت ہے – وقت میں غفلت اور لاپرواہی کی
ایک اہم وجہ ہماری طبیعت کی سستی اور لاپرواہی ہےاور آجکا کام کل پر ڈالنے
کی عادت ہے- آجکا کام کل پر ٹالنے کی عادت کو انگریزی میںprocrastination
کہتے ہیں اس خامی کو دور کرنا اشد ضروری ہےجس کام کو مقررہ وقت اور مدت میں
کیا جائے اسمیں اتنی ہی خیر و برکت ہوتی ہےاس سلسلے میں وقت کی پابندی اشد
ضروری ہےجب ہم آجکل کی ترقی یافتہ اقوام پر نظر ڈالتے ہیں تو انکی معمولات
میں پابندئ وقت کا عنصر ہمیں بھت نمایاں نظر آتا ہے، جبکہ ہم لوگ خاص طور
ہر بر صغیر سے تعلق رکھنے والے پابندئ وقت کو ہرگز اہمئت نہیں دیتے ہمارے
مختلف مواقع اور تقریبات میں پابندئ وقت کا کوئی تصور نہیں ہوتا اور اس
معاملے میں ہم بیحد مشہور بلکہ بدنام ہوچکے ہیں-حتیٰ کہ دیار مغرب میں
بسنےوالے بر صغیر کے باشندوں کا کوئی اجتماع یا پروگرام بہت مشکل ہے کہ بر
وقت شروع ہو-جبکہ مقامی باشندے وقت کی پابندی کو انتہائی اہمئت دیتے
ہیں-اپنے ممالک میں تو تاخیر کرنا اور تاخیری حربے استعمال کرنا ایک سٹائیل
بن چکا ہے-اس لحاظ سے غریب ممالک کے باشندے وقت کے ضیاع کے لحاظ سے
انتیہائی امیر ہیں----
وقت کی برق رفتاری انسان اور انسانی زندگی کی بے ثباتی کو عیاں کرتی ہے
کیونکہ ہر گزرتا لمحہ ہمیں اپنے انجام سے نزدیک تر کر دیتا ہے اور یہ سوچنے
پر مجبور کرتا ہے کہ اس انجام کے لئے ہم کتنے تیار ہیں-؟
وقت
کہہ رہا ہے بہتا دریا وقت کا
قیمتی ہے لمحہ لمحہ وقت کا
اہل ہمت اپنی منزلیں پائیں گے
جو ہیں کاہل پیچھے وہ رہ جائیں گے
وقت کے جو ساتھ چلتے رہے
کامیاب و کامران وہ ہو گئے
وقت کا پنچھی کہیں رُکتا نہیں
وقت کا پرچم کبھی جھکتا نہیں
مانتا ہے جو بھی کہنا وقت کا
وقت بن جاتا ہے اس کا رہنما |