یادمصطفی ؐ بااہتمام عشاق مصطفٰی۔۔۔

مجھے آج کسی کی بہت یاد آرہی ہے بلکہ دن کے ہر پہر میں ان کی یاد ستاتی ہے ۔لیکن میں اس قابل نہیں کہ ان کے رخ زیبا کہ جلوے لوٹوں ۔ان نورانی مکھڑوں کی زیارت کی تاب نہ لاسکوں ۔وہ میرے دل کے قریب ہیں ۔میری روح کی تازگی ہیں ۔میری زندگی کی رونق ہیں ۔میری کامیابیوں کی معراج ہیں ۔میری محبتوں و عقیدتوں کا جہاں ہیں ۔میرا سب کچھ ان کے نام پر قربان ۔میری پہچان ہیں وہ ۔میری شان ہیں وہ ۔وہ میری کل کائنات ہیں ۔ان کی محبت میری بقاء کی ضمانت ہے ۔مجھ حقیر پر تقصیر کی محبت تو ان کے پروانوں کے سامنے کچھ نہیں ۔لیکن ان کی عنایتوں کی بھی عطا نہیں ۔انہوں نے مجھے ایک طمغہ دیا ہے ۔جسے میں نے سجالیا ہے ۔جس پر مجھے فخر ہے ۔مجھے بہت یاد آر ہے ہیں ۔اتنے یاد آرہے ہیں کہ بس میری آنکھوں سے اشک رواںہیں کیا معلوم انھیں میری گناہوںسے زنگ آلود آنسو ہی پسند آجائیں ۔مجھے قبول کرلیں ۔ان کا قبول کرنا میرے لیے سب کامیابیوں سے بڑھ کرہے ۔سنا ہے ان کادیدار ہوگا۔لیکن میں تو گنہگار ہوں ۔بدکار ہوں ۔بے مروت دنیا کی محبت میں گم ہوں ۔ایک بات ہے میں جیسا بھی ہوں لیکن وہ مجھے بہت یاد آتے ہیں ۔
محترم قارئین:مجھے وہ بہت یاد آتے ہیں ۔اتنے یاد آتے ہیں کہ میں تنہائی میں میں زور زور سے کہتاہوں
ڈاڈا ہاں غریب آقا کول میرے زر نہیں
اُڑکے میں کیویں آواں نال میرے پر نہیں
بات یا د سے چلی تھی تو آئیے !یا د کے متعلق بات کرلیتے ہیں ۔

لفظ یاد کولغت میں ملاحظہ کریں تو اس کے معنٰی حافظہ ،ذہن ،خیال،تسبیح ،یاد داشت کے ہیں ۔۔اسی طرح ہم کسی کی یادمناتے ہیں یہ یادہے کیااس کی حقیقت کیاہے ؟

اس یاد میں نہ جانے کتنوں کی یادیں ہیں کہ ہر یاد اک یادگار بن کر تاریخ کا حصّہ بن گئی۔اگر ہم غور کریں تو ہمیں معلوم ہوگا کہ قران مجید میں تین طرح کی آیات ہیں ایک وہ جن میں عقائد و اعمال ،ایک وہ جو آیات متشابہات اور تیسری آیات وہ جن میں گزشتہ قصص بیان کیے گئے ہیں ۔یعنی قران میں بھی وہ واقعات رہتی دنیا تک کے لیے بشارت کے قصص بشارت کے لیے اور عبرت کے قصص عبرت کی یاد کرواتے رہیں ۔
اگر غورکریں تو ہمیںپتا چلتاہے کہ کسی کام ،سوچ و فکر کے پیچھے کوئی نہ کوئی یاد ہے جیساکہ ۔۔۔ نمازِ پنجگانہ اَنبیاء علیہم السلام کی یادگار ہے۔۔۔۔۔۔نمازِ فجر سیدنا آدم علیہ السلام کی یادگار ہے۔۔۔۔نمازِ ظہر سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی یادگار ہے۔۔۔۔۔نمازِ عصر سیدنا عُزیر علیہ السلام کی یادگار ہے۔۔۔۔نمازِ مغرب سیدنا داؤد علیہ السلام کی یادگار ہے۔۔۔۔۔نمازِ عشاء تاجدارِ کائنات صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی یادگار ہے۔

اسی طرح اگر مناسک حج پر غور کریں تو
جملہ مناسکِ حج اَنبیاء علیہم السلام کی یادگار ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔اِحرام انبیاء کرام عَلَیْھمُ السَّلام کے لباسِ حج کی یادگار ہے۔۔۔۔۔۔تلبیہ سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی پکار اور اس کے جواب کی یاد مناناہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ طواف کرنا سنتِ انبیاء کی یاد مناناہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رمل حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ رضی اللّہ عنھم کے اَندازِ طواف کی یاد مناناہے۔

تقبیلِ حجرِ اَسود : حبیبِ خدا صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ادا دہرائی جاتی ہے۔۔۔۔قیامِ مقامِ اِبراہیم سیدنا اِبراہیم علیہ السلام کی یاد دلاتا ہے۔۔۔ صفا و مروہ کی سعی سیدہ ہاجرہ علیھا السلام کی سنت ہے۔

بات ابھی ختم نہیں ہوئی ان عظیم یادوں کی اک طویل فہرست ہے ۔جیسا کہ عرفات، مزدلفہ اور منیٰ حضرت آدم و حوا علیھما السلام کی یادگار ہیں۔۔۔۔۔۔عرفات و مزدلفہ میں ظہرین و مغربین کی ادائیگی سنتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے۔۔۔۔۔ قربانی ذبحِ اسماعیل علیہ السلام کی یاد ہے۔۔۔۔ قربانی کے جانور شعائر اللہ ہیں۔۔۔۔۔۔کنکریاں مارنے کا عمل سنتِ ابراہیمی علیہ السلام ہے۔۔

قرآن مجید اللہ عزوجل کی لاریب کتاب جس میںذرہ بھر بھی شک کی گنجائش نہیں اسی کتاب نے کئی یادہ تازیں کیں جس میں ۔۔۔ ۔ ۔ تذکرہئ اَنبیاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔تذکارِ اَنبیاء سنتِ اِلٰہیہ ہے۔۔۔۔۔یادِ انبیاء علیہم السلام ۔۔ یادنامہئ آدم علیہ السلام۔۔۔۔۔۔۔ یادنامہئ موسیٰ علیہ السلام۔۔۔۔ یادنامہ ئ مریم علیھا السلام۔۔۔۔یاد نامہ ئ یحییٰ علیہ السلام۔۔۔میلاد نامہئ عیسیٰ علیہ السلام۔۔۔۔یادنامہ ئ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔۔۔۔یاد نامہ اَنبیاء سے یادنامہئ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تک۔۔۔۔۔۔جشنِ ۔۔۔۔۔ نعمتوں پر خوشی منانا سنتِ انبیاء علیہم السلام ہے۔
یہ وہ یادیںتھیںجھنیں قران نے بھی بیان کیا ۔یاد کیا۔جیساکہ اصحاف فیل کے واقعہ کو قران نے بیان کیایاد کروایابنی نوع انسانیت کو
ئَلَمْ تَرَ کَیْفَ فَعَلَ رَبُّکَ بِأَصْحَابِ الْفِیلِO أَلَمْ یَجْعَلْ کَیْدَہُمْ فِی تَضْلِیلٍO وَأَرْسَلَ عَلَیْہِمْ طَیْرًا أَبَابِیلَO تَرْمِیہِم بِحِجَارَۃٍ مِّن سِجِّیلٍO فَجَعَلَہُمْ کَعَصْفٍ مَّأْکُولٍO(فیل، 105 : 1 - 5)
ترجمہ کنزالایمان:۔اے محبوب کیا تم نے نہ دیکھا تمہارے رب نے ان ہاتھی والوں کا کیا حال کیا ۔۔کیا ان کا داؤں تباہی میں نہ ڈالا ۔۔۔اور ان پر پرندوں کی ٹکڑیاں بھیجیں۔۔کہ انہیں کنکر کے پتھروں سے مارتے۔۔تو انہیں کرڈالا جیسے کھائی کھیتی کی پتی۔

یادِ موسیٰ علیہ السلام منانے کی ہدایت
جب حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مدینہ منورہ ہجرت فرمائی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہودِ مدینہ کو یومِ عاشورہ کا روزہ رکھتے دیکھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے روزہ رکھنے کی وجہ دریافت فرمائی تو انہوں نے بتایا کہ اس دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فتح اور فرعون کو اس کے لاؤ لشکر سمیت غرقِ نیل کرتے ہوئے بنی اِسرائیل کو فرعون کے جبر و استبداد سے نجات عطا فرمائی تھی۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے اللہ تعالیٰ کا شکر بجا لاتے ہوئے اس دن روزہ رکھا، لہٰذا ہم بھی اس خوشی میں روزہ رکھتے ہیں۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : (ایک نبی ہونے کی حیثیت سے) میرا موسیٰ پر زیادہ حق ہے۔ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا ہونے والی نعمتِ خداوندی پر اِظہارِ تشکر کے طور پر خود بھی روزہ رکھا اور اپنے تمام صحابہ کو بھی روزہ رکھنے کا حکم فرمایا۔( بخاری، الصحیح، کتاب الصوم، باب صیام یوم عاشوراء ، 2 : 704، رقم : 1900)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی یہ روایت ہے کہ جب ایک یہودی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ جس دن آیت۔ اَلْیَومَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ۔ نازل ہوئی اس دن کو بطور عید مناتے ہیں؟ اگر ہماری تورات میں ایسی آیت اترتی تو ہم اسے ضرور یومِ عید بنا لیتے۔ اس کے جواب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم اس دن اور جگہ کو جہاں یہ آیت اتری تھی خوب پہچانتے ہیں۔ یہ آیت یومِ حج اور یومِ جمعۃ المبارک کو میدانِ عرفات میں اتری تھی اور ہمارے لیے یہ دونوں دن عید کے دن ہیں۔(.بخاری، الصحیح، کتاب الإیمان، باب زیادۃ الإیمان ونقصانہ)

ان میں کئی یادیں انسانیت کے لیے عبرت اور کئی ایسی یادیں، جس میں انسانیت کے لیے فرحت و شادمانی کا ساماں ہے ۔ صدیوں سے رائج جشن ،خوشیاں و شادمانیوں کا ساماں لیے ایک یادگار دن ۔جس دن تاریک دنیا کو آفتاب ہدایت نے نوربخشا،ظلم و ستم کی طویل داستان اپنے انجام کو پہنچی ،بلکتی سسکتی انسانیت کو مسیحاملا۔کفر وشرک کے باد چھٹ گئے ۔گری ہوئی انسانیت کو معراج مل گئی ۔بھٹکی ہوئی مخلوق ۔ماں ،بہن ،بیٹی جیسے مقدس رشتوں کو مقام ملا،عدل و انصاف ،دیانت و امانت ،اخلاق ،اعلی کردار و گفتار کی شمع فروزاں ہوئی ۔فاران کی چوٹیوں سے اک نور طلوع ہوا۔جس نے عرب کے صحراؤں ،رہگزاروں کو رونق بخش دی ۔عرب کی عظیم خاتوں ،عظیم ماں ،سعادت و رفعتوں کو چھونے والی ممتاحضرت آمنا رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہاں ایک عظیم ہستی ،ایک باکمال شخصیت ،ایک مقرب الہی ،انبیاء کی زینت ،انبیاء کے سردار ،رحمت عالم ،سرور کونین ،احمد مجتبی محمد عر بی ؐ ١٢ربیع الاول ولادت باسعادت ہوئی ۔شاہِ ایران ''کسرٰی''کے محل پر زلزلہ آیا،چودہ کنگرے گرگئے ۔ایران کا جو آتش کدہ ایک ہزار سال سے شعلہ زن تھا وہ بجھ گیا،دریائے ساوہ خشک ہوگیا۔کعبے کو وجد آگیااور بت سر کے بل گر پڑے۔
تیری آمد تھی کہ بیت اللہ مجرے کا جھکا
تیری ہیبت تھی کہ ہر بت تھر تھراکر گرگیا(حدائق بخشش)

وہ یاد گار دن جس دن دنیا کی بگڑی سنورگئی ۔یہ وہی عظمت و شان ،رفعت و بلندی والی ہستی ہیں ۔جن کے متعلق خصائص الکبرٰی میں روایت مذکورہے ۔کہ جب حضرت آمنہ رضی اللہ تعالیٰ عنہاکہ یہاں ولادت کا وقت آیا تو اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حکم فرمایاکہ تمام آسمانوں اور جنتوں کے دروازے کھول دو اور اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایاکہ تمام فرشتے میرے سامنے حاضر ہوجائیں چنانچہ فرشتے ایک دوسرے کو بشارتیں دیتے ہوئے حاضرہونے لگے ۔دنیا کے پہاڑ بلند ہوگئے اور سمندر چڑھ گئے اور ان کی مخلوقات نے ایک دوسرے کو بشارتیں دیں ۔چنانچہ تمام فرشتے حاضر ہوگئے ۔اور شیطان کو ستر زنجیریں پہنائیں گئیں ۔ایک اور روایت میں ہے کہ اللہ تعالی نے میرے سامنے مشرق و مغرب منکشف فرمائے میں نے تین جھنڈے نصب کیے ہوئے دیکھے ۔ایک مشرق میں ایک مغرب میں اور ایک کعبہ کی چھت پر(الخصائص الکبریٰ )

وہ ذی احترام تشریف لائے جن کی زبان نے جنبش پائی تو عرب کے بڑے بڑے فصحاء حیران رہ گئے ۔وہ جن کی زبان پر کلام الہی جاری ہوتاہے ۔وہ جو فرمادیں وہ حق ،وہ جو کرگئے و سیرت کا عظیم گو شہ اور انسانیت کے لیے مشعل راہ بن گیا۔وہ جن کی آمد کاذکر حضرت عیسی علیہ السلام نے بھی کیا۔جسے قران نے بیان کیا:مُبَشِّرًا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْ بَعْدِی اسْمُہۤ اَحْمَدُ(پ ٢٨،سورۃ الصف،آیت نمبر٦،)
ترجمہ کنز الایمان : ان رسول کی بشارت سناتا ہوا جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔

صدیاں بیت گئیں ،زمانے گزر گئے ،نسلیں گزر گئیں ،زمین کا نقشہ بدل گیا۔لیکن سیدالانبیاء ،امام الاصفیاء ،حضور اکرم نور مجسم ؐ کی شان ِ اعلی و ارفع کے نغمے آج بھی عشاق کی زبانوں پر جاری ہیں ۔

حضرت سواد بن قارب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب اشعار پڑھے تو محبو ب کریم ؐ اس قدر خوش ہوئے کہ آپ علیہ السلام مسکرائے ،موتیوں کی طرح دندان مبارک نظر آنے لگے ۔(الوفاء بااحوال مصطفی )

یاد تو بہتیروں نے منائی لیکن میرے نبی ؐ نے خود یادمناکر رہتی دنیاتک کہ لیے اک درس ،اک سبق ،اک پیغام دے دیاکہ اچھوں کی یاد مناناقابل تحسین امر ہے چنانچہ:
اس کائناتِ انسانی پر اﷲرب العزت نے بے حد و حساب احسانات و انعامات فرمائے۔ انسان پر بے پایاں نوازشات اور مہربانیاں کیں اور یہ سلسلہ ابد الاباد تک جاری و ساری رہے گا۔ ذاتِ باری تعالیٰ نے ہمیں لاتعداد نعمتوں سے نوازا جن میں سے ہر نعمت دوسری سے بڑھ کر ہے لیکن اس نے کبھی کسی نعمت پر احسان نہیں جتلایا۔ اﷲتعالیٰ نے ہمیں لذت و توانائی سے بھرپور طرح طرح کے کھانے عطا کیے مگر اس کا کوئی احسان نہیں جتلایا، پینے کے لیے خوش ذائقہ مختلف مشروبات دیے، دن رات کا ایک ایسا نظام الاوقات دیا جو سکون و آرام فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ ہماری ضروریاتِ زندگی کی کفالت کرتا ہے، سمندروں، پہاڑوں اور خلائے بسیط کو ہمارے لیے مسخر کر دیا، ہمیں اشرف المخلوقات بنایا اور ہمارے سر پر بزرگی و عظمت کا تاج رکھا، والدین، بہن، بھائی اور اولاد جیسی نعمتوں کی اَرزانی فرمائی، عالمِ اَنفس و آفاق کو اپنی ایسی عطاؤں اور نوازشوں سے فیض یاب کیا کہ ہم ان کا ادراک کرنے سے بھی قاصر ہیں لیکن ان سب کے باوجود اس نے بطور خاص ایک بھی نعمت کا احسان نہیں جتلایا کہ وہ رب العالمین ہونے کے اعتبار سے بلاتمیز مومن و کافر سب پر یکساں شفیق ہے اور اس کا دامنِ عاطفت ہر ایک کو اپنے سایہ رحمت میں رکھے ہوئے ہے۔ لیکن ایک نعمت ایسی تھی کہ خدائے بزرگ و برتر نے جب اسے اپنے حریمِ کبریائی سے نوعِ اِنسانی کی طرف بھیجا تو پوری کائناتِ نعمت میں صرف اس پر اپنا اِحسان جتلایا اور اس کا اظہار بھی عام پیرائے میں نہیں کیا بلکہ اہلِ ایمان کو اس کا احساس دلایا۔ مومنین سے روئے خطاب کر کے ارشاد فرمایا :
لَقَدْ مَنَّ اللہُ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْہِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِہِمْ (پ٣،سورۃ آل عمران ،آیت164)
ترجمہ کنزالایمان :بے شک اللّٰہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔

بے شک اﷲتعالیٰ نے مسلمانوں پر بڑا احسان فرمایا کہ اُن میں اُنہی میں سے عظمت والا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بھیجا۔

اِسلام میں اﷲسبحانہ وتعالیٰ کی نعمتوں اور اُس کے فضل و کرم پر شکر بجا لانا تقاضائے عبودیت و بندگی ہے، لیکن قرآن نے ایک مقام پر اس کی جو حکمت بیان فرمائی ہے وہ خاصی معنی خیز ہے۔ ارشاد فرمایا :
لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَلَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ ()(پ١٤،سورۃ ابراہیم ،آیت 7)
ترجمہ کنزالایمان : اگر احسان مانو گے تو میں تمہیں اور دونگااور اگر ناشکری کرو تو میرا عذاب سخت ہے
نعمتوں پر شکر بجا لانا مزید نعمتوں کے حصول کا پیش خیمہ بن جاتا ہے۔ پھر نعمتوں پر شکرانہ صرف اُمتِ محمدیہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر ہی واجب نہیں بلکہ اُمم سابقہ کو بھی اس کا حکم دیا جاتا رہا۔یٰبَنِیْۤ اِسْرٰۤء ِیْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْۤ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَاَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ(سورۃ البقرۃ ،آیت:٧٤)

ترجمہ کنزالایمان : اے اولادِیعقوب یاد کرو میرا وہ احسان جو میں نے تم پر کیا اور یہ کہ اس سارے زمانہ پر تمہیں بڑائی دی ۔

اس آیت میں بنی اسرائیل کو وہ نعمت یاد دلائی گئی جس کی بدولت انہیں عالم پر فضیلت حاصل ہوگئی اور پھر اس قوم کو فرعونی دور میں ان پر ٹوٹنے والے ہول ناک عذاب کی طرف متوجہ کیا گیا جس سے رہائی ان کے لیے ایک عظیم نعمت کی صورت میں سامنے آئی۔ اِس کے بعد فرمایا :
وَ اِذْ نَجَّیْنٰکُمْ مِّنْ اٰلِ فِرْعَوْنَ یَسُوْمُوْنَکُمْ سُوْۤء َ الْعَذَابِ (پ١،سورۃ البقر ۃ،آیت ٤٩)
ترجمہ ئکنز الایمان :اور یاد کروجب ہم نے تم کو فرعون والوں سے نجات بخشی کہ تم پر بُرا عذاب کرتے تھے۔

حضور اکرم نور مجسم ؐ کی یاد مناناعین شریعت ہے ۔امور شریعت کا پاس رکھتے ہوئے یہ دن منانے والے سعید وسعادت مند ہیں ۔بشارت ہے ان کے لیے ۔کیونکہ ربّ تعالیٰ اپنے محبوب کو نعمت کہ کر پکارتاہے ۔ارشاد فرماتاہے :وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (پ ٣٠،سورۃ الضحی،آیت١١)
ترجمہ کنزالایمان :اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو

وہ برکتوں و رحمتوں والا دن ،جس کے متعلق خود سید الانبیا ء احمد مجتبی محمد مصطفی ؐ ارشادفر ماتے ہیں کہ :
''حضرت قتادہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ؐ سے پیر کے دن کے روزہ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو آپ ؐ نے فرمایا:کہ میں اسی دن پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر قران اترا''(مشکوۃ المصابیح )

علامہ یوسف بن اسمعیل نبہانی رحمۃ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں :ہمیشہ مسلمان ولادت پاک کے مہینہ میں محفل میلاد منعقد کرتے آئے ہیں اور دعوتیں کرتے ہیں اور اس ماہ کی راتو ںمیں ہر قسم کا صدقہ کرتے ہیں اور خوشی مناتے ہیں نیکی زیادہ کرتے ہیں اور میلاد شریف پڑھنے کا بہت اہتمام کرتے ہیں ''(رسائل میلاد مصطفی ،ص٥٨٠،بحوالہ انور محمدیہ )

سیرۃ النبوی میں حضرت سید احمد زینی شافعی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں :''میلاد شریف کرنا اور لوگوں کا اس میں جمع ہونا بہت اچھاہے ''

ٍ اے عشق مصطفی کے متوالو !!!!اے ناموس رسالت کے رکھوالو!!!!!!اے محبت رسو ل کا دم بھرنے والو!!!!!!!!!اپنی قسمت پر رشک کرو۔۔تمہیں محبت رسول سے حصّہ ملاہے ۔۔دنیا بھر میں پیارے آقا مدینے والے مصطفی ؐ کا دنیا نہایت ادب و احترام اور والہانہ عقیدت کے ساتھ منایاجاتاہے ۔جس میں آپ ؐ کی سیرت کی یاد ہے ۔اس لازوال کردار ،بے مثل ہستی کی عظمت و شان بیان کرنے کا دن ہے ۔ربیع النور شریف کی آمد کا سنتے ہیں عشاق کے چہرے پر شادمانی آجاتی ہے ۔بچے بو ڑھے اور جوان ،مرد و عورت سبھی جش عید میلاد النبی کی خوشیوں میں مسرور ہورہے ہوتے ہیں ۔ہر طرف موسم بہارآجاتا ہے ۔مسجدوں سے درود و سلام کی آوازیں چار سو گونجنے لگتی ہیں ۔گلی گلی ،محلہ محلہ نعت خوانی و سنّتو ںبھرے اجتماعات سے زمین بقعہ ئ نور دکھائی دیتی ہے ،علماو خطباء سراج منیر،انسانیت کی معراج ،باعث تخلیق کائنات ؐ کی سیرت بیان کرپژمردہ دلوں کو روح بخشتے ہیں ۔عید میلاد النبی (عربی: مَوْلِدُ آلنَبِیِّ) ایک تہوار یا خوشی کا دن ہے جو اکثر مسلمان مناتے ہیں۔ یہ دن حضور اکرم صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کی ولادت کی مناسبت سے منایا جاتا ہے۔ یہ ربیع الاول کے مہینے میں آتا ہے جو اسلامی تقویم کے لحاظ سے تیسرا مہینہ ہے۔ ویسے تو میلاد النبی اور محافلِ نعت کا انعقاد پورا سال ہی جاری رہتا ہے لیکن خصوصا ماہِ ربیع الاول میں عید میلاد النبی کا تہوار پوری مذہبی عقیدت اور احترام سے منایا جاتا ہے۔ یکم ربیع الاول سے ہی مساجد اور دیگر مقامات پر میلاد النبی اور نعت خوانی ( مدحِ رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) کی محافل شروع ہو جاتی ہیں۔ علماء اکرام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت با سعادت، آپ کی ذات مبارکہ اور سیرت طیبہ کے مختلف پہلووں پر روشنی ڈالتے ہیں۔ اسی طرح مختلف شعراء اور ثناء خواںِ رسول آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں نعتیہ گلہائے عقیدت اور درود و سلام پیش کرتے ہیں۔ 12 ربیع الاول کو تمام اسلامی ممالک میں سرکاری طور پر عام تعطیل ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ، برطانیہ، کینیڈا، کوریا، جاپان اور دیگر غیر اسلامی ممالک میں بھی مسلمان کثرت سے میلادالنبی اور نعت خوانی کی محافل منعقد کرتے ہیں۔
گویاہرحقیقی مسلمان دل کی زبان سے بول اُٹھتاہے ۔
نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سبھی تو خوشیاں منارہے ہیں
ارشاد باری تعالیٰ ہوا : وَذَکِّرْہُمْ بِاَیّٰیمِ اللّٰہِ (پ ١٣، ابراہیم ، آیت٥ )
ترجمہ ئ کنزالایمان :انہیں اللہ کے دن یاد دِلا

امام المفسرین سیدنا عبد اللہ بن عباس ( رضی اللہ عنہما ) کے نزدیک ایام اللہ سے مراد وہ دن ہیں۔جن میں رب تعالٰی کی کسی نعمت کا نزول ہوا ہو ۔ ( ان ایام میں سب سے بڑی نعمت کے دن سید عالم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت و معراج کے دن ہیں ، ان کی یا د قائم کرنا بھی اس آیت کے حکم میں داخل ہے)۔ (تفسیر خزائن العرفان)
قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَبِرَحْمَتِہٖ فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ (پ١١،سورۃ یونس،آیت ٥٨)
ترجمہ ئ کنزالایمان :تم فرماؤ اللہ ہی کے فضل اور اسی کی رحمت اور اسی پر چاہئے کہ خوشی کریں وہ ان کے سب دھن دولت سے بہتر ہے۔وَ اَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ (پ٣٠،سورۃالضحی،آیت١١)
ترجمہ ئ کنزالایمان :اور اپنے رب کی نعمت کا خوب چرچا کرو

خلاصہ یہ ہے کہ عید میلاد منانا لوگوں کو اللہ تعالٰی کے دن یا د دلانا بھی ہے، اس کی نعمت عظمی کا چرچا کرنا بھی اور اس نعمت کے ملنے کی خوشی منانا بھی۔ اگر ایمان کی نظر سے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوگا کہ ذکر میلاد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالٰی کی سنت بھی ہے ۔ اور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت بھی۔

رب ذوالجلا ل نے کم و بیش ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء کرام کی محفل میں اپنے حبیب لبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد اور فضائل کا ذکر فرمایا ۔ گویا یہ سب سے پہلی محفل میلاد تھی جسے اللہ تعالٰی نے منعقد فرمایا ۔ اور اس محفل کے شرکاء صرف انبیاء کرام علیہم السلام تھے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی دنیا میں تشریف آوری اور فضائل کا ذکر قرآن کریم کی متعدد آیات کریمہ میں موجود ہے۔

رسول معظم صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانہ کی چند محافل کا ذکر ملاحظہ فرمائیے۔ آقا و مولی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مسجد نبوی میں منبر شریف پر اپنا ذکر ولادت فرمایا۔ (جامع ترمذی ج 2 ص 201) آپ نے حضرت حسان رضی اللہ عنہ کے لیے منبر پر چادر بچھائی اور انہوں نے منبر پر بیٹھ کر نعت شریف پڑھی، پھر آپ نے ان کے لیے دعا فرمائی۔ (صحیح بخاری ج 1 ص 65) حضرت عباس رضی اللہ عنہ نے غزوہ تبوک سے واپسی پر بارگاہ رسالت میں ذکر میلاد پر مبنی اشعار پیش کیے (اسد الغابہ ج 2 ص،129)

امام قسطلانی شارح بخاری رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ (م 923ھ)فرماتے ہیں، (ربیع الاول میں تمام اہل اسلام ہمیشہ سے میلاد کی خوشی میں محافل منعقد کرتے رہے ہیں۔ محفل میلادکی یہ برکت مجرب ہے کہ اس کی وجہ سے سارا سال امن سے گزرتا ہے ۔ اور ہر مراد جلد پوری ہوتی ہے۔ اللہ تعالٰی اس شخص پر رحمتیں نازل فرمائے جس نے ماہ میلاد کی ہر رات کو عید بنا کر ایسے شخص پر شدت کی جس کے دل میں مرض و عناد ہے)۔ مواہب الدنیہ ج 1 ،ص 27)

اﷲنے سب سے پہلے نور محمدیؐپیدا فرمایا( مدارج النبوۃ ) نبوت سے سرفراز کیا(۔ اشعتہ اللمعات ) درودوں کا سلسلہ شروع ہوا فرشتے پیدا ہوئے تو وہ بھی درود وسلام میں شریک ہوگئے اور جب وہ نور دنیا میں آیا () تو انسان بھی شریک ہوگئے() اگر سمجھنے والے سمجھیں تو یہ بھی جشن کا ایک انداز ہے اﷲاکبر! روز اول سے ذکر اذکار ہورہے ہیں اور خوشیاں منائی جارہی ہیں اﷲکو اپنے پیاروں سے بڑی محبت ہے ان کی نشانیوں کو اپنی نشانیاں بنادیا () اور تعظیم و تکریم کا حکم دیا() ان کے یادگار دنوں کو اپنا یادگار دن بنادیا(۔ تفسیر خازن و مدارک) اور ارشاد فرمایا اور انہیں اﷲ کے دن یاد دلاؤ() انبیاء علیہم السلام کا یوم ولادت بھی اﷲ کے دنوں میں سے ایک دن ہے سلامتی ہو اس پر جس دن وہ پیدا ہوا() حضور انورؐاس جہان رنگ و بو میں پیر کے روز تشریف لائے آپ اظہار تشکر کے لئے پیر کے دن روزہ رکھا کرتے تھے جب پوچھا گیا تو فرمایا اس دن میں پیدا ہوا اور اسی دن مجھ پر وحی نازل ہوئی ۔

محبت کی فطرت ہے کہ عاشق ہمیشہ اپنے محبوب کی تعریف و توصیف اور ذکر اذکار سننا پسند کرتا ہے بلکہ دل سے چاہتا ہے کہ ہر وقت اس کا ذکر ہوتا رہے کوئی ایسا عاشق نہ دیکھا جو محبوب کا ذکر کرنے والے سے الجھتا ہو اور اس کو برا بھلا کہتا ہو کیونکہ یہ محبت کی فطرت کے خلاف ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ ا صل خوشی منانا تو یہ ہے کہ ہر دن اور ہر آن ظاہر و باطن میں سنتوں پر عمل کریں پھر ہر سال محبوب رب العالمینؐکی آمدآمد کی خوشی منائیں جس طرح ہمارے ان کے اکابر و اسلاف نے خوشی منائی جن کے دم سے اسلام کی رونق ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے حضور انورؐکی ایسی سچی محبت عطا فرمائے کہ ہم خود بخود سنت کے سانچے میں ڈھلتے چلے جائیں اور ہمارا وجود دوسروں کے لئے مینارہ نور بن جائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین رحمتہ اللعالمینؐوآلہ واصحابہ وسلم
عید میلاد النبی ہے دل بڑا مسرو ر ہے
عیددیوانوں کی تو بارہ ربیع النور ہے
ہرملک ہے شادماں خوش آج ہر اک حور ہے
ہاں مگر شیطان مع رفقاء بڑارنجورہے

محترم قارئین :یہ اک محبت کا اظہار تھا مومنین پر کرم فرمانے والا ربّ اس تحریر کا میرے لیے توشہ ئ آخرت بنادے اور آپ کے لیے نفع بخش بنادے ۔اللہ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔۔
DR ZAHOOR AHMED DANISH
About the Author: DR ZAHOOR AHMED DANISH Read More Articles by DR ZAHOOR AHMED DANISH: 381 Articles with 594099 views i am scholar.serve the humainbeing... View More