پروفیسر مظہر
گزشتہ65 برسوں کی طرح 2012 ءبھی گزر گیا بدلا مگرکچھ بھی نہیں۔ ملکی حالات
نہ قوم کا مقدر۔ہم مسیحا کے انتظار میں تھے لیکن کاتبِ تقدیر نے ہماری قسمت
میں معین قریشی ، شوکت عزیز ، مولوی طاہر القادری اور الطاف حسین جیسے برٹش
، امریکن اور کینیڈین لکھ دیئے ۔سوال مگر یہ کہ کیا اتنا ہی قحط الرجال ہے
کہ ہم ان ”درآمد شُدہ“ لوگوں کو اپنی آشاؤں اور اُمیدوں کا محور و مرکز بنا
لیں؟۔کیا بانجھ ہو گئی ہے یہ دھرتی جو ہمیں ایک رہنما بھی نہیںدے
سکتی؟۔اقبال نے فرمایا
نہیں ہے نا اُمید اقبال اپنی کشتِ ویراں سے
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے ساقی
ہم بھی نا اُمید نہیں کہ مایوسی کُفر ہے اور ہم کافر نہیں۔ہمارے ایمان کی
انتہا یہ ہے کہ یہ دھرتی انگڑائی لے کر اٹھے گی ، صحنِ چمن میں بہار آئے گی
، گُل کھلیں گے ، بُلبلیں چہچہائیں گی ، پپیہے پی کہاں کی رٹ لگائیں گے ،
کوئلیں کُوکیں گی، طیور نغمہ سنج ہونگے ، آشاؤں کی کھیتیاں ہری بھری ہونگی
اور پنہاریوں کے مدھر گیتوں کو بادِ نسیم و شمیم فضاؤں میں بکھیر کر مستیوں
کی پرورش کریں گی۔ انشاءاللہ ایسا ہی ہو گالیکن اِن ”درآمدیوں“ کے ہاتھوں
نہیں کہ اِن کا تو ایجنڈا ہی کچھ اور ہے ۔
کچھ فرق نہیں نام نہاد طالبان ، دہشت گردوں اور اِن لوگوں میں کہ دونوں کا
مقصد افرا تفری اور انارکی ہے۔دہشت گرد نفاذِ شریعت کی آڑ میں دینِ مبین کو
بدنام کرنے کے غیر ملکی ایجنڈے پر عمل پیرا ہیں۔ حکیم اللہ محسور ، ولی
الرحمٰن اور احسان اللہ احسان نامی دہشت گردوں کی مذاکرات کی مشروط پیش کش
میں ایک شرط دینِ اسلام کا مکمل نفاذ بھی تھی لیکن کل ہی اُنہوں نے چنگیزیت
کی یاد تازہ کرتے ہوئے اکیس مغوی لیوی اہل کاروں کی گردنیں تن سے جُدا کر
دیں۔اسلام کے نام نہاد ٹھیکیداروں سے سوال ہے کہ قیدیوں کا قتل کس شریعت کا
درس ہے ؟۔نہتے اور بے گناہ معصوم شہریوں کو خودکُش حملوں اور بم دھماکوں
میں اُڑا دینا کہاں کا اسلام ہے؟۔مساجد اور امام بارگاہوں پر حملے کرکے وہ
کونسی سُنتِ رسول پر عمل پیراہیں؟۔ درسگاہوں کو ملیامیٹ کر دینا کس دین کا
درس ہے؟۔ یہ کس دین پر عمل پیرا ہو کر ہر طرف بربادی کی فصل بو رہے
ہیں؟۔کیا وہ قُرآن و حدیث اور کسی بھی اسلامی فقہ سے کوئی ایک نظیر ، کوئی
ایک حوالہ بھی پیش کر سکتے ہیں ؟۔اگر نہیں تو پھر کیوں نہ اُنہیں وحشت و بر
بریت میں مشرکینِ مکّہ سے تشبیہ دی جائے اور کیوں نہ اُنہیں میر جعفر و
صادق کی طرح بیرونی قوتوں کے ایسے آلہ کار سمجھا جائے جنہیں جدید ترین
اسلحہ سے لیس کرکے افرا تفری پیدا کرنے اور دینِ حق کو بدنام کرنے کے لیے
کھُلا چھوڑ دیا گیا ہے ۔حکیم اللہ محسود ، مُلّا عمر کو اپنا لیڈر کہتا ہے
لیکن مُلّا عمر نے ہمیشہ اِن لوگوں سے بیزاری اور لا تعلقی کا اظہار کیا ہے
کیونکہ وہ خوب جانتے ہیں کہ یہ جتنے اسلام اور پاکستان کے دشمن ہیں اُتنے
ہی افغان مجاہدین کے بھی ۔
غیر جانبدار تحقیقاتی ادارے ”کانفلکٹ مانیٹرنگ سنٹر “کی حالیہ رپورٹ کے
مطابق صرف2012ءمیں افغان سرزمین سے پاکستان پر 745 حملے ہوئے ۔371 حملے
افغان اور نیٹو فورسز نے کیے ۔52 بار فدائی حدود اور 12 مرتبہ زمینی حدود
کی خلاف ورزی کی گئی۔376 حملے افغانستان میں چھُپے ہوئے پاکستانی طالبان نے
کیے جن کے صوبہ کنڑ ، ننگڑ ہار ، پاکتیا اور پکتیکا میں محفوظ ٹھکانے ہیں
جہاں اُنہیں مکمل آزادی ہے ۔وہ پاکستان میں دہشت گردی کی وارداتیں کرکے
اپنے محفوظ ٹھکانوں میں واپس چلے جاتے ہیں۔۔۔ ڈرون حملوں کی تاریخ اُٹھا کر
دیکھ لیجئے امریکہ نے ہر اُس شخص کو ڈرون کا نشانہ بنایا جو اُس کا شدید
مخالف اور پاکستان کے لیے نرم گوشہ رکھنے والا تھا ۔امریکی ”ڈومور“ کی
خواہش پر پورا نہ اُترنے والے بیت اللہ محسود کا پتا صاف کرکے حکیم اللہ
محسود کو سامنے لایا گیا جو وحشت و بر بریت میں لا ثانی اور خود کُش حملوں
کا ایکسپرٹ مانا جاتا ہے ۔اُس نے بِلا امتیاز ہسپتالوں ، مارکٹوں ، بازاروں
، شاہراہوں اور ہر ایسی جگہ جہاں نہتے عوام کا رش نظر آیا خود کُش حملوں
اور بم دھماکوں کا نشانہ بنوایا ۔ستمبر 2009 ءسے دسمبر 2011ءتک محض سوا دو
سالوں میں 3150 نہتے عوام اُس کی بر بریت کا نشانہ بن کر رزقِ خاک ہوئے اور
5750 زخمی اور معذور ہوئے ۔اب بھی جو طالبان کمانڈر پاکستان کے بارے میں
تھوڑی سی لچک دکھاتا ہے حکیم اللہ محسود کی مخبری پر اُسے ڈرون کی غذا بنا
دیا جاتا ہے ۔
سبھی جانتے ہیں کہ امریکہ اور برطانیہ کے دل میں پاکستانی ایٹمی پروگرام
کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے جس کے خاتمے کے لیے وہ سازشوں کے تانے بانے بنتے
رہتے ہیں ۔سواتی دہشت گرد مولوہ فضل اللہ امریکہ کی پناہ میں ہے اور بلوچ
لبریشن آرمی کا ہیڈ کوارٹر کابل میں جہاں بلوچی نوجوانوں کو سی آئی اے
تربیت بھی دیتی ہے ، جدید ترین اسلحہ اور ڈالر بھی ۔اِن لوگوں کا کام بھی
بلوچستان میں محض افراتفری پھیلانا ہی ہے آزادی کی جنگ لڑنا نہیں۔ نظریں
چُرانے سے حقیقت نہیں بدلا کرتی اور حقیقت تو یہی ہے کہ امریکہ افراتفری
پیدا کرکے ہماری ایٹمی قوت کا خاتمہ اور گوادر کی بندر گاہ پر قبضہ چاہتا
ہے تاکہ آبنائے ہرمز سے گزرنے والے دُنیا کے ایک تہائی تیل پر قبضہ بھی کر
سکے اور ایران کا گھیراو ¿ بھی ۔اگر خُدا نخواستہ ایسا ہو گیا تو ہم اپنے
بہترین دوست چین کو اپنا بد ترین دشمن بنا لیں گے ۔
افراتفری تو پہلے ہی عروج پر تھی ۔اب اُس کو مہمیز دینے کے لیے مولوی طاہر
القادری تشریف لے آئے ہیں اور دوسرا غیر ملکی اُن کی آواز میں آواز ملا کر
باہر بیٹھا بڑھکیں لگا رہا ہے ۔مقصد ان سبھی کا افرا تفری اور انارکی ہے۔
اپنے آپ کو شیخ الاسلام کہلوانے والے قادری صاحب کواپنے اڑھائی گھنٹے کے
خطبے میں آرٹیکل 254 تو یاد رہا لیکن کوئی بھی اسلامی آرٹیکل نہیں ۔جن
آرٹیکلز 62,63 کا ذکر وہ اپنے وجود کو لہرا لہرا کر کر رہے تھے ،اُن پر خود
پورا نہیں اُترتے کیونکہ عدالت اُنہیں ایک مقدمے میں جھوٹا قرار دے چکی ہے
۔مولانا موصوف نے لانگ مارچ کے لیے چندہ اکٹھا کرنے کے لیے اپنی بیوی کا
زیور ہدیہ کرکے اپنے معصوم پیروکاروں سے کروڑوں بٹور لیے۔مولوی فضل اللہ نے
بھی سوات میںنفاذِ شریعت کا ایسا ہی ڈرامہ کرکے بہت سے زیور اور پیسے بٹورے
اور افغانستان میں امریکی پناہ میں جا بیٹھا۔پتہ نہیں مولانا صاحب کب اپنے
ملک تشریف لے جائیں گے؟۔لیکن فی الحال نہیںکہ ابھی آقاؤں کے ایجنڈے کی
تکمیل باقی ہے اور تین چار سالہ نگران وزارتِ عظمیٰ کا خواب بھی ۔وزارتِ
عظمیٰ کے حصول کے مرضِ بد میں وہ مشرفی آمریت کے دَور سے ہی مبتلاءہیں
۔بُرا ہو آمر کا جس نے مولانا کو وزارتِ عظمیٰ کا لالچ دیا اور مولانا نے
اس کا خوب ڈھنڈورا پیٹتے ہوئے قومی اسمبلی کی دو سو سیٹوں پر الیکشن لڑا
لیکن ساری ”بشارتیں “ اُلٹ ہو گئیں اور مولانا چاروں شانے چِت۔اب مولانا
”برٹش نیشنل“ کے ساتھ مل کر انقلاب برپا کرنا چاہتے ہیںاور تحقیق کہ مقصد
دونوں کا اپنی تشنہ خواہشات کی تسکین ہی ہے خواہ وہ کسی غیر ملکی ایجنڈے پر
عمل پیرا ہو کر ہی کیوں نہ ہو۔حکومت کو چاہیے کہ وہ انہیں لانگ مارچ کے لیے
”فری ہینڈ“ دے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ عوام کے خون پسینے پر پلنے والی
پولیس اور انتظامی ادارے لانگ مارچ سے مکمل طور پر بے نیاز ہو کر بدستور
اپنے روز مرہ کے فرائض سر انجام دیتے رہیں گے ۔ توڑ پھوڑ یا قومی املاک کا
نقصان مولانا کی جائیداد اور مدرسوں کی ضبطی سے پورا کیا جائے گا۔اُمیدِ
واثق ہے کہ ان شرائط کے بعد مولانا لانگ مارچ سے دستبردار ہو جائیں گے
کیونکہ گھاٹے کا سودا کرنا تو اُنہوں نے کبھی سیکھا ہی نہیں۔ |