اللہ رب العزت نے ہر انسان کو
عقل سلیم جیسی نعمت سے نوازہ ہے چونکہ انسان کو اشرف المخلوقات کے لقب سے
نوازنہ جو تھا لیکن اللہ پاک نے انسان سے اشرف ہونے کے باوجود نسیان کو ختم
نہیں کیا لیکن چونکہ اشرف رکھا ہر مخلوق پر تو عقل کی حجیت پر اس کے سامنے
ہر چیز بکھیر ک رکھ دی اور آزاد چھوڑ دیا اور مطلع کر دیا کہ کس قسم کی چیز
ناکس ھے غارت ہے جہل ہے اور کون سی چیز موافق ہے ہدایت ہے روشنی ہے اب
اجتحاد کی بنا پر فیصلہ اور عمل انسان پر چھوڑ دیا کہ اب جو چیز اسے ھدایت
، درست اور موافق لگتی ہے اپنا لے۔
اب یہاں اک مسئلہ اور بھی ہے جو مسلم ہے کہ کسی بھی چیز کے بارے جاننے کے
لئے علم ہونا ضروری ہے اگر صحیح علم نہ ہو تو کسی بھی چیز کو پرکھنا مشکل
ہوتا ہے اور پھر اس انسان کے پاس دو ہی حل باقی رہ جاتے ہیں یا تو اپنے باپ
دادا کے راستے کو پکڑی رکھے یا پھر لوگوں کو دیکھا دیکھی میں عمل بجا لائے
گا اور پھر وہ ان پر نہ صرف عمل کرتا ہے بلکہ وہ اس کے دل و دماغ میں رچ بس
جاتا ہے اور اگر میں مبالغہ آرائی نہیں کر رہا تو وہ اس پر کٹ مرنے کو بھی
تیار ہو جاتا ہے مگر اس کو غلط نہیں کہے گا اور شائد جو بات میں کرنے جا
رہا ہوں آزادی رائے کا حق نہ ہوتا تو میرے بھی در پے ہو سکتا ہے مگر دعا ہے
کہ اللہ پاک سمجھنے کی توفیق عطا کرے(آمین)۔
گزشتہ چند صدیوں سے کچھ ایسا ہی پاکستانی قوم پر گزر رہا ہے میں اس وقت کا
شاہد تو نہیں مگر مطالعہ نے یہی بتایا ہے کہ اک وقت ہم پر وہ بھی گزرا ہے
کہ جب سر سید احمد خان صاحب نے کہا کہ اپنی نسل کو انگریزی تعلیم دلوائو تو
ہم نے ان پر فتویٰ لگا دیا کہ انگریزوں کا پٹھو ہے اور غالباََ مرتد بھی
کہا کچھ لوگوں۔ جب قائد اعظم محمد علی جناح صاحب نے پاکستان علیحدہ ریاست
کی بات کی تب بھی تنقید کرتے ہوئے مخالفت بھی کی اور ارتداد کا فتویٰ بھی
لگا دیا حتٰی کہ اور بھی بہت سارے واقعات ایسے ہی کسی کتاب کے باب کو سیاہ
کئے ہوئے ہیں جو کہ قابل موضوع نہیں ہیں اور ہمیشہ ہمیں الٹا ہی نظر آیا جو
کہ ہماری اک خاص جحت میں تنگ نظری اور لا علمی کا عکاس ہے۔
لیکن آج کا پاکستان ویسا نہیں رہا اب یہاں بڑے بڑے دانشور اور ذی شعور اور
اہلِ علم پھرتے ہیں جو بہت دور اندیشی کے دعوے دار بھی ہوتے ہیں اللہ ان سب
پر کرم فرمائے۔
علم کی بات نکل پڑی کیوں کہ اس کے بغیر تو کس چیز کو پرکھنے کا دعوہ ہی غلط
ہو جاتا ہے تو میں اس چیز کو جاننے کے لئے کہ علم کی کہیں بہتات تو نہیں ہو
گئی شرح خواندگی کو دیکھنے لگا تو پتا چلا ک ابھی تک ٥٠٪ کو عبور نہیں کر
سکی اور شرح خواندگی کے لئے قابلیت دس جماعتیں ہیں سوچ میں پڑ گیا کہ اتنے
عرصہ میں ٥٠٪ چلیں چھوڑیں یہ تو اک الگ موضوع ہے۔
آج کل اک لفظ ہر انسان کی زبان پر ہے وہ ہے “جمہوریت“ جو پاکستان میں گزشتہ
٥ سالوں سہ موجود ہے صاحب علم و عقل کہتے ہیں کہ یہ اک بہترین طرزِ عمل کی
حکومت ہوتی ہوتی ہے غلطی سے میں ٹکنالوجسٹ تھا اس چیز کی وضاحت پوچھ لی تو
بتانے والے نے بتایا کہ حکومت کے ممبر بننے کے جو خواہشمند ہوتے ہیں انیں
اک نظام سے گزرنا پڑتا ہے جو بہترین لوگوں کو آگے لاتا ہے تاکہ وہ ملک کا
نظام اچھا چلا سکیں ۔
جس میں ہر خاص و عام کے ساتھ ایک جیسا برتائو ہوتا ہے، ہر اک کو مفت تعلیم
اور علاج، روزگار، سستی روٹی کپڑا مکان ملتا ہے، سستی گیس، بجلی ملتی ہے
اور ہر قسم کی مذہبی، اخلاقی آزادی اور امن میسر ہوتا ہے مجھے حیرت ہوئی تو
میں نے پوچھا کہ ہمارے ملک میں بھی تو پچھلے ٥ سالوں سے جمہوریت ہی ہے لیکن
مجھے تو لگتا ہے آپ نے غلط بتایا ۔۔ تو کہتے ہیں بیٹا ایسی بات نہیں ہے
ابھی ہمارا نظام ٹھیک نہیں ہے لیکن جمہوریت ٹھیک ہوجاتی ہے اگر بار بار
جمہوری حکومت اچھے نظام الیکشن سے گزر کے آئے تب۔
میں نے کہا بار بار اس نظام سے کیوں گزارتے ہیں جہاں سے آپ کی سوچ کی
جمہورت آے تو جواب ملا نہیں بار بار کرنے سے ہو جائے گی اگر عبوری حکومت
اچھی آ جائے تو جو یہ خود سینٹ سے بنا جائیں گے جو انہیں ک لوگ ہوتے ہیں
اور اسی لئے یہ باربار آ جاتے ہیں اور عوام پر ظلم کرتے ہیں اس ڈکٹیٹڈ
جمہوریت سے تو فوجی حکمران اچھا تھا۔
لیکن جمہوریت جمہوریت ہوتی ہے۔
ہماری قوم کے سادہ لوہ عوام جو کے اکثریت جانتے بھی نہیں ک جمہوریت کون سی
بلا کا نام ہے کون سا کالا جادو ہوتا ہے جو آیا ہے تو ملک میں سے ہر چیز
غائب ہو گئی ہے روٹی کپڑا مکان کے دعوے داروں نے جمہوریت اچھی جمہوریت اچھی
جمہوریت ہم لائے ہیں ہم نے قربانیاں دی ہیں اور لوگوں کے کا ذہن فاروقاعظم
رض کے ذمانے میں دریائے نیل کے کنارے اک آبادی والوں کی طرح بنا دیئے ہیں ک
جب تک اک دوشیزہ کی قربانی نہیں دیتے نیل کا پانی نہیں بہے گا تو جمہوریت
تو ہماری ھے۔
ڈکٹیٹڈ جمہوریت کو جمہوریت کا لیبل لگا کر سادہ لوہ عوام کو بیوقوف بنا رہے
ہیں اور عوام کا یہ حال ہے کہ جمہوریت کو دین تو بنا لیا مگر افسوس کہ سمجھ
نہ سکے ۔
اور جب کسی انسان نے اس ظالم جمہوریت کے خلاف آواز اٹھائی تو اسے شخصی طور
پر تنقید کا نشانہ بنا لیا ک وہ تو مذہبی لحظ سے متناضع ہے وہ تو ساری
حکومت گزر گئی کدر تھے میں نے کہا بھائی وہ بات تو حق کر رہا ہے جمہوریت
دکٹیٹر کی پٹڑی سے اتری ہی نہیں حتٰی کہ جمہوریت کے مریدوں نے تو تنقید کے
بند باندھ دیئے ہیں۔
شیخ الاسلام ڈاکٹر محمد طاہر القادری صاحب ١٤ جنوری کو اپنے کام میں کامیاب
ہوئے تو (اللہ ان کی مدد فرمائے) آپ کا حصہ اگر جمہوریت لانے میں نہ ہوا تو
پچتاوا رہ جائے گا۔
میں تو اتنا چاہتا ہوں کہ کم ازکم حضرت یوسف ع کی بولی لگانے والوں میں
چھوٹی سی گٹھڑی لیے جیسے اک بڑھیا نے نام لکھوایا تھا آپ بھی کہ سکیں کہ
میں نے بھی بسات کے مطابق کوشش کی تھی جمہوریت کو پٹڑی چڑھانے میں میں بھی
دھکا لگایا تھا۔ |