تناﺅ زندگی کے لیے ضروری ہی نہیں
بلکہ اشد ضروری ہے۔ تناﺅ پر تحقیق کرنے والے ماہر ڈاکٹر ہانس سیلے کہتے ہیں
: ” تناﺅ سے مکمل نجا ت موت کی مانند ہے۔ ہر رو ز چھوٹے موٹے کا م کرنے کی
تحریک ہمیں کم و بیش تناﺅ سے ہی حاصل ہوتی ہے۔ “ غیر ضروری تناﺅ اگر
بیماریاں پیدا کر تا ہے۔ تو دوسری طرف یہ ہماری کا رکردگی کو بہتر بنانے
اور ہمیں فعال رکھنے کے لیے ناگزیر بھی ہے۔
ایک طویل مدت تک تناﺅ میں مبتلا رہنے والے اپنی ساری توانائی سے محروم ہو
جاتے ہیں۔ اور زیادہ جسمانی محنت کیے بغیر بھی انسان تھکن سے چور چور ہو جا
تاہے۔ تعمیری تنا ﺅ زندگی میں کامیا بی کے لیے مددگار ہوتا ہے، لیکن منفی
تناﺅ ہماری صلا حیت عمل اور ہماری صحت پر مضر اثر ڈالتا ہے۔ منفی تناﺅ
ہماری صحت کو کس قدر اور کس طر ح متاثر کر رہا ہے۔ اس کو پہنچاننے کے لیے
ان علامات پر غور کیا جا نا چاہیے۔
ذہنی علا مات
٭تنگ مزاجی، بلا وجہ غصہ آنا ٭ یکسوئی میں کمی ٭ قوت فیصلہ سے محرومی ٭
بھلکٹر پن ٭ الجھے ہوئے خیالات
جسمانی علا مات
٭پٹھوں میں جکڑن ( کندھوں اور کمر درد ) ٭ سانس لینے میں بے ترتیبی ٭
ہتھیلیوں میں پسینا آنا ٭ ہا تھ پیر ٹھنڈے پڑ جا نا ٭ منہ سوکھنا ٭ چکر آنا
٭ دل کی دھڑکن میں اضافہ ٭ جی گھبرانا ٭ بار بار پیشاب آنا ٭دست آنا ٭ بے
چینی کی وجہ سے ادھر ادھر ٹہلنا ٭ ہا تھوں پیروں میں کپکپا ہٹ۔
عملی علا مات
زیادہ سگریٹ یا شرا ب پینا ٭ کھا نے میں کمی یا زیادتی ٭ نیند میں کمی یا
زیادتی ٭ ناخن کتر نا ٭ سر کے بال نوچنا ٭ دوسروں سے ملنے جلنے سے اجتناب
٭صفائی سے بے پرواہی ٭ ڈرائیونگ میں بے پروائی ٭ انگلیاں چلاتے رہنا، منہ
بنانا، ہونٹ بجانا وغیرہ ٭ لگاتار بو لتے رہنا ٭ کام میں بالکل ڈوب جانا یا
پھر بار بار چھٹی لینا۔
اگر مذکو رہ بالا علا ما ت ایک طویل مدت قائم رہیں تو ان کے پس پشت تنا ﺅ
کی کارفرمائی بھی ہو سکتی ہے۔ معا لج سے مشورہ کر لینا چاہیے۔ تاکہ بر وقت
اس کا تدارک کیا جا سکے۔ طویل مدت تک قائم رہنے والے تناﺅ سے مندرجہ ذیل
مسائل سامنے آسکتے ہیں۔
بلندفشار خون
تبدیلیوں کے اس دور میں ہمیں بہت سے سمجھو تے جلدی جلدی کرنے ہوتے ہیں۔ کچھ
لو گ اپنے آپ کو ان تبدیلیوں سے کسی تناﺅ کے بغیر ہم آہنگ کر لیتے ہیں،
لیکن کچھ لو گوں کے لیے یہ آئے دن کی تبدیلیاں تناﺅ کا سبب بن جاتی ہیں۔
بلند فشا ر خون ( ہا ئی بلڈ پریشر یا ہا ئپر ٹینشن ) کا تناﺅ سے براہ راست
تعلق ہوتا ہے۔ مقابلے اور مسابقت کے اس دور میں ہمیں بہت زیادہ ہو شیار اور
محتاط یعنی تناﺅ کی حالت میں رہنا ہو تاہے اور یہ تناﺅ بلند فشار خون میں
بدل سکتا ہے بلند فشارِ خون کی دیگر وجوہ بھی ہو سکتی ہیں۔
اختلا ج
عام حالات میں ہمار ا دل ساٹھ تا اسی بار فی منٹ کے حساب سے دھڑکتا ہے،
لیکن جسمانی یا ذہنی محنت کے دوران اس کی حرکت 150 تا 200 فی منٹ ہو جا تی
ہے۔ تناﺅ سے بھی اختلا ج ہو سکتاہے۔
دل کا د ورہ
طویل مدت تک چلنے والے تنا ﺅ سے خون میں گاڑھا پن آجا تا ہے اور کلا ٹ بننے
کے امکانات میں اضا فہ ہوتاہے۔ اس کے نتیجے میں دل کا دورہ بھی پڑ سکتا ہے۔
آد ھے سر کا د رد
سر کے آس پا س کے پٹھے جب تنا ﺅ کے سبب بہت دیر تک دباﺅ میں رہتے ہیں تو
درد سر کا باعث بن جا تے ہیں۔ آدھے سر کا درد ( میگرین ) اس سے الگ اور کا
فی پیچید ہ ہو تا ہے۔ اس میں سر کی کچھ نسیں پہلے سکڑتی ہیں پھر فوراً
ڈھیلی پڑ جاتی ہیں۔ میگرین کا درد سکڑتا ہوا سا محسو س ہو تاہے۔ ہو سکتا ہے
کہ اس کا ایک سبب تنا ﺅ بھی ہو۔
مستقل تھکن
ہمہ وقت تھکن محسوس کرنا تناﺅ کی سب سے عام علامت ہے۔ جسمانی محنت کے بعد
تھکن کا احساس درست ہو تا ہے، لیکن جسمانی محنت کے بغیر ہمیشہ تھکن محسو س
کرتے رہنے کا سبب تنا ﺅ بھی ہو سکتا ہے۔
السر
عموماً اس بیماری میں معدے کی اندرونی جلد چھل جاتی ہے۔ اس کی اہم ترین علا
مت درد ہے۔ ویسے تو تیزابیت (ACIDITY ) کی جلن سے بچنے کے لیے معدہ خود
حفاظتی لعا بی تہ ( میو کس : MUCUS ) بنا لیتا ہے، لیکن تنا ﺅ کی حالت میں
میو کس کم ہو جا تاہے اور تیزابیت ( ایسڈ ) کی مقدار بڑھتی جا تی ہے۔ نتیجے
میں اندرونی جلد چھل جاتی ہے اور زخم معدہ ( السر ) نمودار ہو جا تاہے۔ تنا
ﺅ عموما اس بیماری کو پیدا نہیں کر تا بلکہ ابھار تا ہے۔
کمر میں د رد
اندیشہ ہا ئے دور دراز اور تناﺅ کی وجہ سے جسمانی بے چینی اتنی بڑھ جا تی
ہے۔ کہ متعلقہ شخص کو بالکل مفلو ج کر دیتی ہے۔ اور اگر درد کمر کسی اور
وجہ سے ہو تو کسی عزیز کی مو ت، خانگی مسائل، ملا زمت، باہمی تعلقات میں نا
خوش گواری وغیر ہ سے پیدا ہونے والا تنا ﺅ مر ض کی شدت میں اضا فہ کر دیتا
ہے۔
الرجی
یہ سچ ہے کہ صرف تنا ﺅ ہی کی وجہ سے الر جی نہیں ہو تی لیکن تناﺅ سے الرجی
کا آغا ز ضرور ہو سکتاہے۔ بعد ازاں الرجی خود تنا ﺅ کا سبب بن جا تی ہے۔
زکا م کھانسی
زکام اور تنا ﺅ کا گہر ا تعلق ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ تنا ﺅزیا دہ ہو نے کی
حالت میں زکام انسان کو جلد اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ
تناﺅ سے جسم کا دفاعی نظام کمزور ہو جاتاہے۔
نظام ہضم
نظام ہضم بگڑنے کے دیگر اسباب کے علا وہ تنا ﺅ بھی نظام ہضم کو خراب کر تا
ہے۔
گھبرا ہٹ
گھبراہٹ ہماری زندگی کا حصہ ہے۔ ظاہر ہے کہ جب زندگی میں کوئی غیر متوقع
مسئلہ سامنے آئے گا تو تھوڑی بہت گھبراہٹ محسو س ہو سکتی ہے۔ یہ گھبراہٹ
صحت کی علا مت ہے۔ کیوںکہ یہ ہمیں مسائل کو حل کرنے کے لیے تیار کر تی ہے۔
ان حالات میں یہ گھبراہٹ مفید ہے، کیوں کہ یہ ہمیں فعال بنا تی ہے اور
ہماری کارکردگی میں اضا فہ کر تی ہے، لیکن جب یہ گھبراہٹ مستقل قائم رہے یا
ایک طویل مدت تک ہم پر مسلط رہے تو اس سے ہمارا اعصابی نظام کمزور ہو جا
تاہے۔ دل کی دھڑکن بڑھ جا تی ہے۔ اور سانس تیزی سے چلنے لگتی ہے۔ منہ
سوکھنے لگتا ہے اور پیاس میںاضافہ ہو جا تاہے۔ نت نئے اندیشے انگڑائیاں
لینے لگتے ہیں۔ اگر اس قسم کی گھبراہٹ اور اندیشوں کو کنٹرول نہ کیا جائے
تو صحت خرا ب ہونا یا دیگر نفسیاتی مسائل کا پیدا ہونا باعث تعجب نہیں۔
افسردگی اور اضمحلال
اس دنیا میں کوئی بھی انسان ایسا نہیں ہے جس نے زندگی میں تنا ﺅ کا سامنا
نہ کیا ہو۔ ہر ممکن کو شش کے با وجود ہر شے ہماری مر ضی کے تا بع نہیں ہو
تی۔ اس ناکامی کے سبب ہم رنج و الم سے دو چار ہو تے ہیں۔ ہم رنج و الم کی
وجہ سے بد مزاج ہو جاتے ہیں۔ ہماری خود اعتما دی کم ہو جا تی ہے۔ ہم زندگی
کے ہر پہلو سے کچھ بے نیا ز سے ہو جاتے ہیں۔اگر یہ افسردگی ایک طویل مدت تک
ہم پر مسلط رہے تو ہمار ی صحت خراب ہو جاتی ہے، ہم مختلف بیماریوں کے چنگل
میں گرفتار ہو سکتے ہیں ہم نفسیاتی امراض کا شکا ربھی ہو سکتے ہیں، اس لیے
کیا یہ منا سب نہ ہو گا کہ ہم تناﺅ کی ان علا مات کو بخو بی پہچان لیں اور
تناﺅ کے تسلط سے نجات حاصل کرنے کے لیے بر وقت مثبت کا روائی کریں۔ متوازن
غذا اور مناسب ورزش کے ساتھ ساتھ تناﺅ کا مقابلہ کرنا سیکھیں۔
آج کا نام نہاد ترقی یا فتہ انسان تسخیر مہر و ماہ کے با وجود اپنے من پر
قابو نہیں پا سکاہے اور اس کی آسائشیں، سہو لیات بلکہ تمام مادی وسائل اسے
تناﺅ سے مثبت طور پر نجات نہیں دلا سکے اور وہ آج پہلے سے زیا دہ امراض کے
چنگل میں ہے۔ فکر میں بنیا دی تبدیلی غیر ضروری تناﺅ سے نجات دلا سکتی ہے۔
قیمتی معلومات کےلئے عبقری میگزین کا ضرور مطالعہ کریں |