جمعة المبارک کا دن میرے لئے بہت
یادگار تھا جب اللہ نے مجھے چاند سے بیٹے سے نوازا تین بیٹیوں کے بعد ''محمد
بن قاسم ''کی پیدائش نے مجھے حد درجہ مسرور کردیا تھالیکن اس کے محض ایک دن
بعد ہی میری اس خوشی پر قاضی حسین احمد صاحب کی وفات کی خبر سن کر اوس
پڑگئی۔ بیشک ہر ذی روح نے موت کا ذائقہ چکھنا ہے لیکن بعض شخصیات ایسی ہوتی
ہیں جن کی کمی مدتوں پوری نہیں ہوتی اور وہ اپنی زندگی کچھ اس ڈھب سے
گزارتی ہیں کہ زمانہ اس پر رشک کرتا ہے جماعت اسلامی کے سابق امیر ،ملی
یکجہتی کونسل کے سربراہ ، اتحاد امت کے عظیم داعی اور کہنہ مشق سیاستدان
قاضی حسین احمدبھی ایسی ہی ایک شخصیت تھے جو ہفتہ اوراتوار کی دمیانی شب
دارِفانی سے کوچ کرگئے اناللہ واناالیہ راجعون۔ اُن کی رحلت یقیناََ
پاکستان کی سلامتی و بقا اور اسلامی نظام کے نفاز کیلئے جدوجہد کرنیوالی
تمام سیاسی جماعتوں کیلئے ایک عظیم سانحہ ہے قاضی صاحب ملکی منظرنامے پر
موجود سیاستدانوں میں اس لحاظ سے منفرد مقام رکھتے تھے کہ ان کے بارے میں
کبھی کوئی سکینڈل منظرعام پرنہ آیا قاضی صاحب کی شخصیت ہمیشہ غیرمتنازعہ
رہی ۔قاضی حسین احمد 1938ءمیں نوشہرہ کی معروف مذہبی شخصیت مولانا قاضی
عبدالرب کے ہاں پیدا ہوئے گریجوایشن اورجغرافیہ میں ایم ایس سی کرنے کے
بعدپشاور میں ہی جہانزیب کالج سیدوشریف میں کچھ عرصہ بطور لیکچرار بھی
فرائض سرانجام دیتے رہے 1970ءمیں جماعت اسلامی کے ساتھ منسلک ہوئے
اور1987ءمیں میاں طفیل محمد مرحوم کے بعدپہلی بار جماعت اسلامی کے
امیرمنتخب ہوئے اور اس عہدہ پر مسلسل 22سال تک متمکن رہے اس دوران انہوں نے
جماعت اسلامی کو پاکستان کی ایک بڑی اورمنظم جماعت بنادیا آپ دوبار سینیٹر
بھی منتخب ہوئے اور 2002ءکے انتخابات میںدو حلقوں سے عوام نے انہیں
ممبرقومی اسمبلی منتخب کیا۔قاضی صاحب کے دورِ امارت میں ہی افغان جہاد شروع
ہوا جس کی قاضی صاحب نے بھرپور حمائت کی جس کو بھرپور پزیرائی بھی ملی
چونکہ اس وقت ضیاالحق کی حکومت تھی اسی لئے قاضی صاحب افغان جہاد کی حمائت
کرنے پرجماعت اسلامی کو مارشل لا ءکی بی ٹیم کے طعنے بھی سننے کو ملے لیکن
2008ءانتخابات میں جماعت اسلامی نے ایک ڈکٹیٹر پرویزمشرف کے ماتحت ہونیوالے
انتخابات کا بائیکاٹ کرکے اس تاثر کو دور کردیاکہ وہ ضیالحق کی ایماپر
افغان جہاد کو سپورٹ کررہے تھے بلکہ اس سے بھی آگے بڑھتے ہوئے قاضی صاحب نے
عین اس موقع پر ملکی اور بین الاقوامی فورمز پر اسلام اور جہاد کی اصل
تصویر پیش کی جب پرویزی ٹولہ ،یہود و نصاریٰ اور ان کا دجالی میڈیا جہاد کو
دہشتگردی اور مسلمانوں کو بنیادپرست اور انتہاپسند کے طور پر پیش کررہا تھا
قاضی صاحب کو صرف پاکستان ہی نہیں پوری دنیا میں جاری اسلامی تحریکوں میں
قدرومنزلت کی نظر سے دیکھا جاتا تھا کیوں کہ وہ افغانستان کے علاوہ کشمیر ،بوسنیا
،فلسطین اور دنیا بھر میں جاری آزادی کی تحریکوں کی بھرپوراورببانگ دہل
حمائت کیاکرتے تھے ۔5فروری کی یوم کشمیر کی کال سب سے پہلے قاضی صاحب نے ہی
1990ءمیں دی تھی اور اس میں شک نہیں کہ 1990ءکی اس کامیاب ترین ہڑتال نے
پوری دنیاکی توجہ کشمیر کی جانب مبذول کراوادی تھی۔ قاضی صاحب علامہ اقبال
سے بہت متاثر تھے اور انہی کی تعلیمات کے پیش نظر وہ اتحاد امت کے بہت بڑے
داعی سمجھے جاتے تھے ملی یکجہتی کونسل اور متحدہ مجلس عمل کے قیام میں ان
کا مرکزی کردار اسی فکر کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ تمام مسلمانوں کو ایک پلیٹ
فارم پر دیکھنا چاہتے تھے اور اس کیلئے انہوں نے آخر دم تک کوششیں جاری
رکھیں ۔آخری وقت میں بھی وہ متحدہ مجلس عمل کی بحالی اور ہر تحصیل اور ضلع
میں فرقہ واریت کے خلاف آواز بلند کرنے اور موثر جدوجہد کرنے کیلئے منصوبہ
بندی کرتے رہے ۔ قاضی صاحب باوجود پیرانہ سالی کے نوجوانوں کا سا جذبہ
رکھتے تھے اور نوجوانوں میں اُن کو خاص مقبولیت حاصل تھی اسی لئے''ہم بیٹے
کس کے قاضی کے ''کا نعرہ جماعت کے جلسوں میں عموماََ بلند ہواکرتا تھا اس
طرح 1996ءکے بینظیر حکومت کے خلاف کامیاب دھرنے کے بعد ان کے متعلق ''ظالمو
َقاضی آرہاہے''کی اصطلاح بھی خوب مشہور ہوئی۔بیشک قاضی صاحب ایک قدآور اور
مدبر شخصیت تھے جس کا ایک زمانہ معترف تھا اُن کی وفات حسرت آیات کے بعد
جماعت اسلامی کے امیر جناب منورحسن صاحب کے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری
آن پڑی ہے کہ وہ قاضی صاحب جماعت کی امارت سے دستبراد ہونے کے باوجود جواں
جذبے کے ساتھ جماعت کے مشن کو حرزِ جاں بنائے ہوئے تھے اب منور حسن صاحب پر
لازم ہے کہ وہ قاضی صاحب کی تشنہ خواہشات کو پورا کرنے کیلئے اپنی تمام تر
توانائیاں صرف کردیں خصوصاَمجلس عمل کی بحالی اور فرقہ واریت کے خلاف اُن
کے ایسے مشن تھے جن کی تکمیل وقت کا اہم ترین تقاضا ہے ۔ |