صحافتی اداروں پر پابندیاں کیوں ؟

بڑے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے حکمرانوں کو زرد صحافت تو نظر آتی ہے لیکن پیلی اور کالی کینسر زدہ سیاست نظر نہیں آتی۔ صحافی تو سوتے جاگتے پریشان رہتے ہیں کہ اپنی صفوں میں شامل کالی بھیڑوں یعنی زرد صحافت کے علمداروں کا صفایا کس طرح کیا جائے۔ جن کی وجہ سے آج ہم ا پنے آپ کو صحافی کہلانے میں شرم محسوس کرتے ہیں۔ راقم نے ابھی چند دن قبل ہی چندولال بوٹی کے نام سے ایک مضمون لکھا تھا جس میں زرد صحافت کی پرزور مذمت کی تھی۔ مطلب کہ صحافی برادری کو اس بات کا احساس ہے کہ کچھ لوگ صحافت کے نام پر اپنی دکان داری چمکاتے ہیں ، یہ صحافی نما دکان دار صرف صحافت کے نام پرہی نہیں بلکہ پوری قوم کے نام پر بدنما دھبہ ہیں۔

لیکن مجھے یہ بات کہنے میں ذرہ برابر بھی خوف نہیں کہ زرد صحاف کو فروغ دینے میں بھی کرپٹ سیاست دانوں اور جرائم پیشہ عناصر کا ہی ہاتھ ہے۔ آپ جس جگہ بھی رہتے ہیں اپنے اردگرد نظر دوڑائیں آپ کو راقم کی بات کا ثبوت مل جائے گا۔ جہاں بھی کوئی زرد صحاف کا علمدار موجود ہے اسے کسی نہ کسی بڑی سیاست دان یا جرائم پیشہ افراد کی پشت پنائی حاصل ہو گی یا رشتہ داری ہو گی ،یہ صحافت کے خلاف سیاستدانوں کی سوچی سمجھی سازش ہے کہ حق اور سچ بیان کرنے والے صحافیوں کو کمزور سے کمزور تر کیا جائے اور نام نہاد بکائو زرد صحافت کو فروغ دینے کے لیے ٹائوٹ قسم کے لوگوں کی شعبہ صحافت میں زیادہ سے زیادہ شمولیت کروا کر ان کی مالی ماونت کی جائے تا کہ حکمران طبقے کی کرپشن ،جھوٹ اور ہٹ درمی کا پردہ فاش کرنے والے کم اور ان کی جھوٹی تعریف اور کرپشن چھپانے والے ٹائوٹ لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا رہے۔ میں ایسے لوگوں کو صحافی نہیں مانتا جو چند ٹکوں کی خاطر حق چھپاتے ہیں ایسے لوگ جسم بیچنے والی طوائف سے بھی برے ہیں۔

کیونکہ وہ تو صرف اپنا جسم بیچتی ہے وہ بھی مہنگے داموں ، لیکن یہ بدبخت لوگ صرف دو سیر آٹے اور چائے کے کپ کے لیے قلم کا غلط استعمال کرتے ہوئے نہ صرف اپنا بلکہ ملک قوم کا وقار بھی تباہ وبرباد کرتے ہیں۔ نہ صرف حکومت بلکہ صحافی برادری کا بھی فرض بنتا ہے کہ زرد صحافت کرنے والے نام نہاد صحافیوں کی پیداوار کو روکتے ہوئے صحافت کو پاک صاف ،حق وسچ پر مبنی بنانے کے لے اپنا کردار ادا کریں۔ زرد صحافت کو اگر صحافت کا کینسر یعنی جان لیوا بیماری کہا جائے تو غلط نہ ہو گا۔ کسی بھی بیماری کا اعلاج تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک سہی طریقے سے اس کی تشخیص نہ کی جائے ، یعنی اس کی بنیادی وجوحات کا پتہ نہ چلایا جائے ۔ میری نظر میں زرد صحافت کی بنیادی وجوحات میں سیاست دانوں کا اپنی کرپشن چھپانے اور سستی تشہیر کا شوق پورا کرنے کی غرض سے نااہل لوگوں کو صحافتی حلقوں میں شامل کرنا ہیں ، آج جبکہ زرد صحافت بہت ترقی کرچکی ہے پھر بھی حق اور سچ پرمبنی صحافت کرنے والوں کی کمی نہیں ہے۔

جس کا ثبوت آپ کو آئے روز اخبارات اور نیوز چینلز پر حکمرانوں کی کرپشن اُوپن ہونے کی صورت میں ملتا رہتا ہے۔عوام کسی بھی صحافی یا اینکر پرسن کو جلدی سے بکائو کہنے والوں کی بات مان لیتے ہیں یہ سمجھنے کی کوشش نہیں کرتے کہ صحافیوں کی بھی سو مجبوریاں ہو سکتی ہیں ،ایک صحافی کو ایسا سچ بولنے پر جس میں کسی حکمران یا طاقتور سیاستدان یا پھر جرائم پیشہ عناصر کی کرپشن ، دھوکہ دہی یا جھوٹ کا پردہ فاش ہوتا ہو جان تک سے ہاتھ دھونا پڑتے ہیں۔ قارئین محترم صحافی طبقہ آج کے ترقی یافتہ دورمیں بھی دور جہالت کی طرح معتبر ہونے کے باوجود مظلوم ترین طبقہ ہے۔ اس طبقے کو زیر اثر رکھنے کے لیے حکمران مختلف طریقے اپناتے ہیں جن میں سے ایک کا ذکر میں اُوپر کر چکا ہوں۔ ایک طریقہ صحافتی اداروں کو معاشی طور پر کمزور کرنا ہے حکمران اشتہارات روک کر مختلف پابندیاں لگا کر صحافتی اداروں کو کمزور کرنے کی اکثر کوشش کرتے ہیں جس میں انہیں کافی حد تک کامیابی ملتی ہے ۔جس طرح کہ کچھ عرصے سے کوژک نیوز کے اشتہارات بند ہیں۔

راقم بلوچستان کی حکومت کے اس اقدام کی پرزور مذمت کرتا ہے۔ گزشتہ روزمیں نے کوئٹہ اور چمن شہر سے شائع ہونے والے روزنامہ کوژک نیوز کے چیف ایڈیٹر محمد اسلم اچکزئی کو ان کے ساتھ اظہار یکجہتی اور اشتہارات کی بندش کی وجہ دریافت کرنے کے لیے فون کیا تو انہوں نے مجھے بڑی تفصیل سے بتایا کہ روزنامہ کوژک نیوز کے اشتہارات کی تاحال بندش صوبائی حکومت کی نااہلی کا منہ بولتا ثبوت ہے ،کوژک نیوز پینل۔ ادارہ جب سے اشتہارات بند ہیں تب سے اپنے خرچے پر چل رہاہے۔ کوژک نیوز پر لگنے والی قدغن اور تمام صورتحال سے علاقائی وزراء سمیت تمام پارٹیوں کے رہنماء بھی آگاہ ہیں۔ نااہل صوبائی حکومت کی جانب سے روزنامہ کوژک نیوز کے اشتہارات کی بندش کی صورت میں ادارہ کو بے باک صحافتی خدمات کی سزا دی جا رہی ہے۔

صوبے کے دوسرے بڑے شہراور 12لاکھ آبادی رکھنے والے شہرچمن سے شائع ہونے والا واحد مقبول روزنامہ کوژک نیوز پر صوبائی محکمہ تعلقات عامہ نے اشتہارات کو گزشتہ کچھ عرصے سے بلا وجواز بند کر رکھا ہے جس کی وجہ سے ادارہ کو ماہانہ لاکھوں روپے کا خسارہ برداشت کرنا پڑھ رہا ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ اس حوالے سے گزشتہ روزچمن میں روزنامہ کوژک نیوز پینل نے ایک عوامی سروے کیا جس میں چمن کے ممتاز قبائیلی ، سیاسی رہنماؤں سمیت تاجر برادری سے تعلق رکھنے والی شخصیات نے صوبائی حکومت کے اس اقدام کی شدید مذمت کی ہے۔ مذمت کرنے والوں میں کلیم اللہ ،داداللہ،حاجی علاوالدین بریال ،حسام الدین سنگر ، حبیب اللہ ،عبدالظاہر اچکزئی ، قدوس آزاد ، وارث خان ،گوردن داس ، وارث شامل ہیں۔

شہریوں نے کہا کہ روزنامہ کوژک نیوز صوبے کا واحد علاقائی اخبار ہے جس نے اپنی چار سالہ مدت میں علاقائی مسائل کو اجاگر کرنے ،جرائم کی نشاندہی ، فورسسیز کی زیادتیوں ، سمیت ہر مسئلے کو انتہائی ایمان اور سنجیدگی کے ساتھ اُجاگر کیا ہے اور عوامی مسائل حکام بالا تک پہنچنانے میں کوئی غفلت اور دیر نہیں کی ہے اور اسی طرح تمام علاقائی سیاسی ،مذہبی ،سماجی تنظیموں کی بھرپور اور بروقت کوریج بھی کی ہے اور اب بھی انتہائی گمگھیر صورتحال میں روزنامہ کوژک نیوز اخبار کی صحافتی خدمات قابل ستائش ہیں لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ نااہل صوبائی حکومت نے اشتہارات کوصرف اور صرف انتقامی کاروائی کرتے ہوئے بند کر رکھا ہے کہ آئندہ روزنامہ کوژک نیوز اخبار عوامی مسائل کی نشاندہی نہ کر سکے۔ سروے میں شامل ہونے لوگوں نے کہا کہ روزنامہ کوژک نیوز کے اشتہارات کی تاحال بندش صوبائی حکومت کی نااہلی کامنہ بولتا ثبوت ہے لیکن ہم روزنامہ کوژک نیوز کی بے باک صحافتی ٹیم کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں کہ وہ انتہائی مشکل حالات وماہانہ لاکھوں روپے خسارے کے باوجود اپنی بے باک صحافتی خدمات کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ لیکن افسوس کیساتھ کہنا پڑ رہا ہے کہ روزنامہ کوژک نیوز اشتہارات کی بندش سے علاقے کی تمام وزراء سمیت ، تمام حکومتی سیاسی ، مذہبی ، قوم پرست جماعتوں کے رہنماء بھی بخوبی آگاہ ہیں لیکن اس کے باوجود بھی روزنامہ کوژک نیوز کے اشتہارات کی بندش کے حوالے سے خاموشی کا روزہ رکھے ہوئے ہیں۔

جو کہ باعث تشویش اور قابل افسوس ہے اسلم صاحب نے بتایا کہ روزنامہ کوژک نیوز اخبار اشتہارات کی بندش کے حوالے سے شہری ایکشن کمیٹی چمن کے زیر اہتمام 2 بار احتجاجی مظاہرہ بھی چمن شہرمیں ہوا ، اور ایک بارچمن پریس کلب اور شہری ایکشن کمیٹی نے ملکربھی احتجاجی مظاہرہ کیا۔ ہم نے معتدد بار مختلف پارٹیوں کے رہنماوں وقائدین کوزبانی ، تحریری طور پر بھی درپیش مسائل سے آگاہ کیاہے ۔ اس وقت روزنامہ کوژک نیوزادارہ کو ماہانہ ایک لاکھ ساٹھ ہزار روپے کے خسارے کا سامنا ہے اور صوبائی محکمہ تعلقات عامہ کے ڈی جی اسدکامران نے کمیشن کی بنا پر ہمارے اشتہارات کو بند کر رکھا ہے۔

قارئین محترم میں نے شروع میں سیاست کو پیلی ،کالی اور کینسر زدہ کہا تھا اس حقیقت سے آپ بھی اچھی طرح واقف ہیں سیاست میں مخالفین پر کس قدر کیچڑ اچھالا جاتا ہے اور جب وہی مخالفین سیاسی رفیق بنتے ہیں توپھر دودھ دھلے ہو جاتے ۔راقم کواس بات کا قوی یقین ہے کہ اگر سیاست کو گندے لوگوں سے پاک کر دیا جائے تو زرد صحافت اپنی موت آپ مر جائے گی۔ خیر یہ موضوع بہت وسیع ہے زندگی رہی تو اس موضوع پر بات ہوتی رہے گی ۔آج میں صدر پاکستان جناب آصف علی زرداری سے اس اُمید کے ساتھ کہ جس طرح وہ پچھلے پانچ سال سے ہماری جائز ناجائز تنقید بڑی خندہ پیشانی سے برداشت کرتے آرہے ہیں اسی طرح میری اپیل بھی رد نہیں کریں گے ، اپیل کرتا ہوں کہ صدر پاکستان کوژک نیوز کے اشتہارات کی بندش کا فوری نوٹس لیں اور صوبائی حکومت کو حکم صادر کریں کہ کوژک نیوز کے اشتہارات فوری طور پر بحال کیے جائیں۔
Imtiaz Ali Shakir
About the Author: Imtiaz Ali Shakir Read More Articles by Imtiaz Ali Shakir: 630 Articles with 564809 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.