کاشف بٹ کی اچھی کاوش

میرے قارئین سے معذرت کہ میں بڑا عرصہ ادارتی صفحہ سے غائب رہا،اس ایک اہم بڑی وجہ یہ کہ میں نے راولپنڈی میں گرجا روڈ ،قریشی آبادمیں الحمد ُ للہ اپنا گھر بنا لیا ہے لیکن اس پسماندہ علاقے میں فی الحال گیس،بجلی،پانی ،انٹرنیٹ ،نکاسی آب اور کچی گلیوں جیسے مسائل کا سامنا ہے۔جہاں شاید دو تین ماہ بعد کسی نمائندے کو ووٹ کی ضرورت ہو توعلاقے کی قسمت بدلے۔ہاں اسی دوران مجھے گجرات میں کنجاہ سے ادبی ایوارڈ سے نواز گیا ،اس پر احقر اہل کنجاہ کا تہہ دل سے مشکور ہے ۔انشاءاللہ اب میرے ہفتہ وار کالموں میں سے ایک یا دو کالم ادبی ہوا کریں گے۔انشاءاللہ

”خدا بانٹ لیا ہے“ کاشف بٹ کا پہلا شعری مجموعہ ہے۔208صفحات پر مبنی یہ خوبصورت کتاب چند آزاد نظموں اور خوبصورت غزلوں کا مجموعہ ہے۔اس کتاب کے مطالعے کے بعد اس بات کا انکشاف ہوتا ہے کہ کاشف بٹ نہ صرف خوبصورت لہجے کا شاعر ہے بلکہ اس نے اپنی شاعری میں بحروں کو نہایت ہی اعلیٰ الفاظ سے پرویا ہے۔شاعر کی ہر غزل میں تنوع اور تخلیق کے بادل برستے دکھائی دیتے ہیں۔جیسے کہ
قافلے کا غبار مل جاتا
جس کا تھا انتظار مل جاتا
ہم نجانے کہاں کہاں بھٹکے
گھومنے کو مدار مل جاتا

اچھی شاعری ہر کسی کے بس کی بات نہیں یہی پیغام کاشف بٹ کی شاعری سے ملتا ہے کیونکہ کاشف بٹ کی اس کتاب میں واقعی اچھی شاعری ہے۔اس کی ہر غزل میں شاعرانہ وزن اور تکنیکی خوبیوں کی خوب ہم آہنگی دکھائی دیتی ہے۔کوئی شاعر بھی اپنی پہلی کتاب میں بے شمار غلطیاں اور خامیاں چھوڑ جاتا ہے مگر کاشف بٹ نے اپنی تمام غلطیوں اور خامیوں کو نہایت ہی ایماندارانہ طریقے سے دور کرنے کی بہترین کوشش کی ہے۔جیسے کہ
ہمراہ کوئی ہم سفر نہیں ہے
سو میرا سفر معتبر نہیں ہے
میں وقت کے اُس پار بھی گیا
جس پار اندھیروں کا ڈر نہیں ہے

اس کی شاعری میں انسانی وفاداری اور بے وفائی دونوں روایتوں کا عکس دکھائی دیتا ہے۔اسکے ہر شعر سے اس کے حساس ہونے کا احساس بھی ہوتا ہے۔کاشف بٹ کی ایک غزل میں سے یہ دو شعر کہ
عجب رشتے نبھائے جا رہے ہیں
سبھی احسان جتائے جا رہے ہیں
کہیں تو پردہ داری نبھ رہی ہے
کہیں پردے گرائے جا رہے ہیں

ہر شاعر نظم کہنے میں اپنی مہارت بڑی مشکل سے استعمال کرتا ہے مگر نظم میں بھی اس فن کو سجانے کا سہرہ کاشف بٹ نے بالکل صحیح طور پر نبھایا ہے ۔سچ کہتے ہیں کہ اگر محنت کی جائے تو رائیگاں نہیں جاتی ۔اس کتاب میں شاعر کی محنت و ریاضت بالکل واضح ہے۔اس کی اک نظم”مجھے خوابوں میں رہنے دو“ میں سے:
نہیں۔۔۔۔تو پھر یہ بہتر ہے
ہمیں خوابوں میں رہنے دو
نہیں۔۔۔۔۔تو پھر چلو آﺅ
تمہیں میں خواب کی دنیا دکھاتا ہوں
جہاں کوئی ظالم نہیں ہوتا
جہاں کوئی جابر نہیں ہوتا
جہاں عورت تقدس کی علامت ہے
جہاں عزت نہیں بکتی
جہاں فرسود ہ پنجایت نہیں لگتی
جہاں رشتے کبھی قربان نہیں ہوتے
جہاں رشتوں میں چاہت ہے

بہر حال کاشف بٹ کی یہ کتاب نہ صرف تخلیقی لحاظ سے بلکہ ادبی لحاظ سے شعری کتب میں ایک بہترین کتاب ہے۔کاشف بٹ جیسے نو آموز اور پڑھے لکھے شاعر اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے بل بوتے پر دن دگنی رات چوگنی ترقی کرتے ہیں۔کاشف بٹ کی ایک اور خوبصورت غزل سے دو شعر:
اک طرف جھگڑے ہیں تخت و تاج کے
اک طرف خلقِ خدا مقروض ہے
ڈٹ گیا ہے آندھیوں کی راہ میں
ایک پتا شاخ کا مقروض ہے

قوی امید ہے کہ شاعر مستقبل میں بھی اسی قسم کی میچور شاعری سے صاحب ادب اور صاحب مطالعہ لوگوں کے لئے اپنی شاعری میں مزید محنت دکھائے گا اور ادب میں ایک بڑا مقام ضرور پیدا کرے گا ،انشاءاللہ۔اللہ زور قلم اور زیادہ کرے۔آمین
Mumtaz Amir Ranjha
About the Author: Mumtaz Amir Ranjha Read More Articles by Mumtaz Amir Ranjha: 90 Articles with 66237 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.