قواعدِاملاوانشا
(طلبۂ مدارس خصوصاً نوآمیزقلم کاروں کے لیے تحفۂ خاص)
ز بان اورادب دوالگ الگ چیزیں ہیں اوردونوں کے اپنے اپنے تقاضے ہیں ۔یوں
کہیے کہ زبان صرف بیان کانام ہے اورادب حسن بیان۔زبان صرف اظہاراتی بیانیہ
ہے اورادب اس بیاناتی پیکرکاحسین ترین جامہ۔جب تک ملفوظی سراپاادب کی خوب
صورت قبا زیب تن نہیں کرتا ا س کی اثرپذیری مفقودرہتی ہے۔الفاظ جب دوش ِ
قرطاس پراپنی زلفیں درازکرتے ہیں تواس کی رعنائی میں اضافہ اسی وقت ہوتاہے
جب ادب اپناعکس ڈالتاہے۔ہماری تحریروں کی عدم مقبولیت کاایک سبب یہ بھی ہے
کہ ہم میں اکثرصرف اظہارکرناجانتے ہیں مگرپرلطف اظہار نہیں ۔ گرامر کے
بغیرکوئی بھی زبان ،حقیقی زبان کا درجہ نہیں پاسکتی اس کے بغیرزبان کولولی
،لنگڑی اورمفلوج سمجھا جاتا ہے ۔
یہ بات صوفی صدصحیح ہے کہ ہماری زبان اردو،مدارس اسلامیہ کی وجہ سے زندہ ہے
اورجب تک مدارس زندہ رہیں گے اردوکوآب حیات فراہم کرتے رہیں گے لیکن ایک
بات یادرکھنی چاہیے کہ زبان اسی وقت عروج کی سیڑھی پرچڑھتی ہے جب اس کے
گرامراورادب کا بھرپورخیال رکھاجائے۔بغیرا س کے زبان کی الٹی گنتی شروع
ہوجاتی ہے۔یہ بات کسی حدتک صحیح ہے کہ زبان اردوکوگرامراورادب کے ساتھ
یونیورسٹیوں کے اردوکے شعبوں میں پڑھایاجاتاہے مگراس کی بنیادوں کوپانی یہی
مدارس اورمکاتب فراہم کرتے ہیں۔اہل مدارس اورفاضلان مدار س میں شعوری
یاغیرشعوری طورپرنہ جانے یہ تصورکیسے نمودپاگیاکہ اردوتوہمارے گھرکی زبان
ہے اس کے اصول و ضابطے اوراس میں ادب کی چاشنی کی آمیزش کی کیاضرورت ہے۔یہ
نظریہ جتناسطحی ہے اس کے کہیں زیادہ غلط ہے ۔کیاکبھی سوچاکہ فاضلا ن مدارس
کی تحریر یں اورنثری خدمات پڑھے لکھے حلقوں کے یہا ں کیوں نہیں درجۂ قبولیت
تک پہنچ پاتیں؟ہم میں سے اکثر کا حال یہ ہے کہ بیشتر بغیرقواعداوربغیرادب
کے تحریریں لکھتے ہیں ۔ بغیر ادب اس لیے کہ روکھی سوکھی زبان ہی وسیلۂ
اظہاربنائی جاتی ہے ۔ ظاہر ہے کہ پڑھے لکھے حلقوں میں وہ کیوں کراپنامقام
بناسکیں گی۔
ہمارے اکثرعلماکے ذہن ودماغ کوایک یہ فکربھی پراگندہ کیے ہوئے ہے کہ ہم
غیروں کی کتابوں سے استفادہ نہیں کریں گے۔ان میں بعض تواتنے متشددہیں کہ نہ
خودپڑھتے ہیں اورنہ اپنے شاگردوں کو پڑھنے دیتے ہیں ۔اس کے لیے نہایت بودی
اورسطحی دلیل یہ دی جاتی ہے کہ اگران کی کتابوں سے استفادہ کریں گے توخواہ
مخواہ دل میں ان کی تعظیم پیداہوگی اورغیرسنی لوگوں کی تعظیم گمراہیت
وکفرکاموجب بنتی ہے ۔ فیاللعجب۔ ان حضرات کوکون بتائے کہ اچھی چیزجہاں بھی
ہواسے لے لینا چاہیے۔کیاان کاایمان اتناکمزورہے کہ وہ قرآن وحدیث کاعلم
رکھنے اوراچھے برے کے تمیزکے باوجودان کی ہربات پرآمناوصدقنا کہہ دیں
گے؟۔اگرہمارے ان علماکی باتوں پرعمل کیاجائے توحدیث شر یف خذماصفادع
ماکدراورالحکمۃ ضالۃ المؤمن فحیث وجدھافھواحق بھاکامطلب
کیاہوگا؟گرامراورادب نہ پڑھنے کے پیچھے ایک رجحان یہ بھی کارفرماہے۔اس خیال
کوجتنی جلدی ہوسکے ذہن ودماغ سے نکال کرباہرکچرے کے ڈبے میں میں پھینک دینا
چاہیے ۔
یہ سچ ہے کہ ہم خودلکھتے ہیں،خودہی چھاپتے ہیں اورخودہی پڑھ لیتے ہیں۔اپنے
حلقۂ عقیدت منداں میں کتابیں تقسیم کرواکرہمارے جذبۂ خودنمائی کی تسکین
توہوجاتی ہے مگرتحریروکتاب کامقصدپس منظر میں چلاجاتاہے ۔اس کے ذریعے کم
پڑھے لکھے یاغیرپڑھے لکھے یا اپنے مریدوں وعقیدت مندوں کے درمیان وواہ واہی
تولوٹی جاسکتی ہے مگرپڑھے لکھے حلقے کی طرف سے پذیرائی کاگوہرحاصل نہیں کیا
جا سکتا۔ اچھی نثر لکھنے کے لیے زبان کے قواعداوراس کے ادبی اسرارو رموزسے
واقفیت بہت ضروری ہوتی ہے۔ ا س کے بغیراس زبان کے ساتھ انصاف نہیں
کیاجاسکتا۔
اسی ضرورت کے پیش نظر اردوزبان کے قواعدو ضوابط پرپاک و ہندمیں متعددکتابیں
لکھی گئی ہیں۔اس ضمن میں سب سے اہم اور قد آور نام رشیدحسن خاں کاہے ۔انہوں
نے چھوٹی بڑی کئی کتابیں لکھ کر قواعد اردو کومنظم کردیاہے۔یہ سب کتابیں اس
لائق ہیں کہ انہیں پڑھاجائے اوراس کے مشمولات کواپنی تحریروں میں برتا جائے
۔ اردوزبان وادب پراب تک جتنوں نے بھی لکھاہے ان میں چند کو چھوڑ کرسب
یونیورسٹیو ں کے پروردہ ہیں یاان پرکسی یونیورسٹی کالیبل لگا ہوا ہے۔ماضی
میں ایسے چندعلماضرورگزرے ہیں جن کی خدمات اردو زبان وادب کے کھاتے میں
رکھی جاتی ہیں(مگربدقسمتی سے ان کا تعلق اہل سنت سے نہیں ہے ) ۔ حال کاحال
یہ ہے مدارس کے فاضلان کی تحریریں اورکتابیں قصداً اس زمرے میں نہیں رکھی
جاتیں۔سوال یہ ہے کہ کیاعلمااردوکی خدمت نہیں کررہے ہیں ؟کیاصر ف افسانے ،
کہانیا ں اورادب کے نام پرفحاشی کانام ہی اردوزبان وادب کی خدمت ہے ؟
بہرحال غالباًیہ اردوزبان کی تاریخ کاپہلاواقعہ ہے کہ کسی مدرسے کے
زیراہتمام منظم منصوبے کے ساتھ اردوگرامرکی کوئی مہتم بالشان کتاب شائع کی
گئی ہو۔ برصغیرکی عظیم علمی ودینی دانش گاہ الجامعۃ الاشرفیہ مبارک پورکے
ذمے داروں نے مجلس برکات کے زیراہتمام مدارس اسلامیہ کے طلبہ کے لیے
بالخصوص اور دیگرباذوق قارئین کے لیے بالعموم اردو قواعدوانشاپرمشتمل
’’قواعدِاملاو انشا ‘ ‘ کے نام سے ایک کتاب شائع کردی ہے ۔اردواہل مدارس کی
ترسیلی زبان ہے اس پردوسروں سے کہیں زیادہ اہل مدارس کاحق ہے اورچوں کہ
ہمارے طالب علمانہ خیال میں یہ بر صغیرمیں اسلام کی نمائندہ زبان ہے اس لیے
علماے کرام پراس کی بقا اور تحفظ کی ذمے داری کچھ زیادہ ہی عائدہوتی ہے ۔اہل
اشرفیہ نے اس سمت پیش قدمی کرکے سارے مدارس کی طرف سے فرض کفایہ ادا کیا ہے
اور اردوکے ان ادیبوں ، پروفیسروں، ایڈیٹرو ں اور نام نہادافسانہ نگاروں کی
خوش فہمیوں کاتسلسل توڑدیاہے جو شعوری یاغیرشعوری طور پر اردوزبان وادب
پراپنامالکانہ حق جتاتے ہیں اور اردوکے ترقی کے سفر میں اپنی نثری خدمات
کوکلیدی رول کادرجہ دیتے ہیں ۔کتاب کے مرتب جامعہ اشرفیہ مبارک پورکے استاذ
مولانا اختر حسین فیضی مصباحی نے اس میں اردوکے بہت سارے قواعدجمع کر دیے
ہیں جن میں عوام توعوام خواص بھی غلطیاں کرجاتے ہیں ۔ نوآمیز طلبہ اورقلم
کاروں کے لیے یہ کسی بیش قیمت تحفے سے کم نہیں ہے۔یہ کتاب بہت غوروخوض
اورماہرینِ اردوکی متعدد بحثوں اور نشستوں کے بعد معرض وجودمیں آئی ہے۔کتاب
کی ضرور ت کیوں پیش آئی ،اس متعلق برصغیرکے معروف عالم دین اورعظیم محقق
مولانا محمد احمد مصباحی پرنسپل جامعہ اشرفیہ مبارک پورکتاب کے مقدمے میں
لکھتے ہیں :
’’خیال ہوتاہے کہ قواعدِاملاکی ضرورت کیاہے ؟جواردو لکھنا پڑھنا جان گیااس
کااملادرست ہی ہوگا۔الفاظ اورجملے کتابو ں میں جس طرح لکھے ہوتے ہیں اسی
طرح لکھناہے ۔ عمومی حدتک یہ خیال درست ہے مگرقواعدکی ضرورت ان الفاظ میں
پیش آتی ہے جن کااملاقلمی تحریروں اورمطبوعہ کتابوں میں مختلف شکلوں میں
نظرآتاہے ، ایسے وقت میں عام قاری الجھن کاشکارہوجاتاہے کہ صحیح کیاہے ؟(ص
۹)‘‘
کتاب کودوحصوں میں تقسیم کیاگیاہے ۔پہلے میں املاکے مسائل ہیں اوردوسرے حصے
میں مضمون نویسی کے اصول وآداب ذکرکیے گئے ہیں ۔چندمشقی عنوانا ت بھی دیے
گئے ہیں اورنفس مضمون کے عناصرکی نشاندہی بھی کردی گئی ہے تاکہ نوآموزمضمون
نگاراس کی روشنی میں مضمون لکھ سکے ۔ساتھ ہی ساتھ معروف قلم کاروں کے لکھے
ہوئے مختلف عنوانات پرنصیحت آموزچھوٹے چھوٹے مضامین بھی بطورنمونہ شامل کیے
گئے ہیں ۔ان کی روشنی میں طلبہ اورعام باذوق قارئین کویہ معلوم ہوگاکہ
مضمون لکھناکیسے شروع کیاجائے ،بات کیسے پھیلائی جائے اورکس طرح سمیٹی
جائے۔وہ مشقی عنوانات کی اچھی طرح مشق کرنے اور مسلسل ممارست سے عمدہ مضمون
نگاری سیکھ سکتے ہیں ۔۱۲۸ صفحا ت کی یہ کتاب بڑی اہم،پرمغز،معلوماتی
اورجامع ہے۔
ذیل میں کتاب کے چنداقتباسات دیے جارہے ہیں۔ان قواعدمیں خواص بھی غلطیاں
کربیٹھتے ہیں ۔قواعدسے کماحقہ آشنائی تو پوری کتاب کے مطالعے سے ہی ہوسکتی
ہے تاہم یہ چند جھلکیا ں اس لیے پیش کی جاتی ہیں کہ فی الوقت اگرکوئی کتاب
نہ خریدسکے تواسے پڑھ کر ہی اپنی معلومات کی روشنی میں اضافہ کرلے۔
٭قراء ت، براء ت
قراء ت:عربی لفظ ہے اسے عام طورپرقرءَ ت ،قِرَت اور قرات
بولااورلکھاجاتاہے۔یہ تلفظ اوراملادونوں غلط ہیں ،صحیح املا اور تلفظ
’’قراء ت‘‘ہے۔یعنی پہلے الف اس کے بعدہمزۂ مفتوحہ ۔ ایسے ہی براء ت ،دناء ت
وغیرہ کوبھی لکھنااورپڑھناچاہیے ۔
٭آزمائش ، نمائش
فارسی میں حاصل مصدرکبھی فعل امرسے بنتاہے جیسے کوشیدن سے ’’کوش‘‘امر،’’کوشش‘‘
حاصل مصدر۔آفریدن سے ’’آفریں‘‘ امر ، آفرینش حاصل مصدر۔بعض
مصادرکاامرآخرمیں یاکے ساتھ ہوتاہے اس پر’’ش ‘‘بڑھاکرحاصل مصدربناتے ہیں
جیسے آزمودن سے امر ’’آزماے‘‘حاصل مصدر’’آزمائش‘‘۔فارسی میں اس طرح کے
الفاظ کو’’ش‘‘سے پہلے یاکے ساتھ لکھتے ہیں لیکن اردومیں ایسے مصادر ’’ش‘‘سے
قبل ہمزہ کے ساتھ بولے اورلکھے جاتے ہیں ا س لیے اردومیں ان کوہمزہ ہی سے
لکھناصحیح ہے اورچلن بھی یہی ہے ۔ اردومیں ان کے تلفظ میں ’’ی‘‘کی
آوازکاشائبہ تک نہیں ہوتاا س لیے یہاں ان کو’’ی‘‘سے لکھنے پراصرارکرنامحض
فارسی کی نقالی ہے ۔ جیسے : آزمائش ، نمائش،آسائش،ستائش،آرائش،آلائش،پیمائش۔
اسی طرح ذیل کے الفاظ کااملابھی ہمزہ سے راجح ہے :
آئندہ،نمائندہ،پائندہ،نمائندگی،سائل،شائع،شائق،قائم،مائل وغیرہ۔ان کو ’’ی‘‘سے
لکھناغلط ہے ۔ان کاصحیح املاہمزہ ہی سے ہے۔
٭ہاے مختفی کااستعمال
کچھ الفاظ کے آخرمیں ہاے مختفی لکھ دی جاتی ہے ۔جیسے: موقعہ، معہ، مصرعہ
وغیرہ۔یہاں ہاے مختفی کااضافہ بالکل غلط ہے ۔ان کاصحیح املایوں
ہے۔موقع،مع،مصرع،موضع،مرقع،مرصع
یوں ہی ’’مع‘‘کوبمع یابمعہ لکھتے ہیں ،یہ بھی غلط ہے ۔
٭روپے،روپیہ
ان لفظوں کوکئی طرح لکھاجاتاہے ۔سب سے زیادہ راجح املا روپیہ ،روپے ہے،یہی
املااختیارکرناچاہیے ۔روپئے غلط ہے۔
اب چوں کہ تحریرترقی کے رتھ پرسوارہے ۔پڑھے لکھے لوگ اچھی تحریروں کوہی
پسندکرتے ہیں اورممکنہ حدتک اس کے مشمولات سے عمل کارشتہ استوار کرتے ہیں ۔ایسی
صورت میں نسبتاً غیر معیاری ، غیرمتوازن اور سطحی تحریریں خواہ وہ زبان
وادب کے اعتبارسے ہوں یاعنوان کے اعتبار سے ،پایۂ اعتبارسے ساقط قرارپارہی
ہیں ۔ا س لیے اگرطلبہ ٔ مدارس اسلامیہ کواپنی تحریروں کا پایۂ اعتبارمستحکم
کرناہو اور اپنے نثری سازسے قارئین کی توجہات مبذول کرانی ہوں توزبان کے
ساتھ قواعدکابھی ذائقہ لیناہوگا۔اس تناظرمیں اس کتاب کا مطالعہ بہت
مفیدہوگا۔
املااورقواعدکی کتابوں کے درمیان ہمارے خیال میں اس کتاب کی انفرادیت یہ ہے
کہ دیگرکتابوں میں لکھنے والے اپنی تحقیقا ت کاحاصل پیش کرتے ہیں اورکسی
لفظ کے متعلق اپناعندیہ ظاہر کرتے ہیں ۔ایک کتاب میں کوئی مصنف کسی لفظ کے
بارے میں کچھ رائے بیان کرتاہے اور دوسرا مصنف اپنی کتاب میں اسی لفظ کے
متعلق کچھ اور کہتاہے بلکہ کوئی کوئی مصنف تواپنے نظریے اورتحقیق کوزبردستی
تھوپناچاہتاہے اوردوسرے کی سختی سے تردید کردیتا ہے ۔ایسے میں ایک عام قاری
کومسئلے کی تفہیم میں بڑی الجھنیں پیش آتی ہیں ۔ مثلاً رشیدحسن خاں نے اپنی
کتابوں میں آرائش ،زیبائش اورپیمائش جیسے الفاظ کو’’ہمزہ ‘‘کے بجاے ’’ی‘‘
سے لکھنے کوصحیح بتایاہے اورہمزہ سے لکھنے کی سختی سے تردیدکی ہے جب کہ
دوسرے ادباان الفاظ کو بغیر ’’ی‘‘بھی صحیح سمجھتے ہیں۔ایک ہی لفظ کے متعلق
دوادیبوں کی مختلف رائے سامنے آنے پرکسی بھی عام قاری کاذہنی صعوبت برداشت
کرنا فطری امرہے۔مگرا س کتاب کی خصو صیت یہ ہے کہ قاری کہیں بھی الجھن کا
شکار نہیں ہوتا بلکہ جواملادرست ہے وہی لکھاگیاہے اورا س کے صحیح وغلط ہونے
کی وجوہات بھی بیان کی گئی ہیں ۔گویایہاں دعوے کے ساتھ دلیل بھی فراہم کردی
گئی ہے ۔
اخیرمیں مجلس برکات کے ذمے داروں سے میری گزارش ہے کہ اس کتاب کوصرف مدارس
تک محدودنہ رہنے دیاجائے بلکہ خاص کر یونیورسٹیوں کے اردوکے شعبوں
اوراردواکیڈمیوں کوبالتزام بھیجا جائے تاکہ اردوزبان وادب کے خودساختہ
ٹھیکیداروں کی آنکھیں تو کھلیں جن کی اکثریت نے مدارس کے فاضلین
اورعلماکواردوکی وراثت سے عاق قراردے دیاہے۔ا س کے ساتھ ساتھ ہندوستان سے
شائع ہونے والے ادبی پرچوں میں براے تبصرہ بھیجی جانی چاہیے ۔
کتاب میں ایک دوجگہوں پرپروف کی غلطیاں بھی دیکھنے کو ملیں اس کاکاغذبہت
مناسب ہے مگرقیمت درج نہیں۔شائقین اسے مجلس برکات ،جامعہ اشرفیہ مبارک
پوراعظم گڑھ یامجلس برکات، 149گراؤنڈفلور،کٹراگوکل شاہ بازار،مٹیامحل جامع
مسجد،دہلی 110006 سے منگواسکتے ہیں ۔ |