کچھ سیاسی پنڈت یہ سمجھتے ہیں کہ
کینیڈا سے آنیوالے متنازعہ اسلامی نظریات کے علمبردار طاہر القادری کی طرف
سے انتخاب سے پہلے اصلاحات کاشوشہ صرف اورصرف انتخابات ملتوی کرانے کیلئے
چھوڑاگیا ہے اورظاہر اس التواءکاتمام ترفائدہ براہ راست پیپلزپارٹی کے سوا
کسی سیاسی یامذہبی جماعت کونہیں ہوگاکیونکہ کارکردگی کے معاملے میں زرداری
لیگ کی قیادت کے دونوں ہاتھ خالی ہیں جبکہ بدعنوانی سے ہتھیائی دولت سے ان
کی تجوریاں بھری پڑی ہیں۔ ہمارے ایک جان پہچان والے سیاسی نجومی کاماننا ہے
کہ طاہرالقادری کا شوسپانسرڈ ہے اوراس پر صرف کی جانے والی بھاری رقم صدر
آصف علی زرداری کے ایک معتمدسرمایہ داردوست نے فراہم کی ہے کیونکہ وہ اس
دوستی کیلئے اپنا بہت کچھ داﺅپرلگاچکے ہیں۔زرداری حکومت کامزید برقراران کی
کاروباری بقاءکیلئے ناگزیر ہے۔اگر ایسا ہے تو میں صدر زرداری سے کہوں گاکہ
اب بھی وقت ہے وہ ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ کسی قسم کی کوئی کمٹمنٹ اوران
پر مزید انوسٹمنٹ کرنے سے پہلے ان کی مخصوص عادات اورفطرت معلوم کرنے کیلئے
ان کے سابقہ محسن میاں نوازشریف سے رجوع کریں۔شریف خاندان نے طاہرالقادری
کوبیحدنوازامگر ان نوازشات اوراحسانات کاانجام کسی سے پوشیدہ نہیں ہے۔میاں
نوازشریف نے پرویزمشرف،صدرآصف زرداری، چودھری برادران ،میاں
اظہر،طاہرالقادری،عمران خان، اورجاویدہاشمی سمیت جس کسی کاہاتھ تھامااوراس
پراحسان کیا تواس نے پلٹ کے میاں نوازشریف کوڈنگ ضرورمارااس کے باوجود میاں
نوازشریف کی صلہ رحمی والی عادت نہیں بدلی وہ اپنے ساتھ بغض ، عداوت
اورتعصب رکھنے والے سیاسی بونوں کوبھی اپنے کندھوں پربٹھاتے اورقومی دھارے
میں لے آتے ہیں۔اس وقت ملک وقوم کوایک ایسے لیڈر کی ضرورت ہے جودل توڑنے کی
بجائے جوڑنے میں مہارت رکھتا ہو۔ طاہرالقادری ریاست بچانے نہیں بلکہ سیاست
چمکانے اورمال بنانے آئے ہیں۔
طاہرالقادری کے بیانات میں تضادات ہیں ،گرگٹ کی طرح ان کاموقف ہرروزبدلتا
ہے۔میاں شہبازشریف سمیت مختلف سیاستدانوں کی طرف سے طاہرالقادری کو ایک
شعبدہ باز کہا جارہا ہے۔پاکستان کے سنجیدہ لوگ آج بھی انہیں پسندنہیں کرتے
۔طاہرالقادری کاایجنڈا ریاست پاکستان کیلئے زہرقاتل ہے ،سیاست کی طاقت سے
پاکستان معرض وجودمیں آیا تھا اوراس کااستحکام بھی سیاست اورجمہوریت سے
وابستہ ہے۔سیاست کاراستہ روکنے والے پاکستان اورپاکستانیوں کے دشمن
ہیں۔ریاست ،سیاست ،جمہوریت اورمعیشت کاآپس میں بڑا گہرارشتہ ہے۔ جمہوریت کے
بغیرسیاست اورسیاست کے بغیر ریاست کاتصور بھی نہیں کیا جاسکتا۔پاکستان میں
ووٹ کے سوا کوئی تبدیلی قابل قبول نہیں ہوگی ۔ طاہرالقادری یادرکھیں وہ میر
جعفر اورمیرصادق کے نقش قدم پرچل رہے ہیں لہٰذا ان کاانجام بھی ان سے مختلف
نہیں ہوگا۔سیاست پرضرب لگانے سے ریاست زخمی ہونے کاڈر ہے ،سیاست کے فروغ سے
پاکستان کوتقویت ملے گی ۔ میاں نوازشریف کوتیسری یاچوتھی باروزیراعظم منتخب
کرنے کااختیارصرف عوام کے پاس ہے ،زرداری لیگ والے اپنی دکانداری بندہونے
پرپریشان ہورہے ہیں اوراپناسیاسی مستقبل بچانے کیلئے طاہرالقادری کومیدا ن
میں اتاردیا۔ پرویزمشرف کے دورآمریت میں جس وقت مسلم لیگ (ن) کی قیادت
پابندسلاسل تھی اورپھر ملک بدرکردی گئی اور ان کے کارکن بحالی جمہوریت کی
جدوجہدکرنے کی پاداش میں سیاسی انتقام کانشانہ بن رہے اس وقت طاہرالقادری
اور عمران خان فوجی آمر کی آغوش میں بیٹھے ہوئے تھے ۔ پرویزمشرف نے جب
صدرمنتخب ہونے کیلئے نام نہاد ریفرنڈم کرایاتھا اس وقت بھی طاہرالقادری اور
عمران خان فوجی آمر کیلئے ووٹ مانگ رہے تھے ،انہیں قومی قیادت پرانگلی
اٹھانے کاکوئی حق نہیں پہنچتا۔
ایک بار طاہرالقادری ہمارے ایک عزیز دوست کی دعوت پران کے ہاں جلوہ افروز
ہوئے۔طاہرالقادری کو کمر کا درد بھی ہوتا ہے اور اس دردپر قابو پانے کیلئے
وہ ایک مخصوص گدی استعمال کرتے ہیں۔یہ گدی رکھنے اور اٹھانے کےلئے ایک
خصوصی ملازم بھی ان کے ہمراہ تھا۔ گاڑی میں ڈرائیور کے علاوہ ان کے دو عدد
بندوق بردارگارڈ بھی چاک و چوبند دکھائی دے رہے تھے۔ایک خادم ہر دس منٹ بعد
آگے بڑھتا اور جھک کرطاہرالقادری کے جوتوں کو چمکاتا اوراپنے دونوں ہاتھ
باندھ کر دور جاکر کھڑا ہوجاتا۔ ہمارے یہ عزیز دوست اکثروبیشتر مختلف شعبہ
جات سے تعلق رکھنے والی ممتازاورقدآورسیاسی شخصیات کےلئے دستر خوان بچھاتے
ہیں۔ انہوں نے اپنی نیت کی خوبصورتی کی طرح اس دعوت کا اہتمام بھی انتہائی
خوبصورتی سے کیا تھا۔ راقم کو نوالے گننے کی عادت نہیں لیکن درجن بھر ڈشیں
دیکھنے کے بعد شمار کرنے کو جی چاہا۔ حیرت ہوتی ہے کہ طاہر القادری جیسے
سمارٹ اور سڈول جسم والے عالم دین نے کم خوراکی کے مسلسل دعووئں کے باوجود
تقریباً ہر ڈش سے جی بھر کر کھایا۔ ہوسکتا ہے کہ ان کی خوش خوراکی کا سبب
میزبان کا اصرار ہو۔ جب سویٹ ڈشیں پیش کی جانے لگیں توطاہر القادری نے از
راہ تکلف فرمایا” اتنی ڈشیں ایک غریب آدمی کو کہاں میسر آتی ہیں،میں نہیں
کھاﺅں گا“ راقم سے رہا نہ گیا اور ازراہ تفنن عرض کی جہاں اٹھارہ ڈشیں آپ
کھا گئے وہاںچار یہ بھی تناول فرمائیے۔
عرض کرنے کا مدعا و مقصد یہ ہے کہ آصف علی زرداری جو کہ سیاست میں ایک ماہر
سرمایہ کارثابت ہوئے ہیں وہ ایسی غلطی کر ہی نہیں سکتے۔ لیکن اگر ان کے
خیرخواہوں نے زرداری اقتدار کی طوالت کےلئے ڈیڑھ دو ارب روپے لٹانے کا
فیصلہ کر لیا ہے تو ہم ان کےلئے صرف دعائے خیر ہی کرسکتے ہیں۔مبینہ انتخابی
اصلاحات کی تفصیلات بھی دھیرے دھیرے سامنے آرہی ہیں۔مثلاً ایم کیوایم جو کہ
اس وقت طاہر القادری کو سب سے زیادہ سپورٹ کر رہی ہے اس کے نزدیک سب سے بڑی
انتخابی اصلاح یہ ہے کہ سیکرٹری الیکشن کمیشن کو فوری طور پر تبدیل
کردیاجائے۔ ''ہنوزدلی دوراست''کے مصداق ابھی چودہ جنوری کادن بہت دورہے۔
طاہر القادری اصلاح کی پٹاری سے اسی طرح کے انڈے بچے مزید نکلنے کا امکان
ہے۔جہاں تک طاہر القادری کے اعلان کردہ ملین مارچ کا تعلق ہے تو مارچ جنوری
کے بعد آتا ہے۔ اسلئے حافظ سعید نے طاہر القادری کومفت اورمفید مشورہ دیا
ہے کہ وہ اس قدر تیز رفتاری کامظاہرہ نہ کریں ، جنوری میں مارچ نہیں ہوا
کرتا۔ بعض سازشی گروہ یہ افواہ بھی پھیلا رہے ہیں کہ طاہر القادری خود نہیں
آئے بلکہ بھرپورتیاری کے ساتھ بھیجے گئے ہیں جبکہ بعض کا خیال ہے کہ بلائے
گئے ہیں۔بلانے والے کون ہیں کوئی حتمی جواب نہیں ہے۔ جہاں تک جی ایچ کیو
والوں کا تعلق ہے تو وہ ”نادرا“ کے دفتر میں الیکشن کمیشن کے چیف سے ملاقات
کر چکے ہیں اور چیف آف الیکشن کمیشن کو آرمی چیف نے یقین دہانی کرادی ہے کہ
وقت مقررہ پر انتخابات کرانے کیلئے فوج بھرپور تعاون کرے گی۔ جب سے طاہر
القادری کو اس ملاقات کا علم ہوا ہے وہ بار بار وضاحتیں کرنے لگے ہیں کہ
”میرا ایجنڈا الیکشن ملتوی کرانا نہیں“۔حالانکہ مینار پاکستان میں
نمازعصراوراذان مغرب کو نظرانداز کرتے ہوئے انہوں نے یہی فرمایا تھا کہ
آئین میں نوے دنوں میں الیکشن کرانے کی کوئی پابندی نہیں۔ میرا ذاتی سا
خیال ہے کہ کور کمانڈرز کی کوئی ایک کانفرنس اور آئین کا ساتھ نبھانے کا
فوجی اعلان طاہر القادری کو جی ٹی روڈ یا موٹروے پر چڑھنے سے روکنے کےلئے
کافی ہوگا۔
قارئین ! میں طاہرالقادری کی خطابت کا دل سے قائل ہوں اور مجھے ان کی
کینڈین شہریت پر بھی کوئی اعتراض نہیں۔ بلکہ میرے جیسے مداح تو چاہتے ہیں
کہ وہ کینیڈا کے بعدجاپان،برطانیہ ،امریکہ، آسٹریلیااورانڈیا کی شہریت بھی
لے لیں اور وہاں کے کافروں کو اپنے افکار سے محظوظ فرماتے رہیں۔ کچھ یارلوگ
یہ سمجھتے ہیں کہ طاہر القادری سیاسی اسٹیج پر ایک مہمان اداکارہیں اوران
کاکرداربہت مختصر ہے جبکہ کچھ کاکہنا ہے کہ طاہر القادری آئندہ کے انتخابات
میں سودے بازی کی بہترین پوزیشن میں ہوں گے تاہم چودہ جنوری کوحقیقت حال
پوری طرح منظرعام پرآجائے گی تاہم مجھے ذاتی طورپر طاہرالقادری کاانجام
سونامی خان سے مختلف نہیں لگتا۔ |