سانپوں کا موسم

ہمارے ملک کے لئے سال 2013میں سیاسی ماحول کافی بدلا بدلا سا نظر آ رہا ہے۔ خاص بات یہ لگتا ہے کہ اب ملک کے لئے اور یہاں بسنے والے باسیوں کے لئے کچھ اچھا ہونے جا رہا ہے۔ سیاسی پارٹیوں میں بھی اقتدار کی کشش کے ساتھ کچھ اچھا کرنے کا جذبہ اُبھر رہا ہے جو ملک و عوام کیلئے نیگ شگون ثابت ہو سکتا ہے۔حالاتِ حاضرہ کے پیشِ نظر آج کل اخبار و رسائل اور خاص کر میڈیا کے اندر جو باتیں پڑھنے اور سننے کو مل رہی ہیں ان میں لانگ مارچ کا ایشو بہت زوروں پر ہے ۔ اس بارے میں لوگوں کا تو یہ کہنا ہے کہ اگر بہتر پاکستان کے لئے یہ لانگ مارچ ہو رہا ہے تو ضرور ہونا چاہیئے مگر سیاست کے انداز نرالے ہوتے ہیں اور وہ بھی ہمارے ملک میں تویہ انداز بالکل ہی جداگانہ ہیں۔ کوئی لانگ مارچ سے لوگوں کو ڈرا رہا ہے تو کوئی گھروں میں رہنے کی تلقین کر رہا ہے اور تو اور وزیرِ داخلہ صاحب نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ اسلام آباد میں سانپوں کی بہتات ہے ۔ اب جو لوگ ان کے مخالف ہیں وہ اس جملے کو بہت آڑے ہاتھوں لے رہے ہیں کہ موصوف نے بالکل صحیح کہا ہے انہوں نے کہ اس خوبصورت شہر میں سانپ بہت ہیں، اور لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ ہم اُن سانپوں کو وہاں سے بھگانے ہی آ رہے ہیں۔ اسی لئے کہتے ہیں کہ جملے ادا کرتے ہوئے بہت محتاط رہنا چاہیئے اور خاص کر ایسے بندوں کو جن کے جملوں کو میڈیا اور عوام فوراً ہی اُچک لیتے ہیں۔ فیس بک پر ایسے ہی رو گردانی کرتے ہوئے ایسے ایسے القاب دیکھنے کو ملے کہ بس صرف ہنسنے کے اور کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ وہیں ایک اور جملہ بھی پڑھنے کو ملا کہ وزیرِ داخلہ صاحب پریشان نہ ہوں کہ قادری صاحب سانپوں کا زہر چوس لیں گے تاکہ آئندہ کوئی سانپ عوام کو ڈسنے کی کوشش نہ کر سکے۔

سانپوں سے یاد آیا کہ سانپ کی بہت ساری قسمیں بھی تو ہوتی ہیں ، مگر راقم کے خیال میں جو لوگ اللہ سے ڈرتے ہیں انہیں کسی سانپوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں ،کیونکہ سانپوں کی چونکہ قسمیں ہوتی ہیں اس لئے مارگلہ کے سانپوں کو پتہ ہے کہ لوگ کس مقصد کے لئے وہاں جمع ہو رہے ہیں یعنی کہ انہی کا کام کرنے لوگ جمع ہوئے ہیں اس لئے وہ فی الحال اپنے بلوں میں ہی رہیں۔ اور یہ کام لانگ مارچ کے شرکاءکو کرنے دیں۔ مزہ تو جب ہی ہے کہ اس کڑاکے کی سردی میں لوگ تحریر اسکوائر بنے رہیں مگر یہ بھی ذہن میں رہے کہ اعلان کے مطابق ایک گملہ بھی نہ ٹوٹے، کیونکہ ہمارا ملک پہلے ہی بہت توڑ پھوڑ، قتل و غارت گری، اموات کے دلدل میں پھنسا ہے اس لئے اب سب کو بالغ النظر ہوکر زندہ دلانِ پاکستان بن کر سوچنے کی ضرورت ہے۔یہ الگ بات ہے کہ حالات کے پیشِ نظر مارگلہ کے احاطے میں موبائل سروس کی لوڈ شیڈنگ کر دی جائے اور آپ اپنے عزیزوں ، رشتہ داروں کو اپنی خیریت کا حال بھی نہ سنا سکیں بلکہ سردی کی شدت کا بھی نہیں بتا سکیں گے۔

چونکہ سب لوگ جو شرکاءکی زمرے میں آئیں گے وہ بھی ہمارے ہی ملکوں کے باسی ہیں اور وطن سے محبت کرنے والے بھی ہیں چاہے وہ سیاست کے مکین ہوں یا کوئی عام فرد ، دونوں فریقوں کی گفتگو کو ملحوظِ خاطر رکھ کر سوچا جائے تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ دوستی کی تمنا کی خوشبو ان میں رچی بسی ہوئی ہے ، صرف سیاسی طور پر ایک دوسرے سے دوری ہے وگرنہ سب ہی دوستی اور مفاہمت کے خواہاں ہیں۔ عداوت اپنی جگہ اور دوستی اپنی جگہ اس وقت شہرِ مارگلہ میں واقعی افرا تفری مچی ہوئی ہے ، کچھ لوگ امن و امان کے مسئلہ پر ڈر رہے ہیں، کچھ لوگ حالات کی سنگینی سے ڈر رہے ہیں اور کچھ لوگ دھماکے سے بھی خوفزدہ ہیں ، اور لانگ مارچ کروانے والے پُر امید ہیں کہ چار میلین افراد آجائیں گے۔ بقول ایک اخبار کے اگر چار میلین لوگوں کا اجتماع ہو جاتا ہے تو پہلی گاڑی اسلام آباد اور آخری گاڑی کا وجود لاہور میں ہی ہوگا۔ اس بات کو من و عن مان بھی لیا جائے تو یہ کہا جا سکتا ہے کہ پہلی گاڑی اسلام آباد میں اور آخری گاڑی کم از کم گجرات تک تو ہوگا ہی۔

لانگ مارچ کا اعلان تو اب ہوا ہے ، اس سے ہٹ کر ملکی حالات کا جائزہ لیا جائے تو واقعی کچھ بھی اچھا نہیں کے مصداق بس حکومت چل رہی ہے اور سیاست دان دوڑ رہے ہیں ۔ جبکہ ہمارے یہاں ملکی خود مختاری کو بھی بالائے طاق رکھ کر ڈرون طیارے ہماری سر زمین پر آئے دن ڈرون گراتے رہتے ہیں، اور پتہ نہیں ان میں قصور وار کتنے اور بے قصور کتنے مارے جاتے ہیں۔ اُسامہ کی رہائش کا علم نہ ہونا بھی ہماری کمزوری ہی تصور کی جاتی رہی ہے، اور اس پر آپریشن بھی ہمیں شامل کئے بغیر کر لیا گیا۔ اس کے علاوہ قتل و غارت گری، دہشت گردی، مہنگائی، بیروزگاری، گیس، بجلی کی لوڈ شیڈنگ، اور کبھی کبھی موبائل سروس کی بھی لوڈ شیڈنگ ، ان تمام کے علاوہ بھی اور عفریت ہیں جو عوام کو اپنے حصار میں لئے ہوئے ہے۔ ان سے نبرد آزما ہونے کے بارے میں حکومت کو ہی فیصلہ کرنا تھا کہ یہ تمام خرابیاں دور ہو جاتیں مگر ایسا نہیں ہو سکا اس لئے امپورٹیڈ ہی سہی کوئی تو عوام کی داد رسی کے لئے میدانِ عمل میں آیا ہے۔اعلان تو یہ بھی ہے کہ یہ مارچ کسی حکومت کے خلاف نہیں ہے اور نہ ہی کسی سیاسی جماعت کے خلاف ہے بلکہ یہ صرف نظام کی درستگی کے لئے ہے۔ تو ہونے دیں یہ مارچ اور پھر سب کچھ اللہ پر چھوڑ دیں ۔ انشاءاللہ سب بہتر ہی ہوگا۔
مالداری‘ شان و شوکت ‘ جاہ و حشمت اک طرف
آدمی کچھ بھی نہیں گر آدمی انساں نہیں
تم اگر چاہو فرشتہ بننا آسان کام ہے
آدمی انساں بنے ‘ یہ کام کچھ آساں نہیں

آج کل انسانی ارتقا اور بیداری کے نظریہ پر بحث چھڑی ہوئی ہے۔ ایسے موضوعات وقفے وقفے سے اٹھائے جاتے رہتے ہیں ۔ آج انسانوں کے ہاتھوں سے وقت کی برکت چھین لی گئی ہے ، پہلے زمانہ کے لوگ عمر کے آدھے سے زیادہ حصہ عبادت میں گزارتے تھے ، مگر آج عبادت کے لئے لوگوں کے پاس وقت نہیں ہے۔جبکہ دانشمندی کا تقاضا ہے کہ بندا ہر وقت اللہ کو یاد کرتا رہے تاکہ تمام ناسور سے اور خاص کر سانپوں سے محفوظ رہ سکے۔

ہمارا ملک بھی امیروں اور غریبوں کی چاشنی ہے جہاں پر مختلف فرقوں، ذاتوں سے وابستہ لوگ مل جل کر رہتے آئے ہیں ، سیاسی مفادات کے تحت اتھل پتھل کرانے اور مختلف فرقوں میں اختلافِ رائے پیدا کرانے کے باوجود ہمارا مزاج بدلنے میں ناکام رہے ہیں۔ کچھ تنگ ذہن عناصر حقیر مفادات کے لئے منظم ہوکر ایسی حرکتوں کے مرتکب ہوتے ہیں وقتی طور پر سماجی تانا بانا ضرور متاثر ہوتا ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ ہم سب ایک نہیں ہیں، کوئی بھی مشترکہ معاملہ ہو تو عوام کے ساتھ ساتھ سیاسی اکابرین بھی مشترک ہو جاتے ہیں تو ان سانپوں سے بھی نبرد آزما ہونے کے لئے صف بندی کر لیں تاکہ سانپوں سے آپ سمیت ملک کے باسی بھی محفوظ ہو جائیں۔ امید ہے کہ کڑاکے کی سردی میں یہ سانپ اپنے بلوں میں ہی رہنا پسند کریں گے۔
Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui
About the Author: Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui Read More Articles by Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui: 372 Articles with 368225 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.