شروع اﷲ کے نام سے جو بڑا مہربان
اور نہایت رحم والا ہے
کسی بھی ریاست کے سیاسی استحکام اور سالمیت کے لئے جمہوری رویے اور عوامی
حکومتیں ناگزیر ہوتی ہیں۔ جمہوری ادوار میں اپنے مسائل پر بات کی جاسکتی
ہے۔حکومت پر تنقید کے ذریعے اس کا قبلہ درست کیا جاسکتا ہے۔مسائل پر غور
کرنے کےلئے مختلف فورم ہوتے ہیں۔جہاں ان کو بحث ومباحثہ کے ذریعے کیا جا
سکتا ہے مختلف گروہوں اور صوبوں کے اختلاف کو طاقت کے ذریعے دبادینے کی
بجائے ان کی وجوہات تلاش کی جاتی ہیں۔اور پھر ان کو دور کرنے کی کوشش کی
جاتی ہے اپنے نمائندوں کے ذریعے اس نظام میں عوام کی شرکت سے اپنائیت کا
جذبہ پیدا ہوتا ہے نفرتیں اور ہرقسم کی تعصبات دور ہو تے چلے جاتے
ہیں۔الغرض پاکستان بحیثیت ایک وفاقی ریاست آمرانہ حکومتوں اور غیر جمہوری
رویوں کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اس کو مضبوط رکھنے کےلئے جمہوری نظام حکومت کا
تسلسل ازحد ضروری ہے۔عوام میں عدم اطمینان اور باہمی غلط فہمیاں مرکز کو
کمزور کرنے کا اہم سبب ہیں جبکہ یہ عدم استحکام ہمیشہ غربت، بے روزگاری،
مہنگائی اور معاشی ناہمواری کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔معاشی بدحالی نہ صرف
سیاسی عدم استحکام بلکہ معاشرتی انتشار کو بھی جنم دیتی ہے۔ایک بھوکے فرد
کو دورویٹوں کی خاطر آسانی سے ناپاک عزائم کے لئے استعمال کیا جاسکتا
ہے۔پاکستان کو معاشی میدان میں بے شمار مشکلات کا سامنا رہا ہے ۔ملک کی
آبادی میں تیزی سے اضافہ ہوتا رہا۔ذرائع روزگار مسدود ہوتے چلے گئے
ہیں۔روپے کی قمیت میں کمی،تجارتی خسارے اور ملکی پیداوار میں خاطر خواہ
اضافہ نہ ہونے کے باعث عوام مہنگائی کی دلدل میں دھنستی جا رہی ہے۔ترقیاتی
منصوبوں کی ناکامی اور بدعنوانی نے عوام کو بنیادی سہولیات سے محروم کر
رکھا ہے ہر دور میں معاشی منصوبہ بندی سے مخصوص طبقات تو فائدہ اٹھاتے رہے
لیکن عوام تک ان کے ثمرات نہیں پہنچ سکے۔ایک کریلا دوسر انیم چڑھا کے مصداق
معاشی وسائل کم تو تھے ہی ان کی غیر مناسب تقسیم نے یہ مسئلہ پیچیدہ تر بنا
دیا ہے۔مشرقی پاکستان میں علیحدگی کا سب سے بڑا سبب معاشی ناہمواری اور
وسائل کی غیر منصفانہ تقسیم تھی۔جب اعدادوشمار کے ذریعے اس عدم مساوات کو
اچھالا گیا تو محرومیوں کے شکار لوگ ایک انتہائی فیصلے کے لئے آسانی سے
آمادہ ہوگئے۔وسائل کی تقسیم کا تنازعہ ملک کے مختلف صوبوں اور طبقات میں
نفاق اور عدم اعتمادی کا باعث بنتا ہے جس سے علیحدگی کی تحریکیں جنم لیتی
ہیں پاکستان میں ان مسائل کو سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا اس لئے ان میں اضافہ
ہوتا جا رہا ہے۔سندھ کے لوگوں کو پانی کی تقسیم پر اعتراضات ہیں۔معدنی
ذخائر سے مالامال صوبہ بلوچستان گیس اور دیگر معدنی وسائل کی آمدنی سے
مناسب حصہ نہ ملنے کی شکایت کر تا ہے۔گوادر جیسے بڑے ترقیاتی منصوبے میں
بلوچی عوام اپنا حصہ مانگتے ہیں اسی طرح کے پی کے ،کے لوگوں کے بھی مطالبات
ہیں۔اور جب ان کے مطالبات کو نظرا نداز کیا جاتا ہے تو پھر اپنے وسائل پر
مکمل کنٹرول کی تحریک سامنے آتی ہے۔علاوہ ازیں مرکز کی جانب سے صوبوں کو
ملنے والی مالی امداد کی تقسیم کے فارمولے سے بھی صوبے خوش نہیں ہیں۔اس
صورتحال میں وفاق کی سالمیت اور استحکام کے لئے ضروری ہے کہ ان شکایات پر
توجہ دی جائے۔ |