متحدہ کے قائد نے گذشتہ دنوں اعلان کیا کہ
وہ ایک ایسا سیاسی ڈرون حملے کرنے والے جس کا جواب کسی کے پاس نہیں ہوگا،
ہمیں تو پتہ تھا کہ یہ صرف خالی خولی بیان بازی اور میڈیا میں رہنے کا ایک
طریقہ ہے اور کچھ نہیں اور ان کے سیاسی ڈرون میں کوئی نئی بات نہیں ہوگی۔
لیکن لوگوں کو بڑی بے چینی سے اس کا انتظار تھا ، کچھ افواہیں کراچی کی
فضاؤں میں گشت کررہی تھیں کہ ’’آفاق احمد دوبارہ ایم کیو ایم میں شامل
ہورہے ہیں‘‘ ’’الطاف حسین واپس آرہے ہیں‘‘ ’’ الطاف حسین سیاست سے کنارہ
کشی کا اعلان کررہے ہیں وغیرہ وغیرہ لیکن جب ان کا خطاب منظر عام پر آیا تو
اس میں سوائے فضولیات کے اور کچھ بھی نہیں تھا۔ہاں اگر کچھ تھا تو وہ یہ کہ
انہوں نے ایک بار پھر قائد اعظم ؒ کی ذات کو متنازع بنانے کی کوشش کی ۔ یہ
مضمون لکھنے کے دوران پتا چلا کہ الطاف بھائی نے ایک بار پھر قلابازی کھائی
اور لانگ مارچ میں شریک ہونے علانات اٹھارہ گھنٹے سے بھی کم وقت میں واپس
لے لیے گئے۔ یہ بازو میرے آزمائے ہوئے ہیں۔
خیر یہ تو متحدہ کا اندرونی معاملہ ہے ہم بات کر رہے تھے کہ انھوں نے قائد
اعظم ؒ کی ذات کو متنازع بنانیاور ایک بار پھر لوگوں کو گمراہ کرنے کی
مذموم کوشش کی۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ ابتداء میں بحیثیت گورنر جنرل
جو حلف اٹھائے گئے وہ برطانوی آئین کے تحت اٹھائے گئے تھے لیکن کیا اس وقت
پاکستان کا آئین موجود تھا؟؟ جواب ہے کہ نہیں اور الطاف صاحب نے خود بھی
یہی بات کہی کہ بحالتِ مجبوری انھوں نے یہ حلف اٹھایا لیکن اس کے بعد انھوں
نے قائد اعظم ؒ سے اپنا اور دیگر دہری شہریت والوں کا موازنہ شروع کردیا ۔
آگے بڑھنے سے پہلے یہ بات ہوجائے کہ آیا سپریم کورٹ نے تمام اوورسیز
پاکستانیوں کے خلاف کوئی فیصلہ دیا ہے یا آئین پاکستان کے مطابق بات کی ہے؟
دہری شہریت کے معاملے پر ایم کیوایم پہلے روز سے ہی لوگوں کو گمراہ کرنے کی
کوشش کررہی ہے اور سپریم کورٹ کے فیصلے کو اوورسیز پاکستانیوں کے خلاف ثابت
کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ پہلی بات تو یہ یاد رکھیں کہ تمام ہی اوورسیز
پاکستانی ہمارے لیے بہت قابل احترام ہیں۔ وہ اپنے گھر والوں،ماں باپ، بیوی
بچوں بہن بھائی سے مجبوری کی وجہ سے دور ہوتے ہیں اور دیار غیر میں رزقِ
حلال کماتے ہیں۔ وطن اور اپنوں سے دوری کا کرب شائد میں اور آپ نہ جانتے
ہوں اس کرب سے جو گذرتا ہے وہی اس کو بہتر بیان کرسکتا ہے۔ وطن سے دور یہ
تمام لوگ پاکستان کے غیر اعلانیہ سفیر ہوتے ہیں اور انفرادی طور پر اپنے
وطن کا نام روشن کرنے کی حتی الامکان کوشش کرتے ہیں۔ دوسری جانب یہی
اوورسیز پاکستانی زر مبادلہ کی شکل میں پاکستانی معیشت کو بھی بہت سہارا
دیتے ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ یہ جو عام اوورسیز پاکستانی ہیں یہ بے چا رے بھی
ہماری آپ کی طرح مظلوم ہیں اور ملک کے کرپٹ نظام اور دھوکا دہی کلچر کا
شکار ہوتے ہیں، وطن واپسی پر ائر پورٹ سے نکلتے ہیں ان کو پولیس اور دیگر
ایجنسی کے ارکان گھیر لیتے ہیں اور مختلف بہانوں سے ان سے رقم بٹوری جاتی
ہے، اس کے بعد بھی ان کا پیچھا نہیں چھوڑا جاتا اور ان کے تعاقب کرکے گھر
دیکھا جاتا ہے اور ایسے کئی واقعات ہوئے کہ ان اوورسیز پاکستانیوں کو وطن
واپسی کے کچھ روز بعد ہی ڈکیتی کا سامنا کرنا پڑا۔ گذشتہ دنوں ایک انٹرنیشل
اردو اخبار میں مسلسل ایک فیچر چھپتا رہا جس میں اسلام آباد اور لاہور سے
تعلق والے کئی اوورسیز پاکستانیوں کے ساتھ یہ ظلم ہوا کہ وہ بچارے وہاں سے
پیسہ پیسہ جوڑ کر یہاں پلاٹ لیکر مطمئن ہوگئے کہ وطن واپسی سے پہلے اس پلاٹ
پر اپنا گھر بنائیں گے لیکن جب کچھ سالوں کے بعد انہوں نے وطن آنے کے بعد
اپنے پلاٹ کا وزٹ کیا تو معلوم ہوا کہ وہ جگہ تو اب کسی اور کی ہوچکی ہے ان
کی زمینوں پر منظم مافیاز نے قبضہ کرلیا ہے اور یہ بے چارے ان کا کچھ بگاڑ
بھی نہیں سکتے ہیں۔مقصد یہ کہ اوورسیز پاکستانی بھی ہماری آپ کی طرح ملکی
کرپٹ نظام اور دھوکا دہی کا شکار ہوتے ہیں۔
ایک طرف یہ عام اوورسیز پاکستانی ہیں دوسری جانب وہ کرپٹ، مفاد پرست سرمایہ
دا ر اور سیاست دان ہیں جو کہ حالات ساز گار دیکھ کر یہاں آتے ہیں ، کرپشن
کرتے ہیں، مفادات حاصل کرتے ہیں، اور نا موافق حالات کو دیکھتے ہوئے دوبارہ
یہاں سے رخصت ہوجاتے ہیں اور عوام کو یہ راگ سنایا جاتا ہے کہ ہمیں جلا وطن
کردیا گیا ہے حالانکہ ایسی کوئی بات نہیں ہوتی ہے اگر کوئی فرد جرم کرے گا
تو سزا کے لیے بھی تیار رہے۔ بہرحال سپریم کورٹ نے آئین کے مطابق دہری
شہریت والوں کو پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دیدیا۔اس فیصلے کی زد
میں عام اوورسیز پاکستانی تو کسی صور ت نہیں آتے ہیں۔ اوورسیز پاکستانیوں
کی نیت پر کوئی شبہ نہیں ہے لیکن جس طرح مجبوری کے تحت بقول الطاف بھائی
دوسرے ملک کی وفاداری کا حلف اٹھایا جاتا ہے تو جب ایسے مجبور لوگوں کو
پارلیمنٹ میں جانے کا موقع ملتا ہے تو اس کا مطلب کہ ان کی مجبوری ختم
ہوگئی اب اگر ان کے دلوں اچانک میں قوم کا دردجاگ اٹھا ہے تو ’’مجبوری ‘‘
میں لی گئی دہری شہریت کا طوق اتار پھینکیں اور پھر پارلیمنٹ میں آئیں۔
شوکت عزیز دہری شہریت ، ملک کے وزیر اعظم بنے ، ان کے دور کی لگائی ہوئی آگ
میں آج بھی وطن جل رہا ہے لیکن خود شوکت عزیز کہا ں ہیں؟؟کیا وہ پاکستان
میں ہیں؟ جی نہیں وہ امریکہ کی شہریت رکھتے تھے واپس چلے گئے اب ان کو آنے
کی کیا ضرورت ہے ہاں جب کبھی حالات بہتر ہونے جب عوام کی قربانیاں رنگ
لائیں گی، ملک میں امن و امان ہوگا تو اس وقت یہ موصوف پھر نازل ہوجائیں گے۔
یہ کوئی حسین حقانی نام کے بھی ایک صاحب ہوا کرتے تھے ، امریکہ میں امریکہ
کے اوہ معاف کیجیے گا امریکہ میں پاکستان کے سفیر تھے ان کے خلاف یہاں
غداری کا مقدمہ چلا، وہ آئے حالات ناموافق تھے ، سپریم کورٹ سے جھوٹ بولا
کہ امریکہ سے اپنی چیزیں لیکر بس یوں گیا اور یوں آیا، انھوں نے تحریری
وعدے کیے کہ جب عدالت طلب کرے گی میں حاضر ہوجاؤں گا۔ اب کئی ماہ ہوگئے ان
کا واپس آنے کا کوئی ارداہ نہیں ہے ان کے پاس بھی امریکی شہریت ہے اس لیے
اب ان کے نزدیک پاکستانی عدالتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے ہاں جب حالات
بہترہونگے اس وقت یہ صاحب یہ آکر ملک کو لوٹنے کا فریضہ سر انجام دیں گے۔
عوام کا حافظہ بہت کمزور ہوتا ہے ایک دو سالوں کے بعد لوگ بھول جائیں کے کہ
یہ موصوف یہاں سے کیوں گئے تھے۔
موجودہ صدر آصف علی زرداری صاحب بھی نواز شریف کے دور سے لیکر مشرف دور کے
آخری برسوں تک جیل میں تھے یہ بھی یہاں سے ضمانت پر رہا ہوکرسیدھے دبئی
روانہ ہوگئے تھے اور بی بی کی وفات تک انھوں نے واپس آنے کی کوشش نہیں کی
جب انھوں نے دیکھا کہ اب الیکشن کا دور دورہ ہے اور اسی دوران بی بی صاحبہ
کی شہادت ہوگئی تو انھوں نے بھی موقع سے فائدہ اٹھایا اور پاکستان آگئے ،
یہاں آنے اور صدر بننے کے ابتدائی ایک سال میں ان کا قیام پاکستان سے زیادہ
لندن اور دبئی میں رہا ہے۔یہ جو وفاقی وزیر داخلہ صاحب ہیں انہوں نے اپنی
شہریت کردی ہے ورنہ یہ بھی ملکہ برطانیہ کے حلف برداروں میں سے تھے۔نواز
شہباز شریف بھی مشکل وقت میں ملک چھوڑگئے تھے۔اب ان لوگوں اور ان جیسے دیگر
سیاست دانوں کا کردار دیکھیں اور پھر یہ فیصلہ کیجیے کہ کیا آئین کی یہ شق
غیر ضروری ہے؟؟ کیا مفاد پرست سیاستدانوں کے طرز عمل کے بعد سپریم کورٹ کا
اس معاملے میں فعال ہونا درست نہیں ہے؟؟؟ اور کیا ان ساری باتوں کا تعلق ان
عام اوورسیز پاکستانیوں سے ہے یا وہ مفاد پرست ٹولہ جو ہر سیاسی جماعت میں
موجود ہے وہ اس قانون کی ذد میں آتا ہے؟ اس لیے ہم سمجھتے ہیں کہ یہاں
متحدہ کے قائد الطاف حسین اور دیگر رہنماؤں کی جانب سے سپریم کورٹ کے فیصلے
کو اوورسیز پاکستانیوں کے خلاف سمجھنا اور لوگوں کو اس بارے میں گمراہ کرنا
درست نہیں ہے ان کو چاہئے کہ وہ عوام کو گمراہ نہ کریں۔
(جاری ہے) |