یہ تو وقت بتائے گا کہ بڑا کون
ہے لیکن یہ بات سب نے ہی نوٹ کرلی کہ الطاف حسین کو ایک بھائی مل گیا اور
متحدہ قومی موومنٹ کوخدانخواستہ کوئی خلا پیدا ہوا تو متبادل قیادت مل گئی
ہے کیا تقریر تھی۔ کیا خطابت تھی۔ ایک زمانہ تھا سابق وزیر اور متحدہ کے
سابق رہنما نے ایک دعوت افطار میں دوستوں کے قریب ہوکر سوال کیا تھا یار سچ
بتاﺅ میں اچھی تقریر کرتا ہوں یا الطاف بھائی تو سب نے کہا تھا کہ ارے ایسی
بات نہ کرو بھائی نے سن لیا تو تقریر کے قابل نہیں رہو گے بہر حال وہ اب
بھی ٹی وی اینکر بن کر تقریروں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں شاید ان کو بھی
الطاف بھائی نے ان اینکروں کی فہرست میں شامل کرلیا ہو جن کے بارے میں وہ
کہہ رہے تھے کہ اینکرز بکواس کرتے ہیں، صحافی بکواس کرتے ہیں لیکن جوش میں
وہ ان بے چارے اینکرز کو بھی لپیٹ گئے جو دن رات ان کی مدح سرائی میں لگے
رہتے ہیں۔ جن کی نوکری بھی انہوں نے بچائی تھی اور وہ بھی ہیں جنہیں وہ بہت
مراعات دیتے رہتے ہیں۔ بہرحال غصے میں تو کوئی بھی کچھ بھی کہہ دیتا ہے
صحافی اور اینکرز کیا بچتے ہیں سپریم کورٹ کو بھی لپیٹ لیا جاتا ہے۔ بھائی
کے ریمارکس پر کراچی اور حیدرآباد کے باہر صحافیوں نے احتجاج کیا ہے۔ اسلام
آباد سے نیشنل پریس کلب نے صحافیوں اور اینکرز کے بارے میں ریمارکس پر
افسوس کا اظہار کیا ہے اور مذمت کی ہے ان کا مطالبہ ہے کہ کسی سے شکایت ہے
تو اس کا نام لے کر اعتراض کیا جائے لیکن کیا کریں یہاں نام لینے اور اصل
فرد کا نام لینے کی ہمت نہیں ہے جب سپریم کورٹ میں بھتہ مافیا کے خلاف
درخواست زیر سماعت تھی تو مبینہ طور پر قانون دان عاصمہ جہانگیر نے بھی
ہاتھ پاﺅں بچانے کی خاطر کہہ دیا کہ جماعت اسلامی سمیت ساری جماعتیں بھتہ
لیتی ہیں اور سب کے مسلح ونگز ہیں میڈیا کا بھی یہی حال ہے جب دینی جماعتوں
کو کچھ کہنا ہو تو کہتا ہے کہ جماعت اسلامی، اسلامی جمعیت طلبہ اور فلاں
دینی مدرسہ کا نام لے لیا جاتا ہے۔ جمعیت علمائے اسلام کا بھی نام لینے میں
احتیاط کی جاتی ہے اور اگر بات متحدہ کی آجائے تو تمام اینکرز اکثر صحافی
اور رپورٹرز نامعلوم افراد کے نام سارا الزام ڈال دیتے ہیں۔ حالانکہ ان
نامعلوم لوگوں کے نام تک لوگوں کو معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ بکواس کرنے والے
اینکرز اور صحافی پتا نہیں کیوں نام تک نہیں لیتے۔ پھر بھی بکواس کا الزام
سے بے چارے اینکرز اور صحافی شاید اسی لیی وسعت اللہ خان نے اپنے جیسے
صحافیوں کو چھٹ بیٹھے لکھا تھا اب یہ بھی ایک مسئلہ ہے کہ چھٹ بیٹھے کون
ہیں؟ صحافی یا بس اتنا ہی کافی ہے۔ وسعت اللہ پر یاد آگیا کہ وہ پریس کلب
کے الیکشن کے روز بھارتی الیکشن کمیشن کی طاقت اور آزادی کی بات کر رہے تھے
اور ان سے ملتا جلتا ایک جملہ انہوں نے ایڈوانی کے حوالے سے بتایا کہ
الیکشن کمیشن نے طلب کرکے کہا کہ جناب آپ کے جلسے میں نعرے لگے ہیں کہ یہ
سالے بے غیرت تو ہم سالے اور بے غیرت کا مطلب تو سمجھتے ہیں لیکن پہلے لفظ
کا مطلب کیا آپ سمجھا دیں گے ایڈوانی صاحب مطلب تو کیا سمجھاتے ان کے منہ
سے یہ نکل گیا کہ مسلمان بھی ہمارے بھائی ہیں میں تو کہتا ہوں کہ ان کا
احترام کرنا چاہیے کوئی ایسا نعرہ نہیں لگنا چاہیے جس سے مسلمانوں میں
اشتعال پھیلے اس پر الیکشن کمیشن نے ان سے کہا کہ بس یہ ہی لکھ کر دے دو بے
چارے ایڈوانی لکھنے پر مجبور تھے لکھنا پڑا پتا نہیں آج کے بھائی فخر الدین
جی ابراہیم المعروف فخر وبھائی پاکستانی بی جے پی کے قائدین کو طلب کرسکتے
ہیں اور یہ سوال پوچھ سکتے ہیں کہ یہ کتے کے بچے کون ہیں۔ کس کو کہا گیا ہے
کیوں کہا گیا ہے شاید نہیں اس سے زیادہ آسان فخرو بھائی کے لیے استعفی دینا
ہوگا۔ ویسے ابھی تو انہوں نے کہا کہ ہر پولنگ اسٹیشن پر فوج تعینات کی جائے
گی لیکن فوج کرے گی کیا؟؟ یہ بھی ایک سوال ہے پہلے بھی کئی مرتبہ فوج متعین
رہی ہے لیکن بس متعین رہتی ہے اندر گھس کر ٹھپے لگانے والے متعین کی طرح
ٹھپے لگاتے ہیں۔ اور وہ لااینڈ آرڈر قائم کرتے رہتے ہیں تو پھر کیا فائدہ
ایسے متعین ہونے کا۔ اور لاکہاں سے اور آرڈر کہاں۔ بہر حال الیکشن کمیشن کا
امتحان ہے کہ اس قسم کی زبان کے استعمال کا نوٹس لے وہ جو کینیڈا سے آئے
ہیں ان کی پارٹی تو الیکشن کمیشن میں رجسٹرڈ نہیں ہے۔ لیکن متحدہ قومی
موومنٹ تو رجسٹرڈ ہے الیکشن کمیشن یہ سوال ان کے رہنماﺅں سے کرسکتا ہے۔ اور
کرنا چاہیے۔ یہ کہنا بھی اب غلط ہوگا کہ لگے منہ بھی چڑھانے، دیتے دیتے
گالیاں زباں بگڑی تو بگڑی تھی خیر لیجے دہن بگڑا کیونکہ منہ تو پہلے سے
چڑھاتے تھے غفورا ٹھاکے نعرے بھی لگاتے تھے اب یہ زبان بھی استعمال کرڈالی
تو کون سی قیامت آگئی۔ نوٹس تو الیکشن کمیشن سے پہلے لکھنو دہلی آگرہ یو پی
دکن سے پاکستان آنے والوں کو لینا چاہیے کیا یہی تہذیب تھی ہمارے آباﺅ
اجداد کی ووٹ تو بعد میں ڈالا جائے گا لیکن زبان تو اچھی استعمال کرلیں۔ |