سوال
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال مبارک کے دن میلاد منانا کیسا ہے
کیا یہ جو ١٢ ربیع النور کو خوشی مناتے ہیں یہ صحیح ہے یا غلط ہے معترضین
کہتے ہیں کہ اس خوشی کا کرنا صحیح نہیں ہے یہ ١٢ ربیع النور حضور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کے وصال کا دن ہے کیا یہ واقعی صحیح ہے ؟
جواب شافع
پہلی بات تو یہ کہ ١٢ ربیع النور حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی
تاریخ وصال ہی نہیں، چنانچہ اس مسئلہ کی تحقیق فرماتے ہوئیے اعلیٰ حضرت
امام اہل سنت مجدد دین و ملت مولانا احمد رضا خاان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے
ہیں : '' تفصیل مقام و توضیح مرام یہ ہے کہ وفات اقدس ماہ ربیع الاول شریف
روز دو شنبہ میں واقع ہوئی اس قدر ثابت و مستحکم و یقینی ہے جس میں اصلا
جائے نزاع نہیں '' مزید فرماتے ہیں : '' اودھر یہ بلا شبہ ثابت کہ اس ربیع
الاول سے پہلے جو ذی الحجہ تھا اسکی پہلی روز پنجشبہ تھی کہ حجۃ الوداع
شریف بالاجماع رو زجمعہ ہے۔ اور جب ذی الحجہ ١٠ ھ کی ٢٩ رزو پنجشبہ تھی
ربیع الاول ١١ ھ کی ١٢ کسی طرح روز دو شنبہ نہیں آتی کہ اگر ذی الحجہ
محرم صفر تینوں مہینے ٣٠ کے لئے جائیں تو غرہ ربیع الاول روز چار شنبہ
ہوتاہے اور پیر کی چھٹی اور تیرھویں اور اگر تینوں ٢٩ کے لیں تو غرہ روز
یکشنبہ پڑتا ہے اور پیر کی دوسری او رنویں او راگر ان میں کوئی سا ایک ناقص
او رباقی دو کامل لیجئے تو پہلی سہ شنبہ کی ہوتی ہے اور پیر کی ساتویں
چودھویں ا ور اگر ایک کامل دو ناقص مانیے تو پہلی پیر کی ہوتی ہے پھر
پیرایک آٹھویں ، پندرھویں غرض بارھویں کسی حساب سے نہیں آتی اور چار کے سوا
پانچوںیا کوئی صورت نہیں۔ قول جمھور (پر یہ اشکال پہلے امام سہیلی کے خیال
میں آیاا ور اسے لا حل سمجھ کرا نھوں نے قول یکم اورامام ابن حجر عسقلانی
نے دوم کی طرف عدول فرمایا۔ مگر امام بدر بن جماعہ نے قول جمھور کی یہ
تاویل کی کہ اثنی عشر خلت سے بارہ دن گذرنا مردا ہے نہ صرف بارہ راتیں اور
پر ظاہر کہ بارہ دن گذرنا تیرھویں ہی تاریخ پر صادق آئے گا اور دو شنبہ کی
تیرھویں بے تکلف صحیح ہے جبکہ پہلے تینوں مہینے کامل ہوں کما علمت اور امام
مارزی وا مام ابن کثیر نے یوں توجیہ فرمائی کہ مکہ معظمہ میں ہلال ذی الحجہ
کی رویت شام چار شنبہ کو ہوئی پنجشنبہ کا غرہ اور جمعہ کا عرفہ مگر مدینہ
طیبہ میں رویت دن ہوئی تو ذی الحجہ کا غرہ اور جمعہ کا عرفہ مگر مدینہ طیبہ
میں رویت دن ہوئی تو ذی الحجہ کی پہلی جمعہ کی ٹھہر ی اور تینوں مہینے محرم
صفر تیس ٣٠ تیس ٣٠ کے ہوئے تو غرہ ربیع الاول پنجشبہ اور بارھویں دو شنبہ
آئی ذکرھاالحافظ فی ا لفتح '' ۔ مزید تحقیق کے بعد اخیر میں فرماتے ہیں :
'' غرض دلائل ساطعہ سے ثابت کہ اس ماہ مبارک کی پہلی یا دوسری دو شنبہ کی
ہرگز نہ تھی اور رو زوفات اقدس یقینا دو شنبہ ہے تو وہ دونوں قول قطعاً
باطل ہیں ا ور حق و صواب وہی قول جمھور بمعنی مذکور ہے یعنی واقع میں
تیرھویں اور بوجہ مسطور تعبیر میں بارھویں '' ( فتاوی رضویہ ج١٢ ص ٢٨ تا ٣٢
رضا اکیڈمی بمبئی) ۔
اور دوسری بات یہ کہ اگربسبیل تنزل وفات اقدس کو١٢ تاریخ ماننے پر بھی ١٢
ربیع النور کو میلاد کی خوشی منا نا جائز و مستحسن ہے ۔ ابن ماجہ ابو لبابہ
بن عبد المنذر اور احمد سعد بن معاذ رضی اللہ عنھما سے راوی کہ فرماتے ہیں
جمعہ کادن تمام دنوں کا سردار ہے اور اللہ عزوجل کے نزدیک سب سے بڑا ہے اور
وہ ا للہ کے نزدیک عید اضحی و عید الفطر سے بڑا ہے اس میں پانچ خصلتیں ہیں
اللہ تعالیٰ نے اسی میں آدم علیہ السلام کو پیدا کیاا ور اسی میں زمین پر
انہیں اتارا ور اسی میںا نہیں وفات دی ور اس میں ایک ساعت ایسی ہے کہ بندہ
ا سوقت جس چیز کا سوال کرے وہ اسے دیگا جب تک حرام کا سوال نہ کرے اور اسی
دن میں قیامت قائم ہوگی کوئی فرشتہ مقرب و آسمان و زمین او رہوا ور پہاڑ
اور دریا ایسا نہیں کہ جمعہ کے دن سے ڈر نہ ہو۔ صاحب مشکوۃ نقل کرتے ہیں :
'' قال رسول اﷲ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم خیر یوم طلعت علیہ ا لشمس یوم
الجمعۃ فیہ خلق ادم وفیہ اھبط وفیہ تیب الیہ وفیہ مات وفیہ تقوم الساعۃ
ومامن دابۃ الا وھی مصیحۃ یوم الجمعۃ من حین تصبح حتی تطلع الشمس شفقا من
السا عۃ الا الجن والانس وفیہ ساعۃ لا یصاد فھا عبد مسلم وھو یصل یسأ اﷲ
شیأ الا اعطاہ ایاہ '' ( مشکوٰۃ ١٣٠ قدیمی کتب خانہ ])
رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا بہتیرے دن کے آفتاب نے اس
پر طلوع کیا جمعہ کا دن ہے اسی میں آدم علیہ السلام پیدا کئے گئے ا ور اسی
میں انھیں اترنے کا حکم ہوا اور اسی میں ا ن کی توبہ قبول ہوئی ور اسی میں
انکا ا نتقال ہوا ور اسی میں قیامت قائم ہوگی اور کوئی جانور ایسا نہیں کہ
جمعہ کے دن صبح کے وقت آفتاب نکلتے تک قیامت کے ڈر سے چیختا نہ ہو سوا آدمی
اور جن کے اور اس میں ایک ایسا وقت ہے کہ مسلمان بندہ نماز پڑھنے میں اسے
پالے تو اللہ تعالیٰ سے جس شے کا سوال کرے وہ اسے دیگا۔
مذکورہ روایات سے واضح ہوگیا کہ جمعہ کے دن سیدنا آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام
کی ولادت باسعادت ہوئی اورجمعہ ہی کے دن آپ علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات
اقدس ہوئی ۔ اسکے باوجود حدیث پاک میں جمعہ کے دن کو مسلمانوں کے لئے عید
کا دن قرار دیا گیا ۔ علامہ علی قاری علیہ رحمۃ الباری نقل کرتے ہیں : '' و
ورد فی خبر صحیح یوم الجمعۃ یوم عید '' (مرقاۃ المفاتیح شرح مشکوٰۃ
المصابیح ج٤ ص ٥٥٠ مکتبہ ئ رشیدیہ کوئٹہ) یعنی صحیح روایت میں ہے کہ جمعہ
کا دن عید کادن ہے۔
جس دن آدم علیہ الصلوٰۃ والسلام کی وفات اقدس ہو وہ دن عید کادن قرار دیا
جائے تو جس دن سرکار دو عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی وفات اقدس ہوئی
(بقول بعض ١٢ ربیع الاول ) تو اس دن عید منانا میلاد منانے میں کیا قباحت۔
واضح رہے کہ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا ظہور قدسی اورولادت مقدسہ
مؤمنین کے حق میں کمال فرحت و سرور کا موجب ہے جس کا اظہار محافل میلاد،
انواع و اقسام کے مبرات خیرات و صدقات کی صورت میں اہل محبت مؤمنین مخلصین
ہمیشہ کرتے رہے ، اسی طرح اس پر مسرت موقع پر چراغاں کرنا جھنڈے لہرانا ،
جلوس نکالنا بھی باعث اجرو ثواب ہے۔ جو لوگ اسے بدعت و ناجائزکہتے ہیں ان
پراتمام حجت کے لیے قرآن و حدیث و عبارت علماء اسلام کی تصریحات پیش کی
جاتی ہیں ۔ اللہ جل مجدہ ارشاد فرماتا ہے: یا ایھا الناس قد جاء تکم موعظۃ
من ربکم وشفاء لما فی الصدور وھدی ورحمۃ للمؤمنین قل بفضل اﷲو برحمتہ فبذلک
فلیفرحوا ھو خیر مما یجمعون ( سورۃ یونس اٰیۃ )
اے لوگو! تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نصیحت آئی اور دلوں کی صحت اور
ہدایت اور رحمت ایمان والوں کے لئے فرما دیجئے اوراسی کے فضل اور اسی کی
رحمت سے تو اسی پر چاہئے کہ وہ خوشی کریں وہ بہتر ہے اس سے کہ وہ جمع کرتے
ہیں (کنز الایمان )
ظاہر ہے کہ نصیحت شفاء ہدایت و رحمت سب کچھ حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم
کی پیدائش اور تشریف آوری پر موقوف ہے اور اللہ عزوجل کی سب سے بڑی رحمت و
نعمت حضور سید عالم نور مجسم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ ہے۔
اس آیت کریمہ میں ان سب چیزوں پر خوش ہونے کا حکم دیا گیا ہے اور یہ بتایا
گیا ہے کہ یہ وہ نعمتیں ہیں جو لوگوں کی ہر نعمت و دولت سے بہتر ہیں، لہذا
حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی ذات مقدسہ کے ظہور پر جتنی بھی خوشی
منائی جائے کم ہے ، اسے ناجائز قرار دینا انہیں لوگوں کا کام ہے جو ظہور
ذات محمدی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم سے خوش نہیں۔ اللہ رب العزت ارشاد
فرماتے ہے: واما بنعمۃ ربک فحدث (سورۃ والضحی آیت ١١) '' اور اپنے رب کی
نعمت کا خوب چرچا کرو '' (کنزالایمان )
حضور پر نور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نعمۃ اللہ ہیں لہٰذا حضور صلی اللہ
تعالیٰ علیہ وسلم کا ذکر مقدس او ربیان مبارک ازروئے قرآن کریم مطلوب و
محبوب ہے۔ حدیث شریف میںہے : '' قال عروۃ ثویبۃ مولاۃ لابی لھب کان ابولھب
اعتقھا فارضعت النبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم فلما مات ابو لھب اریہ بعض
اھلہ بشرحیۃ قال لہ ماذا یفیت قال ابو لھب لم الق بعدم غیر فی سقیت فی ھذہ
لعتاقتی ثویبۃ '' [ بخاری ج٢ ص ٧٦٤ ] حضرت عروہ فرماتے ہیں ثویبہ ابو لھب
کی باندی تھی جسےاس نے (حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی پیدائش کی خوشی
میں) آزاد کردیا تھا ۔ اس نے حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کو دودھ بھی
پلایا ۔ ابو لھب کے مرنے کے بعد اسکے بعض اہل ( حضرت عباس ) نے اسے بہت بری
حالت میں خواب میں دیکھاا ور اس سے پوچھا مرنے کے بعد تیرا کیا حال رہا ابو
لھب نے کہا تم سے جدا ہوکر میں نے کوئی راحت نہیں پائی سوائے اسکے کہ میں
تھوڑ سا سیراب کیا جاتا ہوں اس لیے کہ میں نے ( حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ
وسلم کی پیدائش کی خوشی میں ) ثویبہ کو آزاد کیا تھا۔ امام قسطلانی فرماتے
ہیں : '' قال ابن الجذری فاذا کان ابو لھب الکافر الذی نزل القران بذمہ
جوزی فی النار بفرحہ لیلۃ مولد النبیصلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم بہ فما حال
المسلم الموحد من امتہ علیہ الصلوٰۃ والسلام یسر بمولودہ ویبذل ما تصل لہ
قدرتہ فی محبتہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم لعمر انما یکون جزاء من اﷲ
الکریم ان یدخلہ بفضلہ العمیم جنات النعیم ''
(مواہب اللدنیہ ج١ ص ٢٧ )
ابن جذری نے کہا شب میلاد کی خوشی کی وجہ سے جب ابو لھب جیسے کافر کا یہ
حال ہے کہ اسکے عذاب میں تخفیف ہوتی ہے حالانکہ ابولھب ایسا کافر ہے جس کی
مذمت میں قرآن نازل ہوا تو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے امتی مومن و
موحد کا کیا حال ہوگا جو حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی محبت کی وجہ سے
اپنی قدرت اور طاقت کے موافق خرچ کرتاہے۔ قسم ہے میری عمر کی اسکی جزا یہی
ہے کہ اللہ تعالیٰ اسے اپنے فضل عمیم سے جنات نعیم میںداخل کرے۔
اتممت بفضلہ
نثار تیری چہل پہل پر ہزاروں عیدیں ربیع الاول
سوائے ابلیس کے جہاں میں سب ہی تو خوشیاں منا ریئے ہیں
وہ آج تک نوازتا ہی چلا جارہا ہے اپنے لطف و کرم سے مجھے
بس اک بار کہا تھا میں نے یا اللہ مجھ پر رحم فرما مصطفی کے واسطے
عزوجل و صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم |