۔"ساب ام اپنا وطن جاتی اے،
امارا بخشیش لاؤ"۔
خان لالہ نے اپنے ہاتھ کو ایک پیالے کی سی شکل دی اور پیشانی کے عین وسط پر
رکھ کر اشارتاً سلام کرتے ہوئے کہا:۔
ہر بار کی طرح سے خان لالہ اپنی سالانہ چھٹیوں پر جانے سے قبل بخشیش وصولی
مہم کے تحت محلے بھر کے گھروں پر حاضری دیتا پھر رہا تھا۔
ابو کی صدا پر امی فوراً باورچی خانے سے برآمد ہوئیں اور ابو کی جانب
سوالیہ نگاہوں سے دیکھنے لگیں۔
۔"ارے بھئی یہ چوکیدار امیر خان اپنے گاوں جارہا ہے، اسکے بچوں کی مٹھائی
کے لیئے اسے دس روپے دے دو"۔
خان لالہ نے تصیح کی:۔
۔"امیر حکیم خان، ساب امارا نام امیر خان نئیں، امیر حکیم خان اے، اُودر
وطن میں ام کو سب امیر حکیم خان ہی بولاتا اے"۔
۔"ہاں ہاں، بھئی امیر حکیم خان کو دس روپے دے دو"۔
ابو نے مسکراتے ہوئے امی کو اشارہ کیا۔
میں نے امی کو آنکھوں میں ناگواری کے تاثرات کو صاف محسوس کیا لیکن ابو کے
سامنے وہ بھلا کاہے کو دم مارسکتیں تھیں، خاموشی سے اپنے دوپٹے کے پلو کو
کھول کر اسمیں بندھا واحد دس روپے کا ایک مڑا تڑا سا ہرا نوٹ نکل کر
چوکیدار امیر خان جسے ہم محلے بھرکے بچے بالے خان لالہ خان لالہ کہہ کر
پکارا کرتے تھے کے ہاتھ پر دھر دیا۔
دس روپے کا نوٹ پا کرخان لالہ کی آنکھوں میں ایک بھرپور چمک لہرائی اور
اسنے اپنے پیلے پیلے دانت جسمیں سے اب چند ایک اُسے عرصہ ہوا داغ ِمفارقت
دے گئے تھے، نکال کر ایک بار پھراپنا ہاتھ پیشانی کے عین وسط پر ڈھیلے
ڈھالے انداز میں رکھ کر امی اور ابو دونوں کا با آوازِبلند شکریہ ادا کیا
اور گھوم کر تیزی سے چل دیا۔
اسکے نظروں سے اوجھل ہوتے ہی امی نے فورا گھر کا دروازہ بند کیا اور پھر
ابو کی جانب شکایتی نظروں سے دیکھتیں ہوئیں قدرے آہستہ مگر واضح خفگی سے
بھرے لہجے میں بولیں:۔
۔"پپو کے ابا، آپ بھی نا کمال کرتے ہیں، بھلا اب چوکیدار کو اکھٹے دس روپے
دلوانے کی کیا تک تھی؟ کیا اسے محلے کے ہر گھرسے ہر ماہ اسکی تنخواہ کے دس
روپے نہیں ملتے جو اب اسے مذید دس روپے دلوادیئے۔ ویسے بھی میں نے وہ دس
روپے پپو کے اسکول کی کتابوں کے لیئے رکھے تھے"۔
ابو جیسے پہلے ہی سے امی کے چوکیدار مخالف مظاہرے کے لیئے تیار ہی بیٹھے
تھے، مسکراتے ہوئے بولے:۔
۔"ارے بیچارہ غریب آدمی ہے، پورے سال ہماری خدمت کرتا ہے، تب کہیں جا کر ہم
اسے ایک بار یہ دس روپے وہ بھی اسکے بچوں کی مٹھائی کے نام پر دیتے ہیں، اب
اتنا تو اس غریب کا حق بنتا ہی ہے اور یہ بھی تو دیکھو نا وہ بےچارہ جب
اپنے گاوں سے آتا ہے تو کتنے پیار سے پپو کے لیئے اپنے گھر کی بنیں خشک
میوے ملے دیسی گُڑ کی ڈھیر ساری ڈلیاں لا کر دیتا ہے جسیے اپنا پپو کتنے
شوق سے کھاتا ہے۔ باقی رہی بات کتابوں کی تو کل پہلی تاریخ ہے، تنخواہ ملے
گی تو کتابیں بھی آ ہی جائیں گیں"۔
امی ابو کی بات اور مسکراہٹ دونوں ہی کو سنی ان سنی اور دیکھی ان دیکھی کر
کے منہ ہی منہ میں نا جانے کیا کچھ بڑبڑاتیں اندر باورچی خانے میں چل دیں۔
ابو کی یہ ہی بات تو مجھے بہت اچھی لگتی تھی کے وہ کسی کا بھی حق ادا کرنے
میں زرہ برابر بھی تامل نہیں کیا کرتے تھے اور ویسے بھی مجھے اسکول کی
کتابوں سے ذیادہ گڑ کی ان ڈلیوں کی چاہ تھی جو خان لالہ ہر سال اپنے گاوں
سے واپسی پرلایا کرتا اور پھر ہر اس گھر جا جا کرجہاں مجھ جیسے چھوٹے بچے
ہوتے، اس تاکید کے ساتھ بانٹا کرتا کے یہ سوغات تو وہ خاص بچوں ہی کے لیئے
لایا ہے اور ساتھ ہی بڑے ہی فخریہ انداز میں یہ بتنا بھی ہرگز نا بھولتا کے
دیسی گڑ کی وہ ڈلیاں اسکی بیوی نے خود اپنے ہاتھ سے بنائیں ہیں۔ وہ گھر کے
پچھواڑے کی زمین کے گڑھے میں نصب کڑھاو جس کے نیچے ڈھیر ساری لکڑیوں کی آگ
جل رہی ہوتی، میں گنے کے رس کو مسلسل کئی گھنٹوں ابال کر اور کفگیر سے چلا
چلا کر جب وہ رس ایک سبزی مائل بھوری گاڑی راب کی سی شکل اختیار کرلیتا تو
وہ اسمیں اپنے ہاتھ کی ہی ادھ کُٹی کالی مرچیں ڈالتی اور اسے دوبارہ کفگیر
سے مسلسل گھوٹ کر یک جان کرکے اس میں خشک میوہ جات مثلاً بادام، پستہ
اخروٹ، چلغوزہ، مونگ پھلی اور کشمش شامل کر کے اسے اتنا ٹھنڈا ہونے دیتی کے
وہ اپنے ہاتھ سے بھینچ بھینچ کراس گاڑے مغلوبے کی ڈلیاں بنا لے اور پھر اسے
خشک ہونے کے لیئے گھر کے صحن میں دھلے ہوئے صاف کپڑے پر پھیلا کر دکھ دیتی۔
تو اب شروع ہوتا ہے میرا انتظار، جی ہاں خان لالہ کی واپسی کا۔
خان لالہ کی واپسی کا مطلب ہے کے محلے بھر کے سب بچوں کی عید۔ کیونکہ ہم سب
کے لیئے لالہ کی جانب سے سوغات میں ملنے والیں خشک میووں سے لبریز دیسی گڑ
کی ڈلیاں بھلا کسی عید کی عیدی سے کچھ کم تھوڑا ہی تھیں اور عید تو سال میں
دو بار آتی ہے لیکن لالہ کے گاوں سے گڑ کی ڈلیاں صرف ایک بار۔
گڑ کی ڈلیوں کے علاوہ ایک اور بات جو میں سوچ سوچ کر ہلکان ہوا کرتا وہ یہ
کے لالہ ہر سال جاتا تو گاوں تھا لیکن وہ یہ کیوں کہتا کے میں اپنے وطن
جاتا ہوں؟
بھلا وہ یہ کیوں نہیں کہتا کے میں اپنے گاوں جارہا ہوں۔
ہمارے سرکاری اسکول جہاں میں جماعتِ چہارم کا طالبِ علم تھا کے استاد تو
کہا کرتے ہیں کے پاکستان ہم سب کا وطن ہے تو کیا لالہ پاکستان سے کہیں باہر
رہتا ہے جو وہ ہمارے شہر اور ہمارے وطن پاکستان کو اپنا وطن ہی نہیں
گردانتا۔
اسی اُدھیڑ بن سے تنگ آ کر آخر میں خود ہی اپنے آپ کو سمجھا لیا کرتا کے
مجھے اس سے کیا کے وہ پاکستان میں ہی رہتا ہے کے کہیں اور، بھلے ہی وہ جس
وطن سے بھی تعلق رکھتا ہو لیکن واپس تو پھر یہاں ہی آتا ہے اور آکر وہ ہم
سب بچوں کو گڑ کی ڈلیوں کی اسقدر شاندار سوغات تو خوشی خوشی دیتا ہے نا۔ تو
بس یہ ہی میرے لیئے سب سے بڑی اور اہم بات تھی۔
خان لالہ کا نام تو امیرحکیم خان تھا لیکن محلے بھر کے بچے جہاں اسے خان
لالہ کہا کرتے تو وہیں سارے بڑے اسے امیر خان کہ کر بلایا کرتے لیکن شاید
اسے صرف امیر خان کہلوانا پسند نا تھا، امیر خان پکارے جانے پر وہ فوراً
تصیح کردیتا۔ "امیر حکیم خان"۔
خان لالہ کا حلیہ بھی اس کی طرح سے ہی انوکھا تھا۔ تنگ دامن کی قمیض اور
گھیردار شلوار میں ملبوس بھاری تن و توش، درمیانہ قد، صاف گورا رنگ، مہندی
میں رنگے گھنے سرخی مائل نارنجی بال، عمر لگ بھک پچپن سے ساٹھ کے درمیان،
ہاتھ میں ہر وقت ایک بانس کا لمبا اور مضبوط سا ڈنڈا جسے وہ راتوں میں
چوروں اور اٹھائی گیروں کو خبردار کرنے کے لیئے زور سے سڑک پر مار مار کر
آوازیں پیدا کیا کرتا۔
ہم سب بچوں سے تو اسے کچھ خاص ہی لگاو تھا۔ ساری رات جاگنے کے بعد وہ دن
بھر اپنی چارپائی پر لیٹ کر آرام کیا کرتا جو کے ہمارے محلے کی بلڈنگ کے
نیچے والی منزل کی ایک کوٹھری کے اندر لگی رہتی تھی اورکوٹھری کے دروازے پر
اسنے ایک چادر تان رکھی تھی۔ دن بھر جب وہ کوٹھری میں سویا رہتا تو دروازہ
کھلا ہی رہنے دیتا، صرف چادر تنی رہتی۔ ہاں البتہ رات کو جب وہ محلے کی
بلڈنگ کے چاروں اطراف گھوم پھر کر چوکیدارا کرتا تو اپنی کوٹھری کے دروازے
پر تالہ لگا دیا کرتا۔
محلے بھر کے سارے بچے جب شام کو اکھٹے ہوکر کھیلا کودا کرتے اور خوب ہلا
گلہ ہوتا لیکن مجال ہے کے جو کبھی خان لالہ نے اپنی کوٹھری سے باہر نکل کر
انہیں روکا ہو یا ڈانٹا تک ہی ہو۔
دن گزرے رہے اور ایک ماہ گزر گیا لیکن اب کی بار خان لالہ کی واپسی نہیں
ہوئی۔ پہلے تو کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کے وہ ایک ماہ سے ذیادہ اپنے گاوں
میں ٹہرا ہو۔ مذید دن گزرتے رہے لیکن خان لالہ واپس نا آیا۔ ہم سب بچوں میں
ایک تشویش کی لہر دوڑ گئی۔ ہم سب شام کو کھلینے کے لیئے جمع ہوتے تو سب کی
نظریں خان لالہ کی بند کوٹھری پر لگے تالے پر گڑھ جاتیں اور ہمارا موضوع
ِسخن خان لالہ کی واپسی ہی ہوتا۔
پھر کچھ تین چار ماہ کا عرصہ بیت گیا، ایک رات امی حسبِ معمول باورچی خانے
میں الجھی ہوئی تھیں، ابو کسی کتاب کے مطالعہ میں مشغول تھے اور میں اپنا
سبق یاد کررہا تھا کے اچانک دروازے پر دستک ہوئی۔ ابو نے کتاب کے بیچ میں
اپنی ایک انگلی دیکر اسے بند کرکے اپنے ہاتھ میں تھام لیا اور دروازہ
کھولنے کو اٹھ کھڑے ہوئے۔ میں بھی ان کے پیچھے پیچھے ہولیا۔ ابو نے دروازہ
کھولا تو سامنے کھڑے شخص کو دیکھ کر مارے خوشی کے میری تو چیخ نکلتے نکلتے
رھ گئی کیونگلہ وہ کوئی اور نہیں خان لالہ تھا۔
ابو نے اسے دیکھتے ہی فورا کہا:۔
۔"ارے امیر حکیم خان تم، بھئی تم کہاں رہ گئے تھے اتنے دنوں تک؟"۔
۔"ساب، کیا ام اندر آ سکتی اے، امارے کو تم سے کچھ بات کرنی اے"۔
خان لالہ کی آواز بہت بدلی ہوئی اور کمزور سی محسوس ہورہی تھی۔
۔"ہاں بھئی ضرور آو"۔
ابو نے اسے راستہ دیتے ہوئے کہا۔
اندر آ کر وہ ایک طرف کھڑا ہوگیا۔
۔"بیٹھو امیر خان کھڑے کیوں ہو"۔
ابو نے کرسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔
خان لالہ کچھ کہے بغیر کرسی پر ڈھیر ہوگیا۔ کمرے میں روشن ذرد بلب کی روشنی
میں پہلی بار میں نے خان لالہ کا چہرہ بغور دیکھا۔ خان لالہ کا سرخ و سفید
چہرہ ذرد سا ہورہا تھا۔ پہلے جب وہ اپنے گاوں سے لوٹا کرتا تھا تو اسکا
چہرہ پہلے سے بھی کہیں ذیادہ سرخ ہورہا ہوتا اور اسکی صحت پہلے سے مذید
اچھی محسوس ہوا کرتی تھی لیکن ابکی بار تو مجھے ایسا محسوس ہورہا تھا کے
جیسے اسکا وزن بھی کافی گر چکا تھا۔
۔"وہ ساب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! ام یاں سے امیشہ کے لیئے جاتی اے، اپنا سامان لینے آئی
تو سوچا کے تم سے بھی ملتی جائے"۔
۔"کیا بات امیر خان کسی باتیں کررہے ہو، ایسا کیا ہوگیا کے تم آج بیس بائیس
سال پرانی نوکری کو ٹھوکر مار کر جانے کی بات کررہے ہو، کچھ بتاو تو سہی
آخر ہوا کیا ہے"۔
ابو اپنی نشت سے اٹھ کر خان لالہ کے قریب آگئے اور اسکے کاندھے پر ہاتھ رکھ
کر بولے۔
ابو کے ہاتھوں کو اپنے کاندھوں پر پا کر نا جانے کیا ہوا کے خان لالہ کی
آنکھوں سے آنسو بہہ بہہ کر اسکے رخساروں سے ہوتے ہوئے اسکی قمیض کے سینے کو
بھگونے لگے۔ ابو نے خان لالہ کا یہ حال دیکھ کرمجھے پانی لانے کا اشارہ
کیا۔ میں فورا باورچی خانے کی طرف دوڑا اور پانی کا گلاس بھر کر پھر واپس
بھاگا۔ امی جو کے باورچی خانے میں نا جانے کیا کررہی تھی مجھے اسطرح سے
حواس باختہ ہو کر بھاگتے دیکھا تو میرے پیچھے ہولیں اور جب انہوں نے ابو کے
پاس خان لالہ کو بیٹھے اور اسکی آنسووں سے بھری آنکھیں دیکھیں تو وہ بھی
ہکا بکا سی رہ گئیں اور بناء کچھ کہے ایک طرف بس گم سم سی کھڑی ہوگئیں۔
ابو نے پانی کا گلاس میرے ہاتھ سے لے کر خان لالہ کو پکڑایا جسے وہ ایک ہی
سانسں میں پی گیا۔ ابو اسکے ہاتھ سے خالی گلاس واپس لیتے ہوئے بولے:۔
۔"اب مجھے ساری بات بتاو"۔
۔"وہ ساب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! جب ام پچلا سال اپنا وطن گئ تی تب امارا عورت ام
کو بولا کے امارہ بڑا لڑکا شیر کان ایک لڑکی سے شادی کا کواہش رکتی اے۔ ام
اسکا رشتہ لیکر گئی۔ امارہ طرف یہ رسم اے کے جو لڑکا کسی لڑکی سے شادی کرنا
چاتی اے تو اسے لڑکی کے باپ کو اس کا مطوبہ رقم دینا پڑتی اے تب جا کر لڑکی
کا باپ اپنی بیٹی کی شادی اس لڑکے سے کرتی اے۔ لڑکی کے باپ کا مطالبہ امارا
حیثیت سے بوت زیادہ تا۔ ام نے اپنا لڑکا کو کوب سمجائی اور اسکا شادی اپنا
چوٹا بائی کا لڑکی سے تے کی۔ امارا ارادہ تی کے ام اس سال اس کا شادی کانہ
آبادی کریگی، مگر جب ام گاوں پونچی تو وہاں سب کچھ برباد ہوچکی تی۔ شیر کان
امارا عمر بر کا کمائی جو ام نے یاں شیر میں چوکیدارا کرکے کمائی اور گاوں
میں توڑا توڑا کرکر کے زمین کے ٹکڑے لی تی جس پر وہ اپنا دوسرا چوٹا بائی
لوگ کے ساتھ ملکر ہر موسم کا پسل کاشت کرتی تی، بیچ دی اورسارا رقم لڑکی کے
باپ کو دیکرشادی کانہ آبادی کرلی اور اپنا بی بی کو لیکر پیشور چلی گئی"۔
۔"تمھا ری بیوی نے اسے روکا نہیں؟"۔
خان لالہ جیسے ہی سانس لینے کو رکا تو ابو نے فوراً ہی سوالا کرڈالا۔
۔" خو ساب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! وہ جوان گرم کُون اے، ام بڈا لوگ کا بات کدھر
سنتی اے، اس کانہ کراب نے امارا عمر بھر کا جمع پونجی برباد کردی"۔
۔"تو اب تم نوکری کیوں چھوڑکر جانا چاہتے ہو؟"۔
ابو نے خان لالہ سے سوال کیا۔
خو ساب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔! اب شیر کان کے بعد امارہ دوسرا لڑکا گلاب کان بھی
جوان ہوگئی اے اور ام کو ڈر اے کے وہ اب اپنا شادی کے چکر میں امارا آخری
سہارا، اس بڑھاپے میں امارے سر کا چت بھی نا چین لے"۔
۔"کیا مطلب ہے تمھارا؟"۔
ابو نے حیرت بھرے لہجے میں دریافت کیا۔
۔"اس بیس بائیس سال میں ام نے شیر میں چوکیدارا کرکے اور اپنا پیٹ کاٹ کاٹ
کر سارا سارا رات کو جاگ کر جو توڑا بوت زمین کریدی تی وہ تو شیر کان کی
کافر جوانی کی نذر ہوگئی اب ام امارا بی بی اور دوسرے چھے بچوں کے سر پر جو
چھت ہے کہیں گلاب کان اپنا شادی کے چکر میں اسے بی نا بیچ دے، اس لیئے اب
امارا ار وقت گاوں میں رینا بہت ضروری اے"۔
۔"بحرحال جو ہوا بہت برا ہوا"۔
ابو نے خان لالہ کو دلاسہ دیتے ہوئے کہا۔
۔"اچا ساب۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ! اب ام جائیگی"۔
خان لالہ اپنی کرسی سے اٹھ کھرا ہوا اور اسنے اپنا ہاتھ کا پیالہ سا بناکر
عین اپنی پیشانی پر رکھ کر ابو کو سلام کرتے ہوئے کہا۔ وہ جانے کے لیئے مڑا
ہی تھا کے امی نے اپنے دوپٹے کے پلو کو کھول کر اسمیں رکھا واحد مڑا ٹرا سا
دس روپے کا ہرا نوٹ آگے بڑھ کر خان لالہ کے ہاتھ پر دھر دیا۔
خان لالہ کے چہرے پر ایک غم زدہ سی مسکراہٹ پھیل گئی اور پھر اچانک اسکی
نظر مجھ پر پڑی۔ میں ایک کونے میں خاموش کھڑا یہ ساری کہانی سن رہا تھا۔
خان لالہ میرا پاس آیا اور میرے سر پر ہاتھ رکھ کر بولا:۔
۔" او پپو یارا۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔! ام کو ماپ کرو، ام اس بار تمارا واسطے کُوشک
میوے والا دیسی گڑ کا مٹائی نا لا سکی اور لاتی بھی کیسے، اس کمبخت شیر کان
نے وہ کیت بھی پروکت کیا جسپر اگنے والے گنے کا رس سے امارا بی بی تم بچا
لوگ کے لیئے مٹائی بناتا تا"۔
اتنا کہہ کر خان لالہ اپنی قمیص کی آستین سے اپنے آنسووں کو پونچتا ہوا
باہر کی طرف چل دیا۔
اور اس دن کے بعد نا تو میں نے پھر کبھی امیر خان، میرا مطلب ہے کے امیر
حکیم خان کو دیکھا اور نا ہی کبھی ویسی خشک میوے سے لبریز ادھ کُٹی کالی
مرچ والی دیسی گڑ کی ڈلی ہی کھائی۔ |