6 جنوری رات 2 بجے اچانک فون کی گھنٹے بجی
، ایک افسوسناک اور غم ناک خبر نے مجھے سکتے میں ڈال دیا۔ خبر دینے والا
میرا دوست قاضی حسین احمد صاحب کی دنیا سے رخصتی کی خبر دے رہا تھا۔ میری
زبان سے اِنا للّٰہ و اِنّا اِلیہ راجِعون نکل رہاتھا اور آنکھوں کے بند
ٹوٹ چکے تھے، ساری رات اضطراب اور قاضی صاحب کی یادوں میں گزری، مجھے افسوس
ہے کہ میں مرد مجاہد، اتحادامت کے داعی کے نماز جنازہ میں شریک نہ ہو سکا۔
ہم بچپن سے ایک ہی نعرہ سنتے آ رہے تھے کہ ”ظالمو!قاصی آ رہا ہے“ جب بھی
جماعت اسلامی کا ذکر ہوتا تو کہنے والے کی زبان پر خود بخود قاضی صاحب کا
نام آجاتا، قاضی صاحب جماعت اسلامی کی پہچان تھے،ان کی صاف گوئی اور بلند
عزم نے مجھے بھی متاثر کیا ،جہاد سے محبت نے نرم گرم بستر سے معسکر میں
پہنچا دیا، واپس لوٹا تو اسلامی جمعیت طلبہ کا حصہ بن گیا۔ میری قاضی صاحب
سے واقفیت تب ہوئی جب جہاد کشمیر عروج پر تھا، ہم چونکہ دیہاتی علاقے میں
رہنے والے تھے تو وہاں خبر کا ذریعہ صرف اخبار ہی تھا وہ بھی کبھی پہنچتا
اور کبھی نہ پہنچتا، جب آپ سے منسوب کوئی خبر پڑھتا تو دل باغ باغ ہو جاتا،
میری قاضی صاحب سے دو ملاقاتیں ہیں وہی میری زندگی کا اثاثہ ہیں، پہلی
مرتبہ 2003ءپنجاب یونیورسٹی کے اجتماع عام میں ملا، دوسری تفصیلی ملاقات
ایک تقریب میں ہوئی، تقریب شروع ہونے میں ابھی دیر تھی اور قاضی صاحب وقت
پر پہنچ چکے تھے، میں نے موقع پاتے ہی اُن سے ملاقات کر ڈالی، اُن کو اپنا
تعارف کروایا اُن سے انٹرویو کے لیے ٹائم مانگا تو انہوں نے ساتھ بٹھا لیا،
پہلے نوجوانوں کی بیداری اور اُن کے کردار کے بارے میں بات کرتے رہے اور
اُس کے بعد پاکستان میں امریکی مداخلت پر سیر حاصل گفتگو کی،قاضی صاحب
پاکستان میں امریکی مداخلت کے سخت مخالف تھے،دہشت گردی کےخلاف جنگ کے حامی
نہیں تھے، میں نے اپنا کالم دکھایا تو انہوں نے وہیںبیٹھے بیٹھے پڑھ ڈالا
اور اس پر مجھے خوب داد بھی دی ،مجھے یقین نہیں آ رہا تھا کہ اتنے عظیم شخص
کے ساتھ بیٹھا ہوں، اُن کی خوبصورت آواز آج بھی میرے کانوں میں گونجتی ہے۔
جب بھی کبھی قاضی صاحب کسی جلسہ سے خطاب کرتے تو شرکاءکو میرے عزیزو! کہہ
کر پکارتے، مجھے یاد ہے کہ انہوں نے مینار پاکستان گراﺅنڈ میں ہونے والے
اجتماع عام کے اختتامی خطاب میں کہا تھا کہ شاید زندگی رہے نہ رہے
انشاءاللہ جنت میں ملاقات ہو گی، وہ واقعی جنت کے مسافر تھے،قاضی صاحب کی
وفات سے جہاں کروڑوں تحریکی کارکنوں کے سر پر آپ کا سایہ نہیں رہا، وہاں
میں بھی ایک شفیق قائد سے محروم ہو گیا ہوں۔ دنیا ایک تماشہ گاہ ہے، یہاں
سب اپنی اپنی بولی بولتے ہیں اور اڑ جاتے ہیں اور کبھی لوٹ کر نہیں آتے،
میں نے بھی یہی سمجھ کر یہ صدمہ برداشت کر لیا کوئی مرنے کے بعد زندہ رہنا
چاہے تو وہ زندگی میں مرنے کی تیاری کرتا رہے، ایسی موت کا طلبگار رہے جس
پر لاکھوں زندگیاں نثار ہوں۔ قاضی صاحب کے انتقال سے اپنائیت کی آواز خاموش
ہو گئی جو پھر کبھی سننے میں نصیب ہو۔ |