قاضی صاحب, سید علی گیلانی اور کشمیر

متین فکری

حق مغفرت کرے‘ قاضی حسین احمدؒ کی یادوں کا سلسلہ تھمنے میں نہیں آرہا۔ کل اخبار میں خبر پڑھی کہ بزرگ کشمیری رہنما سید علی گیلانی‘ قاضی صاحب کی رحلت کی اطلاع ملتے ہی پاکستان آنے کے لیے بے چین ہوگئے‘ انہوں نے قاضی صاحب کی وفات کو ایک ناقابلِ تلافی نقصان قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اہلِ کشمیر اپنے ایک بہت بڑے محسن سے محروم ہوگئے ہیں اور وہ مرحوم کے خاندان اور جماعت اسلامی کے رفقاء سے اظہار تعزیت کے لیے پاکستان آنا چاہتے ہیں۔ گیلانی صاحب کا پاسپورٹ مدت ہوئی بھارت نے ضبط کررکھا ہے، انہیں بیرون ملک تو کیا اپنے گھر سے باہر جانے کی بھی اجازت نہیں ہے۔ گیلانی صاحب کہتے ہیں کہ وہ چوبیس گھنٹے پولیس اور فوج کے پہرے میں ہیں، انہیں نمازِ جمعہ پڑھنے کے لیے مسجد جانے، حتیٰ کہ عیدگاہ میں نماز عید ادا کرنے کی بھی اجازت نہیں ہے، لیکن قاضی صاحب کی رحلت نے انہیں ایسا مضطرب کیا ہے کہ وہ ہر حال میں پاکستان آنا اور مرحوم کے اعزہ و احباب کے غم میں شریک ہونا چاہتے ہیں، اس کے لیے انہوں نے سری نگر کے پاسپورٹ آفس میں پاسپورٹ کے اجراء کے لیے درخواست دے دی ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ بھارت انہیں پاسپورٹ جاری کرتا ہے یا نہیں، اور پاکستان آنے کی گیلانی صاحب کی خواہش پوری ہوتی ہے یا ناتمام رہ جاتی ہے۔ واقعہ یہ ہے کہ اگر گیلانی صاحب مسئلہ کشمیر پر کوئی لچکدار مؤقف رکھتے اور بھارت کی پالیسی کے شدید ناقد نہ ہوتے تو میر واعظ عمر فاروق کی طرح انہیں بھی بیرون ملک ہر جگہ جانے کی اجازت ہوتی، اور وہ سال میں کئی بار پاکستان کا چکر لگا سکتے تھے، لیکن وہ اپنی قوم اور اہلِ پاکستان کے ساتھ منافقت کا کھیل نہیں کھیلنا چاہتے۔ وہ کشمیر کاز کی قیمت پر پاکستان کا دورہ کرنے کے روادار نہیں ہیں، یہی وجہ ہے کہ جب جنرل پرویزمشرف کے دور میں سری نگر اور مظفرآباد کے درمیان دوستی بس کا اجراء ہوا تو مشرف حکومت کی شدید خواہش تھی کہ گیلانی صاحب دوسرے کشمیری لیڈروں کے ہمراہ پہلی بس میں بیٹھ کر مظفرآباد آئیں اور ان نمائشی اقدامات کی توثیق کریں جو دونوں حکومتیں حالات کو ’’معمول‘‘ پر لانے کے لیے کررہی ہیں۔ حکومتِ پاکستان نے حزب المجاہدین کی قیادت اورجماعت اسلامی کے رفقاء کے ذریعے بھی گیلانی صاحب پر دبائو ڈلوایا کہ وہ پاکستان آنے پر آمادہ ہوجائیں۔ اگرچہ گیلانی صاحب کی پاکستان آمد کے حق میں ٹھوس دلائل تھے، لیکن گیلانی صاحب محسوس کررہے تھے کہ یہ ایک منافقانہ کھیل ہے جس سے تحریک آزادی کو فائدہ پہنچنے کے بجائے الٹا نقصان ہوگا، اس لیے انہیں اس کھیل کا حصہ نہیں بننا چاہیے۔ جب قاضی صاحب کو معلوم ہوا کہ گیلانی صاحب دوستی بس کے ذریعے پاکستان نہیں آنا چاہتے تو انہوں نے جماعت کے رفقاء کو ہدایت کی کہ وہ گیلانی صاحب کو پاکستان آنے پر مجبور نہ کریں، وہ تحریکِ آزادیٔ کشمیر کے تقاضوں کو ہم سے بہتر سمجھتے ہیں۔ خود قاضی صاحب بھی مسئلہ کشمیر پر کسی مداہنت کے قائل نہ تھے۔ وہ گیلانی صاحب کو تحریک آزادی کا حقیقی ترجمان اور قائد سمجھتے تھے اور ان کے ساتھ رابطے میں رہتے تھے۔ گیلانی صاحب بتاتے ہیں کہ جب ان پر زیادہ پابندیاں نہ تھیں اور بھارت نے انہیں حج پر جانے کی اجازت دی تھی تو ارضِ پاک میں قاضی صاحب سے ان کی کئی ملاقاتیں ہوئیں کیونکہ وہ بھی حج پر آئے ہوئے تھے، اس طرح دونوں قائدین نے مقبوضہ کشمیر کی صورت حال اور تحریک آزادی کے احوال و کوائف پر تفصیل سے بات چیت کی اور اس کے بعد مسلسل رابطے میں رہے۔

1987ء میں جب قاضی صاحب نے امارت سنبھالی تو مقبوضہ کشمیر میں مسلح جدوجہد آزادی کی راہ ہموار ہوچکی تھی اور کشمیر کے نوجوان محسوس کررہے تھے کہ پُرامن جدوجہد کے ذریعے بھارت سے اپنا حق منوانے کے تمام راستے مسدود ہوچکے ہیں اور بھارت کی قابض افواج نے مقبوضہ علاقے میں ظلم کی انتہا کردی ہے، اس لیے مسلح جدوجہد کے سوا کوئی راستہ نہیں۔ وہ افغانستان میں جہاد کے سبب سوویت یونین کو گھٹنوں کے بل گرتے دیکھ چکے تھے‘ مقبوضہ کشمیر میں بھی کشمیری نوجوانوں کی اکثریت جہاد کے حق میں تھی۔ چنانچہ ضروری ہوم ورک کے بعد مقبوضہ علاقے میں جہاد شروع ہوا تو حکومت ِپاکستان نے بھی اس کی تائید کی اور پاکستانی نوجوان بھی جہاد کے حق میں اٹھ کھڑے ہوئے۔ جماعت اسلامی نے قاضی صاحب کی قیادت میں جہادِ کشمیر کی بھرپور حمایت کی۔

قاضی صاحب اپنی ذات میں خود مجاہد تھے۔ باطل کے خلاف جہاد کا جذبہ اُن میں کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا اور شہادت کی تڑپ انہیں بے چین کیے رکھتی تھی۔ مقبوضہ کشمیر میں جہاد کا غلغلہ بلند ہوا تو قاضی صاحب دل و جان سے اس کے پشتیبان بن گئے۔ دامے، درمے، قدمے، سخنے ہر اعتبار سے مجاہدین کشمیر کی مدد کو اپنا وظیفہ بنالیا۔ ان کا بس چلتا تو وہ خود بھی ہتھیار بدست ہوکر دشمن سے جابھڑتے اور اپنے سینے پر تمغہ شہادت سجالیتے، لیکن قدرت نے انہیں جہاد کے ایک اور محاذ پر مامور کررکھا تھا اور وہ تھا جہاد کا سیاسی و سفارتی محاذ۔ اس محاذ پر انہوں نے اپنی تمام صلاحیتیں کھپادیں۔ قاضی صاحب کی رہنمائی میں متعدد جہادِ کشمیر کانفرنسیں منعقد ہوئیں، پاکستان میں بھی اور آزاد کشمیر میں بھی۔ ان کانفرنسوں میں قاضی صاحب کا خطاب کلیدی ہوا کرتا تھا جسے سننے کے لیے نوجوان چاروں طرف سے امڈ آتے تھے اور قاضی صاحب کے حق میں نہایت پُرجوش نعرے لگاتے تھے۔ جہادِ کشمیر کا جو سیاسی مورچہ قاضی صاحب نے پاکستان میں سنبھال رکھا تھا، وہی مورچہ سید علی گیلانی مقبوضہ کشمیر میں سنبھالے ہوئے تھے۔ وہ قاضی صاحب کی طلب کردہ جہادِ کشمیر کانفرنسوں میں ٹیلی فونک خطاب فرماتے اور نوجوانوں میں شہادت کی لگن پیدا کردیتے تھے۔ اس طرح دیکھا جائے تو دونوں قائدین جہادِ کشمیر میں نوجوانوں کے دوش بدوش حصہ لے رہے تھے۔ آج قاضی صاحب دنیا میں نہیں ہیں تو سید علی گیلانی خود کو تنہا محسوس کررہے ہیں۔
arsalahmed
About the Author: arsalahmed Read More Articles by arsalahmed: 5 Articles with 4046 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.